کسی گروہ کو دائرہ اسلام میں شمار کرنے یا نہ کرنے کی بحث عموماً عقیدے کے حوالے سے کی جاتی ہے جو ظاہر ہے، بنیادی بات ہے۔ البتہ ہمارے ہاں دانش ور حضرات کا ایک طبقہ جو اسلام سے بس ایک کلچرل قسم وابستگی رکھتا ہے اور اسی کو اسلامی نسبت کے لیے کافی سمجھتا ہے، اس کو بعض دفعہ یہ سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کلمہ شہادت پڑھنے اور تمام دینی فرائض وواجبات بجا لانے والی ایک جماعت کو کیوں مسلمانوں سے خارج کیا جا رہا ہے۔ اس زاویے سے مسئلے کو دیکھنے سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسئلہ شدت پسند مولویوں کا پیدا کردہ ہے، اور بعینہ یہی استدلال جماعت احمدیہ کے حضرات بھی پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان حضرات کی توجہ کے لیے گزارش ہے کہ آپ مسئلے کو چاہے حق وباطل یعنی عقیدے کے استناد وعدم استناد کے زاویے سے نہ دیکھیں، گروہی نسبت کے عام معاشرتی اور تاریخی اصولوں پر ہی دیکھ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ کس فریق کا موقف مبنی بر انصاف اور منطقی ہے۔ کوئی بھی گروہ جس کی شناخت اور تعارف کسی تاریخی شخصیت کی طرف منسوب ہو، اس شخصیت کے متعلق ایک بنیادی تصور کو تسلیم کرنا شناخت کی ایک بنیادی اور لازمی شرط ہوتا ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔ یہ اصول نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی گروہوں میں بھی اسی طرح مانا جاتا ہے۔مثلاً مسلم لیگ میں قائد اعظم کی ایک خاص حیثیت کو تسلیم کرنا مسلم لیگی شناخت کا ایسا عنصر ہے کہ کسی کو یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی کہ قائد اعظم کو کانگریسی نظر سے دیکھنے والا کوئی شخص مسلم لیگی نہیں ہو سکتا اور نہ مسلم لیگ، منافقت یا مفاد پرستی سے کام لیے بغیر، ایسے آدمی کو اپنی سیاسی شناخت میں شریک کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی میں بھٹو صاحب کی اور تحریک انصاف میں عمران خان کی یہی حیثیت ہے۔
مذہبی گروہوں میں مثال کے طور پر، اہل تشیع کی شناخت حضرت علی اور اہل بیت کے بارے میں ایک خاص تصور کو مانے بغیر قائم ہی نہیں ہو سکتی۔ یہودیوں میں حضرت موسیٰ کو اور مسیحیوں میں حضرت عیسیٰ کو یہی مقام حاصل ہے۔ تاریخی طور پر جس کو مسیحیت مانا جاتا ہے، الوہیت مسیح کے تصور کو اس سے الگ کر دیا جائے تو مسیحی شناخت قائم نہیں رہ سکتی اور کوئی شخص حضرت مسیح سے جتنی بھی عقیدت ظاہر کرے، اسے کسی تاریخی اصول پر مسیحی نہیں کہا جا سکتا۔ خود جماعت احمدیہ اسی اصول کی سختی سے پابندی کرتی ہے اور لاہوری جماعت چونکہ مرزا صاحب سے ہر طرح کی عقیدت رکھنے کے باوجود انھیں نبی نہیں مانتی جو جماعت احمدیہ کی شناخت کا بنیادی اصول ہے، اس لیے لاہوریوں کو جماعت احمدیہ کا حصہ بھی نہیں مانا جاتا۔
مسلمان امت کی شناخت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح کی نبوت کا خاتم ماننے کی حیثیت بھی یہی ہے۔ ختم نبوت پر مسلمانوں کی جماعتی شناخت منحصر ہے، اس کو الگ کرنے یا اس پر کسی بھی طرح کا کمپرومائز کرنے کا مطلب مسلمان امت کی بنیادی شناخت کو مٹا دینا ہے، اس لیے احمدی حضرات یا کلچرل قسم کے مسلمان دانش وروں کی یہ توقع کہ مسلمان، رسول اللہ کے بعد مسلمانوں سے کسی نئی نبوت پر ایمان کا تقاضا کرنے والے گروہ کو اپنی شناخت میں شریک رکھیں، انتہائی غیر معقول اور غیر منطقی توقع ہے۔ اس بنیادی نکتے کو تسلیم کرنا ہی تنازع کے مستقل حل کی کلید ہے۔ جماعت احمدیہ ایک نئی مذہبی شناخت کی حامل جماعت ہے اور اس شناخت کے بنیادی رکن کو قبول نہ کرنے والی، مسلمان امت کو گمراہ اور راہ راست سے ہٹا ہوا مانتی ہے۔ خود اس کی اس شناخت کا بھی منطقی تقاضا یہی ہے کہ وہ ایک گمراہ امت کا حصہ سمجھے جانے کی خواہش نہ رکھے، بلکہ اپنی نئی اور الگ شناخت کی بنیاد پر اپنے جماعتی وجود کو قائم کرے۔