آج کے دور میں اکثر گلوکاروں اور گلو کاراؤں نے بعض مشہور شاعروں کی غزلوں میں الحاقی اشعار شامل کر رکھے ہیں، سب سے بڑی مثال مہدی حسن کی گائی ہوئی احمد فراز کی غزل ہے:
رنجش ہی سہی دل ہی دْکھانے کے لئے آ
احمد فراز کی اس غزل میں ایک شعر اس طرح شامل ہے:
جیسے تجھے آتے ہیں ، نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لئے آ
جبکہ یہ شعر ہرگز احمد فراز کا نہیں۔ مہدی حسن نے جانے کس کا شعر احمد فراز کی غزل میں شامل کر کے گا دیا اور ریکارڈڈ کیسٹوں میں بھی یہ شعر رواج پا گیا۔ اب لاکھ کہو کہ یہ الحاقی شعر احمد فراز کا نہیں ، مگر کوئی مانتا ہی نہیں کہ مہدی حسن نے احمد فراز کی غزل میں شامل کر کے گایا ہْوا ہے۔روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کی اشاعت اتوار 15 ستمبر2013 کو کالم نویس زیڈ بی پسروری نے اپنے کالم ’’صدائے دل‘‘ کے ذیلی عنوان ’’خلوص نیت‘‘ میں ایک مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے اس طرح درج کیا ہے:افلاس نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی۔۔سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے ۔پہلا مصرع قمر صدیقی مرحوم نے ہرگز متذکرہ شکل میں نہیں لکھا۔ وہ میرے دوست تھے۔ برسوں ساتھ گھومے پھرے یہ شعر جس طرح انہوں نے مجھے سنایا تھا وہ صحیح صورت میں یوں ہے:
افلاس نے بچوں کو بھی سنجیدگی بخشی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور کی اشاعت بدھ28 اگست2013ء میں ممتاز کالم نگار حسن نثار نے اپنے کالم ’’چوراہا‘‘ کے ذیلی عنوان ’’ایم کیو ایم، ایک حقیقت سو افسانے‘‘ کے تحت قتیل شفائی کا ایک مشہور بلکہ ضرب المثل بن جانے والا مقطع اس طرح رقم کیا ہے:
مَیں نے تو قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
جبکہ متذکرہ شکل میں پہلے مصرعے کا دھڑن تختہ کر دیا گیا ہے۔ قتیل شفائی نے ہرگز اس طرح نہیں کہا تھا، اْن کا صحیح مقطع ہے:
دْنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے ایک کالم نویس زیڈ بی پسروری نے اپنے کالم ’’صدائے دل‘‘ میں ذیلی عنوان ’’شہر چراغاں کا نوحہ‘‘ کے تحت 2 ستمبر2013ء کو ایک شعر عطاالحق قاسمی کے نام سے یْوں درج کیا ہے:
اپنے گھر کے تاریک گھروندے سے نکل کر کوئی ۔۔کاش ! اس شہرِ چراغاں کی کہانی لکھے ۔۔مجھے نہیں معلوم یہ شعر عطاء الحق قاسمی کا ہے بھی یا نہیں؟ مگر مصرع اولیٰ جس طرح بے چہرہ کیا گیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی شاعر اس شکل میں یہ مصرع کہہ سکتا ہے، یعنی ’’اپنے گھر کے تاریک گھروندے؟۔۔۔ چہ معنی وارد؟۔۔۔ دراصل عیب بھی کرنے کو ہْنر چاہئے۔ مصرع بگاڑتے وقت اگر کامن سنس سے کام لیا جاتا تو گھر اور گھروندے کو یکجا نہ کیا جاتا اور مصرعے کا یہ حشر نہ ہوتا۔ میرے خیال میں پہلا مصرع یوں ہونا چاہئے یا اس طرح ہوگا:
اپنے تاریک گھروندے سے نکل کر کوئی
اور صحیح شعر یْوں ہوگا:
اپنے تاریک گھروندے سے نکل کر کوئی
کاش ! اس شہرِ چراغاں کی کہانی لکھے
ایک پرانے سہ ماہی رسالے ’’نیا دور‘‘ کراچی کے شمارہ35 ، 36 میں فراق گورکھپوری کا ایک مضمون شمیم حنفی نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا، بعنوان ’’اْردو شاعری میں تصورِ گناہ‘‘۔۔۔ اس میں غالب کا ایک مشہور شعر اس طرح درج کر رکھا ہے:
دریائے مْعاصی تْنک آبی سے ہْوا خشک
میرا سرِ داماں بھی ابھی تر نہ ہْوا تھا
جبکہ اس شکل میں بھی وزن کے لحاظ سے شعر بالکل صحیح ہے کہ شمیم حنفی بے وزن تو نہ کر سکتے تھے، مگر اْنہوں نے اصل ترکیب ’’سرِ دامن‘‘ کو ’’سرداماں‘‘ کر دیا جبکہ ہر عہد پر غالب میرزا اسد اللہ خان غالب کا دعویٰ تھا کہ:
گنجینہء معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
اس لئے کوئی لفظی ترمیم بھی غالب کی روح کو اذیت پہنچانے کے مترادف ہوگی۔ غالب کا صحیح شعر یوں ہے:
دریائے معاصی تنک آبی سے ہْوا خْشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہْوا تھا
روزنامہ ’’جرأت‘‘ لاہور کی اشاعت ہفتہ 31 اگست2013میں محترمہ مریم گیلانی کے کالم ’’روزنِ خیال‘‘ میں ذیلی عنوان ’’تبدیلی کا سراب‘‘ کے تحت ایک شعر یوں نظر سے گزرا:
’’کیفیت کچھ ایسی ہے بقول منیر نیازی:
سامنے ڈھیر پڑے ہیں
ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
اول تو یہ شعر نہیں، ایک مصرعے کے دو ٹکڑے کر کے شعر بنا دیا گیا ہے۔ دوسرے ہرگز یہ منیر نیازی کا رنگِ تغزل بھی نہیں۔۔۔ یہ کلاسیکل شعر دراصل ریاض خیر آبادی کا ہے اور صحیح اس طرح ہے:
جامِ مَے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
ممتاز سیاستدان، یک نفری پارٹی کے کامیاب سربراہ شیخ رشید کا ایک چشم کْشا انٹرویو ’’تکرار‘‘ کے تحت عمران خان نامی اینکر پرسن نے ’’ایکسپریس‘‘ سے 12 اگست2013ء کو 1:45 بجےRepeat ٹیلی کاسٹ کیاہوا، دیکھنے کا موقع ملا۔ شیخ رشید نے ایک مشہور زمانہ شعر بغیر شاعر کے نام سے یوں توڑ مروڑ کے سْنایا:
کبھی تو یْوں رو رو کے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے
جبکہ یہ شعر میرے استادِ گرامی حضرت احسان دانش مرحوم و مغفور کا ہے اور صحیح شکل و صورت میں یوں ہے:
کسی کے سامنے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے
روزنامہ ’’دْنیا‘‘ لاہور میں فاضل کالم نویس ہارون الرشید ’’ناتمام‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ایک کالم کی ابتداء اور انتہا اْنہوں نے یْوں کی ہے۔ میر صاحب نے کہا تھا:
خشک سیروں تنِ شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعہ ترکی صورت
عموماً مولانا حالی سے منسوب ہو جانے والا متذکرہ شعر نہ تو خدائے سخن میر تقی میر کا ہے، نہ کسی اور کا، دراصل یہ شعر حضرتِ امیر مینائی کا ہے۔۔۔ البتہ مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کی اسی زمین میں ایک پوری غزل ضرور موجود ہے، جس کا ایک شعر بہت مشہور ہے کہ:
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہْشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
اس میں بھی یار لوگوں نے ’’جیبوں‘‘ کی جگہ تحریف کر کے آج کے زمانے کے مطابق ’’جْوتوں‘‘ کر رکھا ہے جبکہ حالی کے دور میں جیب ہی کاٹی جاتی ہوگی، جْوتے
نہیں چْرائے جاتے ہوں گے۔ ’’جْوتی چور‘‘ اپنے وطن کی خاص شناخت ہے۔۔۔!
اور کالم کے آخر میں ایک مقطع اس خاکسار کا ملاحظہ ہو:
عشق میں خوار و زبوں تم ہی نہیں ہو ناصر
میر صاحب کا تعلق بھی تو سادات سے تھا