احمد اواہ : السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اقبال احمد : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ’
سوال : ابی نے مجھے بھیجا ہے ،کہ بٹلہ ہاؤس مسجد میں اقبال صاحب بیٹھے ہیں ان سے ارمغان کے لئے انٹرویولے لو ،آپ کے علم میں ہوگا کہ ہمارے یہاں پھلت سے ایک ماہنامہ ارمغان اردو میگزین نکلتا ہے ،اس میں اللہ کے فضل خاص سے ہدایت یاب لوگوں کے حالات زندگی اور آپ بیتیاں شائع ہوتی ہیں،اس کا مقصد دعوت کا کام کرنے والوں کے لئے حوصلہ افزائی اور تجربات حاصل کرنا ہے ،اس کے لئے آپ کو بھی زحمت دینی ہے؟
جواب : جی !حضرت صاحب ابھی مجھے فرما گئے تھے کہ احمد آرہے ہیں وہ آپ سے ارمغان کے لئے کچھ باتیں کریں گے ،میں بھی ارمغان پڑھوا کر سنتا ہوں ،دو مہینے سے صرف ارمغان پڑھنے کے لئے میں نے اردو پڑھنی شروع کی ہے کہ دوسرے کا محتاج کب تک رہوں گا،ایک سال تو انتظار کرتے گزر گیا شاید اللہ تعالیٰ کو مجھے اردو پڑھوانی تھی اس لئے ارمغان ہندی کے چھپنے میں دیر ہو رہی ہے۔
سوال :واقعی اللہ کی رحمت سے ہر فیصلہ ہوتا ہے ورنہ ارمغان ہندی کب سے شروع ہوجانا چاہئے تھا،خداکرے جلد اس کی سبیل بنے ،بہت تقاضا اس کا ہو رہا ہے ،اب مسلمانوں میں بھی اردو کا رواج بہت کم ہو گیا ہے ؟
جواب :احمد بھائی !میرا خیال یہ ہے کہ اب ہندوؤں میں اردو پڑھنے کا شوق بڑھ رہا ہے ہمارے علاقہ میں دسیوں ہندو بڑے شوق سے شاعری کر رہے ہیں ،حضرت فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اسلام کے لئے راستے ہموار کر رہے ہیں۔
سوال :بلا شبہ ایسا ہی ہے ۔آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟
جواب : میں ہر یانہ کے ایک یادؤ خاندان میں ۲۵؍مارچ ۱۹۷۵ء میں پیدا ہوا ،ہائی اسکول کرنے کے بعد کرکٹ کا شوق بڑھا ،ضلع کی ٹیم میں پھر اسٹیٹ کی ٹیم میں سلیکشن ہوا ، نیشنل ٹورنامنٹ کھیلے رنجی ٹرافی میں ہریانہ کی طرف سے ریکارڈ رن بنائے ۔ بارہویں کلاس کرتے ہی کام لگ گیا ،کھیل کی وجہ سے مجھے ریلوے میں ملازمت مل گئی ،ابھی بھی ریلوے میں ملازمت کرتا ہوں اور ریلوے ٹیم کی طرف سے کھیلتا ہوں ،کئی مرتبہ نیشنل ٹیم میں سلیکشن ہونا طے ہوا،مگر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہو گیا ،میرے والد سرکاری اسکول میں پرنسپل ہیں ،میرا ایک چھوٹا بھائی ہے جو ڈاکٹر ہے خاندان کے لوگ پہلے سے زمیندار ہیں۔
سوال :آپ کرکٹ میں باؤلر ہیں یا بیٹسمین ؟
جواب :میں یوں تو آل راؤنڈر ہوں ،میں نے رنز کے ریکارڈبنائے ہیں ،رنجی ٹرافی کے ایک ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ کیچ لینے کا ریکارڈ میرے نام ابھی تک ہے ،میں اچھی بالنگ بھی کر لیتا ہوں،مگر اصلاً میرا شوق بیٹنگ ہے۔
سوال :اپنے قبول اسلام کی کہانی سنائیں
جواب :اردو کا ایک شعر ہے
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کوجا ئیں اور پیمبری مل جائے
میرے ساتھ اللہ کی طرف سے ہدایت کا بس یہی معاملہ ہے ،ہوا یہ کہ ۲۰۰۴ ء میں ہم چندی گڑھ میں ایک ٹورنامنٹ کھیلنے کے لئے گئے تھے،میرے ساتھ ریلوے ٹیم میں ایک گرمیت سنگ بھی کھیلتے تھے،ان کے والد پرم جیت سنگ جی ریلوے میں افسر تھے۔ گرمیت سنگ سے میری دوستی تھی،اس کی خواہش پر میرا قیام اس کے گھر رہا ،دو ہفتے ان کے یہاں گھر کی طرح رہا ،پرم جیت کی ایک چھوٹی بہن ہے ،بے پردہ ساتھ رہنے کی خرابی رنگ لائی۔پندرہ دن میں ہم دونوں ایک دوسرے کے اس قدر قریب آئے کہ ایک دوسرے کے لئے بالکل پاگل سے ہو گئے ،اس ٹورنامنٹ میں میری کار کردگی بھی بالکل صفر رہی ،میرا دل کہیں لگتاہی نہیں تھا ،ہم دونوں نے شادی کا پروگرام بنایا اور دونوں نے ایک دوسرے سے عہد کیا کہ اگر ہمارے گھر والے ہماری شادی نہیں کریں گے تو ہم خود کشی کر لیں گے نہ آشا کور کے گھر والے اور نہ میرے گھر والے اس کے لئے تیار ہونے والے تھے دونوں کا گھر پرانی روایات کا حامل تھا،آشا سے زیادہ میرے گھر والے تو بہت ہی روایات کے ماننے والے تھے ۔چندی گڑھ سے واپسی کے بعد بھی مجھے آشا کے علاوہ کچھ سوجھتا نہ تھا ، بالکل مجنوں سا ہو گیا تھا۔میرے گھر والے اور آشا کے گھر والے ہم دونوں سے پریشان تھے،بہت سے سیانوں کے پاس توڑکر انے دونوں گھر والے گئے کچھ تعویذ کرنے والے مولویوں کے پاس بھی گئے۔ میرے چچا کاندھلہ حضرت جی سے بھی تعویذ لائے مجھے اور آشا کو معلوم ہوا تو ہم بہت فکر مند ہوئے ،کہیں تعویذوں سے ہمارا دل ہٹا نہ دیا جائے ،اس کے لئے آشا کے مشورہ سے میں نے بھی سیانوں اور جیوتشوں سے رابطہ کیا ، کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ مولویوں سے ملنا چاہئے۔ سائیں عبداللہ پہاڑوں میں رہتے ہیں ان کے پاس بھی گئے ۔بوڑیہ کے پیر جی کے پاس بھی گیا،سہارن پور بھی پیر صاحب کے پاس گیا۔ کسی نے مجھے پھلت کا پتہ بتایا ،پھلت میں ایک حضرت جی اس کے لئے مشہور ہیں وہاں گیا انھوں نے مجھے تعویذ دے دیئے۔ ایک صاحب جو مجھے پھلت لے کر گئے تھے،انھوں نے مجھے بتایا کہ یہاں پر ایک اور حضرت ہیں ،وہ تعویذ وغیرہ نہیں کرتے مگر دعاکرتے ہیں چلو ان سے بھی مل لو،وہاں گئے معلوم ہوا،حضرت صاحب سفر پر گئے ہیں۔ وہاں ایک جو ان مولوی صاحب ملے ،دبلے پتلے ،مولوی عمر ان کا نام ہے،حضرت صاحب ان کے نانا لگتے ہیں ،انھوں نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب تو ابھی ایک ہفتہ کے بعد آئیں گے ہمارے حضرت ہر آنے والے کو خود مالک سے مانگنے کا طریقہ بتاتے ہیں اس کے لئے ایک جاپ بھی بتاتے ہیں ،صبح سویرے نہانے کے بعد یہ سوچ کر کہ اپنے مالک کو یاد کر رہا ہوں سو بار یا ہادی اور سو بار یا رحیم پڑھ لیا کریں۔ رحیم اور ہادی کا ترجمہ بھی مجھے ہندی میں بتایا ،انھوں نے کہا اس کے بعد سیدھے اپنے مالک سے اپنی پریشانی کہئے ،ساتھ میں حضرت صاحب کی ایک کتاب بھی دی جس کا نام ‘‘آپ کی امانت ،آپ کی سیوا میں ’’ہے۔ میں نے کتاب گاڑی میں رکھ دی ،صبح سویرے اٹھ کر اشنان کیا اور سو بار یا ہادی اور سو بار یا رحیم پڑھا، مجھے بہت ہی شانتی (سکون )ملی ۔میں نے شام کو بھی پڑھا ،جو بے چینی اور جنون بلکہ بالکل پاگل سا ہو رہا تھا اس کا اثر کم ہوا،ایک ہفتہ کے بعد مجھے مالک سے عجیب سا تعلق ہونے لگا، مجھے خیال ہوا کہ جب ان کے بتائے ہوئے جاپ سے ایسی شانتی مل رہی ہے تو حضرت صاحب کی کتاب پڑھنی چاہئے ،شاید اس میں اور بھی جاپ لکھا ہو۔میں نے آپ کی امانت پڑھی ،ایک دفعہ پڑھ کر دوبارہ پڑھی ،چھوٹی سی اس کتاب نے میری سوچ اسلام کے بارے میں بدل دی ۔اب مجھے مکتی اور شانتی کے لئے اسلام میں ایک راہ دکھائی دیتی تھی ۔مولانا عمر صاحب کو فون کیا ،مجھے اسلام پر اور کتابیں بتایئے ،انھوں نے ‘‘اسلام کیا ہے؟’’اور ‘‘مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ـ’’بتائی ،میں نے دہلی سے وہ کتاب منگوائی اس کے بعد میں نے قرآن مجید پڑھنا ضروری سمجھا اور قرآن مجید پڑھنے لگا۔اس دوران ایک ٹورنامنٹ کھیلنے جے پور گیا،ایک روز ہم لوگ جے پور دیکھنے نکلے ،بازار سے شاپنگ کرنی تھی ایک تبلیغی جماعت ایک مسجد سے دوسری مسجد کی طرف جارہی تھی ،میرا دل چاہا ان سے ملوں ،میں نے گاڑی روکی ،اور جیسے ہی مسجد کے اندر وہ داخل ہوئے میں بھی ساتھیوں سے ذرا دیر ٹھہر نے کو کہہ کر مسجد میں داخل ہو گیا ۔میں نے ان لوگوں سے کہا میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں ،انھوں نے مجھے امیر صاحب سے ملوایا ،امیر صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ آپ نماز کیوں پڑھنا چاہتے ہیں ،میں نے کہا میں نے اسلام کو پڑھا ہے ،اور میں اسلام کو مکتی اور شانتی کا واحد راستہ سمجھتا ہوں ،اس لئے چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ اسلام کو فالو کروں ،انھوں نے اپنے بیگ سے ‘‘آپ کی امانت ’’نکالی اور مجھے دینی چاہی میں نے کہا ،میں نے یہ کتاب تین بار پڑھی ہے اور اس کے لکھنے والے حضرت صاحب کے گاؤں میں بھی گیا ہوں ضلع مظفر نگر میں پھلت ایک جگہ ہے ،امیر صاحب نے مجھ سے کہا آپ مولانا صاحب سے نہیں ملے ،میں نے کہا وہ وہاں نہیں تھے،انھوں نے پوچھا آپ نے کلمہ پڑھ لیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں ابھی میں نے کلمہ نہیں پڑھا ہے ،پھلت میں مولانا عمر صاحب نے مجھے کلمہ پڑھنے کو کہا تھا مگر میں نے کتاب پڑھ کر بعد میں پڑھنے کو کہہ دیا تھامیں نے امیر صاحب سے کہا،آپ مولانا کلیم کو جانتے ہیں انھوں نے کہا میں مولانا کا مرید ہوں ۔ میوات کا رہنے والا ہوں اور ہماری جماعت میں چارلوگ ہیں جو چند روز پہلے ہی مسلمان ہوئے ہیں۔ان میں ایک مندر کے بڑے پجاری بھی ہیں،جنھوں نے چند روز پہلے اپنے بال وغیرہ کٹائے ہیں ،ان چاروں سے امیر صاحب نے مجھے ملوایا ،پھر مجھ سے کلمہ پڑھنے کے لئے کہا تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں تیار ہو گیا ،انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور فون پر حضرت صاحب سے میری بات کروائی، اللہ کا شکر ہے فون پر بات ہو گئی ،امیر صاحب نے حضرت سے کہہ کر مجھے کلمہ دوبارہ پڑھوا یا اور مجھے جماعت میں وقت لگانے کا مشورہ دیا۔ ٹورنامنٹ ختم ہو گیا تھا،میں نے وہیں سے ڈاک سے چھٹی کی درخواست لگائی اور اسی جماعت کے ساتھ ۳۵؍روز لگائے ،پانچ دن ان کے ہو گئے تھے،امیر صاحب نے اپنے ساتھیوں کی تشکیل کی کہ بھائی اقبال کے پانچ دن کم رہ گئے ہیں ہم لوگ ان کا چلہ پورا کروادیں اور پانچ پانچ دن اور بڑھا دیں ،تین لوگوں کو ضروری کام تھا ،وہ چلے گئے باقی لوگوں نے میرا چلہ پورا ہونے تک میرے ساتھ وقت لگایا۔
سوال :جماعت سے آکر آپ نے گھر والوں سے یہ سب بتا دیا؟
جواب :گھر آکر میں نے گھر والوں کو بتا دیا ،گھر میں وبال آنا طے تھا،گھر والے بہت بر ہم ہوئے اور سب کو خیال ہوا کہ یہ سب آشا سے شادی کرنے کا ڈھونگ ہے ۔گھر والے میرے ساتھ بہت برا سلوک کرنے لگے ،مجھے گھر چھوڑنا پڑا ،گھر چھوڑ کر میں پھلت پہنچا ، حضرت صاحب سے پھلت میں پہنچنے کے چوتھے روز ملاقات ہوئی ،حضرت صاحب نے مجھے گھر جاکر رہنے کا مشورہ دیا اور خاموشی سے گھر والوں پر کام کرنے کو کہا۔میرے چھوٹے بھائی جو ڈاکٹر ہیں ،کافی کوشش کے بعد پھلت حضرت سے ملنے کے لئے تیار ہو گئے ،میں ان کو لے کر پھلت گیا ،حضرت نے مولوی عمر صاحب کو بلا کر ہم سے ملنے اور بات کرنے کے لئے کہا ،الحمد للہ انھوں نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ،میرے کہنے پر حضرت نے دو بارہ کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام محمد افضل رکھا۔
بھائی کے مسلمان ہو جانے کے بعد میرے لئے گھر کا ماحول کافی سازگار ہو گیا ۔ جب حضرت نے مجھے گھر جانے کے لئے کہا تھا تو مجھے عجیب سا لگ رہا تھا،بلکہ مجھے یہ لگ رہا تھا کہ یہ لوگ مجھے قبول نہ کر کے سمجھ بوجھ کر واپس کر رہے ہیں ،اندر دل میں عجیب غلط سا گمان ہو رہا تھا ،مگر بھائی کے مسلمان ہونے کے بعد مجھے لگا کہ انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے ۔یہ اللہ کا کرم تھا کہ میں نے ناگوارہوتے ہوئے بھی فیصلہ مان کر گھر جانا گوارہ کیا ،حالانکہ میں گھر سے کہہ کر آیا تھا کہ میں گھر والوں کو صورت نہ دکھاؤں گا۔میرے بھائی ڈاکٹر نے مجھے بہت طعنہ بھی دیا تھا کہ آشا نے اور مسلمانوں نے ٹھکانے لگا دیا ،سمجھ میں آ گیا کہ گھر والے گھر والے ہی ہوتے ہیں،میں نے جھینپ مٹانے کے لئے کہا کہ گھر والوں کی یاد نے رہنے نہیں دیا خاص طور پر بھیّا تیرے بغیر تو میرے لئے رہنا بہت کٹھن ہے۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟باقی گھر والوں کا کیا حال ہے؟
جواب :میرے بھائی ڈاکٹر افضل نے بھی چلہ لگا لیا ہے ،الحمد للہ ہماری کوشش سے ماں بھی مسلمان ہو گئی ہیں ،ابھی میں نے سرکاری طور پر ملازمت میں نام وغیرہ نہیں بدلا ہے ، ہاں اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں ،ڈیوٹی پر ہوتا ہوں تو بھی نماز پڑھتا ہوں ۔
سوال :آشا کور کا کیا ہوا؟
جواب : میں جیسے جیسے اسلام کو پڑھتا گیا میرا عشق ٹھنڈا ہوتا گیا،اس نے بھی چند دنوں تک تو فون کیا مگر بعد میں اس نے بھی رابطہ ختم کر دیا ،دو مہینے پہلے معلوم ہو اہے کہ اس کی شادی ہو گئی ہے ۔
سوال :آپ کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ جس کی وجہ سے آپ مسلمان ہوئے اس کے ایمان کی آپ کو فکر کرنی چاہئے ؟
جواب :شروع شروع میں مجھے خیال آتا تھا،مگر حضرت نے اس کا پتہ لے کر کہا،آپ اس کی فکر چھوڑ دیجئے ،ہمارے ساتھی چندی گڑھ میں ہیں جو خود اس کو دعوت دینے کی فکر کریں گے ،میں نے حضرت کے حکم کے بعد اس کی فکر چھوڑ دی۔
سوال :ارمغان کے قارئین کے لئے آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب :دنیا کے سارے نقشے دھو کے کے ہیں ،دل لگانے کے لائق بس ایک ذات وہ ہے جو سارے حسینوں کے حسن کی خالق ہے اور جس سے دل لگانے کے بعد ہر بے چینی چین میں بدل جاتی ہے ،یہ میرا خود اپنے لئے اورسارے انسانوں کے لئے پیغام ہے
سوال :بہت بہت شکریہ،السلام علیکم رحمۃ اللہ
جواب :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،آپ کا بہت بہت شکریہ۔
٭٭٭