الفت کے راستے پر، قسط ۶

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جون 2020

اُلجھاؤ:
جیساکہ پہلے لکھ چکا ہوں ہمارا ہوٹل ،نہ جانے ہوٹلز کی کونسی کیٹگری میں تھا،کسی طور بھی متائثرکن نہ تھا۔نہ استقبالیہ پرکشش ، نہ ہی لابی کشادہ ،نہ ہی کمرے کشادہ اور اعلیٰ سہولیات سے مزین تھے۔نہ ہی روم سروس مہیا تھی اور نہ ہی صفائی کاکوئی مناسب انتظام تھا۔بس ایک اوسط درجے کا ہوٹل تھا سب سے بڑا مسئلہ تنگ اور گنتی میں کم لفٹیں تھیں، لفٹوں کے آگے ہر وقت رش ہی رہتا ، خاص کر کھانے اور نمازوں کے اوقات میں۔جس کی وجہ سے آئے روز مسافروں کے درمیان اُلجھاؤ اوررنجیدگی پیدا ہوتی رہتی تھی۔ ایک بار تو ہماری ٹیم کی بھی بنگالی بھائیوں سے چپقلش پیدا ہوگئی۔ہوا یہ کہ ، عشاء کی نماز ادا کر کے آئے تومعمول کے مطابق سیدھا میس میں چلے گئے۔یہ تیسری منزل پر تھا،اگر ہم باہر سے آرہے ہوتے اور کھانے کا وقت ہوتا تو،لفٹ پر سوار ہونے کے لیے ،رش میں کھڑے رہنے کی بجائے ،ہم سیڑھیوں کے ذریعے ہی چلے جانے کو ترجیح دیتے۔اُس روز بھی یہی ہوا ، سیڑھیاں چڑھ کر اوپرپہنچ گئے۔ میس میں کھانا کھایااورہوٹل میں ،اپنے کمرے میں واپس جانے کے لیے لفٹوں کے پاس آئے تو وہاں حسب معمول بہت رش تھا ۔بنگلہ دیشی لوگوں کی کثرت تھی ۔ میس تیسری منزل پر تھا ، اور ہمارا کمرہ نویں منزل پر تھا ۔ نمازوں کے فوراً بعد عموماً بہت رش ہوتا ۔ پاکستانی لوگ کم تھے اور بنگلہ دیشی بہت زیادہ۔کھانے کے اوقات میں بھی بڑی دِقت پیش آتی۔اب جب ،کافی دیر کھڑے رہنے کے باوجود ہماری باری نہ آئی ،تو ہمارے صبر کا پیمانہ بھی بھرنے لگا۔ایک ٹیکنیک یہ تھی کہ اُوپر سے آنے والی لفٹ پر سوار ہو جایا جائے ،جو کہ خالی آرہی ہوتیں ، نیچے گراؤنڈ فلور پر جاکر،پھر اِسی لفٹ کو اُوپر آنے کاآرڈر دیا جائے۔یہ کام بھی چل جاتا تھا۔حاجی صاحب کہنے لگے ، چلو ایسے ہی کرتے ہیں ،اُوپر سے آنے والی ‘‘گاڑی’’ پکڑ لیتے ہیں۔میں جب اکیلا آتا جاتا تھا تو کبھی بھی رش میں آگے نہ بڑھتا اور مجھے اِس طریقے کا پتہ ہی نہ تھا۔ ہم نے یہی کیا،ہم تین رومیٹ تھے اور دوچار اور لوگ بھی۔ نیچے جب گراؤنڈ فلور پر پہنچے ،دروازہ کھلا،تو سامنے جو بنگالی انتظار میں کھڑے تھے، انھوں نے جب دیکھا کہ کوئی بندہ نیچے نہیں اُتر رہا بلکہ اُوپر جانے کے لیے پر تول رہے ہیں ،وہ زبردستی اندر گھسنے کے لیے آگے بڑھا۔ آگے ہمارے حاجی صاحب کھڑے تھے، وہ بولے بھائی دیکھ نہیں رہے کہ لفٹ بھری ہوئی ہے اور کوئی گنجائش نہیں ہے،تو وہ بھڑک اُٹھا اورمنہ سے کچھ بکتا ہوا(جس کو ہم نے گالیاں سمجھا) حاجی صاحب کی طرف بڑھا،اُس کے ایک دو اور ساتھی بھی ، اُس کی حمایت میں زبان چلانے لگ گئے،زیادہ تر اپنی زبان میں ،لیکن کچھ اُردو میں بھی۔حاجی صاحب تو خاموش ہو گئے لیکن اُس بندے نے حاجی صاحب کو ہاتھ ڈال دیا ،اِس پر مجھے بھی غصہ آگیا،حالانکہ میں یہ کہتے ہوئے باہر نکل آیا تھا کہ آپ اِس بھائی کو لے جائیں ،میں پھر آجاتا ہوں لیکن بنگالی طیش میں آ چکے تھے اور حاجی صاحب کے گلے پڑتے تھے۔ میں بھی غصے میں آگیا۔مجھے غصہ اِس بات پر آیا کہ حاجی صاحب نے تو اُسے کہا ہی کچھ نہیں تھا،پہلے وہ منہ زبانی انھیں گالیاں دیتا رہا پھر اُن سے ہاتھا پائی شروع کر دی تھی۔حاجی صاحب بزرگ آدمی تھے ،میں اُن کی حمایت میں میدان جنگ میں کود پڑا اور لفٹ کے اندر جاکر، اُس آدمی کو دھکا دے کر باہر نکال دیااور بڑی سرعت سے ، لفٹ کا اُوپر لے جانے والابٹن دبا دیااورلفٹ اُوپر کو چل پڑی۔اس لمحے ،گوہمارا پلہ بھاری رہا تھا لیکن میں ،باقی سارا عرصہ میں غم زدہ ہی رہا کہ اُس بنگالی بھائی کے ساتھ ترش رو کیوں ہوا۔اگرچہ یہ تو تکار بنگالی بھائیوں کی طرف سے شروع ہوئی تھی اور میں تو دفاع میں ہی کودا تھا میدان جنگ میں،اِس پہلو سے تسلی تو تھی لیکن پچھتاوا ضرور تھا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اچھا تھا۔ دِل کرتا تھا کہ وہ مجھے کہیں ملے تو میں اُس سے معافی مانگوں، لیکن ایسا نہ ہوا،اِس لیے کہ ہم اُسے پہچانتے ہی نہ تھے۔مجھے تواُن سب کی شکلیں ایک جیسی ہی لگتی تھیں۔بعد میں بھی،ہوٹل میں، اگرچہ، بنگالیوں سے آمنا سامناہوتاہی رہا اور ہمارے اور اُن کے درمیان حالات تنگ ہی رہے لیکن میں اُن کے ساتھ نرم خو ہی رہا۔مجھے پریشانی تو رہی البتہ میں اِس اُلجھاؤ کے بعد متنبہ ضرور ہو گیاتھاکہ میں جس مقدس سفر میں ہوں اُس کے کیا تقاضے ہیں۔میر االلہ مجھے معاف فرمائے، یہی تو وہ جدا ل ہے جس سے حج کے زمانے میں خصوصی طور پر منع کیا گیا ہے۔اللہ کریم کا ارشاد گرامی ہے:
الحج اشھر معلومات،فمن فرض فیھن الحج ،فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج،وما تفعلوا من خیریعلمہ اللہ ،و تزودوا،فان خیر الزاد التقویٰ،واتقون یا اولی الباب 
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔جو شخص اِ ن مہینوں میں حج کی نیت کرے اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں، اس سے کوئی شہوانی فعل،کوئی بد عملی اور کوئی لڑائی جھگڑے کی بات ،سرزد نہ ہو۔(اور جان رکھو)جو نیکی کا کام تم کرو گے وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔اور( سفرحج کے لیے )زادِراہ ساتھ لے جاؤاور سب سے بہتر زادِراہ پرہیز گاری ہے۔پس آئے ہوشمندو!میری نافرمانی سے بچو(البقرہ ۲۔۱۹۷) 
 زیارات مکہ 
‘‘آپ نے ،طعام گاہ میں نوٹس دیکھا تھاکیا؟’’ شکیل بھائی نے پوچھا،عرض کی،‘‘ نہیں تو،کس سلسلے میں ہے ۔’’ہم نمازعشا ء کے بعد،میس سے کھانا کھا کر، واپس کمرے میں پہنچ کر گپ شپ کر رہے تھے ۔ حاجی صاحب نے کہا کہ،‘‘ کل زیارتوں کے لیے کمپنی والے بس بھیج رہے ہیں،منڈا اُس کی بات کر رہا ہے۔میں نے تو بڑی زیارتیں کی ہوئی ہیں ،میں تو نہیں جا رہا ۔ ’’ حاجی صاحب ،ازراہ پیارو محبت ،شکیل بھائی کو منڈا کہتے تھے۔‘‘ہاں ،ہاں ،اُسی کی بات کر رہا ہوں،یہ زیارتیں کیا ہوتی ہیں۔ ؟ ’’ شکیل بھائی نے استفسار کیا۔میں نے عرض کی ،‘‘پہلی بار جب اِس خاکسار کو، ۲۰۰۰ء میں عمرہ پر آنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی،اُس وقت مجھے بھی کچھ معلوم نہ تھا کہ مکہ میں بیت اللہ شریف کے علاوہ بھی کسی جگہ جانا ہوتا ہے ،چاہے بطور زیارت ہویابطور سیرو سیاحت ہویا بطور عبادت ۔ مسجد عائشہ اور وہاں سے احرام باندھ کرعمرہ کے لیے آنے کی بھی،اُس وقت ،مجھے کوئی خبر نہ تھی۔اگرچہ تاریخ اسلام اور خصوصاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے مطالعے کا توبہت شوق تھا اور رب کریم نے اچھا خاصا دینی علم و فہم بھی عطا کر رکھا تھا لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ مکہ مدینہ میں کوئی مقامات و آثارات موجود و باقی ہیں کہ جن کی زیارت کرنابھی ممکن ہے۔پاکستان سے آکر ،عمرہ تو چند گھنٹوں میں مکمل ہوگیا تھا،تو میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔ میرے پاس اٹھارہ دِن ہیں ،اِن دنوں میں کیا کرنا چاہیے۔بہر حال یہ تو ایک لمبی کہانی کہ پھر میں کس طرح مکہ کی زیارات کو پہنچا اور کس طرح مجھے تاریخی معلومات کے ،تصدیقی اسفار کے مواقع نصیب ہوئے۔ بات یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ یہاں مکہ میں ، اور مدینہ پاک میں اور سعودیہ کے کئی دیگر مقامات پر اسلام کی تاریخ کے اوراق، صاحبان شوق کے لیے بکھرے پڑے ہیں مکہ مدینہ کا تو انچ انچ ،سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات سے مزین ہے۔جگہ جگہ ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل اور آپ کے جاں نثاروں کی مقدس زندگیوں کے نشانات ملتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ کی طرف لوگ ذوق و شوق سے جاتے ہیں ،اُن کو زیارتیں کہا جاتا ہے ۔ ’’ شکیل بھائی نے بڑی محبت اور شوق سے کہا،‘‘واہ بھائی واہ ،یہ تو بہت عمدہ چیز ہے ،تو صبح یہ لوگ ہمیں وہاں لے جارہے ہیں ،تو کیا آپ بھی چلیں گے اور کہاں کہاں جائیں گے۔’’اِن کمپنیوں والوں کا تو یہ ایک کاروباری جال ہوتا ہے ،یہ تو محض ایک طوفانی چکر لگواتے ہیں ،بہر حال صبح ضرور چلیں گے،ان شاء اللہ تعالیٰ۔میرا اندازہ ہے کہ یہ ہمیں ،غار ثور ،غار حرا،منیٰ ،مزدلفہ اور میدان عرفات کا چکر لگوائیں گے ۔کتنے بجے کا کہا ہے اِن لوگوں نے۔’’ نوٹس بورڈ پر تو یہ لکھا تھا کہ صبح آٹھ بجے ،بسیں ہوٹل کے گیٹ پر ہوں گی۔’’ اکرم بھائی نے اطلاع دی۔ 
طائرانہ نظارہ:
اگلے دِن نماز فجر ادا کر کے جلدہی حرم سے لوٹ آیا۔ناشتہ کے بعد ہم تینوں ساتھی زیارتوں پر جانے کے لیے ،انتظامیہ کی ہدایت کے مطابق ہوٹل کی لابی میں آگئے ۔ وہاں خاصی رونق تھی۔گاڑیاں وقت پر آگئیں۔ہم لوگ پہلے ہی تیار تھے ،جلد ہی روانہ ہوگئے۔مجھے یہ تو معلوم تھا کہ یہ کمپنی والے محض کاروباری گر کے طور پر زیارتوں کی طرف لے جاتے ہیں اور آدمی صحیح طریقے سے دیکھ بھی نہیں پاتا اور یہ چل سو چل کرتے ہیں پھر بھی پورے ذوق شوق سے جا رہا تھا،کیونکہ میرے لیئے تو مکہ پاک کا ذرہ ذرہ قابل ِ زیارت تھا۔بس میں ایک نوجوان تھا جوبیک وقت گائیڈ بھی تھا،بس کا کنڈکٹر بھی تھااورآخر میں سیلز مین بھی بن گیا۔سب سے پہلے بس والے نے غار ثور کا رخ کیا۔
کچھ لمحے محبوب ؐکے نقوش ِپا پر:
ٓغار ِ ثور اور غار حرا کی دور سے ،پہلے بھی کئی بار زیارت کر چکا ہوں۔پہاڑی کے اوپر جا کر غار کی زیارت کرنے کی حسر ت ہی رہی بڑی خواہش اور جذبات کے باوجود،ہر بار سوچ کر جاتا کہ اِس دفعہ ضرور غار تک چڑھوں گا لیکن ہر بار حسرت ہی لے کر واپس آتا رہا۔اب تو عمر بھی ڈھل چکی ہے،پاؤں میں بھی تکلیف تھی ،حج کا رش بھی تھااِس لیے ،اب کی بار توگھر سے ہی یہ سوچ کر آیا تھاکہ اِن غاروں کی دُور سے ہی زیارت کروں گا۔ کیونکہ اِن تک پہنچنے کے لیے ،تین چار کلومیٹر کی سیدھی پہاڑی چڑھائیا ں ہیں جن پرچڑھنا ہمارے جیسے چربی زدہ جسم کے حامل بندوں کا کام نہیں ہے۔گاڑی کے روٹس اور سڑکوں شاہراہوں سے نا واقفیت تھی ،ہم بس کے اندر بیٹھے ،باہر،شہر کا نظارہ کر تو رہے تھے لیکن سمجھ کچھ نہیں آرہاتھاکہ کون سا علاقہ ہے یا کون سی جگہ ہے۔چشم وا سے توہم مکہ شہردیکھ رہے تھے لیکن چشم تصورمیں یہ خاکسارپیارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹ رہا تھااور میرے سامنے آپ کی مقدس زندگی کا باب ہجرت کھلا تھا۔ہم طریق ہجرت پر سفر کر رہے تھے۔جبل ثور آیا چاہتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھربھی اسی مسفلہ کے علاقے میں تھا،جس میں ہماراہوٹل تھا۔ مکہ سے مدینہ شریف شمال کی جانب ہے،لیکن ہجرت کی رات ،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے دوست جناب ابوبکر کولے کرمکہ کے جنوب میں جبل ثور کی طرف تشریف لے گئے اور اُس پہاڑ میں موجود ایک غار کے اندر تین دِن قیام فرمایا۔ یہی جبل ثور آج ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔مکہ سے جنوب کی طرف ،انتہائی غیر معروف راستہ اختیار کرنا،ایک بے پناہ حکمت ِ عملی اور نہایت اعلی ٰذہانت کا مظاہرہ ہے۔ہم کم و بیش اُسی شاہراہ پر تھے جو ہجرت کی رات میرے محبوب علیہ السلام کاراستہ بنا ہوگا۔ہم محبوب کے نقش پا پر تھے۔میں کھلی آنکھوں سے اس نہایت کشادہ دوطرفہ روڈ کو دیکھ رہا تھا،لیکن میرا ذہن چودہ صدیاں پیچھے اُس راستے پر مرتکز تھاجہاں پررشک کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوست پاکباز کے ساتھ،رات کی تاریکی میں ،مکہ میں واقع اپنے گھر سے نکل کر ،اسی راہ سے گزر رہے تھے اور آپ کی خوشبو ئے رسالت،میرے جسم میں اب بھی سرایت کر رہی تھی۔ چند ہی لمحوں میں ہم جبل ِ ثور کے قدموں میں پہنچ گئے۔‘‘یہ ہجرہ محلہ ہے اور وہ سامنے جبل ِ ثور ہے۔ ’’ہمارے گائیڈنے اعلان کیا۔اُن کی یہ بات سن کر میں تاریخ کے اوراق سے پلٹا تو میرے سامنے ایک بلند و بالا اور پُرپیچ اور مشکل چڑھائی والاایک پہاڑ ایستادہ تھا۔ 
گاڑی سے باہر نکلے تو تیز دھوپ اور گرم ہوا نے استقبال کیا۔چند قدم آگے بڑھے، تھوڑی سی چڑھائی چڑھے اور غارِ ثور کو اپنے فوکس میں لائے۔وہ غار بہت دور تھی،بلند تھی اور منہ کھولے ہم ایسے عاشقوں کی راہ تک رہی تھی۔کچھ دلبر اور دلیرلوگ ،گرمی کی شدت کو پرواہ میں لائے بغیر،ایک ٹھوس عزم اورمضبوط ارادہ لیے اُوپر ہی اُوپراُٹھ رہے تھے۔‘‘ڈاکٹر صاحب !کیا یہ حقیقت ہے یا محض کہانی،کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا،کبوتری آگئی ،اُس نے انڈے دیئے،وغیرہ وغیرہ’’ جبل ِ ثور کے قدموں میں ہم کھڑے تھے،جب میرے ایک ساتھی نے مجھ سے یہ سوال پوچھا۔میں نے عرض کی کہ، ‘‘جی بالکل حقیقت ہے ،اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے،جس کی حفاظت کا ذمہ اُس نے خود لیا ہوا ہے۔اللہ کریم نے قران مجید میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ایسے لشکروں سے آپ کی مدد ونصرت کی ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتے۔مکڑی اور کبوتری بھی انھی لشکروں میں سے ہو سکتی ہیں،کیوں نہیں ہو سکتی۔’’تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر اس کمزور مخلوق کی اس معمول کی کارروائی نے کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا کہ،تلاش کرتے کرتے غار کے منہ تک تو دشمن پہنچ گیا تھا،تھوڑاسا بھی جھک کے وہ اندر جھانکتے تو سب کچھ نظر آجانا تھا۔یہ مکڑی کا تنا ہو ا وہ کمزور سا جالا ہی تھا اور اُس کے پاس پڑے کبوتری کے وہ انڈے ہی تھے جن سے اُن دشمنوں کو یہ یقین ہوا ہوگا کہ اس غار کے اندر کوئی کیسے جا سکتا ہے،اس کے منہ پر تو مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے۔غار کے قدموں میں چند لمحوں کی حاضری لگواکرہم واپس پلٹ آئے۔غارِ ثور ،تاریخ اسلام کے ایک اہم ترین باب کی امین ہے۔یہ ہجرت مدینہ کا پہلا پڑاؤ ہے ۔یہ سیدنا ابوبکر اور اُن کے خاندان کی ،حضور ﷺ کے ساتھ لا زوال محبت کی گواہ ہے۔ایک اور ہمراہی پوچھتا ہے کہ یہ لوگ اِس گرمی میں غار کی طرف جا رہے ہیں ،کیادین اسلام میں اِس غار تک جانا کوئی اہمیت رکھتا ہے۔میں نے عرض کی یہ، ‘‘یہ دین کا مطالبہ تو نہیں ہے لیکن یہ دِل کا معاملہ ضرور ہے۔’’ 
یہ ٹھیک ہے کہ غار تک جانا،اس مشکل چڑھائی کو عبور کرنا ،نہ تو دین کا مطالبہ ہے اور نہ سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کو لازم قراردیا ہے اور نہ ہی آپ نے اس عمل کی کوئی ترغیب دِلائی ہے،لیکن پھر بھی ،وہاں تک نہ جا سکنے کے باعث میرا دِل بجھا ہوا تھا،میراسر جھکا ہواتھا،میں شرمندہ شرمندہ تھا۔میں اشک ندامت پی رہا تھااور دِل ہی دِل میں اُن دِلبر و دلیر جوانوں پر رشک کر رہا تھا جن کو اُوپر اُٹھتے اور اُوپر اٹھتے میں دیکھ آیاتھا۔
مقامات حج:
جبل ِ ثور کی زیارت کر کے ،ہم واپس بس میں بیٹھے اور بس روانہ ہوئی ۔اب اِس کا رخ میدان عرفات کی طرف تھا۔وہ میدان ،جہاں ہم نے ۹۔ذوالحج کو ہونا ہے ان شاء اللہ،اِس تاریخ کو وہاں ہونا ہی حج ہے۔
اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون حج ہے جو ذوالحجہ کے اسلامی مہینے میں ادا کیاجاتاہے۔اس فریضے کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ جاناہوتا ہے۔۸۔ذوالحجہ سے ۱۳۔ذوالحجہ تک،حجاج کرام،مکہ شریف کے شہر سے نکل کرقریبی علاقوں منیٰ،مزدلفہ اور عرفات میں ،متعین کردہ شرعی طریقے کے مطابق گزارتے ہیں۔یہ تینوں جگہیں جو ، اِن تاریخوں میں،بڑے بڑے شہروں کا روپ دھار لیتی ہیں،مقامات حج کہلاتی ہیں۔ہم حج پر آئے تھے ،حج ابھی چند دِن دور تھا ،کمپنی والے پہلے ہی ہمیں یہاں لے آئے تھے تاکہ اِن مقامات کا تعارف ہو جائے۔ 
پہلے ہم منیٰ گئے۔
حج کے زمانے میں،۸۔ ذوالحجہ کو،ہر آدمی، جو حج کے ارادے سے،مکہ شریف میں آیا ہوتا ہے،اپنی اپنی رہائش سے احرام باندھ کر،سب سے پہلے ،منیٰ میں ہی آکر خیمہ زن ہوتا ہے۔یہ ایک ۲۰ مربع کلو میٹر پر پھیلی ،خیمہ بستی ہے جو صرف حج کے دنوں میں آباد ہوتی ہے۔یہاں پر قریباً ایک لاکھ مستقل ،ایئر کنڈیشنڈاورغالباًفائیبرسے بنے مستقل خیمے نصب کیے گئے ہیں۔یہ خیمے فائر پروف ہیں۔اِس خیمہ بستی میں ، جب یہ آباد ہوتی ہے ،تو ہر طرح کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ اُس وقت ،یہ ایک منظم شہر ہوتا ہے لیکن جب ہم اس کے قریب سے گزر رہے تھے تو یہاں ہو کا عالم تھا۔دور دور تک ،سفید خیمے ایستادہ تھے جو خالی پڑے تھے۔سڑکوں کا ہر طرف جال تھا۔چاروں طرف چھوٹے بڑے پہاڑ بھی زیب نظر تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ چند دِن بعد جب ہم یہاں آئیں گے تو نہ جانے کیا عالم ہوگا۔اُس وقت تو یہاں آکر قیام کرنا عبادت ہوتا ہے۔ 
حج کے زمانے میں،۹۔ ذوالحج کو ،تمام ساکنان ِمنیٰ نے،حج کے رکن اعظم وقوف ِ عرفات کے لیے،میدان عرفات میں جانا ہوتا ہے،جوکہ منیٰ سے مغرب میں ،چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک اور علاقہ ہے۔منیٰ کی خیمہ بستی سے گزرتے ہوئے ،اور اللہ کریم سے یہاں حاضر ہو نے کی دعائیں کرتے ہم عرفات کی طرف بڑھتے چلے گئے ۔ ڈرائیور یہاں کے راستوں سے خوب واقف تھا اور وہ گاڑی کو بھگائے جا رہا تھا اور اُس کا کنڈکٹرکم گائیڈ صاحب ،رواں تبصرہ کرتا جا رہا تھا۔تاریخی حقائق اور سنی سنائی حکایتیں،گڈ مڈ کر کے بولے جا رہا تھا میں پورے انہماک سے مناظردیکھ رہا ہوں مختلف چوکوں اور شاہراہوں سے گزرتے ، عرفات میں واقع اُس مسجد کے پاس وہ ہمیں لے آئے جہاں سے حج کا خطبہ نشر کیا جاتا ہے،جسے مسجدِنمرہ کہتے ہیں۔وہ بھی مقفل تھی البتہ باہر برآمدے میں ،بچھی صفوں پر کچھ زائرین نوافل پڑھ رہے تھے ۔ گاڑی رکی نہیں ،بس چلتے چلتے گائیڈ صاحب نے مسجد نمرہ کے بارے میں کچھ معلومات بول دیں۔اتنے میں جبل رحمت آ گیا یہاں پراُس نے گاڑی روک دی اور ہمیں حکم ہوا کہ ،‘‘باہر نکل کر یہاں کی سیر کر لیں ،بیس منٹ گاڑی رکے گی۔گاڑی کا نمبر اور لوکیشن نوٹ کر لیں ،کہیں بھول ہی جائیں ،کیونکہ بہت سی بسیں یہاں رکی ہوئی ہیں۔’’ ہم دوست بھی گاڑی سے باہر آ گئے۔سخت دھوپ تھی۔گرمی اپنے عروج پر تھے۔ ہم جبل رحمت کی طرف چل پڑے ۔ زائرین کا بے پناہ رش تھا ۔میدان عرفات بہت بڑا میدان ہے،جو بالکل خالی پڑا تھا۔اس میدان میں صرف ۹۔ذوالحج کو رونق ہوتی ہے ، عبادت ہوتی ہے۔اِس وقت تواک ویرانی ہی ویرانی تھی۔بڑی کشادہ سڑکیں تھیں جن پرباقاعدہ کوئی ٹریفک نہیں تھی البتہ ،ہماری طرح زائرین کی گاڑیاں نظر آتی تھیں۔ ہم ہنستے مسکراتے جبل رحمت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جبل رحمت،میدان عرفات ہی میں،ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔روایت یہ ہے کہ سیدنا محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم،اپنے آخری حج کے موقع پر، اس پہاڑی پرتشریف لائے تھے اور اس کی چوٹی پر سے ہی ، آپ ﷺ نے اپنا خطبہ حجۃالوداع ارشاد فرمایا تھا اور کم و بیش ایک لاکھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،اس پہاڑی پراور اس کے ارد گرد میدان میں جمع تھے۔یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ ،جنت سے اُترنے کے بعد،اماں حوا اور باباآدم سلام اللہ علیھما،کی ملاقات یہیں جبل رحمت پر ہوئی تھی ،واللہ اعلم !
یہ کوئی زیادہ اُونچی پہاڑی نہیں ہے لیکن پھر بھی،اس کی چوٹی پرپہنچتے پہنچتے، ہمارے ایسے‘‘ نرم و نازک بندے’’ کی سانس پھول ہی جاتی ہے۔چوٹی تک جانے کے لیے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیڑھیاں بھی بنائی ہوئی ہیں۔ چوٹی پر قدرے ہموار جگہ ہے اور اس کے درمیان میں ایک ستون بنایا گیا ہے،نہ جانے کس نے،کیوں اور کب یہ ستون بنایاتھا جس کا بظاہر کوئی استعمال نظر نہیں آتا۔میں چونکہ پہلے بھی کئی بار آ چکا تھا،اِس لیے اتنی شدید گرمی میں ، اب اُوپر چوٹی پر جانے سے احتراز کیاجب کہ دوسرے دونوں ساتھی اُوپرچلے گئے جبکہ میں ایک سایہ دار جگہ دیکھ کر زمین پر بیٹھ گیا۔سیڑھیوں پر آتے جاتے ،اور اُوپر چوٹی پرکافی زیادہ اور زائرین بھی موجود تھے،پہاڑی کے چاروں طرف زائرین کااژدہام تھا۔میں بھی قدرے اونچی جگہ پر بیٹھا میدان عرفات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔بڑا دلکش اور دلنواز منظر تھا۔
حج کے موقع پر،اس سارے علاقے میں ، وقوف ہوتا ہے۔۹۔ذوالحج کے دِن یہاں اس میدان میں جو حاضر ہو گا وہی حاجی ہو گا۔ہم بھی اپنے کریم آقا سے یہ دعا کرتے ، نیچے اُترے کہ وہ اس خاکسار کو بھی ،آئندہ آنے والے ۹۔ ذوالحجہ کو،عرفات کی حاضری نصیب فرمائے۔حکم یہ ہے کہ وقوف عرفات سورج غروب ہو نے تک ہے۔ جوں ہی سورج غروب ہو ،یہاں سے نکل پڑنا ہوتا ہے حتیٰ کہ نماز مغرب بھی یہاں نہیں پڑھ سکتے،وہ بھی مزدلفہ جا کر پڑھنی ہوتی ہے چاہے وہاں پہنچتے پہنچتے آدھی رات ہی بیت جائے۔وہ بھی کیا منظر ہوتا ہوگا جب لاکھوں اہل توحید یہاں جمع ہوتے ہونگے اور سورج غروب ہوتے ہی واپسی کی راہ لیتے ہونگے۔اتنے میں ہمارے ہم سفر واپس آنا شروع ہو گئے ۔ پندرہ بیس منٹوں میں سب واپس آ گئے اور ڈرائیور نے یہاں سے واپسی شروع کردی اب ہمارا رخ ،حجاج کی طرح، مزدلفہ ہی کی طرف تھا۔مزدلفہ سے ہم گزرتے چلے گئے یہ منیٰ اور عرفات کے درمیان وہ علاقہ ہے جہاں حجاج کرام ،۹ اور ۱۰ ذوالحج کی رات ، کھلے آسمان تلے پتھریلی زمین پر گزارتے ہیں اور اگلے دِن نماز فجر کے بعد منیٰ کی طرف کوچ کرنا ہوتا ہے۔ بس تیز دوڑ رہی تھی اور اتنی ہی تیزی سے گائیڈ کی رننگ کمنٹری جاری تھی۔ہم مزدلفہ سے جمرا ت کی طرف آئے اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی جمرات کے پاس سے گزرتے چلے گئے۔ ان ‘‘شیطانوں’’ کو دُور دُور سے ہی دیکھتے ہوئے ہم گزرتے چلے گئے البتہ خاکسار دِل ہی دِل میں یہ دعا ضرور کرتارہا کہ مولا ، ان شیطانوں پر سنگ باری کا ،مجھے بھی جلد از جلد موقع عنایت فرما۔اب تو یہ جمرات‘‘ بڑے مزے’’میں تھے،چند دنوں بعد ،ہم اہل ایمان کے ہاتھوں ، اِن کی جو درگت بننے والی ہے ،الامان والحفیظ! 
مقامات ِحج میں جو چیزمجھے نمایاں نظر آئی وہ سڑکوں کا وسیع جال تھا جو ان علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔ظاہر ہے حج کے دنوں میں لاکھوں لوگو ں کی مسجد حرام سے منیٰ،منیٰ سے عرفات ،عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے واپس منیٰ،پھر منیٰ سے مسجد حرام،اور پھر مسجد حرام سے واپس منیٰ تک مسلسل نقل و حمل ہونی ہوتی ہے،جس کے لیے اتنے بڑے انفرا سٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگرچہ اس وقت تو یہ سڑکیں ویران پڑی تھیں،لیکن ہم بخوبی تصور کر سکتے تھے کہ حج کے دنوں میں یہاں کیا عالم ہوتا ہوگا۔
 ان علاقوں میں ،نقل و حمل کے لیے ریلوے لائن بھی بچھائی گئی ہے۔جس کے لیے ، زمین سے اوپرپل بنا کر ،اُس کے اوپر لائن بنائی گئی ہے۔ٹرانسپورٹ کا یہ جدید اور فاسٹ سسٹم حج کے دنوں میں ہی کام کرتا ہے۔مقامات حج کی اِن سڑکوں کے وسیع جال میں سے گزرتے ہوئے ،ہمارے گائیڈ نے،کئی دیگر تاریخی چیزوں کی نشان دہی بھی کی۔اُن میں سے ایک نہر زبیدہ کے آثار اور دوسرے جمرات کے قریب پہاڑوں کے اندر دبی، سیدنا عمر ؓ کے زمانے کی ایک چھوٹی سی مسجد جودوران ِ کھدائی دریافت ہوئی۔افسوس کہ ان دونوں چیزوں کو قریب سے جا کردیکھنے کا وقت نہ تھا۔نہر زبیدہ وہ نہر ہے جو عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون نے اپنی جیب سے کھدوائی تھی جووادی حنین اور طائف کے آس پاس سے میدان عرفات ، مزدلفہ اور حرم تک پانی کو لاتی تھی۔یہ نہر زمین دوز تھی اورٹیکنالوجی،انسانی مہارت اور زبیدہ کی سخاوت کا ا یک شاہکار تھی،جو قریباً ایک ہزار سال تک حجاج کرام اور اہل مکہ کی خدمت میں پانی پیش کرتی رہی ۔ ملکہ زبیدہ کا یہ مشہور قول ہے کہ اس منصوبہ کے لیے مجھے اگر کدال کی ایک ضرب کے بدلے ایک دینار بھی خرچ کرنا پڑا تو کرگزروں گی۔اس نہر کے آثار جبل رحمت اورمکہ میں چنددیگر جگہوں پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔منیٰ میں سے گزرتے ہوئے ،مسجد الخیف کی طرف بھی ،دور سے اشارہ کر کے تعارف کروایا گیا۔بس چل رہی تھی اور کسی پردہ سکرین کی طرح مکہ شریف کے مناظر ،یا یوں کہہ لیں ابھی ،منیٰ عرفات کے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہے تھے۔گائیڈ کا بے سود رواں تبصرہ بھی جاری تھا۔سیرت پاک کا ایک اہم باب غار حرا سے شروع ہوتا ہے۔یہاں ہماری بس میں یہ باب ایک لمحے میں کھلا اور دوسرے ہی لمحے بند ہو گیا ۔گائیڈ نے کہا ،وہ سامنے غار حرا ہے،ہم سب،‘‘ کہاں ہے کہاں ہے’’کہتے رہے اور وہ ‘‘وہاں ہے وہاں ہے ’’کہتا رہا اورگاڑی چلتی رہی اور پلک جھپکنے میں جبل نورہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔میں نے شکیل بھائی سے کہا ،‘‘جتنا گڑاتنا میٹھا،ہمارے پیسے مک گئے۔’’ وہ مسکرائے اور پوچھا ،‘‘کیا مطلب؟’’ میں نے عرض کی ہماری کمپنی والوں نے اِس بس والے کو جتنے پیسے دیئے تھے،انھوں نے ہمیں اتنی سیر کروا دی،اللہ اللہ خیر سلا!’’ اب ہمارے کنڈکٹر صاحب نے بسوں میں دوائیاں بیچنے والا کام شروع کر دیا ۔اُس کے پاس دو چار آئیٹم تھے بیچنے کے لیئے ، اُس نے اُن کا تعارف شروع کر دیااور اپنی چرب زبانی سے اپنا عطر،مکہ کی خاص جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ شفا بخش پاؤڈر اور نہ جانے کیا کیا،وہ بیچتا رہا اور پیسے بٹورتا رہا ۔ اِس دوران میں گاڑی چلتی رہی اور پھر ایک بار ،اُس نے اشارے سے بتا یا کہ وہ سامنے جنت المعلیٰ اور ساتھ ہی مسجد جن واقع ہے، وہ اشارے کرتا رہا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے،اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ، گاڑی یہ جا وہ جا۔
٭٭٭