طب کا تعلق تجربی علوم سے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے زمانے کے معروف طبی معالجات کو استعمال کرتے تھے . آپ پر نازل ہونے والی کتاب، کتاب ہدایت ہے، کتاب طب نہیں۔اگر آپ نے کسی بیماری کے لئے سنا مکی، کلونجی اور اس نوعیت کی کوئی اور دوا استعمال کی تو اس کی وجہ عرب سماج میں اس دوائی کے استعمال کا چلن تھا۔یقیناً اس کے پیچھے صدیوں کے انسانی تجربات تھے لیکن ان کا تعلق وحی سے نہیں تھا۔سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور ہادی مبعوث کیا گیا تھا بطور طبیب اور ڈاکٹر نہیں۔صحت کے حوالے سے جن امور کی بہت اہمیت تھی آپ نے انہیں بطور شریعت متعارف کروا دیا مثلاً اعضائے وضو کا دھونا یاغسل کرنا بدن اور لباس کو نجاست سے پاک رکھنا وغیرہ دیگر امور میں آپ اپنے دور کے تجربات کو زیر استعمال لاتے تھے۔ اس دور میں ہائی بلڈ پریشر کا علاج حجامہ سے کیا جاتا تھا آپ نے اسی کو استعمال فرمایا، کسی دوسرے کو بھی بتایا ہوگا تو متداول علاج کے طور پر نہ کہ پیغمبرانہ حیثیت سے۔ تجربی سائنس کے بارے میں آپ کا ارشاد
انتم اعلم بأمور دنیا کم: تم اپنے دنیوی امور مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ایک ابدی حقیقت اور تجربی علوم میں ترقی کی مہمیز ہے حجامہ میں لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ خون گندا ہو جاتا ہے اور حجامہ سے گندا خون نکل جاتا ہے حالانکہ طبی طور پر یہ محض غلط ہے، اگر خون میں کوئی ایسی چیز ہے جو مضر ہے تو وہ سارے خون میں ہوگی۔ ایک جگہ کپ لگا کر وہاں خون روک کر اسے آکسیجن سے محروم کر دیا جاتا ہے نتیجتاً وہ گاڑھا اور سیاہ ہو جاتا ہے اور چند احمق اپنے ایسے بے وقوفوں کو باور کراتے ہیں کہ یہ دیکھو، گندا خون ۔کسی کا خون کا دباؤ بڑھ جائے تو بلڈ بنک میں جاکر خون عطیہ کر دیں ، جس سے کسی کو زندگی مل سکے گی ہاں اگر تجربی طب حجامہ کو کسی بیماری کا علاج قرار دیتی ہے تو اسے طبی تحقیق کے طور پر فروخت کریں سنت کا نام نہ بیچیں۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلامی شہد کون سا شہد ہوتا ہے اور غیر اسلامی کون سا؟کیا یہ اسلام کے نام کو فروخت کرنے کا گھناؤنا جرم نہیں ہے۔
کرونا ایک فلو ہے ۔فطری طور پر گرم اثرات رکھنے والی ادویہ کلونجی، ادرک، سنا مکی اور بھاپ لینا اس میں مفید ہے لیکن جس طرح یو کے کے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر سنا مکی کو پروموٹ کر رہے تھے اور کرونا کے ایک پاکستانی مریض اپنی وڈیو میں ان تجربات کو غلط قرار دے رہے تھے اس سارے بیان کو تجربات کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی علاج کو نبوی سند دے کر پیش کرنا لوگوں کے ایمان کو آزمائش میں ڈالنا ہے۔اس عمل کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منسوب ہر ہر شے کو جنسِ بازار بنا دیا ہے ۔نیز جب اس دور کے کچھ معالجات کو طب نبوی کے طور پر مقدس قرار دے کر جزو ایمان بنالیا گیا اور میڈیکل سائنس نے اسے غلط قرار دے دیا تو کیا آپ کے دور کے طبی معمولات کو درست ماننا ایمان کا تقاضا ہوگا؟ اس طرح ہم ایک ہادی اور شارع کو طبیب کی معمولی سطح پر لا کر توہین کے مرتکب نہیں ہوں گے؟کیا معیار ایمان کی نئی تعبیر نہیں کرنا پڑے گی.؟لوگ طب سے متعلق احادیث یوں بیان کرتے ہیں جیسے اللہ نے آپ ﷺ کو ہادی کے بجائے بطور طبیب مبعوث کیا ہو۔ طبی اور تجرباتی احادیث بیان کرنا ہرگز دانش مندی نہیں ہے کیونکہ ان امور کا تعلق تجربات، مزاج اور موسم کے اختلاف نیز بیماری کی نوعیت وغیرہ بے شمار امور سے ہوتا ہے اور اگر کسی ایسی دواء سے جو ہم نے کسی کو طب نبوی کی روشنی میں بتائی ہو، کسی کو نقصان ہو جائے تو اس کا صداقت نبوی پر سے ایمان متزلزل ہو جائے گا اور ہم اس کا سبب بنیں گے ۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی صداقت یہ ارشاد نبوی ہے یہ دنیوی امور ہیں اور تم خود انہیں بہتر جانتے ہوانتم اعلم بامور دنیاکم