اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو جو شریعت انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے دی گئی ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ ایسا کوئی حکم کبھی نہیں دیتے جو انسان کے تحمل سے باہر اور اُس کی برداشت اور استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ ایمان اور عمل صالح کی جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ڈالتا ہے، وہ اُسی حد تک ہے، جس حد تک اُن کے امکان میں ہے۔ یہ ذمہ داری اُن کی حد وسع سے زیادہ نہیں ہوا کرتی۔شریعت خداوندی کے تمام احکام میں یہ معیار ہمیشہ سے قائم ہے کہ لوگوں کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ اُن پر نہ ڈالا جائے اور جو حکم بھی دیا جائے، انسان کی فطرت اور اُس کی صلاحیتوں کے مطابق دیا جائے۔
اِس باب میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت سورہ بقرۃ میں اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ: ''لَا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا'' ‘‘اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا’’(البقرۃ: 286)۔
سورہ انعام، اعراف اور المومنون میں اپنا یہی ضابطہ اللہ تعالیٰ نے اِس اسلوب میں بیان فرمایا ہے کہ ''لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَاَ'' ‘‘ہم کسی جان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے’’ (الانعام: ۲۵۱، الاعراف: ۲۴، المومنون: ۲۶)۔قرآن مجید سے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے احکام ومطالبات کی انجام دہی میں مسلمانوں کے لیے کسی قسم کی کوئی تنگی اور مشقت نہیں رکھی ۔ بلکہ اِس کے برعکس ہم یہ جانتے ہیں کہ شریعت کے احکام وآداب اور دینی شعائر کی بجا آوری میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رعایت اور رخصت دینے، آسانی پیدا کرنے اور تنگی کو اُٹھا دینے کا قاعدہ اپنایا ہے۔سورہ حج میں ایک مقام پر خدا کی بندگی کے بنیادی تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اپنی شریعت میں رفع حرج کا یہ اصول اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ: ''وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ''۔ ‘‘اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔تمھارے باپ-ابراہیم- کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے’’ ۔ (الحج: 78)
اسلامی شریعت نے رفع حرج کا اِس قدر لحاظ رکھا ہے کہ سورہ نساء کی آیت (۸۲) میں اللہ تعالیٰ نے اُن پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،جو علما کی فقہی موشگافیوں کے باعث لوگوں پر لگ چکی تھیں، ارشاد فرمایا ہے کہ''یُرِیدُ اللَّہُ أَن یُخَفِّفَ عَنکُمْ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِیفًا''۔‘‘اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے، (اِس لیے کہ تمھاری کمزوریوں کی رعایت کرے) اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی کمزور پیدا کیا گیا ہے’’۔
اِسی طرح رمضان کے روزوں سے متعلق ایک رخصت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بطور اصول فرمایا ہے کہ ''یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ''۔ ‘‘(یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے’’(البقرۃ: 185)۔
وضو اور غسل کے حوالے سے ایک رخصت دینے کے متصل بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''مَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ''۔ ‘‘اللہ تم پرکوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا’’ (المائدۃ: 6)۔
شریعت اسلامی میں رفع حرج اور رعایت دینے کا یہ مقدمہ جس صراحت کے ساتھ قرآن مجید مین بیان ہوا ہے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کی تعلیمات میں بھی اللہ تعالیٰ کے اِسی ضابطے کے شواہد جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔آپ کے علم وعمل کی روایتوں میں دین میں آسانی اور رخصت دینے اور مشقت اور تنگی کی نفی کرنے پر مبنی جو اصولی رہنمائی ہمیں ملتی ہے وہ درج ذیل احادیث میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوگئی ہے:
ا۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قِیلَ لِرَسُولِ اللَّہِ ﷺ: أَیُّ الْأَدْیَانِ أَحَبُّ إِلَی اللَّہِ؟ قَالَ: -ABالْحَنِیفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ-BB۔ ‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: جو سب سے یکسو ہو کر صرف اللہ کے لیے ہو اور جس میں سہولت ہو’’(مسند احمد، رقم 2107)۔
یہ اسلام کی تعریف ہے، جس طرح کہ خدا کے پیغمبروں نے اُسے پیش کیا ہے۔چنانچہ قرآن سے اُس کی جو صورت سامنے آتی ہے، اُس میں زمین وآسمان کے پروردگار کے لیے وہی یک سوئی اور عمل کے لحاظ سے وہی سہولت ہے جس کا ذکر اِس روایت میں ہوا ہے۔
2۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ایک دوسرے موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا: ‘-ABإِنَّ دِینَ اللَّہِ الْحَنِیفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ-BB’۔‘‘اللہ کا دین وہ ہے جس میں صرف اللہ کے لیے یک سوئی ہوتی ہے اور جس میں سہولت اور آسانی ہے’’(المعجم الاوسط، طبرانی، رقم 794)۔
۳۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ: -ABإِنَّ ہَذَا الدِّینَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدِّینَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَیَسِّرُوا، وَاسْتَعِینُوا بِالْغَدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ، وَشَیْءٍ مِنَ الدَّلْجَۃِ-BB۔‘‘ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِس میں شبہ نہیں کہ دین آسان ہے، اِس میں شدت اختیار کر کے جو شخص بھی اِسے پچھاڑنے کی کوشش کرے گا، یہ اُس کو عاجز کردے گا۔ سو راہ راست کی رہنمائی کرو اور میانہ روی اختیار کرو اور لوگوں کو بشارت دواور اُن کے لیے آسانی پیدا کرو اور صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ سے مدد مانگتے رہو’’(السنن الصغری، نسائی، رقم 5034)۔
۴۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ قَالَ: -ABیَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَسَکِّنُوا وَلَا تُنَفِّرُوا-BB۔‘‘انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالواور اُنھیں اطمینان دلاؤ، اُن کو بھگاؤ نہیں’ ’ (مسند طیالسی، رقم 2199)۔
مطلب یہ ہے کہ اُن کے سامنے دین کو اِس طرح مشکل بنا کر پیش نہ کرو کہ وہ اُس سے گریز وفرار کے راستے تلاش کرنے لگیں ۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ ایک ہی چیز بعض اعتبار سے سہل اور بعض اعتبار سے مشکل ہوتی ہے چنانچہ دعوت کی ابتدا میں اگر اُس کے وہی پہلو نمایاں کیے جائیں جو بیگانہ سے بے گانہ لوگوں کے لیے بھی اپنے اندر دل آویزی کا بہت کچھ سامان رکھتے ہیں تو بعد میں توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے طبائع سے بظاہر ناموافق چیزوں کو بھی بتدریج قبول کرلیں گے۔
۵۔عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِہِ فِی بَعْضِ أَمْرِہِ قَالَ: -ABبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَیَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا-BB۔‘‘ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کسی کام کے حوالے سے کہیں بھیجتے تو فرماتے تھے: تم لوگوں کو خوش خبری دو، اُنھیں بھگاؤ نہیں اور اُن کے لیے آسانی پیدا کرو، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالو’’(صحیح مسلم، رقم 1732)۔
۶۔ عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَعَثَہُ وَمُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ، فَقَالَ ]لَہُمَا[: ]-ABانْطَلِقَا فَادْعُوَا النَّاسَ إِلَی الْإِسْلَامِ،[ یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا-BB۔‘‘ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو دونوں سے کہا: تم لوگ جاؤ اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دو اور (یاد رکھو، اپنی اِس دعوت میں) اُن کے لیے آسانی پیدا کرنا، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالنا اور اُنھیں بشارت دینا، اُن کو بھگانا نہیں اور ایک دوسرے کی بات ماننا، آپس میں اختلاف نہ کرنا’’(صحیح مسلم، رقم 1733 ۔ مسند احمد، رقم19742۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم6561)۔
اِس سے مراد وہ اختلاف ہے جو ضدم ضدا کی صورت اختیار کر لیاور جس کے نتیجے میں لوگ اجتماعی معاملات کو بھی حق وباطل کا مسئلہ بنا کر کسی نظم کے تحت کام کرنے سے انکار کردیں۔اِس طرح کی صورت حال پیدا ہوجائے تو تجربہ یہی ہے کہ تمام کوششیں پھر ایک دوسرے کی نفی ہی میں صرف ہونے لگتی ہیں اور لوگ جس مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، وہ بالکل پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
۷۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: -ABإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِینَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِینَ-BB۔ ‘‘تم آسانی پیدا کرنے کے لیے اُٹھائے گئے ہو، لوگوں کو مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں اُٹھائے گئے’’۔(مسند حمیدی، رقم 967)۔
۸۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: -ABعَلِّمُوا، وَیَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا-BB۔ ‘‘لوگوں کو سکھاؤ اور اُن کے لیے آسانی پیدا کرو، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالو’’(مسند شافعی، رقم 22)۔
9۔عَنْ مِحْجَنِ بْنِ الْأَدْرَعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ -AB]إِنَّ[خَیْرَ دِینِکُمْ أَیْسَرُہُ-BB قَالَہَا ثَلَاثًا۔ ‘‘مِحجَن بن اَدرَع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارا بہترین دین وہی ہے جو آسان تر ہو۔آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی’’(مسند طیالسی، رقم 1392 ۔ مسند احمد، رقم 20349)۔
دین سے مراد یہاں دینی رویہ ہے جو کوئی شخص دین کو سمجھ کر اُس پر عمل کے لیے اختیار کرتا ہے۔
10۔وَعَنْہُ فِی رِوَایَۃٍ قَالَ: -ABإِنَّ اللہَ تَعَالَی رَضِیَ لِہَذِہِ الْأُمَّۃِ الْیُسْرَ، وَکَرِہَ لَہَا الْعُسْرَ-BB قَالَہَا ثَلَاثًا۔‘‘اِنھی مِحجَن بن اَدرَع سے مروی ہے کہ آپ نے اِس موقع پر فرمایا: اللہ نے اِس اُمت کے لیے آسانی کو پسند فرمایا اور مشکل کو نا پسند کیا ہے۔آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی’’(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم707)۔
11۔جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدہ عائشہ سے فرمایا: -ABإِنَّ اللَّہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّفًا، وَلَکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّرًا... -BB۔‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں فرمایا ہے، بلکہ مجھے سکھانے والا اور آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے’’(مسنداحمد، رقم 14515) ۔اِسی روایت کے ایک طریق میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ -ABإِنَّ اللہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّتًا، وَلَا مُتَعَنِّتًا، وَلَکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّرًا-BB۔‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے’’ (صحیح مسلم، رقم 1478)۔
12۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: -ABمَا خُیِّرَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ بَیْنَ أَمْرَیْنِ، أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا مَا لَمْ یَکُنْ إِثْمًا... -BB۔ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی ایسے دو کاموں میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا جن میں سے ایک دوسرے کی نسبت آسان ہوتا تو آپ اُن میں سے آسان تر کاانتخاب فرماتے، جب کہ تک
اُس میں گناہ کی کوئی بات نہ ہو’’ (مسنداحمد، رقم 25288)۔
احکامِ شریعت میں تیسیر اور رفع حرج کے اِس اصول پر قائم رخصت اور تخفیف کے بہت سے احکام ہیں جو قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایتوں میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔ ذیل میں ہم اِن احکام کی چند مثالیں پیش کریں گے، جن میں اللہ اور اُس کے رسول نے رخصت اور رفع حرج کا مذکورہ بالا اصول اپنی شریعت کے بہت سے احکام میں پوری طرح منطبق کر کے واضح فرمادیا ہے۔
رمضان کے روزوں میں رخصت
سورہ بقرہ میں مسلمانوں پر رمضان کے پورے مہینے کے روزوں کی بیانِ فرضیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے اِس حکم کے ضمن میں ایک آسانی اور رخصت بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر یا بیماری (یعنی کسی مشقت) کی وجہ سے آدمی کے لیے روزہ رکھنا تکلیف کا باعث بن جائے تو ایسی صورت میں وہ رمضان کا فرض روزہ بھی چھوڑ سکتا ہے، اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تاہم چھوٹے ہوئے روزوں کو بعد میں رکھ کر اُسے اِس مہینے کے روزوں کی گنتی پوری کرنا ہوگی (البقرۃ: 183 - 184)۔ پھراِس بیانِ رخصت کے متصل بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں موجود تیسیر کا ضابطہ بھی بیان فرمادیا ہے کہ: ‘‘ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ’’۔‘(یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے’ (البقرۃ: 185)۔
یہ تیسیر اور رفع حرج کے اصول کی رعایت سے شریعت کی ایک فرض عبادت کی ادائیگی کو ایک عام مشقت کی وجہ سے موخر کردینے کی صریح مثال ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے احکام کی بجا آوری میں مسلمانوں کے لیے کوئی سختی نہیں رکھی گئی ہے۔
بیماروں اور معذوروں کے لیے جہاد سے رخصت
مشقت اور عذر کی بنا پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دین کے لازمی مطالبات سے بھی بالکل مستثنیٰ کردیتے ہیں اِس کی ایک مثال قرآنی شریعت میں رسول ﷺ کی معیت میں قتال فی سبیل اللہ کے باب میں دیکھ لی جاسکتی ہے بعض موقعوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی معیت میں جہاد کے لیے مسلمانوں سے اپنے جان ومال پیش کرنے کا مطالبہ رکھا تو اُن موقعوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی رفع حرج کا اپنا ضابطہ بیان فرما کرحقیقی معذورین کے لیے آسانی پیدا فرمائی اور اُن کو اِس لازمی مطالبے سے رخصت دے کر واضح فرمادیا کہ ایسے کمزور، مریض اور تنگ حال مسلمان جو جہاد کے لیے تو بے قرار ہیں، لیکن اِس راہ میں خرچ کرنے کے لیے اُن کے پاس کچھ ہے، نہ وہ زاد راہ اور اپنی سواری کا بندوبست کرنے پر قادر ہیں۔ ایسے معذور مسلمان جہاد میں شامل نہ ہو سکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، بشرطیکہ یہ اللہ کے دین اور اُس کے رسول کے خیرخواہ رہیں۔ ارشاد فرمایا کہ: ‘‘لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَی الْمَرْضَی وَلَا عَلَی الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ مَا یُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّہِ وَرَسُولِہِ مَا عَلَی الْمُحْسِنِینَ مِنْ سَبِیلٍ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ. وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوا وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ’’۔‘اُن لوگوں پر، البتہ کوئی گناہ نہیں جو کمزور ہیں اور اُن پر جو بیمار ہیں اور اُن پر بھی جو خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتے، جب کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں۔ ایسے نیکو کاروں پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اِسی طرح اُن پر بھی کوئی الزام نہیں ہے کہ جب تمھارے پاس آتے ہیں کہ اُن کے لیے سواری کا بندوبست کر دو، تم کہتے ہو کہ میں تمھارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کرسکتا تو اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی آنکھوں سے اِس غم میں آنسو بہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے خرچ پر جانے کی مقدرت نہیں رکھتے’(التوبۃ: 91- ۲۹
جہاد کے باب میں معذورین کے لیے اِسی طرح کا استثنا اور رفع حرج سورہ فتح میں بھی دیکھ لیا جا سکتا ہے، ارشاد فرمایا ہے کہ: ‘‘لَیْسَ عَلَی الْأَعْمَی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْمَرِیضِ حَرَجٌ وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَنْ یَتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا أَلِیمًا’’ ‘(اِس جہاد سے صرف معذورین مستثنیٰ ہوں گے، اِس لیے کہ) اندھے پر کوئی گناہ نہیں، (اگر وہ جہاد کے لیے نہ نکلے۔ اِسی طرح) لنگڑے پر بھی گناہ نہیں اور نہ مریض پر کوئی گناہ ہے، (اگر وہ اطاعت پر قائم ہوں)۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر قائم رہے گا، اللہ اُس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو رو گردانی کرے گا، اُسے وہ دردناک عذاب کی سزا دے گا’(الفتح: ۶۱-۷۱)۔
رخصت کے اِس حکم میں دیکھ لیجیے کہ معذور اور بیمار لوگوں کواللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کے ایک لازمی مطالبے سے مستثنیٰ قرار دے کر بالکلیہ رخصت عنایت فرمادی ہے۔
حج وعمرہ میں رفع حرج اور رخصتیں
۱۔حج یا عمرہ کرنے والے کے لیے حالتِ احرام کی ممنوعات میں سے ایک ممانعت خشکی کے جانوروں کا شکار ہے۔تاہم مُحرم کے لیے دریائی جانوروں کا شکار کرنا اللہ تعالیٰ نے جائز رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ:‘‘أُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعًا لَکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ’’۔ ‘تمھارے لیے دریا کا شکار اور اُس کا کھانا جائز ہے، تمھارے اور تمھارے قافلوں کے زادراہ کے لیے۔ جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، خشکی کا شکار، البتہ تم پر حرام کیا گیا ہے۔ (اِس کے قریب نہ جاؤ) اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں تم سب حاضر کیے جاؤ گے’(المائدہ: ۶۹)۔
غور کیجیے تو یہ رخصت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رفع حرج ہی کی اساس پر دی ہے ۔ اِس لیے کہ خشکی کے سفر میں اگر زاد راہ تھڑ جائے تو اُسے کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن دریا ئی سفر میں اِس طرح کے موقعوں پر شکار کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔ یعنی اسلامی شریعت میں محظورات احرام میں بھی یہ چیز ملحوظ رکھی گئی ہے کہ کوئی پابندی لوگوں کے لیے تنگی کا باعث کا نہ ہو۔
۲۔ قرآن مجید نے ہمیں بتایا ہے کہ حج یا عمرہ کے لیے سفر کرنے والے اگر کسی جگہ گھِر جائیں اوراُن کے لیے بیت الحرام تک جانا ممکن نہ رہے تو اِس طرح کی صورت حال میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کوئی تنگی نہیں رکھی، بلکہ آسانی اور سہولت پر مبنی یہ حکم دیا ہے کہ وہ اونٹ، گائے، بکری میں سے جو جانور میسر ہو، اُسے قربانی کے لیے بھیج دیں یا بھیجنا ممکن نہ ہو تو اُسی جگہ قربانی کر دیں اورسرمنڈوا کر احرام کھول دیں۔یعنی اِس صورت میں صرف قربانی کرنا ضروری ہو گا اور مجبوری کی اِس حالت میں یہ حج و عمرہ کے تمام مناسک کی قائم مقام ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا کہ:‘‘وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلَّہِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُ وسَکُمْ حَتَّیٰ یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہُ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیضًا أَوْ بِہِ أَذًی مِّن رَّأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِّن صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ’’۔‘اور حج وعمرہ (کی راہ اگر تمھارے لیے کھول دی جائے تو اُن کے تمام مناسک کے ساتھ اُن) کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو۔ پھر اگر راستے میں گھر جاؤ تو ہدیے کی جو قربانی بھی میسر ہو، اُسے پیش کردو، اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو، جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے، پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو ( اور وہ قربانی سے پہلے ہی سر منڈانے پر مجبور ہو جائے) تو اُسے چاہیے کہ روزوں یا صدقے یا قربانی کی صورت میں اُس کا فدیہ دے’(البقرہ ۲: ۱۹۶)۔ چنانچہ یہ معلوم ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اِسی طرح کی صورت حال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کیا تھا(بخاری، رقم ۱۸۱۱، ۱۸۱۲)۔
اِس مثال میں دیکھ لیجیے کہ لوگوں کے لیے حج یا عمرہ میں اِس طرح کی مشکل پیش آجانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے رعایت کا ایک آسان حکم بجا لانے پر بقیہ تمام مناسک حج وعمرہ کی ادائیگی سے رخصت دے دی ہے۔
۳۔مذکورہ بالا آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی عائد کی کہ گھِر جانے والے اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈیں، جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے تو دقت نظر سے دیکھیے کہ اِس مقام پر بھی بیماروں اور سر کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے قرآن مجید نے رفع حرج اور رخصت ہی کا حکم بیان کیا ہے کہ وہ اپنے عذر اور تکلیف کی وجہ سے قربانی سے پہلے بھی سر منڈاسکتے ہیں۔ اُن کے لیے اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ تاہم روزوں یا صدقے یا قربا نی کی صورت میں اُن کو اِس کا فدیہ دینا ہوگا۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس فدیے کے متعلق تفصیل پوچھی گئی توآپ نے فرمایا: تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلادیا جائے یا ایک بکری ذبح کردی جائے توکافی ہو جائے گا(بخاری، رقم ۱۸۱۴۔ مسلم، رقم ۲۸۷۷)۔
غور کیجیے کہ مریض کو اِس مشکل سے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک فدیے کے بدلے میں نکال کر اُس کے لیے آسانی کی راہ پیدا فرمائی ہے۔
۴۔مناسک حج میں تیسیر کے اُصول پر آسان متبادل حکم کی صورت میں رعایت دینے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ حج اور عمرہ کے لیے الگ الگ سفر کرنے کے بجائے باہر سے آنے والا کوئی شخص حج کے سفر میں عمرے کی ادائیگی کا فائدہ بھی اُٹھالے تو اِس کی اجازت ہے۔لیکن ایسے حاجی پراللہ تعالیٰ نے ایک فدیہ عائد کیا ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ متمتع پر اونٹ، گائے اور بکری میں سے جو جانور بھی میسر ہو،اُس کی قربانی کرنا لازم ہوگا۔ تاہم وہ قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو آسانی اور رفع حرج ہی کی بنیاد پر اُس کے لیے یہ رخصت خود قرآن مجید نے بیان کی ہے کہ وہ قربانی کے بجائے دس روزے رکھ لے۔ پھر ظاہر ہے کہ حج کے اُنھی ایام میں حاجی کے لیے دس روزے رکھنا بھی مشقت کا باعث تھا تو اللہ تعالیٰ نے فدیے کی اِس صورت میں بھی اُس کے لیے آسانی پیدا کردی اور فرمایا کہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لیے جائیں اورسات حج سے واپسی کے بعد ۔ ارشاد فرمایا کہ:‘‘فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ذَٰلِکَ لِمَن لَّمْ یَکُنْ أَہْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّہَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ’’۔ ‘پھر جب تمھارے لیے امن کی حالت پیدا ہو جائے تو جو کوئی اِس سفر سے یہ فائدہ اٹھائے کہ حج کا زمانہ آنے تک عمرہ بھی کر لے تو اُسے قربانی کرنا ہو گی، جیسی بھی میسر ہو جائے۔ اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھنا ہوں گے: تین دن حج کے زمانے میں اور سات، جب (حج سے) واپس آؤ۔ یہ پورے دس دن ہوئے۔ (اِس طریقے سے ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کی) یہ (رعایت) صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر بار مسجد حرام کے پاس نہ ہوں۔ (اِس کی پابندی کرو) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے’(البقرہ: ۱۹۶)۔
اِس حکم کی مذکورہ بالا تفصیل سے صاف واضح ہے کہ باہر سے آنے والے عازمین بیت اللہ سے رب کعبہ کو اصلاً یہ مطلوب ہے کہ حج ہو یا عمرہ، ہر ایک عبادت کے لیے لوگ پورے اہتمام سے الگ الگ سفر کر کے آئیں ۔تاہم دور دراز کے لوگوں کے حج اور عمرہ، دونوں کے لیے الگ الگ سفر کرنا آسان نہیں ہے۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک فدیے کے بدلے اُن کے لیے اِس معاملے میں آسانی فرمائی اور اجازت دی کہ اپنے حج کے سفر میں عمرہ بھی کرلیں۔ مزید یہ کہ فدیے کی ادائیگی میں اُن کے لیے سہولت پیدا فرمائی کہ جانور کی قربانی کی استطاعت نہ ہو تو دس روزے رکھ لیے جائیں اور پھر روزے رکھنے میں بھی مشکل اور تنگی کو اُٹھالیا ہے کہ تین روزے ایام حج میں اور باقی سات اپنے گھر پہنچنے کے بعد رکھ لیے جائیں۔
۵۔یوم عرفہ کی رات مزدلفہ کے میدان میں گزارنا حج کے لازمی مناسک میں سے ہے اور اِس میں یہ سنت قائم کی گئی ہے کہ صبح روشن ہونے تک حجاج وہیں ٹھیرے رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے ثابت ہے کہ فجر کی نماز کے بعد روشنی کے پوری طرح پھیل جانے تک آپ مشعر الحرام کے پاس کھڑے دعا ومناجات کرتے رہے(صحیح مسلم، رقم 2950)۔ تاہم اِس رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور بعض اجازت چاہنے والوں کو رخصت دی کہ وہ صبح کو حجاج کے اژدحام میں مشقت اُٹھانے کے بجائے رات ہی میں منیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں (مسند طیالسی، رقم 2881۔ مسند احمد، رقم 1811۔ صحیح بخاری، رقم 1680، 1676۔صحیح مسلم، رقم 1292۔ شرح مشکل الآثار، طحاوی، رقم 3521)۔
یہ رعایت بھی دیکھ لیجیے کہ دین میں رفع حرج کے اصول پر دی گئی ہے اور منجملہ مظاہر تیسیر کے ہے۔
۶۔ ایام تشریق میں جمرات کی رمی حج کے ضروری مناسک میں سے ہے، جب کہ اِن کی راتوں میں قیام منیٰ بھی ایک مطلوب سنت ہے۔اِس کے باوجود یہ معلوم ہے کہ علاقے کے بعض چرواہوں نے رات منیٰ میں گزارنے کے بجائے اپنے ریوڑوں کے پاس چلے جانے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اورفرمایا: ‘یوم النحر کوکنکریاں مارنے کے بعد باقی دو دن کی کنکریاں ایک ہی دن مارلینا’(ابوداؤد،رقم ۱۹۷۵، ۱۹۷۶)۔ یعنی تیسیر وتخفیف کے اصول پر آپ نے نہ صرف یہ کہ اُنھیں ایام تشریق میں قیام منیٰ سے رخصت دی، بلکہ اِن ایام میں رمی کو موخر کر کے آخری دن اکٹھی کنکریاں مارنے کی رعایت بھی دے دی۔
دیکھ لیجیے، یہ عذر کی بنا پر اسلامی شریعت کے حکم سے رخصت دینے اور حکم کی تعمیل کو اپنے اصل وقت اور موقع سے موخر کردینے کی ایک ثابت شدہ رعایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے بعض مناسک میں رفع حرج کے اصول پر لوگوں کو دی ہے۔
۷۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کسی نے پوچھا: مجھے معلوم نہ تھا، میں نے قربانی سے پہلے بال منڈوا لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اب قربانی کرلو، کوئی حرج نہیں۔
کسی نے پوچھا: مجھے معلوم نہ تھا، میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ غرض یہ کہ کسی بھی چیز کی تقدیم وتاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہی کہا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔(بخاری، رقم۱۷۳۶، ۱۷۳۷۔ مسلم، رقم۳۱۵۷)
اِس موقع پر بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد سے و اضح فرمایا ہے کہ دین کے احکام کی انجام دہی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ آپ نے کسی شخص پر دم دینا واجب نہیں کیا۔ بلکہ یہ بھی واضح فرمادیا کہ تعبدی امور میں لاعلمی کی وجہ سے اور نادانستہ طور پر ہونے والی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہ اِس لیے کہ ارشادِ خداوندی ہے کہ: ‘‘وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا’’۔‘تم سے جو غلطی ہوئی ہے، اُس کے لیے توتم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے’ ( الاحزاب:۵)۔
۸۔اِسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ ضرورت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر طواف کرنے کی اجازت دی ہے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں بیمار تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے مجھے سواری پر طواف کر لینے کی ہدایت فرمائی (بخاری،رقم۱۶۲۶۔ مسلم، رقم۳۰۷۸)۔
(جاری ہے )