کمرے میں ہماری آپس کی گفتگو اور گپ شپ چلتی رہتی تھی۔چٹکلے ،لطیفے ایک دوسرے پر چوٹیں،ایک دوسرے کے حال احوال وغیرہ ،سب چلتا رہتا اور ماحول انتہائی پرلطف اورپرکشش رہتا۔ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا،کبھی کوئی مذہبی یا سیاسی اختلاف پیدا نہ ہوا۔یہ بڑا عجیب اتفاق تھا کہ ہم سب ایک ہی ،مذہبی ، معاشی،سیاسی اور سماجی پس منظر کے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔اکثر گفتگو تو حاجی محمد یونس صاحب ہی کرتے رہتے اور ہم تینوں اُن کی باتوں سے محظوظ ہوتے رہتے تھے ۔ اسی طرح کے ماحول میں ،ایک رات کو شکیل بھائی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ،‘‘ ڈاکٹر صاحب !دوسرا عمرہ کرنا چاہتا ہوں،اِس کا کیا طریقہ ہے اور کیا مسئلہ ہے؟’’ میں نے کہا ، شکیل بھائی!اللہ کی توفیق سے حج پر آئے ہیں ،حج کر لیں ، پاکستان خیر خیریت سے واپس پہنچ جائیں ، تو وہاں سے ،جب بھی دِل چاہے اور جیب اجازت دے ،آکر دوسرا عمرہ کر لینا۔’’ میرے اِس جواب پر حاجی صاحب کھل کھلا کر ہنسے۔اکرم صاحب کہنے لگے ،‘‘نہیں نہیں ،آپ ،وہ، مسجد عائشہ والے عمرہ کے بارے میں بتائیں نا ،میں نے بھی کرنا ہے ۔ ’’شکیل صاحب کے سوال پر ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں، میں نے تو از راہ تفنن ،بعض سنجیدہ اہل علم کی ایک رائے کے مطابق وہ بات عرض کی تھی۔ اصل میں یہ ایک رواج اور رسم بن گئی ہے کہ عمرے پر آئے ہوئے لوگ مسجد عائشہ جا کر احرام باندھتے ہیں اورحرم واپس آکر عمرہ کرتے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک یہ چیز کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔جہاں تک میری رائے ہے ،میں اِس کا قائل ہوں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں،اللہ کریم سے ثواب کی توقع ہے ،ہاں البتہ میں خود ، اپنی صحت کی بنا پر ایسا نہیں کرنے جا رہا ۔ آپ یہ عمرہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو مسجد عائشہ جانا ہوگا ۔ہوٹل کے باہر سے ٹیکسی پکڑ لیں یا مسجد الحرام کے باب عمرہ کے سامنے والے بیرونی صحن کعبہ کے آخر میں بسوں کا اڈا ہے وہاں سے مسجد عائشہ کے لیے بسیں چلتی ہیں ،اُن کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں۔جہاں تک اِس عمرے کے پس منظر میں جو کہانی بیان کی جاتی ہے وہ عرض کیے دیتا ہوں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری حج کے لیے مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی طرف سفر کر رہے تھے تو راستے میں ،سرف کے مقام پرپڑاؤ کیا۔خیمے لگ گئے ،یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو وعظ و نصیحت فرمائی اور یہ اعلان بھی کیا کہ میں حج قرأن کا ارادہ رکھتا ہوں ،جو لوگ اپنی قربانیاں نہیں لائے وہ عمرے کے بعد اپنا احرام اُتار دیں گے اور پھر ۸۔تاریخ کو نیا احرام باندھیں گے۔اِس کے بعد،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تشریف لائے تو وہاں ،ام المؤ منین سیدہ عائشہ رضی للہ تعالیٰ عنہا کو روتے ہوئے پایا۔پوچھا ،کیا ہوا ؟ عرض کی کہ‘‘ مجھے تو حیض شروع ہو گیا ہے ، اب حج کیسے کروں گی۔اِس محرومی پر رونا آ رہا ہے۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دی اور ارشاد فرمایا،کہ، ‘‘آدم کی بیٹیوں کے ساتھ یہ تو لگا ہوا ہے ،یہ تو فطری بات ہے اِس میں کیا پریشانی،آپ حج کے سارے مناسک ادا کرسکتی ہو صرف مسجد نہیں جا سکتی۔’’قافلہ حج مکہ پہنچ گیا ،حج ادا ہوگیا ۔ منیٰ کے قیام کے دوران میں سیدہ عائشہ کے ایام حیض ختم ہوگئے تو انھوں نے طواف زیارت بھی کر لیا ۔قافلے کی واپسی کا اعلان ہوگیا،اب پھر سیدہ عا ئشہ رونے لگ گئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر عرض کی کہ سب قافلے والے حج کے ساتھ ساتھ عمرے کی سعادت سے بھی فیض یاب ہوئے ہیں اور میں عمرہ نہ کر سکی۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے،فرمایا کہ ،‘‘چلو ٹھیک ہے ،تم اپنے بھائی عبدالرحمان کے ساتھ ابھی جاؤ،تنعیم پہنچ کر احرام باندھو اور واپس مکہ پہنچ کر عمرہ کر لو،ہم یہاں سے کوچ کر کے وادی محصب میں تمھارا انتظار کریں گے۔’’اِس طرح سیدہ رات کو ہی ، اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تشریف لے گئیں۔تنعیم مکہ شریف کا ایک علاقہ ہے جو مدینہ جانے والی شاہراہ پر تھا ،آج بھی موجود ہے۔وہاں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے احرام باندھا اور واپس حر م تشریف لا کر اپنا عمرہ مکمل کیا اور پھر رات ہی کی رات میں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی محصب میں جا کر ملیں۔تنعیم میں ہی ،اُسی جگہ ،بعد کے کسی زمانے میں ،ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ،جسے مسجد عائشہ کہا جاتا ہے ۔
موجودہ سعودی حکومت نے بھی اِس مسجد کو ازسر ِ نو تعمیر کر کے ایک نہایت ہی شاندار مسجد بنا دیا ہے اور وہاں احرام باندھنے کے لیے لاتعداد غسل خانے اور وضو گاہیں بنا دی ہیں۔وہاں سے احرام باندھ کر نفلی عمرے کرنا ، اگر،ناجائز و ممنوع ہوتا تو سعودی حکومت وہاں ہر گز سہولیات مہیا نہ کرتی۔
(جاری ہے )