قادیانی جماعت کے لندن مرکز،بیت الفتوح لندن کے نائب امام عکرمہ نجمی کا قادیانیت سے توبہ کا اعلان اور قبول اسلام کی داستان اردو ترجمہ کے ساتھ:
میں دنیا بھر میں اپنے سبھی احمدی دوستوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ، احمدیت (قادیانیت) کے بانی (مرزا غلام احمد) کے بارے میں مجھ پر یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ وہ ایک جھوٹا اور بد اخلاق انسان تھا، اور اسکی جماعتِ (قادیانیت) اسکے بعد مسلسل جھوٹ، گمراہی اور کھوٹے پیمانہ پر قائم ودائم ہے۔
ہرآدمی کیلئے یقینا یہ بات باعث صدمہ ہوگی کہ وہ (بحث وتحقیق کے بعد) اس نتیجہ پر پہونچے، لیکن اسکے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں، کہ ہم اب اپنی اگلی نسل کو شھادۃ الزور کی بنیاد پر مزید خیانت اور گمراہی کے راستہ میں چھوڑ کر، انہیں مزید مصیبتوں کے دلدل میں دھکیل دیں۔
احمدیت (قادیانیت) کے ساتھ میرا گزرا ہوا یہ زمانہ جو ولادت سے لیکر اب تک تقریباً نصف صدی پر مشتمل تھا، اسکے آخری ایام میں، مَیں عالم عرب کے مختلف ممالک میں جماعۃ احمدیہ (قادیانیت) کا مرکزی ذمہ دار تھا، اور نئے بیعت کرنے والوں کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی، اور اسی طرح کچھ دوسری ذمہ داریاں بھی میرے سپرد تھیں، اور اس سے پہلے عربی چینل کے ڈائریکٹر کی نیابت، اور دوسرے فرائض بھی انجام دے رہا تھا۔
میں پیدائشی احمدی (قادیانی) ہوں، اور میرے نانا کبابیر (فلسطین) میں عودہ خاندان کے سب سے پہلے قادیانی تھے، جو تقریباً 90 سال قبل قادیانی ہوئے، میں نے جب ہوش سنبھالا، اور دین کیطرف متوجہ ہوا، تو میں نے اس جماعت کی تعلیمات کو بغور پڑھا، اور دل وجان سے ان تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا، اور کبابیر میں کافی عرصہ اس جماعت کا مرکزی رکن رہا، پہر جب 2007میں لندن منتقل ہوا، تو لندن مرکز میں تقریبا ًایک سال کام کرتا رہا، اور میں مرزائی خلیفہ کے بہت مقربین میں سے تھا، اور انکی عبادت گاہ کا مؤذن بھی رہا، اور نائب امام کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔
بلا شبہ آپ انتہائی کٹھن صورتحال سے اس وقت گزر رہے ہوتے ہیں جب آپ کسی جماعت کی آغوش میں آنکھیں کھولیں، اور پھر اس کی خدمت میں دل وجان ایک کردیں، اور اس کام سے عشق کی حد تک لگاؤ ہوجائے، اور اس کی خدمت کے خاطر آپ اپنی پوری زندگی صرف کردیں، اس گمان میں کہ یہ کام اللہ اور حق مبین کیلئے ہورہا ہے، لیکن پینتالیس سال گزارنے کے بعد آپ کو یہ اندازہ ہو کہ یہ جماعت پہلے دن سے ہی جھوٹ وفریب کی بنیاد پر قائم تھی، اور یہ جماعت نہ اسلام کیلئے کوئی خدمات سر انجام دی رہی ہے، نہ انسانیت کی ترقی کیلئے، بلکہ یہ صرف اپنی ذات اور جماعت کی مصلحت کیلئے اپنی قوت صرف کر رہی ہے۔
بہر حال میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ، جس نے غیر جانبدارانہ بحث وتحقیق کے بعد،محض اپنے فضل وکرم سے مجھے اس جماعت سے نکلنے میں میری مدد فرمائی، اور اب میں یقین کے اس مرحلہ پر پہنچ چکا ہوں کہ اب میں اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ میں اپنی گواہی اور اس جماعت کے ساتھ گزارا ہو ا اپنا تجربہ لوگوں سے شیئر کروں، شاید اللہ تبارک وتعالی ان قابل قدر اور مخلصین لوگوں کو احمدیت سے نجات حاصل کرنے میں مدد فرمائیں، جو اس جماعت کی اصلیت سے ناواقف اور بے خبر ہیں، یا انکے اندر اس جماعت کی حقیقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں، یا وہ لوگ جو اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔
میں کافی عرصہ سے اس بات کو نوٹ کررہا تھا کہ یہ جماعت ہانی طاہر صاحب کی باتوں کاحقیقت پسندانہ جواب نہیں دے پارہی، چنانچہ مرزائی خلیفہ نے ایک دن اس بارے میں میری رائے لی، تو میں نے کہا: در حقیقت انکی باتوں کا داندانِ شکن جواب نہیں دیا جارہا، تو خلیفہ نے کہا کہ آپ بحث وتحقیق کریں اور انکا جواب دیں، چنانچہ میں نے بحث وتحقیق کرنے کا تہیہ کرلیا، مگر پھر ندامت ہوئی اور بحث وتحقیق کا اردہ ترک کرنا چاہا۔ مجھ پر اس بات کا خوف طاری تھا کہ اگر واقعی تمہاری جماعت جھوٹی ثابت ہوگئی، تو تم کیا کروگے؟ اور اگلی زندگی کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ اور ان دوستوں کا کیا ہوگا جنھیں تم نے اس جماعت کا حصہ بنایا تھا؟ اور اپنے اہل خانہ واقارب اور بچوں کا سامنا کیسے کرو گے؟انھیں یہ سب حقائق کیسے بتاؤ گے؟ اور انکا رد عمل کیا ہوگا؟ اور ان پر اسکے کیسے نفسیاتی اثرات مرتب ہونگے؟اسکے بعد دعاکا سلسلہ شروع ہوا، اور میں نے اپنے رب سے یہ معاہدہ کرلیا کہ میں صرف حق وسچ کا ساتھ دونگا، اور حق کو تھام لوں گا چاہے مجھے اسکی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، کیونکہ آخر میں مجھے اللہ تعالی کی رضا ہی مطلوب ہے، چنانچہ اس دوران میں بہ کثرت اس دعاء کا ورد کرنے لگا: (اللَّہُمَّ أَرِنَا الحَقَّ حَقَّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ). (ترجمہ: اے اللہ ہمیں حق کو حق سمجھنے، اور اسے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما، اور باطل کو باطل سمجھنے، اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما).
اسکے بعد بحث وتحقیق، اور دردناک قصوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا، اس دوران میں ہمیشہ کرب کی صورتحال سے گزرا، کیونکہ مجھے میرے مَن کی بات کہیں بھی نہ ملی۔ مجھے اس بات کا غم کھائے جارہا تھاکہ عصر حاضر کے سب بڑے دھوکہ کا تم حصہ بن چکے تھے۔مثلاً مرزا قادیانی کی عربیت کے بارے میں سب سے بڑا جھوٹ بولا گیا تھا، حالانکہ اسکی عربی کے اکثر الفاظ ‘‘مقامات حریری’’ سے چرائے گئے تھے۔
بحث وتحقیق کی یہ دردناک کہانی اس وقت اپنے انجام کو پہنچی، جب میں نے یہ فیصلہ کیا کہ حقائق کا یہ پلندہ مرزائی خلیفہ کے سامنے رکھا جائے، چنانچہ میں نے ایک تفصیلی خط تحریر کیا، اور ملاقات کا وقت طے ہوگیا، ملاقات سے پہلے میں ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھا، خیر میں نے خط انکے حوالہ کردیا، جسکا مضمون یہ تھا:
قابل ستائش وقابل احترام، بعد از سلام
میں خدا کو حاضر وناظر جان کر یہ گواہی دے رہا ہوں، کہ میں کبھی بھی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ میں اس کشمکش میں مبتلا ہوجاؤں گا، لیکن مجھے اتنا بڑا دلی صدمہ پہنچا ہے کہ میری صحت پر بھی اسکا بہت بُرا اثر پڑا۔آپ کے ساتھ ہم نے زندگی کے بہت خوبصورت اور کٹھن ایام گزارے، ہمارا یہ خواب تھاکہ اس جماعت کے ذریعہ ہم اسلام کی خدمت کریں، ہم اس جماعت کے ساتھ اتنے خوش تھے کہ اسکی خدمت کیلئے ہمہ تن گوش رہتے تھے، اور اس پر تن من دھن قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے، ہمارا یہ گمان تھا کہ ہم اللہ کی راہ میں یہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں، اسی بناء پر ہم احمدیوں کی بہت سی غلطیوں سے صرف نظر کرتے رہے، اور ان سے اچھا گمان قائم کیا، اور یہ صرف اس لئیے کہ اس جماعت کے مؤسس اور خلیفہ کو دل وجان سے چاہتے تھے۔اور ہم نے بہت کوشش کی کہ ان حقائق سے صرف نظر کرتے رہیں جو پچھلے چند ماہ میں ہماری نظر سے گزرتے رہے، لیکن کب تک؟ انسان کب تک اپنی عقل کودھوکہ دے سکتا ہے؟ ہانی طاہر صاحب کی باتوں کے جوابات حقیقت پسندی سے بالکل عاری، بلکہ سب وشتائم سے لبریز تھے، جس سے یہ صاف ظاہر ہورہا تہا کہ یہ جماعت ایک متکبرانہ اور ظالمانہ سوچ کی حامل ہے، جو لوگوں کی سوچنے کی صلاحیت پر قدغن لگاتی ہے، حالانکہ ہانی طاہر صاحب اخوت و مودت، سوچ وفکر، اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کی دعوت دیتے رہے، اور انہو ں نے اب تک اپنا یہ طرز جاری رکھا ہوا ہے، حالانکہ بعض لوگوں نے انہیں سب وشتائم کی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی، جو انہو ں نے ناکام بنادی، انہو ں نے صرف اتنا ہی تو کیا تھا کہ مؤسس جماعت (مرزا غلام احمد) کی (ناجائز) باتوں کو اجاگر کرتے رہے۔مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوا تھا کہ، یہ جماعت اپنے مؤسس کے دفاع میں یک جان نہ ہوسکی، اور ان لوگوں پر یہ کام چھوڑدیا جو دلی رنجشوں کے مارے ہوئے تھے، اور ہانی طاہر صاحب کی باتوں کا حقیقی رد کرنے سے یکسر عاجز رہے۔
مثال کے طور پر ہانی طاہر صاحب نے ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ اگر سن 1906 میں یہ جماعت چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، تو سن 1944 میں بھی اسکی تعداد صرف چار لاکھ ہی تھی؟ حالانکہ مرزائی خلیفہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسکی تعداد سو گنا بڑھ چکی تھی؟ اسی طرح ہانی طاہر صاحب نے مرزا غلام احمد کی نحوی غلطیوں کی طویل فہرست پیش فرمائی
اسی طرح ہانی صاحب نے قرآن وحدیث، اور کتب تفسیر کی طرف انکے غلط اور مَن گھڑت حوالوں کی فہرست بہی پیش فرمائی۔
اسی طرح انہو ں نے ‘‘اعجاز مسیح’’ نامی کتاب کا بھی مدلل رد پیش کیا، اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایک غیر جانبدارانہ کمیٹی تشکیل دی جائے جو اسکا فیصلہ کرے۔لیکن ہماری جماعت ان کی کسی بھی بات کا نہ تو مدلل جواب پیش کرسکی، بلکہ ہر شخص اپنے تئیں نا معقول جواب دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا کسی نے کہا کہ مؤسس نے کبھی‘‘مقامات حریری’’ پڑھی ہی نہیں، اور کسی نے کہا کہ وہ ‘‘مقامات حریری’’ سے بہت متأثر تھے، اور کسی نے کہا کہ جان بوجھ کر اس کتاب سے اقتباس کیا تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں، جس سے اس جھوٹ کا بخوبی ادراک ہوا جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ان کو اللہ تعالی کی طرف چالیس ہزار عربی الفاظ سکھائے گئے تھے، اگر یہ انکا معجزہ تھا تو ‘‘مقامات حریری’’ سے چوری چہ معنی دارد؟
اور جب ہمیں مؤسس کے بُرے اخلاق اور گندی گالیوں کا علم ہوا، تو ہم بہت ہی صدمہ سے دوچار ہوئے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری اولاد یہ باتیں سنیں، اور دنیا میں یہ باتیں نشر ہوں۔ مثال کے طور پر ایک کتاب میں متواصل ایک ہزار لعنتیں لکھنا، اور ایک شادی شدہ عورت سے شادی پر اصرار کرنا، اور لوگوں کے سامنے بار بار اس بارے میں اعلان شائع کرنا، ہم ان سب باتوں کوناقابل قبول جُرم، اور باعث عار سمجھتے ہیں۔اسی طرح مؤسس کی باتوں میں دوسرے ادیان سے متعلق کافی فضول مواد موجود ہے، مثال کے طور پر عیسائیت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ایسا دین ہے جس سے انسان کو متلی آجائے۔
جہاں تک مؤسس کی غیبی پیش گوئیوں کا تعلق ہے، تو یہ بات بہرحال واضح ہے کہ وہ کبھی بھی سچ نہ ہوئیں، بلکہ ہمیشہ انکے خلاف گئیں، مگر جماعت احمدیہ والے ہمیشہ اسکی غلط تأویلات پیش کرتے رہے، یہاں تک کہ انھیں انکی پیشگوئیوں سے متعلق جھوٹی عبارتیں گھڑنی پڑیں، مثال کے طور پر ثناء اللہ امرتسری کے بارے میں یہ کہنا: کہ مؤسس نے اکتوبر 1907میں یہ فرمایا تھا کہ ہم میں سے جھوٹا شخص سچے کی موت کے بعد زندہ رہیگا، حالانکہ اس جھوٹ کا حوالہ تاحال میسر نہ آسکا۔
میری گزارشات:
میں اب بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ ہمارے
تعلقات پہلے جیسے قائم رہیں گے، لیکن یہ بات میں بتادینا چاہتا ہوں کہ مؤسس جماعت اپنے دعوی میں سچے نہیں تھے، میں اب بھی جماعت احمدیہ کے ساتھ اپنا تعلق اس شرط پر برقرار رکھنا چاہتا ہوں کہ میں مؤسس جماعت کو نہ تو مہدی مانتا ہوں نہ مسیح موعود، بلکہ میں اس جماعت کو اس گڑھے سے نکالنا چاہتا ہوں، بصورت دیگر آپ مجھے اس جماعت سے نکالنے کے مجاز ہو ں گے۔
سر! مجھے آپ سے بہت امیدیں ہیں، کیونکہ آپ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جنکے پاس احمدیت کا مؤثر حل موجود ہے، آپ چاہیں تو موجودہ احمدیوں اور انکی اگلی نسل کو اس دلدل سے نکال سکتے ہیں، اور اللہ تعالی کو راضی کرسکتے ہیں، میرا مشورہ ہے کہ آپ اس جماعت کو نئے منشور سے تبدیل کرکے کوئی جمعیہ خیریہ یا اس طرز پر کوئی نیا پروگرام پیش کریں، اور اس جماعت کو خیر، اور سلامتی پھیلانے والی جماعت میں تبدیل کردیں، میں اس نئے پروگرام میں آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں، چاہے اس کام میں جتنا وقت لگ جائے۔
میں یہ جانتا ہوں کہ لوگوں کو یکدم اس جماعت کی حقیقت بتانا بہت مشکل ہے، بلکہ اسکے منفی اثرات شاید زیادہ ہوں، لیکن ان حقائق سے پردہ پوشی کرلینا اور بڑا جرم ہوگا، اگر واقعی آپ اس مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین جانئیے تاریخ آپ کو سنہرے الفاظ میں یاد کرے گی، اور اللہ تعالی آپ سے راضی ہوجائے گا، اگر میری یہ گزارشات آپکو قبول ہوں، تو میں آپکے ساتھ مکمل تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں۔فقط والسلام۔
چنانچہ یہ خط میں نے انہیں حوالہ کردیا تو انہوں نے پوچھاکہ آپ نے اس میں کیا لکھا ہے؟ میں جواب دیا: حقیقت تو بہت کڑوی ہے، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس پریشانی میں مبتلا ہوجاؤں گا، مگر پہلے آپ اسے پڑھ لیں، پھر ہی ہماری میٹنگ ممکن ہے۔انہوں نے کہا: کیا بات ہے؟ کہیں تم جماعت کو چھوڑنا تو نہیں چاہتے؟ میں نے کہا: پہلے آپ اس مضمون کا مطالعہ کرلیں، میں نے بہت تفصیلی خط لکھا ہے. تو انہوں نے کہا: مجھے ایک دو دن کا ٹائم دو، میں پڑھ کر دوبارہ ملاقات کرتا ہوں، مگر تقریباً چالیس منٹ بعد میرا چوکیدار گھبرایا ہوا آیا، اور مجھ سے کہنے لگا کہ خلیفہ نے آپکو ابھی اور اسی وقت طلب کیا ہے، چنانچہ میں دوبارہ حاضر ہوا، تو وہاں مجھے یہ جواب ملا: کہ آپ نے مؤسس جماعت کے بارے میں غیر منطقی باتیں کی ہیں، جو ہم کسی صورت قبول نہیں کرسکتے، میں نے آپکا پورا خط پڑھ لیا ہے، اور میں آپکو آپ کے کام اور جماعت احمدیہ سے نکالنے پر مجبور ہوں۔اس طرح بغیر کسی بات چیت، بغیر کسی قیل وقال، اور بغیر کسی اپنا (خود ساختہ) روحانی کرامت دکھائے یہ قصہ تمام ہوا، بلکہ مؤسس جماعت (مرزا غلام احمد قادیانی) کے دفاع میں اپنے کسی اعتقاد کا ذکر تک نہیں کرسکے، بلکہ فوراً مجھے کام سے نکالنے اور جماعت سے الگ کرنے کی دھمکی دے دی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ انہوں نے کہا: شاید میں بھی وہی کرتا جو تم نے کیا، اسکے بعد میرے ساتھ گالی گلوچ، کردار کُشی کا ایک ایسا سلسہ شروع کیا گیا جو ہر اس شخص کو ہزار دفعہ سوچنے پر مجبور کردے گا جو احمدیت سے توبہ کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں لانا چاہے، یا وہ کرے جو میں نے کیا، یا حقیقت پسندی سے احمدیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرے، اور آزادی کی وہ زندگی جئے جو میں جی رہا ہوں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی احمدیوں کو حق وسچ قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور انہیں اپنے خاندان اپنے بچوں، اور عزیز و اقارب کو حق وسچ بتانے کی ہمت عطا فرمائے۔