میری پیاری سی بہو کے چھوٹے سے بیٹے کا نام حمدا ن ہے ،اچھی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی نِک نیم نہیں رکھا گیا بلکہ حمدان کہہ کرہی بلایا جاتاہے لیکن جب ماں کوبیٹے پہ پیار آتا ہے تو اسے‘‘ مانو ’’کہہ کر بلاتی ہے اور جب زیادہ پیار آتا ہے تو ‘‘مانے’’ کہہ کر پکارتی ہے اور جب بہت ہی پیار آتا ہے تو وہ اسے ‘‘میرا مانا’’ کہہ کر آواز دیتی ہے ۔اسی طرح میری بیگم کو جب کسی بچے پہ زیادہ پیا ر آتا ہے تو اسے ‘‘میرا بچہ’’ کہہ کر بلاتی ہے یا کسی پوتے پوتی کو پیار سے بلانا ہو تو اسے‘‘ میرا سوہنا ’’کہہ کر پکارتی ہے ۔
ہر ماں کا اپنا انداز ہوتا ہے اور مائیں اس طرح کے الفاظ جب کہتی ہیں تو اُس وقت، ان الفاظ کے پیچھے ان کی ممتا بھر پور جوش مار رہی ہوتی ہے اور ایسے میں جو بچہ ماں کے جذبات کو پہچان لے اور دوڑ کر اس کی آغوش میں آجائے تو یقینا ماں اپناسارا پیار اس پہ نچھاور کر دے گی اور جوپیچھے رہ جائے تو یقینا وہ خسارے میں رہ جائے گا۔اس سارے عمل میں اصل کام ان لمحات اور اس انداز کو پہچاننا ہے اور پہچانتے وہی ہیں جن کی ماں سے محبت کامل ہوتی ہے۔ تو گویا کامل محبت کا دعویٰ سچ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان نہ صرف محبوب کے الفاظ بلکہ اس کے ہر انداز سے واقف ہو ۔اس کا لب و لہجہ، اس کی مرضی اور منشا بھی سمجھتا ہو۔ سچی محبت کا اصول یہ ہے کہ جوں جوں محب محبت میں آگے بڑھتا جائے وہ محبوب کا مزاج شناس بنتاچلا جائے اورایک مقام وہ آئے کہ محبوب کے لب وا ہونے سے پہلے ہی وہ اس کا چہر ہ پڑھ لے۔ سچی محبت میں ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتا ہے ۔ ابوبکرؓ کے صدیق بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مزاج شناس نبوت تھے ۔ نبی ﷺ کہنے بھی نہ پاتے تھے کہ ابوبکرؓ مطلب سمجھ جاتے تھے۔ تورات پڑھنے کے مشہور واقعے میں ابوبکرؓ حضورﷺ کا چہر ہ دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ حضور ناراض ہیں اور ابوبکر ؓنے عمر ؓسے یہی کہاتھا کہ عمرؓ کیا حضور ﷺکے چہرے کو نہیں دیکھتے ؟ اسی طرح سورۃنصر کا نزول باقی سب صحابہ کے لیے فتح کی خوشخبری تھی لیکن ابوبکرؓکے لیے حضور کی وفات کی خبر تھی اسی لیے اس سورۃ کو سن کر آپ نے رونا شروع کردیاتھا۔
سچی محبت اور سچی لگن محب کو محبوب کے الفاظ کے پیچھے جھانکنا سکھا دیتی ہے ۔ اسے محبوب کے چہرے کا رنگ اور ماتھے کی شکنیں پڑھنی آ جاتی ہیں ۔وہ اس کی آنکھوں کے اشارے سمجھنے لگتا ہے اورآخر میں محبوب کی مرضی اس کی مرضی بن جاتی ہے ۔اسی طرح محبین صادق ان لمحات کا بھی انتظار کیا کرتے ہیں کہ جب ان کا محبوب ان کو اس انداز سے بلائے تو وہ دوڑ کر اس سے لپٹ جائیں ۔خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کو یہ لمحات زیادہ بار میسر آ جائیں کیونکہ بعض کی تو ساری عمر اس ایک لمحے کے انتظار میں بیت جاتی ہے ۔لیکن دوسری طرف دیکھیے کہ انسانوں کی کتنی خوش نصیبی ہے کہ اگر وہ اپنے خالق اور مالک سے محبت کرنا چاہیں اور دوڑ کر اس سے‘‘ لپٹنا’’ چاہیں تو انہیں ان لمحات کے لیے زیادہ انتظا ر نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ہر روز آخر شب وہ اپنے ہاتھوں کو وا کر کے اپنے بندوں کو بلاتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا، ہے کوئی مانگنے والا، ہے کوئی سوال کر نے والا ۔۔۔ اور پھر رمضان میں تووہ دن میں بھی اور رات میں بھی ہر وقت بلاتا رہتا ہے کہ ہے کوئی جو میری ‘‘مانو’’ بن جائے ، ہے کوئی جو میرا ‘‘مانے ’’بن جائے اور ہے کوئی جو۔۔۔۔ اب یہ ہم پہ ہے کہ ہم اس رمضان میں کیا بننا چاہتے ہیں مانو ، مانے یا مانا۔۔۔۔