نماز کی شریعت میں رخصتیں
قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی عبادت میں بھی مسلمانوں کے لیے عسرت کے موقعوں پر اللہ تعالیٰ نے بہت سی آسانیاں اور رعایتیں عنایت فرمائی ہیں۔ نماز کو شریعت کی مقرر کردی کردہ اصل ہیئت میں پڑھنا اور اِس کے آداب وشرائط کو پوری طرح بجالانا ہمارے لیے مشکل ہوجائے تو رفع حرج ہی کے اصول پر خود شریعت نے مختلف پہلوؤں سے رخصتیں بیان کردی ہیں، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
۱۔شرائط نماز میں رعایت
شرائطِ نماز کے باب میں اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت بیان فرمائی ہے کہ سفر، بیماری یا پانی کی نایابی کی صورت میں کسی کے لیے وضو یا غسل، دونوں مشکل ہوجائیں تو اُس کے لیے حرج اور زحمت کی کوئی بات نہیں ہے، وہ تیمم کرسکتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کوئی پاک جگہ دیکھ کر اُس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلے۔ ارشاد فرمایا کہ: ‘یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُئُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ وَإِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوا وَإِنْ کُنْتُمْ مَرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوہِکُمْ وَأَیْدِیکُمْ مِنْہُ’ ‘‘ایمان والو، (یہی پاکیزگی خدا کے حضور میں آنے کے لیے بھی چاہیے، لہٰذا) جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں بھی دھو لو، اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔ اور اگر (کبھی ایسا ہو کہ) تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تم کوپانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اُس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو’’(المائدہ: ۶)۔
چنانچہ معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے والے کو مشقت کے اِن موقعوں پر تیمم کا یہ عمل ہر طرح کی حالتِ نجاست میں نماز کفایت کرے گا، یعنی یہ وضو اورغسل ِجنابت، دونوں کا متبادل ہو گا۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو تیمم اُس کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے اور یہ مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح یہ رخصت بھی دی گئی ہے کہ مرض اور سفر کی حالت میں پانی موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ‘‘مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے، اِس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے۔ اِسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے۔ مثلاً، پانی نایاب تو نہ ہو، لیکن کم یاب ہو، اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میں لایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے یا ریل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو’’۔ (تدبر قرآن ۲/ ۳۰۳)
شریعت کی اِس رخصت پر ذرا غور کیجیے کہ وضو اورغسل جنابت، دونوں شرائطِ نماز میں سے ہیں، جن کے بغیر عام حالات میں نماز پڑھی ہی نہیں جاسکتی، لیکن خدا کے بندوں کے لیے سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی نوعیت کے عام اعذار کی بنا پر نماز کے اِن شرائط کو بجالانا مشکل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِس دشواری اور تنگی کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا ہے، بلکہ اِس کی رعایت سے ایک متبادل آسان اور قابل عمل حکم دے کر اپنے بندوں کے لیے آسانی پیدا فرمائی ہے۔ تیمم، اگر غور کیجیے تو وضو اور غسل کا ایک ایسا متبادل ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ بظاہر کوئی پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہ ظاہر میں وضو اور غسل سے حاصل ہونے والی حسی نظافت کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اِس کی حکمت اور اِس کا فائدہ کیا ہے؟ استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب اِس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ‘‘ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقہ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اُس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے’’ (میزان، ص۲۸۷)۔
شرائط نماز کے باب میں اِس بیانِ رخصت کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے رفع حرج کا ضابطہ بصراحت بیان کیا ہے کہ مطالباتِ شریعت میں اُس کا منشا اپنے بندوں کو کسی زحمت اور تنگی میں ڈالنا ہرگز نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا کہ: ‘مَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَٰکِن یُرِیدُ لِیُطَہِّرَکُمْ، وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ’۔ ‘‘اللہ تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمھیں پاکیزہ بنائے، (اِس لیے وضو اور غسل کا پابند بناتا ہے) اور چاہتا ہے کہ اپنی نعمت تم پر تمام کرے، (اِس لیے مجبوری کی حالت میں تیمم کی اجازت دیتا ہے) تاکہ تم اُس کے شکرگزار ہو’’(المائدۃ: 6)۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تیمم کی اِسی رخصت پر قیاس کرتے ہوئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وضو اور غسل سے متعلق کچھ مزید رخصتیں بیان فرمائی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا اور لوگوں کو اجازت دی ہے کہ اگر موزے وضو کر کے پہنے ہوں تو مقیم ایک شب و روز اور مسافر تین شب و روز کے لیے موزے اتار کر پاؤں دھونے کے بجاے اُن پر مسح کر سکتے ہیں۔(بخاری، رقم۱۸۲، ۲۰۳، ۲۰۵۔ مسلم، رقم ۶۲۲، ۶۳۳۔مسلم، رقم ۶۳۹)
۲۔ غسل کے معاملے میں عورتوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت بیان فرمائی ہے کہ اُن کے بال اگرگندھے ہوئے ہوں تو اُنھیں کھولے بغیر اوپر سے پانی بہا لینا ہی کافی ہے(مسلم، رقم ۷۴۴
۳۔ جن چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے، وہ اگر بیماری کی صورت اختیار کر لیں تو ایک مرتبہ غسل کر لینے کے بعد باقی نمازیں اُس کے بغیر بھی پڑھی جا سکتی ہیں (بخاری، رقم۲۲۸، ۳۰۶۔ مسلم، رقم۷۵۳)۔
۲۔سفر میں نماز کو کم کرلینے کی رخصت
سفر میں خطرے کی حالت پیش آجائے تو قرآن مجید نے یہ رخصت دی ہے کہ لوگ نماز میں کمی کرسکتے ہیں، جس کو اصطلاح میں قصر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ:‘وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَن یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِینًا’۔‘‘تم لوگ (اِس جہاد کے لیے) سفر میں نکلو تو تم پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین تمھیں ستائیں گے، اِس لیے کہ یہ منکرین تمھارے کھلے دشمن ہیں’’ (النساء: ۱۰۱)۔ نماز میں کمی کی اِس رخصت کے حوالے سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت یہ ہے کہ صرف چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھی جائیں گی۔ فجر اور مغرب کی نمازوں میں اِس طرح کی صورت حال میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، بلکہ وہ پوری پڑھی جائیں گے۔
قرآن مجید کی اِس رخصت پر غور کیجیے کہ نماز کو قصر کرنے کی یہ رخصت مذکورہ بالا آیت میں ‘اِنْ خِفْتُمْ’ (اگر تمھیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رعایت کی تعمیم فرمائی ہے آپ نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اِس پر قیاس فرمایا اور اُن میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے(مسلم، رقم ۱۶۱۹)۔ آپ کی اِس تعمیم اور بغیر کسی خطرے کے اِس طرح قصر کر لینے پر سیدنا عمر کو تعجب ہوا۔ چنانچہ اُنھوں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے، سو اللہ کی اِس عنایت کو قبول کرو(مسلم، رقم ۱۵۷۳، ۱۵۷۴)۔
استاذ گرامی غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ: ‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے واضح ہے کہ آپ کے اِس استنباط کی تصویب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہو گئی تھی’’(البیان، ج۱، ص538)۔
۳۔سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت
نماز کو قصر کر لینے کی مذکورہ بالا قرآنی رعایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اپنے سفروں میں ظہر وعصر،اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔ (مسلم، رقم 703، ۷۰۴)۔ اوقات میں تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ سفر میں آپ نے پانچ نمازوں کوتین اوقات میں پڑھایا ہے
سیدنا معاذؓ بن جبل کی روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے سفر میں آپ کا طریقہ بالعموم یہ رہا کہ اگر سورج کوچ سے پہلے ڈھل جاتا تو ظہر وعصر کو جمع کر لیتے اور اگر سورج کے ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو عصر کے لیے اترنے تک ظہر کو موخر کر لیتے تھے۔ مغرب کی نما زمیں بھی یہی صورت ہوتی۔ سورج کوچ سے پہلے غروب ہو جاتا تو مغرب اور عشا کو جمع کرتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے کوچ کرتے تو عشا کے لیے اترنے تک مغرب کو موخر کر لیتے اور پھر دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ (مسلم، رقم ۷۰۵۔ ابوداؤد، رقم ۱۲۲۰)
جمع بین الصلاتین -96 پہلا سوال
سوال۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے سفروں میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا کی نمازوں کو جمع کرنا تو روایتوں سے ثابت ہے، لیکن یہ بات کہ آپ نے یہ رعایت قصر نماز کی قرآنی رخصت سے مستنبط فرمائی ہے، اِس کا ماخذ اور دلیل کیا ہے؟ دینی علم کی روایت میں کس صاحب علم نے بیان کی ہے؟ قصر نماز کی رعایت اوپر جس آیت میں بیان ہوئی ہے، اُس میں تو بظاہر اوقات کی تخفیف اور نمازوں کو جمع کرنیکی رخصت کا کوئی اشارہ تک معلوم نہیں ہوتا۔
جواب۔ قرآن مجید کی روشنی میں یہ علمی نکتہ راقم الحروف کے علم کی حد تک علمِ دین کی پوری روایت میں پہلی مرتبہ جس صاحب علم نے بجا طور پر دریافت کیا ہے، وہ استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ اُن کی اِس غیر معمولی علمی دریافت کی ہم یہاں قارئین کے لیے ذرا توضیح کریں گے، تا کہ اوپر بیان کیے گئے سوال کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔در اصل بات یہ ہے کہ سیاق کلام میں اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز کو قصر کرنے کی رخصت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ‘‘تم لوگ سفر میں نکلو تو تم پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو’’(النساء:101)۔ پھر آگے فرمایا کہ ‘‘پھر جب تم اطمینان میں ہوجاؤ تو پوری نماز پڑھو’’(النساء:103)۔اِس کے متصل بعد اِسی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ‘‘نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے’’ ( النساء: 103)۔ اِس آخری ارشاد سے ظاہر ہے کہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس سیاق میں نماز کو قصر کرنے کی اجازت بیان ہو رہی تھی ہے، یک بیک یہاں نماز کے وقت کی بات کیسے اور کیوں آئی ہے؟ اِن دونوں باتوں کا، یعنی: ‘‘پھر جب تم اطمینان میں ہوجاؤ تو پوری نماز پڑھو،نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے’’، باہمی ربط کیا ہے؟ آخری بات بظاہر پچھلے کلام سے معنوی طور پر غیر متعلق اور بالکل بے ربط محسوس ہوتی ہے۔چنانچہ اِن دونوں باتوں کے مابین ایک مقدر جملے کا حذف ہے جس کو استاذ محترم غامدی صاحب نے کھول کر ربط کلام کو واضح کردیا ہے۔بیانِ محذوف کے بعد دیکھیے، پوری بات کس طرح واضح اور مربوط ہوجاتی ہے: ‘‘لیکن جب اطمینان میں ہو جاؤ تو اہتمام کے ساتھ پوری نماز پڑھو (اور اِس کے لیے جو وقت مقرر ہے، اُس کی پابندی کرو)، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے’’۔ عربیت کی رو سے اِس حذف کو کھول دیا جائے تو قرآن مجید کا یہ اشارہ آپ سے آپ واضح ہوجاتا ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں، لیکن یہ یاد رہے کہ نماز مسلمانوں پروقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے، اِس لیے جب اطمینان میں ہو جاؤ تو جس طرح پوری نماز پڑھو گے، اسی طرح اِس کے مقرر کردہ اوقات کی بھی مکمل رعایت کرنا ہوگی۔
استاذ گرامی لکھتے ہیں: ‘‘اِس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ سورہ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے، اُس میں ‘إِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا’ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ‘اور وقت کی پابندی کرو’ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے’’(میزان، ص312)۔
اِس دقیق علمی دریافت سے نہ صرف یہ کہ کلام الہٰی کا معنوی ربط واضح ہوا ہے، بلکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے نمازوں کو جمع کرنے کے عمل کی اساس بھی خود قرآن مجید ہی میں متعین ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ اِس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فہمِ قرآن کس عالی مقام اور درجے کا تھا۔ قرآن مجید کے اشارات کو آپ نے کس طرح مسلمانوں کے لیے اپنے علم وعمل سے واضح فرمایا اور دین کے احکام کی تعمیل میں اُن کی مشکلات کو رفع فرمایا ہے۔
سوال: یہاں ضمناً ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اِس کی کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید کے اشارے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت کا استنباط کرکے عملاً صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشا ہی کو باہم جمع کرکے پڑھا ہے؟ فجر کو ظہر کے ساتھ یا عصر کو مغرب کے ساتھ کیوں جمع نہیں فرمایا؟
جواب۔ اِس کی وجہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ شب وروز کی پانچ نمازوں کے اوقات اپنی نوعیت کے اعتبار سے اصلاً تین اوقات ہیں۔ یعنی یہ پانچ اوقات در اصل شب وروز کے تین بڑے اوقات سے لیے گئے ہیں، جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے۔ ارشاد فرمایا کہ:‘أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا’۔‘‘سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز کا اہتمام رکھو اور خاص کر فجر کی قرائت کا، اِس لیے کہ فجر کی قرائت روبرو ہوتی ہے’’(بنی اسرائیل:۷۸)۔
اِن تین اوقات کو دقت نظر سے دیکھا جائے تو اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک وہ وقت ہے جس میں سورج اور اُس کی روشنی آسمان پر موجود رہتی ہے۔ یعنی طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کا وقت۔اِس پورے وقت کے اندر سورج کے ڈھلنے کے اوقات میں ظہر وعصر کے وقت آتے ہیں۔ تاہم اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے یہ پورا دورانیہ ایک ہی ہے، یعنی سورج کی موجودگی اور دن کا وقت۔ دوسرا وہ وقت ہے جو سورج کی عدم موجودگی اور رات کی تاریکی کا وقت ہے۔ یہ غروبِ آفتاب کے بعد سے طلوعِ فجر سے پہلے تک کا وقت ہے۔ اِس پورے دورانیے میں مغرب وعشا کی نمازوں کے اوقات معلوم ہیں۔ اِنھی دونوں وقتوں کو، جن میں اِن چاروں نمازوں کے اوقات آتے ہیں، قرآن مجید نے ‘لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ’ ‘سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک’ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ تیسرا تنہا نمازِ فجر کا وقت ہے، جو طلوعِ فجر سے شروع ہوتا اور طلوعِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ اِس اعتبار سے دوسرے دونوں اوقات سے یکسر مختلف اور منفرد ہے کہ اِس میں سورج موجود ہوتا ہے، نہ رات کی تاریکی ہوتی ہے۔چنانچہ نمازوں کے پانچ اوقات کو اِس تناظر میں سمجھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ظہر وعصر میں جمع کی اجازت غالباً اِس بنا پر دی گئی ہے کہ نوعیت کے اعتبارسے اِن دونوں نمازوں کے اوقات در حقیقت ایک ہی ہیں۔ اور وہ ‘دُلُوکِ الشَّمسِ’، یعنی سوج کے ڈھلنے کے اوقات ہیں۔ اِسی طرح مغرب وعشا کی نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے کی رخصت اِس بنا پر دی گئی ہے کہ اصلاً اِن کے اوقات بھی ایک ہی ہیں اور وہ ‘غَسَقِ اللَّیْلِ’، یعنی سورج کی عدم موجودگی اور رات کی تاریکی کے اوقات ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ عصر ومغرب کی نمازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں جمع نہیں فرمایا۔
یہ صرف نمازِ فجر کا وقت ہے جو باقی چاروں نمازوں کے اوقات سے اصلاً ایک منفرد وقت ہے، جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت میں بھی اِس کا ذکر الگ سے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فجر کی نماز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نماز کے ساتھ جمع نہیں فرمایا ہے۔ غرض یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے مواقع پر قرآن مجید
ہی کی اساس پر صرف اُنھی دو دو نمازوں کو جمع کرلینے کی رعایت دی ہے جن کے اوقات اصلاً ایک ہی نوعیت کے وقت میں آتے ہیں۔
حج میں نمازوں کا قصر وجمع
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کے قصر وجمع کی اِسی رعایت کو حجاج بیت اللہ کے لیے مشاعر مقدسہ میں بطور سنت قائم فرمایا ہے، جس کے مطابق مشاعر مقدسہ میں موجود حجاج مقیم ہوں یا مسافر، وہ منیٰ میں قصر اور عرفات ومزدلفہ میں قصر اور جمع، دونوں کریں گے۔ اِس کی وجہ ظاہر ہے کہ جمع وقصر کی قرآنی رخصت کی علت کا اشتراک ہی ہے، اِس لیے کہ حج کے موقع پر مشاعر مقدسہ میں نہ صرف یہ کہ دنیا بھر کے حجاج کے اجتماع واژدحام کی بنا پر ہمیشہ سفر ہی کی مانند آپا دھاپی کی کیفیت برپا رہتی
ہے، بلکہ اِس کے مناسک کی ادائیگی میں ابلیس کے خلاف جنگ کو بھی علامتی اعمال میں ممثل کیا جاتا ہے۔
۴۔ خطرے کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز اور قرآنی رخصتیں
قصر نماز کی رخصت کے متصل بعد، نماز ہی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مشکل کا حل بیان فرمایا ہے جس کا تعلق خاص نبی ﷺ کی موجودگی اور آپ کی اقتدا میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے نماز پڑھنے سے تھا۔اِس کی تفصیل یہ ہے کہ سفر میں خطرے کی ایسی حالت میں نماز کا وقت ہوجائے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ میدان جنگ میں ہوں تو ایسی غیر معمولی صورت حال میں یہ مسئلہ تھا کہ نماز کی جماعت کھڑی کی جائے اور رسالت مآب ﷺ امامت کرائیں تو آپ کا کوئی صحابی اُس جماعت کی شرکت سے محروم رہنے پر راضی نہیں ہو سکتا تھا۔ ایسی نازک صورت حال میں اللہ کے حضور اُس کے رسول کی اقتدا میں حاضری کے شرف سے، ظاہر ہے کہ کوئی شخص محروم رہنا نہیں چاہے گا۔ آپ کی معیت میں ہر سپاہی کی یہ آرزو ہوتی کہ وہ آپ ہی کی اقتدا میں نماز ادا کرے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک فطری خواہش تھی، لیکن اِس کے ساتھ دفاع کا اہتمام بھی ضروری تھا۔ چنانچہ قرآن مجید نے اِس صورت حال کے لیے بالخصوص یہ تدبیر بتائی کہ اہل لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ امام اور مقتدی، دونوں قصر نماز پڑھیں اوردونوں گروہ یکے بعد دیگرے آپ کے ساتھ آدھی نماز میں شامل ہوں اور آدھی نماز اپنے طور پر ادا کر لیں۔ چنانچہ ایک گروہ پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد پیچھے ہٹ کر حفاظت ونگرانی کا کام سنبھالے اور دوسرا گروہ، جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آپ کے پیچھے آ کر دوسری رکعت میں شامل ہو جائے۔ ارشاد فرمایا کہ:‘وَإِذَا کُنتَ فِیہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْہُم مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوا أَسْلِحَتَہُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْیَکُونُوا مِن وَرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرَیٰ لَمْ یُصَلُّوا فَلْیُصَلُّوا مَعَکَ وَلْیَأْخُذُوا حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ وَدَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِکُمْ وَأَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیلُونَ عَلَیْکُم مَّیْلَۃً وَاحِدَۃً وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِن کَانَ بِکُمْ أَذًی مِّن مَّطَرٍ أَوْ کُنتُم مَّرْضَیٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَکُمْ وَخُذُوا حِذْرَکُمْ إِنَّ اللّہَ أَعَدَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُّہِینًا’.‘‘اور (اے پیغمبر)، جب تم اِن کے درمیان ہو اور (خطرے کی جگہوں پر) اِنھیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو تو چاہیے کہ اُن میں سے ایک گروہ تمھارے ساتھ کھڑا ہو اور اپنا اسلحہ لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمھارے پیچھے ہوجائیں اور دوسرا گروہ آئے، جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے اور تمھارے ساتھ نماز ادا کرے۔ وہ بھی اپنی حفاظت کا سامان اور ضروری اسلحہ لیے ہوئے ہوں۔ یہ منکر تو چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے ذرا غافل ہو تو تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں۔ اِس میں، البتہ کوئی حرج نہیں کہ اگر بارش کی تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اپنا اسلحہ اتار دو۔ ہاں، یہ ضروری ہے کہ حفاظت کا سامان لیے رہو۔ تم یقین رکھو کہ اللہ نے اِن منکروں کے لیے بڑی ذلت کی سزا تیار کر رکھی ہے’’(النساء: ۲۰۱)۔
یہ بات کہ اِس تدبیر کا تعلق خاص نبی ﷺ کی موجودگی سے تھا، آیت کے آغازمیں ‘وَإِذَا کُنْتَ فِیہِمْ’ (اور جب تم اُن کے درمیان ہو) کے الفاظ سے صاف واضح ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے بعد مسلمانوں میں کسی ایک ہی امام کی اقتدا کی خواہش نہ اتنی شدید ہو سکتی ہے اور نہ اِس طرح کی آرزو کو اتنی اہمیت حاصل ہوسکتی ہے جواِس طرح کی باجماعت نماز کی متقاضی ہو۔ چنانچہ آپ کے بعد خطرے کے کسی بھی موقع پر قیام جماعت کا موقع ہو تو لوگ اب الگ الگ اماموں کی اقتدا میں نہایت آسانی کے ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔
نبی ﷺ کی موجودگی کے ساتھ خاص اِس قرآنی حکم کو ہم یہاں اِس لیے زیر بحث لائے ہیں کہ اِس میں رفع حرج اور آسانی کی بنا پر دی گئی رخصتوں پر غور کیا جائے کہ خطرے کی ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے عام حالات کے بر خلاف کہ نماز کو قصر کرنے کے علاوہ اُس میں نقل وحرکت اور ساز وسامان کو اُٹھائے رکھنے کی اجازت تک عنایت فرما دی ہے۔ جب کہ یہ معلوم ہے کہ نماز کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کو بندوں سے اصلاً ‘قنوت’ مطلوب ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ‘وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ’(اور اللہ کے حضور میں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ)۔ اِسی طرح دیکھیے کہ اِس حکم میں ہر گروہ کے لیے آدھی نماز نبی ﷺ کی اقتدا میں پڑھنے کے بعد باقی آدھی خود سے پڑھنے کو بھی روا رکھا گیا ہے۔ چنانچہ صلاۃ الخوف کی اِس قرآنی ہدایت سے ثابت ہوا کہ اسلامی شریعت کے احکام میں مسلمانوں کے لیے کوئی عسرت اور زحمت نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ انسانی حالات کی رعایت سے اِس میں نہایت آسانی دی گئی ہے۔
۵۔ حالت خوف میں پیدل یا سواری پر نماز پڑھنے کی رخصت
خطرے کی حالت اگر اِس درجے کی ہو کہ معمول کے طریقے پر نماز پڑھنا ممکن نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ کی آیت ۲۳۹ میں مزید رخصت عنایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: ‘فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُکْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْکُرُوا اللَّہَ کَمَا عَلَّمَکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ’۔ ‘‘پھر اگر خطرے کا موقع ہو تو پیدل یا سواری پر، جس طرح چاہے (نماز) پڑھ لو۔ لیکن جب امن ہو جائے تو اللہ کو اُسی طریقے سے یاد کرو، جو اُس نے تمھیں سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے تھے’’۔
اِس آیت سے جس طرح نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ خطرات میں بھی کوئی مسلمان اُسے نظر انداز نہیں کر سکتا، اِسی طرح اِس میں یہ بات بھی بصراحت بیان ہوگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے احکام شریعت میں اِس قدر آسانی اور سہولت اور اُن احوال کی اِس درجے میں رعایت رکھی ہے کہ نماز کا وقت خطرے کی حالت میں آجائے اور اُنھیں کہیں اطمینان سے نماز پڑھنے کا موقع بھی میسر نہ ہو تو پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو، وہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اِس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
اِس رخصت کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نماز کے اعمال میں نہ صرف یہ کہ ‘قنوت’ کی مذکورہ بالا صفت مجروح ہوتی ہے، بلکہ نماز کے مطلوب آداب، لازمی اعمال، اور شریعت میں اُن کی مقرر کردہ ہیئت بھی مجروح ہوجاتی ہے۔اِسی طرح اِس کے نتیجے میں جماعت کا اہتمام بھی، ظاہر ہے کہ ممکن نہیں رہتا۔ چنانچہ غور کیجیے کہ نماز جیسی غیر معمولی عبادت اور اُس کی مشروع ہیئت میں اِس سب کچھ کو اللہ تعالیٰ نے گوارا فرمایا اور اپنے بندوں کے لیے آسانی اور رفع حرج کو ترجیح دی ہے۔
نماز کوچلتے ہوئے یا سواری پر پڑھ لینے کی یہ رخصت بھی اگرچہ ‘اِنْ خِفْتُمْ’ (اگر تمھیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہے، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نے قافلے کو رکنے کی زحمت سے بچانے کے لیے نفل نمازیں بھی سواری پر بیٹھے ہوئے پڑھ لی ہیں۔ (بخاری، رقم ۴۰۱۱)
نماز کے باب میں اوپر بیان کی گئی قرآنی رخصتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سفر میں خطرے کی حالت ہو تو نماز کو قصر کیا جاسکتا ہے، بلکہ بعض نمازوں کوایک وقت میں جمع بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اِن رخصتوں سے مسلمان اپنے عام سفروں میں بھی فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ حالتِ جنگ میں رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز کا موقع ہو تو آپ کے صحابہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف مزید کچھ رعایتیں دی گئی تھیں۔ چوتھے یہ کہ سفر میں خطرے کی حالت انتہائی سنگین ہو تو نماز پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
۶۔بیمار کے لیے نماز میں رعایت
نماز میں قیام، رکوع، قومہ، سجود اور قعدہ؛ عام حالات میں یہ سب نماز کے لازمی اعمال میں سے ہیں۔ تاہم آدمی بیمار ہو اور قیام اُس کے لیے باعثِ مشقت ہو تو رسول اللہ ﷺ نے یہ رخصت دی ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنا بھی اُس کے لیے باعث زحمت ہو تو آپ نے مزید رعایت دی ہے کہ آدمی پہلو کے بل لیٹ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے(صحیح بخاری، 1117)۔
بیمار کو یہ رعایتیں بھی، ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کے رفع حرج اور آسانی دینے کے ضابطے ہی پر دی ہیں اور اِن میں بھی دیکھ لیجیے کہ صرف بیماری کی مشقت کی وجہ سے یہ گوارا کر لیا گیا ہے کہ آدمی نماز کے لازمی ارکان تک کو بے شک ترک کردے۔ اِس میں اُس کے لیے کو ئی حرج کی بات نہیں ہے۔
دقت نظر سے دیکھیے کہ بیمار شخص کو قیام سے رخصت دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قیام کے علاوہ اُس کو نماز کے دوسرے لازمی ارکان، یعنی رکوع اور قومہ کو بھی اصل مشروع صورت میں بجالانے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اِسی طرح مریض جب پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھے گا تو اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اُس کو قعدے اور سجود سے بھی رخصت دے دی گئی ہے۔ (جاری ہے)