بار بار پانی پینے سے کرونا کو مارا نہیں جا سکتا

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : کرونا

شمارہ : مارچ 2020

کورونا وائرس کے بارے میں ایک افواہ گردش میں ہے کہ پانی زیادہ پینے اور اپنے منہ کو تر رکھنے سے آپ اس وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ بی بی سی فیوچر نے اس سلسلے میں شواہد کا جائزہ لیا۔
پہلے ایک عجیب دعویٰ سامنے آیا کہ یہ کوکین سے کورونا ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جب یہ جھوٹ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ پھیلنے لگا تو فرانسیسی حکومت کو ایک بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ بات درست نہیں۔ اس کے بعد کہا گیا کہ آئیس کریم سے دور رہنے سے آپ کورونا سے بچ جائیں گے، جس کے بعد یونیسیف کو کہنا پڑا کہ ایسا نہیں ہے۔ آخرکار ایک انتہائی خطرناک اور جھوٹا ٹوٹکا سامنے آیا، کہ بلیچ پینے سے کورونا کو مارا جا سکتا ہے۔
اگرچہ کورونا کی وبا چند ماہ قبل ہی سامنے آئی ہے، اس کے بارے میں بہت سے غیر مؤثر ٹوٹکے اور آن لائن جھوٹی باتیں سامنے آ چکی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے کہ پانی پینے سے آپ انفیکشن سے بچ سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تحریر یہ بتاتی ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلے میں ابتدائی پوسٹوں میں کہا گیا تھا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارا منہ اور گلا ہمیشہ تر رہے اور ہمیں تقریباً ہر 15 منٹ کے بعد پانی پینا چاہیے۔ اس میں منطق یہ تھی کہ پانی سے وائرس آپ کے پیٹ میں پہنچ جائے گا اور وہاں پر معدے کے تیزاب سے مر جائے گا۔
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی ماہرِ وبائی امراض کلپنا سباپتھی کہتی ہیں کہ’یہ اس قدر سادہ بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے بیان کروں۔’
وہ بتاتی ہیں کہ ہمیں انفیکشن عموماً تب لگتا ہے جب ہمیں ہزاروں یا لاکھوں وائرل ذرات لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو معدے تک پہنچانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ آپ نے سارے ذرات کو پانی سے معدے میں پہنچا دیا ہوگا۔ تب تک وہ آپ کے ناک میں ویسے ہی پہنچ چکے ہوں گے۔ یہ طریقہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اگر وائرس آپ کے سانس کے راستے تک نہیں بھی پہنچتا تو وہ آپ کے جسم میں کئی اور طریقوں سے بھی داخل ہو سکتا ہے۔شاید کوئی اپنی ایسی انگلیوں جن پر وائرس لگ چکا ہو، کو اپنے منہ کے قریب لے جانے سے متاثر ہو تو کوئی آنکھوں یا ناک کو انگلیاں لگانے سے بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ویسے بھی یہ وائرس کے پھیلاؤ کا بنیادی طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سب سے زیادہ خطرہ تب ہوتا ہے جب کوئی کھانستا یا چھینکتا ہے اور ہزاروں وائرل ذرات آپ کے سانس کے ذریعے اندر پہنچ جاتے ہیں۔پانی پینے کا طریقہ نہ چلنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ آپ کو شاید یہ غلط فہمی ہو کہ ایک دفعہ وہ معدے میں پہنچ گیا تو مر جائے گا۔ظاہر ہے معدے میں تیزاب کی سطح کافی زیادہ ہوتی ہے۔ مگر وائرس اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ 2012 میں سعودی عرب میں مرز کی وبا کے دوران محققین کو معلوم ہوا کہ مرز کا وائرس (جو کورونا وائرس کی اقسام میں سے ایک ہے اور کووڈ 19 کے قریب ہے) معدے کے تیزاب کا خوب مقابلہ کر سکتا تھا۔محققین کو معلوم ہوا کہ وائرس انسانی آنت میں بھی جگہ بنا سکتا تھا اور یہ بھی انفیکشن ہونے کا ایک ممکنہ طریقہ تھا۔
ابھی یہ تو معلوم نہیں ہوا کہ کیا کووڈ 19 بھی ایسا کر سکتا ہے۔ کچھ مریضوں نے اُبکائی اور ڈائریا کی شکایت کی ہے اور اب چینی ماہرین کہہ رہے کہ اس وائرس میں آنت سے انفیکشن پھیلانے کی صلاحیت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 50 فیصد لوگوں میں یہ انسانی اخراج میں بھی زندہ پایا گیا ہے جہاں یہ پھیپھڑوں سے کلیئر ہونے کے بعد بھی موجود رہتا ہے۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پانی پینے سے کورونا وائرس سے بچنے پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے اور یہ دعویٰ سائنس پر نہیں بلکہ بے بنیاد تھیوری پر بنا ہوا ہے۔ اس قسم کی جدید ترین تحقیق بھی 15 سال پرانی ہے۔اُس تحقیق میں اس بات کو جانچا گیا کہ کیا غرارے کرنے سے سانس کے راستے کے انفیکشن کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ یہ طریقہ جاپان میں کافی مقبول ہے۔اس تحقیق سے پتا چلا کہ 60 روز کے دورانیے میں جو لوگ دن میں تین مرتبہ غرارے کرتے تھے ان میں سانس کے راستے کے انفیکشن کی علامات ظاہر کرنے کی شرح کم ہوتی ہے۔ مگر ان نتائج کو کووڈ 19 سے براہِ راست نہیں جوڑا جا سکتا اور ایسا کرنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔کلپنا سباپتھی کہتی ہیں کہ اگرچہ ہر 15 منٹ بعد پانی پینے کا مشورہ بظاہر بے ضرر ہے تاہم غلط معلومات کی فوراً تردید کرنا بھی اہم ہے۔وہ کہتی ہیں کہ مسئلہ اس جھوٹی سیکیورٹی کے احساس کا ہے جو لوگوں میں پیدا ہوجائے گا اگر اسے مان لیا جائے اور پھر لوگ اہم معلومات کو رد کریں گے۔٭٭٭

 

بشکریہ : بی بی سی اُردو