جب ہم خالق، تخلیق اور مخلوق کی بات کرتے ہیں تو منطقی طور پر یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ جب سب کچھ خدا نے بنایا تو:
۱۔ خدا کو کس نے بنایا؟
۲۔ ہم خدا کو کیوں نہیں سمجھ سکتے؟
۳۔ ہم خدا کوکس طرح سمجھ سکتے ہیں؟
یہ سوالات فطری ہیں مگر انسان کو مطمئن کرنے والے جوابات مخاطب کی ذہنی اُپچ، اور علمی استعداد کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سائنسدانوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ بتائیں کہ خدا کیوں نہیں ہے جبکہ مذہب بتائے گا کہ خدا کیاہے۔
خدا کو سمجھنا:
ہر مذہب ایک خالقِ کائنات کا تصوّر دیتا ہے۔تصّورِ خدا انسان کے ذہنوں میں ایک فطری حقیقت کی طرح جا گزیں ہے۔ خالق ، مخلوق اور تخلیق کا تعلّق سمجھنے کے لیئے ہم ایک حقیقی سائنسی مثال کا سہارا لیتے ہیں جس کا تعلّق جدید روبوٹ سے ہے جن کا زمانہ تیزی سے آرہا ہے اور مصنوعی ذہانت Artificial Intelligenceکابہت چرچا بھی ہے جو کہ روبوٹ کو ایک طرح کی مصنوعی عقل فراہم کرتی ہے۔ آیئے دیکھیں کہ جدید سائنس کیا کرنے جارہی ہے
‘‘اکّیسویں صدی کے وسط تک خود مختارانسانی روبوٹ فٹبال ٹیم اُس وقت کی انسانی ورلڈ چیمپیئن ٹیم کو FIFA کے قوانین کے مطابق کھیلتے ہوئے شکست دے گی۔ (روبوٹ کپ انتظامیہ کا اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ)۔
گویا آئندہ چند دہائیوں میں ایسا ہونے جارہا ہے۔ذرا تصوّر کریں کہ انسانوں سے مقابلے کے دوران اُن خودمختار روبوٹ کھلاڑیوں کی ذہنی کیفیّت کیا ہوگی۔ انسانوں سے مقابلے میں وہ ایک الیکٹرانک حصار میں ہی قید ہونگے، اُنکا سارا کھیل ایک خاص دائرے کے اندر ہی گردش کرے گا جو گراؤنڈ تک محدود ہوگا۔ وہ انسانوں کی طرح کھیلیں گے، فاؤل بھی کریں گے اور گول بھی، انسانوں کی طرح خوش اور غمگین ہونگے وغیرہ وغیرہ، لیکن ارادے اور عمل کی آزادی کے باوجود وہ اپنی محدودیت کے ایک حصار میں ہی مقیّد رہیں گے جسکا تعیّن انکا پروگرامر کرے گا۔ وہ صرف اُس کھیل کے ماحول کی حد تک ہر فیصلہ کر نے میں آزاد ہوں گے۔ اب یہ پروگرامرز کا کمال ہوگا کہ وہ ان روبوٹ کے دماغ brain chipمیں کس طرح کے خیالات کو جنم دیتے ہیں کہ وہ کامیابی و ناکامی اورجزا اور سزاکے معافی سمجھتے ہوئے جیت کو ایک مقصد بناتے ہوئے اور جائز اور ناجائز fair & foulکی گرہوں میں الجھتے ہوئے جیت کے متلاشی ہونگے۔ ذرا غور کریں کہ حالانکہ یہ محض ایک کھیل ہوگایا محض ایک دھوکہ لیکن ان روبوٹ کے لیے ہر گز نہیں کیونکہ وہ جس ذہنی الیکٹرونک سانچے میں سوچ رہے ہیں ان کیلئے وہی حقیقت ہے۔ انکے مقابل انسان تو ہونگے لیکن کھیل کے محدود دائرے میں روبوٹ انکے ہم پلّہ ہونگے۔ہر روبوٹ ایک شخص person کی حیثیت سے مقابل ہوگا۔ اسطرح روبوٹ جن کو ایک خاص مصنوعی ذہانت دی گئی وہ اپنے ذہنی سانچے میں خودمختار ہو گئے،کہ وہ جو چاہیں کریں کیونکہ وہ اپنی عقل کے ذریعے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔وہ اپنے تئیں ایک وجود رکھتے ہیں۔ یعنی ان کا ذہن یہ تصوّر لیے ہوئے ہے کہ وہ متحرک ہستی ہیں اور وجود رکھتے ہیں۔
تصوّرِ خداکی تشریح: Explaining God
آئیے اِس مجوزّہ فٹبال کے کھیل کو بنیاد بناکر آگے بڑھتے ہیں۔ اس کھیل میں حصہ لینے والا روبوٹ گراؤنڈ کے اندرمقابل انسانی کھلاڑیوں کے حوالے سے کھیل میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھے گالیکن اس گراؤنڈ کے باہر کے ماحول سے قطعاً بے خبر ہو گا کیونکہ وہ ماحول اُس کیلئے عدم Nonexistence ہے جسکااُس کو علم نہیں دیا جا رہا لیکن بہرحال ان کے پاس ایک طرح کی محدود سوچ اور اُس حوالے سے عمل کا اختیار تو ایک حقیقت ہی ہو گا ۔ اب غور کریں کہ وہ روبوٹ کھلاڑی جو کہ ایک کمپیوٹر ہی ہے لیکن اس کے پاس دانش اورارادہ،خواہ مصنوعی ہو،بالکل اسی طرح ہے جس طرح پروگرامر کے پاس، لیکن دونوں کے ارادے کے تناسب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ یعنی انسان کی قوّت روبوٹ کے مقابلے میں ہمیشہ لا محدود ہی رہے گی۔
خیال کی حقیت: Reality of Thoughts
انسان روبوٹ کو جومصنوعی ذہانت Artificial Intelligence فراہم کرتاہے وہ بھی سوفٹ وئر کا بھنور یامدارہے کہ روبوٹ کی یادداشت Memory اور مصنوعی ذہانت انسان کی متعیّن کی ہوئی لہروں میں گردش کرتی ہے۔ روبوٹ کو کسی صورتِحال میں فیصلہ کرنیکی محدودآزادی ہوتی ہے، وہ’’صحیح یا غلط‘‘True or False کی منطق پہ ماحول کا تجزیہ کرکے ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے،کیونکہ پروگرام میں اسکی گُنجائش رکھی جاتی ہے۔ ہاں، لیکن پروگرامر کسی بھی مخصوص صورتِحال میں روبوٹ کے متوقّع عمل کو جان سکتا ہے کیونکہ اُسکا علم حاوی اور بہ نسبت روبوٹ کے لا محدود ہے، اسکو اپنے مرتّب کردہ پروگرام کے حوالے سے یہ معلوم ہے کہ کس عمل کے بعد کونسے اعمال یقینی، متوقّع یا غیر متوقّع Random ہونگے اور اسکا انحصار اُسکے علم کی قوّت و وسعت اور پروگرام پر گرفت پر ہی ہوگا۔ مصنوعی ذہانت روبوٹ کا محدود شعور ہے اُنکے لئے اُن کا ماحول اور وجود حقیقت ہے جبکہ انسانی دنیامیں وہ ماحول ایک فریبillusion ہی ہے۔ ان روبوٹ کے لئے ان کی سو چ سے باہر کی ہر چیز ان کے لیے Infinity یا لامحدودیت ہے۔ دراصل وہ ایک ذہنی قید خانہ میں ہیں جسکو ہم مشین لینگویج میں مرتّب پروگرام بھی کہہ سکتے ہیں یعنی پروگرامر نے ان کو ایک ماحول میں مقیّدکردیا ہے اور وہ اس سوفٹ وئیر سے باہر کچھ جان نہیں سکتے۔ وہ اپنے Time and spaceمیں زندہ ہیں۔ مگر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا وہ روبوٹ اس پوزیشن میں ہونگے کہ جان سکیں کہ انکا تخلیق کار کون ہے اور‘‘در حقیقت ’’کیا ہے؟ کیا الیکٹرونک وجود سے اوپر کوئی طبعی وجود انکے خیال میں سرائیت کر سکتا ہے؟ فیصلہ آپ خود کرلیں۔ ہاں، یہ اسی وقت ممکن ہے جب پروگرامر اس ڈیٹا میں یہ اشارہ دے کہ میں تمہارا خالق ہوں۔
خدا اور انسان:God & Human
آئیے خدا اور انسان کے تعلّق کو ایک اور حسابی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ انتہائی ذہین سُپر روبوٹ کے پاس مصنوعی ذہانت اگر ایک درجہ ہے تو اس کے پروگرامر انسان کی ذہانت 10کروڑ ہے اس طرح نسبت 1:100Mکی بنے گی۔اگر ہم ریاضی کا اصول تناسب یہاں پر لاگوکریں اور روبوٹ کی ذہانت بڑھا کر 2درجے کردی جائے تو پروگرامر کی ذہانت بھی بڑھ کر 20 کروڑہو جائے گی۔ یعنی ہر دو صورتوں میں روبوٹ کے لیے انسانی ذہانت لامحدود ہے۔اس تناسب کو اگر ہم بڑھاتے چلے جائیں یہاں تک کہ روبوٹ کا ذہنی معیاردس کروڑ یعنی انسان کے برابر کردیا جائے تو اصول تناسب سے انسان کا معیار لامحدود ہوجائے گا یعنی 100M: (100M x 100M)= infinity اس طرح اگر روبوٹ انسانی معیارِ ذہانت پر پہنچ بھی جائے پھر بھی وہ اپنے خالق پروگرامرکی ذہنی قوّت تک نہیں پہنچ سکے گا۔کیونکہ اگر انسانی تخلیق یعنی روبوٹ انسانی عقل کا خوگر بنتا ہے تو پھرانسان بھی اس کے لیے لا محدود ہو کر اس کا خدا بنتا ہے،
بالکل اسی طرح انسان کے ذہن میں کسی خیال کی آمد یا اُسکا اُبھرنا ایک پُر اسرارنظام Mysterious Phenomenonہے جسکو سائنس نے کیمیکل ری ایکشن کا شاخسانہ قرار دیا ہے، لیکن یہ خیالات پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں اور اچھے یا بُرے خیال کیوں آتے ہیں اسکا جواب سائنس کے پاس نہیں۔ انسان متواتر آتے ہوئے مختلف خیالات اور ان سے منسلک حالات کی وجہ سے ہی مسلسل زندگی کے معاملات میں مصروف رہتا ہے یہ گزرتا ہواوقت ایک غیر طبعی مدار یا بھنوَرہے جس میں دن اور رات کے چکّر میں انسان گھومتاہے با لکل اسی طرح جیسے روبوٹ اپنے الیکٹرونک مدار میں۔ اس مثال سے واضح ہو تا ہے کہ انسان جو خود ایک مخلوق ہے کسی طور پر بھی اپنے خالق کی حقیقت نہیں جان سکتاکہ جس طرح روبوٹ اتنا ہی جان سکتا ہے کہ جتنا اس کو علم دیا جائے۔
خدا کا تصوّر ایک مربوط پلاننگ کے تحت ہی انسان کے خیال میں پیوست ہے ورنہ مادّہ پرستانہ نظریہ حیات کی رُو سے جہاں فطرت ایک خود کار نظام کے تحت رواں ہے اس خیال کا آنا ہی غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے۔۔ کیا ہم ایک ایسی ہستی کا تصوّر کرسکتے ہیں کہ جو کائنات سے بھی کھرب ہا کھرب وسیع ہو۔ کیا ہم یہ یقین نہیں کرسکتے کہ انسانی شعور اور ارادے سے کھرب ہا کھرب وسیع کوئی ارادہ ہو؟ ہم کن بنیادوں پر ان مفروضات کو رد کریں گے؟
بشکریہ : مجیب الحق حقی کی کتاب’’Understanding The Divine Whispers‘‘کے غیر مطبوعہ اردوورژن’’خدائی سرگوشیاں‘‘سے