ہوٹل میں تو بنگالی بابوں سے، ہم سب ساتھی کنی کتراتے تھے لیکن حرم میں ہم جہاں بھی بیٹھتے تھے ،ہمارے دائیں بائیں اکثر بنگالی بھائی ہی ہوتے تھے،تو اِس دوران میں کچھ لوگوں سے مکالمہ ہو جاتا تھا۔عموماً یہ مکالمہ خوشگوار موڈ میں ہی ہوتا۔ہمارے درمیان جو سیاسی دوری پیدا کر دی گئی ہے اور دو بھائیوں کے درمیان جو خلیج حائل کر دی گئی ہے،اُس کے علی الرغم ،مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ وہاں حجاز میں ، اِس خاکسار نے بنگالی بھائیوں کو ، اپنے پاکستانیوں سے کہیں زیادہ مذہبی اور دین سے مضبوط تعلق والا پایاہے ۔ایک تو یہ لوگ اکٹھے رہتے ہیں۔ جہاں کہیں جاتے تھے یہ لوگ بڑے منظم طور پر آتے تھے۔دوسرے مختلف مناسک ادا کرتے وقت ،اِن کی رہنمائی کے لیے ایک معلم موجود ہوتاتھا اور وہ مائیک پر گفتگو کرتا نظرآتا۔میں بنگالی بھائیوں کے چہروں پر عبادت اور بندگی کیلیے طلب و جستجو پاتا تھا،اِس کے مقابلے میں ہم لوگ پکنک پر آئے معلوم ہوتے تھے مختلف مناسک کی ادائیگی میں اِن لوگوں کا ذوق شوق دیدنی ہوتا تھا۔لیکن ہوٹل میں یا بازاروں میں ،ہمارے اِن بھائیوں کے اندر ،ہمارے خلاف موجود نفرت اپنا رنگ دِکھاتی،ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا۔حتیٰ کہ میرے ساتھی شکیل صاحب کہنے لگے ، ‘‘اب تک تو میں بھٹو صاحب سے نارا ض تھا کہ انھوں نے ہمارے وطن کو توڑ ڈالا لیکن اِن بنگالیوں کے رویے کو دیکھ کر تو میں بھٹو صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہمیں کتنی بڑی آفت سے بچا ڈالا۔’’
جب بھی موقع ملتا ،خاکسار حرم میں مختلف ملکوں سے آئے حجاج کرام سے گفتگو کرتا رہتا تھا۔بنگالی بھائیوں سے اکثرملاقات رہتی اور گفتگو کا موقع بھی ملتارہا۔سیاسی گفتگو سے وہ اکثرپرہیز ہی کرتے لیکن دینی گفتگو اور معلومات کا تبادلہ چلتا رہتا جس سے اندازہ ہوا کہ وطن عزیز کے مقابلے میں،وہاں مذہبیت زیادہ ہے۔ مدارس دینیہ کا سسٹم کم و بیش وہی ہے جو اپنے ہاں ہے البتہ تعدادِمدارس اور اُن میں تعداد طلبا کے اعتبار سے، یہاں کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں خاصی زیاد ہ ترقی ہے۔ نصاب بھی تقریباً وہی ہے جو یہاں کے مدارس کا ہے۔ایک صاحب کے بقول وہاں بنگلہ دیش میں اب اُردو ختم ہو چکی ہے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو اُردو بولتے، سمجھتے،پڑھتے اور لکھتے ہیں۔
ہم نشینوں سے تعارف:
پہلے دو دِن، ہوٹل دارالخلیل الرشدکے کمرے میں، میں ہم تین ساتھی اکٹھے رہتے رہے ،اگرچہ کمرے میں چار بیڈ لگے تھے،پھر تیسرے دِن لاہور سے ایک اور ساتھی ہمارے رومیٹ بنائے گئے۔ہم چار لوگ،برادرشکیل صاحب،محترم محمد اکرم صاحب ،حاجی محمد یونس صاحب اور یہ خاکسار،حج کے پورے پروگرام میں ،حتیٰ کہ لاہور ایئر پورٹ واپسی تک اکٹھے رہے ہم چاروں کا ایک دوسرے کے ساتھ نہایت اچھا وقت گزرا۔ہم میں سے شکیل صاحب نسبتاً نوجوان تھے اور حاجی محمد یونس صاحب ‘‘بوڑھے جوان ’’تھے اور ہم دونوں اکرم صاحب اور خاکسار درمیانے درجے میں تھے۔پیشہ کے اعتبار سے،شکیل بھائی ایک بنکاراور حبیب بنک پھالیہ ضلع منڈی بہاء الدین میں مینیجر ،اکر م صاحب پیشے کے اعتبار سے کارپینٹر اورلاہور میں اپنی ورکشاپ کے مالک تھے ۔حاجی محمد یونس لاہور کے ایک بڑے بزنس مین اور پراپرٹی ڈیلرہیں اوریہ خاکسار پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹراورایک چھوٹا سا ذاتی پرائیویٹ کلینک چلارہاہے۔حاجی محمد یونس صاحب تواصلاً ریٹائر زندگی گزار رہے تھے لیکن باقی تینوں اپنے اپنے شعبوں میں نہایت مصروف زندگی گزار رہے تھے۔ حاجی صاحب کو تو معلوم نہیں تھا کہ وہ کتناواں حج یا عمرہ کر رہے ہیں لیکن ہم باقی تینوں پہلی بار حج پر حاضر ہوئے تھے اس لیے فطری طور پر حاجی محمد یونس صاحب ہمارے رہنما اور گروپ لیڈر تھے۔جس کمپنی کی معرفت ہم لوگ حج پر پہنچے تھے ، اُس کے مالک اور کارکنان حاجی صاحب کے واقف کاروں اور دوست احباب میں سے تھے جس کی وجہ سے ہم کئی قسم کے فوائد سمیٹ لیتے تھے ،ویسے بھی وہ حج و عمرہ کے تجربہ کار تھے اور مقامات حج وعمرہ سے گہری واقفیت رکھتے تھے جس کا ہم ایسے نو آموزوں کو بے انتہا فائدہ ہوتا تھا،تیسر ے وہ زندگی کا ایک طویل عرصہ کویت میں نوکری کرتے رہے تھے جس کے باعث عربی زبان پر اُن کو عبور حاصل تھا اور اِس زباندانی کا فائدہ بھی ہمیں، عربستان میں بہت ہی زیادہ پہنچتا رہا اور یوں ہم چار بندوں کا گروپ منفرداور یکتا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ اپنے اِن احباب کی موجودگی کے باعث میرا حج وعمرہ کا یہ سفر نہایت یادگار اور بہترین نتائج کا حامل بن گیا ہے۔چاروں کے چاروں ایک دوسرے کی عزت واحترام کرنے والے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ،ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے والے اورقریب قریب ایک جیسے مذہبی و سیاسی خیالات والے جمع ہوگئے تھے۔یہ میرے مالک کا کرم ہے کہ ایک ماہ سے زیادہ ہم لوگ اکٹھے رہے لیکن کسی موقع پر کوئی لڑائی ہوئی ،نہ کوئی جھگڑا پیدا ہوا اور نہ کوئی اختلاف ۔عموماً ہم اکٹھا رہتے تھے اگر کبھی الگ بھی ہوئے تو ایک دوسرے کو بتا کر آگے پیچھے ہوتے اور ایک دوسرے کی خبر رکھتے تھے۔ حاجی محمد یونس صاحب ،ہم سب کے ساتھ اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے تھے اور ایک ایک کا خیال رکھتے تھے۔عمر کے اِس حصے میں بھی وہ نہایت چاک و چوبند،انتہائی فعال اور نہایت سلیم الطبع تھے۔کمرے میں ایک ایک چیز کا خیال رکھتے اور ہر معاملے پر اُن کی نظر ہوتی۔ شکیل اور میں قدرے لا پرواہ واقع ہوئے تھے،ہمارے دیگر دونوں ساتھی ہمارے نخرے اُتھاتے رہتے تھے۔حاجی محمد یونس کی شخصیت کا نمایاں پہلو اُن کی حس مزاح ہے۔ہر وقت ہنستے اور ہنساتے رہتے۔ حاجی محمد اکرم صاحب بھی اپنے مزاج میں الگ ہی شخصیت کے مالک تھے۔آپ ایک نہایت باوقار اور سگھڑ ہستی ہیں۔بڑی ہی نستعلیق طبیعت کے مالک اور مترتب آدمی ہیں۔چیزوں کو ایک خاص ترتیب سے رکھتے اور بڑے ہی اہتمام سے ہر کام کرنے کے عادی تھے۔شکیل اور میرے جیسے لا اُبالی بندوں کے ساتھ جس طرح محمد اکرم صاحب نے گزارا کیا ،میں سمجھتا ہوں سگے بھائی بھی ایسا سلوک نہ کریں۔نہ جانے میرے جیسے غیر مترتب انسان کو دیکھ کر اُن کی نازک طبیعت پر کیا گزرتی ہوگی لیکن اُن کے چہرے پر ایک بار بھی ،میں نے ناگواری کے تاثرات نہیں دیکھے۔منفی جذبات کو اُنھوں نے کبھی بھی اپنے قریب نہ آنے دیااور شکیل بھائی کا کیا تذکرہ کروں ، یہ میرے لیے ،حج کے موقع پر دیا گیا اللہ کریم کا ایک تحفہ ہیں۔ہم نے زندگی کے قیمتی ترین لمحات اکٹھے گزارے اور نہایت عمدہ طریقے سے گزارے۔ہم نے پہلا عمرہ اکٹھا کیا،کئی طواف اکٹھے کئے حج کے سنہری ایام میں ہم ایک ایک لمحہ ایک دوسرے کے ساتھ یوں جڑے رہے جیسے ہم جڑواں بھائی ہوں۔سادہ طبیعت ،درویش منش، ہر لمحہ مسکراتے ہوئے ملنا اور ہر ایک کو عزت و احترام دینا ،شکیل بھائی کی عادت ثانیہ ہے۔کسی کا گلہ نہیں ،کسی کا شکوہ نہیں ،کسی کی غیبت نہیں اور ہر کسی کی مدد و استعانت کے لیے ہر وقت تیار۔
انتظار دِل بہار:
جولائی کی سولہ تاریخ ہو گئی ہے اور بندہ عاجز اِس وقت نماز فجر ادا کرکے،مسجد الحرام کی چھت پر بیٹھا ہے اورخانہ کعبہ کی دید سے شاد کام ہو رہا ہے۔بیت اللہ میں آج میری پہلی نماز فجر تھی اور اس نماز کی امامت عبدالرحمان السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ ،نے کی۔یہ میری خوش قسمتی تھی،میں اِن کا بہت چاہنے والا ہوں۔آپ حرمین شریفین کے انتظامی ادارے کے سربراہ اور نہایت معروف قاری ہیں ۔اللہ پاک نے اِن کی آو از میں جو سوزو گداز رکھا ہے وہ صدیوں میں کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔اللہ کریم برکت و رحمت سے نوازیں۔
اللہ کریم کے فضل و کرم سے،پہلے بھی چند بار عمرہ کی سعادت نصیب ہو چکی ہے اور اب کی بار کی حاضری اور وہ بھی حج کے لیے بلاوا،اس عاجز گناہ گار کی بہت زیادہ پذیرائی ہے۔اِس انعام ربانی کے بارے میں، کعبہ کے سامنے بیٹھ کر سوچ رہا ہوں اور اللہ پاک کا شکر ادا کر رہا ہوں۔آجکل ایک انتظار دِل بہار کی کیفیت سے گزر رہا ہوں ۔ کسی محبوب سے ملنے کے انتظار کی جو لذت و چاشنی ہوتی ہے اور جو ناقابل بیان جذبات کا عالم ہوتا ہے ،اِس خاکسار کا ، آجکل، کچھ وہی عالم ہے۔پہلے جب عمرہ پر حاضری ہوتی تھی ،پاکستان سے احرام باندھ کر نکلتے تھے اور یہاں مکہ شریف پہنچ کر عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہی مقصد سفرحاصل ہو جاتا لیکن اب کی بار عمرہ مکمل ہوا تو اُس کے بعد حج کا انتظار باقی ہے اور حج میں ابھی کئی ہفتے پڑے ہیں۔ابھی مقصد ِسفر حاصل نہیں ہوا۔ابھی تشنگی ہے ،ابھی انتظار ہے اوریہ ایک لذت آمیز انتظار ہے دوچار بام ہی تو منزل رہ گئی تھی اور ہم یہاں‘‘لٹکے ’’بیٹھے تھے۔ یہاں مجھے ہر بندہ منتظر دِکھائی دیتا تھا۔ہر آدمی تیاریوں میں لگتا تھا۔عمرہ کے سفرمیں یہ انتظار نہیں ہوتا۔
بظاہر میں حرم میں چل پھر رہا ہوتا لیکن دِل منیٰ میں لٹکا ہواہوتا تھا،میراجسم مکہ کے بازاروں میں پھر رہا ہوتا لیکن روح میدان عرفات کے نظاروں میں کھوئی ہوتی۔ میں مطاف میں ہوتا تھا اور میرے خیالات کاگھوڑامزدلفہ کے چکر لگا رہا ہوتا۔میں ادھورا تھا۔ میری طرح،ہر زائر ادھورا تھا۔ تشنگی تھی ،تڑپ تھی،لگن اور چاہت تھی۔میں اپنے آپ کو بچا بچا کے رکھ رہا تھا ،سنبھال سنبھال کے چل رہا تھا ۔سوچتا رہتا کہ کہیں یہ نہ ہو جائے ،کہیں وہ نہ ہو جائے اور میں ،خاکم بدہن ،کہیں،منیٰ ہی نہ جا سکوں،عرفات نہ جا سکوں۔ایسی بد قسمتی سے پناہ مانگا کرتا۔انتظار تو تھا اور شدید انتظارتھالیکن توہمات و خدشات بھی سر اُٹھاتے تھے۔ڈر بھی لگا رہتا تھا،خاص طور پر پاؤں کے دردکے معاملے میں بڑا پریشان رہتا، ایسے میں وہی ایک سہارا تھا۔ رب کعبہ ہی کا آسرا تھا اور اُسی کے حضور جھک جھک جاتا ،اُسی سے دعائیں اور التجائیں کرتا کہ مالک ! یہاں تک لایا ہے تو اب مناسک حج کو بھی آسان بنا دے ۔رب یسر ولا تعسر کے گیت گاتا اورمنزل کی طرف آگے بڑھ جاتا ۔
طواف کا طواف:
اُوپر سے آپ دیکھ رہے ہوں تو طواف کا گھماؤ نا قابل بیان ہوتا ہے۔یہ ا لیکٹرانی بادل ہے،کسی وسیع چکی کا پاٹ ہے ،سمندر کا گھمن گھیر ہے ،سمجھ نہیں آتی کہ اِس کے حسن کو کیسے بیان کروں۔میری نظریں طواف کا طواف کر رہی تھیں۔شمع کے گرد رقص کرتے پروانوں کے سارے اندازِ فداکاری میرے سامنے تھے۔میری نظروں کے سامنے ہر دَم منظر بدل رہا تھا۔کچھ لوگ احرام میں تھے اور زیادہ ترلوگ اپنے اپنے ملکوں کے روایتی لباس میں ملبوس تھے۔اہل عرب نے،اپنے مخصوص لمبے سفید چوغے زیب تن کر رکھے تھے،شلوار قمیص والے ،ہمارے پاکستانی بہن بھائی بھی موجود ہیں۔پاجامہ اور کرتہ یا دھوتی اور کرتہ میں ملبوس ہمارے بنگالی اور انڈین بھائیوں کا تو غلبہ ہے۔ انڈونیشیا ،ملائیشیا اور مشرق بعیدسے آنے والے ہمارے بھائی اور بہنیں،اپنے مخصوص لباس ، مختصر قدو قامت اور اپنے چہرے کے خدو خال سے صاف پہچانے جا رہے تھے۔ان کی تعداد بھی کافی تھی۔ان بھائیوں کا ایک من پسند انداز یہ تھا کہ یہ لوگ کسی صاحب علم کی رہنمائی میں گروپ کی شکل میں مناسک ادا کر رہے تھے۔سوڈان اور افریقہ سے آنے والے اُجلے من والے ہمارے کالے حبشی بھائی بہنیں بھی،طواف کی اس قوس ِ قزاح میں اپنی اپنی نمائندگی کر رہے ہیں۔ترکی،وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ سے آنے والے سفید فام بہن بھائی بھی، خال خال ہی سہی، نظر آ رہے تھے۔غرض ایک عجیب فرحت انگیز منظر تھا۔کعبہ کے گرداگردرنگ برنگ پھولوں کا ایک گلدستہ سجا تھا۔کعبہ کے متوالوں کی ایک بہار تھی جو دل رُبا اور من ٹھار تھی۔
یائے(ی)نسبتی کا کمال:
کعبہ ،آخر کو ہے تو ایک کمرہ ہی نا ، پتھر ، اینٹ اور گارے سے بنا ایک کوٹھاہی تو ہے۔انسانوں نے ہی تواسے بنایا ہے لیکن یہ محبوب جہاں کیسے بن گیا؟اِس میں اتنا جلال کیسے آیا؟اور سچی بات ہے کہ انسانی ہاتھوں نے ایسی ایسی عظیم الشان عمارتیں کھڑی کی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، لیکن کسی کو بھی تو وہ عظمت و تقدس حاصل نہیں ہو سکاجو ا س سادہ سے کوٹھے کو ہے۔وہ اہرام مصر ہوں یا ابو الہول،تاج محل ہو یا پیسہ ٹاور،عجوبہ عالم تویہ بن گئے لیکن کعبے کی طرح محبوب عالم نہ بن سکے۔
حوادثِ زمانہ سے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو جاتا رہا ہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی تخریب وتعمیر ہوتی رہی۔لیکن اس کا تقدس ،اس کی ہیبت ،اس کا جلال و جمال اور عزت و عظمت میں کوئی فرق نہ آیا۔
ایسا کیا ہے اس میں؟ میرے بھائی!کعبہ شریف کی اس عزت و شرف اور جاہ و جلال کا باعث ایک یائے نسبتی (ی) ہے۔
مالک الملک اور،ساری کائنات کے تنہا مالک ،نے اس سادہ سے کوٹھے کو اپنا گھر قرارادیا ہے۔واذ بوانالابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیئا و طھر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود (حج۲۲:۳۶)
اِس آیہ کریمہ میں وارد شدہ لفظ ‘‘بیتی’’ میں جو حرف ِیا ہے، اسے علمائے نحو ،یائے متکلم یا یائے نسبتی کہتے ہیں۔ یہ ضمیر واحد متکلم ہے اور اللہ کی طرف راجح ہے۔گویا پروردگار عالم نے اس کوٹھے کو، یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ اسے اپنا گھرقراردیا۔بیتی میرا گھریہ سب شانیں اور عظمتیں اس یائے نسبتی کے کمالات ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ وہ خود، لا مکاں ہے۔وہ ایک سِرِ نہاں ہے۔وہ زمان و مکان سے ماورا ہے۔وہ بے نیاز ہے،وہ پاک ہے لیکن اس کوٹھے کو اپنا گھر قرار دے کر عشاق کی چاہتوں کا مرکز بنا دیا ہے۔
لوٹ سیل:
آج رات کو ایک پرسکون اور راحت بھری نیند کے بعد،یہ عاجز صبح سویرے جلدی اُٹھ کر،کمرے میں ہی نماز فجر کی تیاری کر کے ، اکیلا ہی حرم میں آگیا تھا۔دوستوں کو ،نماز کے لیے جگا آیا تھااور یہ بتا یا تھا کہ میں مسجد کی چھت پر ملوں گا۔اب میں چھت پر ہی تھا،سورج طلوع ہو چکا تھا،میرے رومیٹ شکیل بھائی اور حاجی صاحب مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے پاس آ گئے۔ ‘‘اب کیا پروگرام ہے،چلیں ڈیرے پر ’’ شکیل بھائی نے کہا۔‘‘ہمارا طواف کا آخری پھیرا ہے ۔’’وہ لوگ نماز پڑھ کر ،چھت پر ہی طواف کر رہے تھے۔
میں مسکرایا اور عرض کی، ‘‘ حاجی صاحب !ہم یہاں ڈیرے پرآرام فرمانے کے لیے نہیں آئے۔میرے بھائی! ایسے مواقع کبھی کبھی ملتے ہیں۔اللہ کی رحمتوں کی لوٹ سیل لگی ہے یہاں،کمائیاں کر لیں جتنا ممکن ہو، آرام کے لیے توساری زندگی پڑی ہے ۔ میرا ابھی جی نہیں بھرا،آپ ڈیرہ پر جانا چاہیں تو جی بسم اللہ، میں ابھی اِدھر ہوں اور شاید عشاء تک اِدھر ہی رہوں۔’’ میں نے انھیں اپنے پلان سے آ گا ہ کیا۔وہ دونوں ساتھی تشریف لے گئے اورمیں نے قریب رکھے ہوئے قرآن مجید اُٹھا کرپڑھنا شروع کردیا۔
کلام الملوک ملوک الکلام:
کعبہ مکرمہ جہاں ہماری نمازوں کا رخ متعین کرتا ہے،تو قرآن مجید، وہاں ہماری پوری زندگی کے لیے رہنمائی دیتا ہے۔کعبہ اگر جاہ و جلال کا مالک ہے تو قرآن مجیدبھی کلام الٰہی کارعب و جمال رکھتا ہے۔
آپ کو کیا بتاؤں،اُس لمحے تلاوت قرآن میرے لیے کیسی شیریں اور حلاوت آمیز تھی۔کیسا سوزوسرور تھا،بیان نہیں کر سکتا۔
میں اُن فضاؤں میں تھا جہاں یہ نازل ہوا تھا۔میں اُس غار ِ حرا او راُس جبل نورکے ہمسائے میں تھاجہاں سے یہ چشمہ نور ربانی پھوٹا تھا۔قرآن جس زبان میں نازل ہوا، میں اُس کے معدن ومخزن میں تھایعنی مکہ میں تھا،میں اہل مکہ کے درمیان تھا جن کی بولی میں قرآن نازل ہوا تھا۔یہی کعبہ تھاجس کے صحن میں،اور یہی مکہ تھا جس کی گلیوں میں میرے آقا سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھا کرتے تھے اور پوری کائنا ت وجد میں آجاتی تھی،اپنے تو اپنے ،ابو جہل و بو لہب بھی ،چھپ چھپ کے آپ کی تلاوت ِقرآن سنا کرتے تھے۔
یہی قرآن تھا اور یہیں کہیں وہ مکان تھا ،جہاں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجیدسناتھااور مسخر ومفتوح ہو گئے تھے۔ یہی کعبے کا صحن تھاجس میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ، پہلی بار سورہ رحمان کی تلاوت کی تو کفار ِ مکہ آپ پر پل پڑے اورانھیں مار مار کرآدھ موا کر دیا لیکن وہ قرآن پڑھنے سے باز نہ آئے۔وہ سامنے ہی تودارارقم واقع تھا جو اس کتاب مبین کی پہلی درس گاہ بنا جہاں میرے آقا محمد مصطفی ﷺ معلم تھے اور بو بکر و عمر متعلم۔اور ہاں،ہاں، صفا کی وہ پہاڑی بھی میرے سامنے تھی جس کی چوٹی پر سے میرے آقا ،سیدی خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار کھلے عام اپنی قوم کو قرآن سنایا تھا۔یہیں وہ وادیاں تھیں اور اسی جگہ وہ دشت و جبل تھے،جہاں چراغِ مصطفوی سے شرارِبولہبی برسوں ستیزہ کار رہا تھا۔یہیں پر سورہ والضحیٰ نازل ہوئی جس میں اللہ کریم نے پیارے محمد ﷺ کو تسلی دی کہ ‘‘ہم نے نہ توآپ کو چھوڑا ہے اورنہ آپ سے ناراض ہوئے،بلکہ یقین رکھیں آپ کا آنے والا ہر لمحہ پہلے سے بہتر ہو گا اور تیرا رب عنقریب تمھیں اتنا عطا کرے گا کہ تو راضی ہو جائے گا ’ ’ یہیں، اسی جگہ، سورہ الم نشرح نازل ہوئی،جس میں فرمایا کہ ہم آپ کا ذکریعنی آپ کے پیغام کوبلند کریں گے،اتنا بلند کہ چاردانگ عالم آپ کے نام کا شہرہ ہو جائیگا۔ اورہاں،یہیں پرسورہ کوثر نازل ہوئی جواگرچہ قرآن مجید کی سب سے چھوٹی سورت ہے لیکن اپنے اندر معانی کا ایک سمندر رکھتی ہے۔یہ زبان و ادب کی اتنی شاہکار سورہ ہے کہ جس کی مثال بنانے میں عرب کے سارے شعرا عاجز آ گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ،جب یہ نازل ہوئی تو ایک صحابی نے اس کو ،وہ جو سامنے باب کعبہ ہے ،اُس پر لٹکا دیا۔دستور یہ تھا کہ جب کبھی کوئی شاعر اپنا شاہکار تخلیق کرتا تووہ اُسے کعبے کے اِس دروازے پر ،بطور چیلنج، لٹکا دیتاکہ ہے کوئی ایسا شاعر، جو اس کے مقابلے کی کوئی چیزبنا سکے۔جب تک ایسی کوئی چیز آ نہ جاتی وہ بطور اعزاز لٹکی رہتی۔ اب جب سورہ کوثر لٹکا دی گئی،شعراء آتے اور اسے پڑھتے اور چلے جاتے۔کوشش کرتے کہ اس کے مقابل کی کوئی چیز تخلیق کر سکیں لیکن ناکام ہو گئے۔جلد ہی شہر میں اور بیرون شہر غلغلہ مچ گیاکہ‘‘ ایک نا معلوم شاعر’’ کی
مختصر سی کاوش کا مقابلہ ملک کے بڑے بڑے شعرا سے نہیں ہو رہا۔وہ عاجز آ گئے، آخر سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ یہ کلام کسی انسان کی تخلیق نہیں ہے۔یہ کلام معجز بیان ہے۔یہیں پر سورہ البلد نازل ہوئی ،جس میں ارشاد فرمایا :نہیں !میں قسم کھاتا ہوں اس سرزمین کی ،(یعنی شہر مکہ کی)اور (قسم کھاتا ہوں)باپ اور اُ س کی ذریت کی، (سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما اسلام)
کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔کس کس بات کا تذکرہ کروں،کم از کم دو تہائی قرآن مجید ،اسی مکہ شہر میں نازل ہوا،جس میں ،اس وقت ،میں بفضل باری تعالیٰ ،موجود ہوں۔
مکہ مکرمہ وہی تھا،بیت اللہ وہی تھا،کلام اللہ بھی وہی تھا۔آج اللہ کریم کے فضل و کرم سے،اُس کا یہ عاجز و درماندہ بندہ،اُسی کعبہ کو سامنے کیے، اُس کے کلام کی تلاوت کا شرف حاصل کر رہا تھااور الحمد للہ ،پچھلے چند سالوں کی محنت سے،اس کو سمجھنے پر بھی کافی حدتک قادر ہو چکا تھا ۔اس باعث اس تلاوت کی لذت اور چاشنی کے کیا کہنے! اور اِس تلاوت میں موجودکیف ومستی کے کیا کہنے!یہاں پر بیٹھے بیٹھے دو گھنٹے پلک جھپکنے میں گزر گئے اور پھر میں یہاں سے اُ ٹھ کھڑا ہوا۔
کعبہ مشرفہ اور مسجد الحرام:
مکہ مکرمہ میں جوچیز سب سے زیادہ لائق زیارت ہے وہ خودکعبہ شریف اور مسجد الحرام کی عمارت ہے۔ اِن کی پہچان ،ان سے مکمل تعارف اور ان کے نمایاں عمارتی خدو خال کا سمجھنا ایک دلچسپ موضوع ہے۔کسی بھی مسلم ملک میں کوئی بھی ایسی دوسری عبادت گاہ یا محض کوئی عمارت ایسی نہیں ہے جو اپنی وسعت و کشادگی، تزئین و آرائش ،جاہ و جلال اور لائق دید ہونے کے اعتبار سے ،کعبہ شریف اور مسجد الحرام کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی کر سکے۔ آیئے،ہم ان سے مکمل تعارف حاصل کرتے ہیں۔
کعبہ وہ کمرہ ہے جس کی طرف منہ کر کے دنیا بھر کے مسلمان اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں ۔ یہ مسجد الحرام کے وسط میں ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کعبہ شریف زمین کے عین وسط میں ہے ۔یہ ہمارے دِ ل ونگاہ کامرکز و نیوکلیس توہے ہی،یہ کائنات کا بھی مرکز و محور ہے۔یہ اپنے طرزکی وہ واحد عبادت گاہ ہے جس کے کمرے کے اندر نہیں بلکہ باہر باہر سے عبادت کی جاتی ہے۔یہ ایک مکعب نما کمرہ ہے جس کی موجودہ عمارت ترک سلطان مراد چہارم کے عہد میں،۱۶۲۹ء میں ،مکہ ہی کے پہاڑوں سے ملنے والے گرینائیٹ پتھر سے تیار کی گئی ہے۔مکعب نما ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کمرہ ہے جس کی لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی تقریباً برابر ہیں۔کعبہ شریف،اس کے گردمطاف اوراس سے آگے سارا مسقف علاقہ مسجد الحرام کہلاتا ہے۔اسے حرم ِ مکی بھی کہتے ہیں۔مسجد الحرام کے معنیٰ ہیں عزت واحترام والی مسجد۔
کعبہ شریف کے چار کونے ہیں ،جن کو ارکان کہا جاتاہے۔پہلا کونا‘‘ رکن اسود’’ کہلاتا ہے۔اس کا رُ خ جنوب مشرق کی طرف ہے۔اس کونے میں ،قد آدم کی اونچائی پر حجرِ اسود (کالاپتھر)فٹ کیا گیا ہے۔یہ کونا ،طواف کے لیے نقطہ آغاز کا کام دیتاہے۔طواف گھڑی کی سوئیوں کے اُلٹ رخ پر چلتا ہے۔ اس کونے سے طواف کے رُخ پر آگے نکلیں،تو چند قدم پر،کعبہ کی مشرقی دیوار میں کعبہ کا دروازہ لگا یا گیا ہے۔یہ باب کعبہ قد آدم سے بھی اُونچا فٹ کیا گیا ہے۔خاص مواقعوں پر ،خاص بندوں کے لیے یہ دروازہ کھولا جاتا ہے اور سیڑھی لگا کر اندر جایا جاتا ہے۔دروازے سے ،طواف کے رُخ پرآگے بڑھیں توشمال مشرقی کونا آتا ہے جسے رکن عراقی کہتے ہیں۔اس سے آگے چلیں تو شمالی دیوار ہے،اس دیوار میں ہی ،چھت کے بارشی پانی کے اخراج کے لیے پرنالہ لگا یا گیا ہے ،جسے میزاب ِرحمت کہتے ہیں۔مغربی دیوار اورشمالی دیوار کے درمیانی کونے کو رکنِ شامی کہتے ہیں۔یہ شمال مغربی کونا ہے۔رکن شامی اور رکن عراقی کوشمالی دیوار کے علاوہ ایک نیم دائروی دیوار سے بھی ملایا گیا ہے۔یہ نیم دائرہ دیوار قریباًچار فٹ اُونچی ہے۔اس کے اندر والے علاقے کو حطیم کہا جاتا ہے۔یہ حصہ بھی اپنے اصل کے اعتبار سے کعبہ ہی کا حصہ ہے۔حطیم کے اندر ہونے یا اس میں نوافل ادا کرنے کا مطلب ہے آپ کعبہ شریف کے اندر ہی ہیں۔رکن عراقی سے آپ آگے بڑھیں تو مغربی دیوار شروع ہوتی ہے،اور اس کااگلا کوناجنوب مغربی کونا ہے جسے رکن یمانی کہتے ہیں۔رکن یمانی اور رکن اسود کو ملانے والی دیوارجنوبی دیوار ہے۔ یہ دیوار ،دیوار گریہ و استغفار ہے ۔دیوار توبہ ہے، دیوار دُعاہے۔روایات میں آتا ہے کہ اپنے زمانہ قیام مکہ میں ،پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِس دیوار کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے ،اِس طرح ،آپ کا رُخ کعبہ کی طرف بھی ہوتا اور بیت المقدس کی طرف بھی۔اوریہ بھی روایات میں آتا ہے کہ ہر طواف کرنے والازائر جب رکن یمانی پر پہنچے تو سنت یہ ہے کہ رکن اسود تک چلتا ہوادرج ذیل دُعا مانگتا رہے یا دوسرے معنوں میں پڑھتا رہے : ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃً وفی الآخرۃ حسنۃً وقنا عذاب النار
کعبہ شریف کے گردا گردچاروں طرف ایک وسیع و عریض صحن ہے جس پرسفید ماربل لگا ہے۔فرش کے اس پتھر کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ سور ج کی حرارت سے گرم نہیں ہوتا اور یوں یہ طواف کرنے والوں کے لیے ایک عظیم الشان سہولت ہے۔اس صحن کوہی مطاف کہتے ہیں کیونکہ طواف یہاں پر ہوتا ہے۔مطاف میں دائروں میں ،نماز کے لیے صفیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ان دائروں کا مرکز کعبہ مشرفہ ہوتا ہے اور یوں دائروی صفوں میں کھڑے ہر نمازی کا رُخ خود بخود خانہ کعبہ کی طرف ہوجاتا ہے۔ اِس کھلے صحن(open space)سے ،یعنی مطاف سے ،باہر کی طرف کو نکلیں تو،سامنے چاروں طرف تین منزلہ عمارت نظر آتی ہے۔یہ مسجد الحرام کے برآمدے یا مسقف حصہcovered area ہے ۔مطاف کے فرش کے لیول سے،اس کے فرش کا لیول قریباًچھ سات فٹ اُونچا ہے۔مسجد کے برآمدے،نہایت کشادہ،ائر کنڈیشنڈ،روشن روشن ،ہوادار اور نہایت خوبصورت ہیں۔چونکہ مسجد الحرام کی تعمیر و توسیع،مختلف ادوار میں ہوئی ہے اس لیے اس عمارت کے اندرکئی طرزِتعمیر واضح نظر آتے ہیں۔سب سے زیادہ خوبصورت حصہ وہ ہے جو شاہ فہد کے زمانے میں تعمیر ہوا،لیکن جوتوسیع وتعمیر، اب ہو رہی ہے ،شایدوہ زیادہ خوبصورت اور کشادہ ہو،ابھی ہم اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے ،کیونکہ میں اُس نو تعمیر شدہ حصے کا تفصیلی دورہ نہیں کر سکا۔میں جب وہاں گیا تھا تو یہ توسیع و تعمیراپنے آخری مراحل میں تھی اور اُ س طرف ابھی جانا ممنوع تھا لیکن بعد میں عین حج کے دِنوں میں اِس حصے کو کھول دیا گیا تھا لیکن میں وہاں نہ جا سکا۔ اس حصے کو شاہ عبداللہ توسیع کا نام دیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر ان برآمدوں کی چوڑائی بہت زیادہ ہے اور بعض مقامات پر کم ،چوڑائی سے میری مراد ،اندرونی صحن یعنی مطاف اور باہر کے صحن کا درمیانی فاصلہ یہ وسیع و عریض برآمدے باہر کے صحن میں آپ کو لے آتے ہیں۔گویا اس مسجد کے اندر اور باہر دوصحن ہیں۔باہر والے صحن کے فرش میں بھی سفید پتھر لگا ہے لیکن یہ ٹھنڈا نہیں ہے۔باہر کے صحن میں ہی،چاروں طرف ،مناسب مناسب وقفے میں، ہزاروں کی تعداد میں زیر زمین باتھ روم اور غسل خانے اور وضو گاہیں تعمیر کی گئی ہیں ۔ اس صحن کے مزید باہر کو،کمرشل پلازے، مارکیٹیں،ہوٹلز اورکثیر منزلہ فلک بوس عمارتیں ہیں۔ان پلازوں میں سب سے زیادہ اُونچا، کشادہ، خوبصورت،نمایاں اورقریب ترین وہ پلازہ ہے جسے مکہ ٹاور کہا جاتا ہے ،جس پر دُنیا کا سب سے بڑا گھڑیال نصب کیا گیا ہے ۔(جاری ہے )