کورونا وائرس کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی بہت سی ایسی کمزوریوں کا احساس شدید تر ہورہا ہے جن کے وجود کے بارے میں جانتے تو تھے لیکن ان کی طرف کبھی کسی نے توجہ نہیں کی تھی۔جس کمزوری کا پچھلے چند دن کے دوران بڑی شدت سے احساس ہوا ’وہ ہے تحقیق۔کورونا وائرس کا علاج ڈھونڈنے کے لیے پوری دنیا پاگلوں کی طرح کوششیں کررہی ہے لیکن اس معاملے میں ہمارا دو ر دور تک کوئی نام نہیں۔ علاج تو دور کی بات پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو بنیادی نوعیت کی تحقیق ہی کرکے ہمیں کچھ بتا سکے۔ کورونا کی شکل کیسی ہے’ اس کے اثرات کیا ہیں’ یہ حملہ آور کیسے ہوتا ہے’ اس سے بچنے کے لیے خود کو الگ تھلگ کرنے کی کیا اہمیت ہے’ یہ سب کچھ ہمیں دوسروں سے پتا چل رہا ہے۔ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی ریسرچ ہو نہیں سکتی’ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ریاست عمومی طور پر اورحکومت خصوصی طور پر تحقیق کی سرپرستی یا حوصلہ افزائی کرنے پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ آپ کے لیے یہ جاننا دلچسپ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں ایک سرکاری پبلک ہیلتھ لیبارٹری باقاعدہ طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔
قومی ادارہ صحت (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ)کے نیچے کام کرنے والی اس لیبارٹری کی ہیضہ اور اسہال کے لیے تیار کردہ دوا’نمکول’ کا اشتہار بھی پچیس تیس برس پہلے پی ٹی وی پر چلا کرتا تھا۔اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس لیبارٹری نے کتے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماری کی ویکسین بھی تیار کررکھی ہے۔لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ آج پاکستان کے کئی علاقوں میں کتے کے کاٹنے سے لوگ مر جاتے ہیں کیونکہ ہسپتالوں میں مطلوبہ ویکسین نہیں ملتی۔اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ2003 ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس لیبارٹری کو باقاعدہ ویکسین تیار کرنے کا اہل قرار دیا لیکن پاکستان میں شاید ہی کوئی ہسپتال ہو جہاں اس ادارے کی تیار کردہ کوئی ویکسین دستیاب ہو۔ کورونا وائرس کے خلاف یہ لیبارٹری ٹیسٹ کرنے کے علاوہ کوئی ریسرچ بھی کررہی ہے یا نہیں’ پاکستان میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ کورونا کے خلاف لڑائی کا یہ پہلا مورچہ بھی غالباً ہم نے خالی چھوڑ رکھا ہے۔اگلے روز ہمارے پروگرام میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بتا رہے تھے کہ کورونا کا علاج دریافت کرنے میں پاکستان کے سائنسدان بھی حصہ لے رہے ہیں۔ سن کر خوشی ہوئی لیکن چند ہی لمحوں بعد یہ خوشی ہوا ہوگئی۔ وجہ اس کی ایک ڈاکٹر صاحب کا فون تھا۔ انہوں نے بتایا کہ فواد چودھری صاحب کی بات میں وزن اس وقت ہو گا جب پاکستانی ڈاکٹرز فیز تھری (phase III) ٹرائلز کا حصہ ہوں گے۔
میرے پوچھنے پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ فیز تھری ٹرائل کا مطلب ہے کہ جوتجرباتی دوائی مریضوں پر آزمائی جارہی ہے’ وہ پاکستان میں بھی میسر ہو اور منتخب ڈاکٹرز اسے مریضوں پر استعمال کرکے اس کے اثرات کا جائزہ لے سکیں اور ان کے حاصل کردہ نتائج اس دوائی کو بہتربنانے میں استعمال کیے جائیں۔ ظاہر ہے یہ ایسا مرحلہ ہے جہاں دنیا کا کوئی بھی تحقیقی ادارہ کسی دوسرے ادارے یا ملک کو اپنا حصہ بنانے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا لیکن خود کورونا کی صورت میں ہمارے پاس تحقیق کا جو موقع میسر ہے اس سے ہم کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں؟تحقیق سے ہماری’محبت’ کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں ایک انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار کیمیکل اینڈ بائیولو جیکل سائنسز نامی ادارہ ہے۔ اس وسیع و عریض ادارے کا ایک حصہ وائرس اور اس سے پھیلنے والی بیماریوں پر تحقیق کے لیے مختص ہے۔جیسے ہی پاکستان میں کورونا کا پھیلاؤ شروع ہوا اس ادارے کے لوگوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔ لطیفہ یہ ہے کہ جب سندھ حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان کیا تو اس ادارے نے اپنا کام جاری رکھا۔چند دن بعد کسی نے اس ادارے میں سائنسدانوں کی آمدو رفت کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی اورسندھ حکومت نے حکماً اسے کام سے روک دیا۔ یعنی وہ ادارہ جو کورونا کے علاج کے لیے تحقیق کررہا تھا’خود کورونا لاک
ڈاؤ ن کا شکار ہوگیا۔یہ تجربہ بتا رہا ہے کہ حکومت سندھ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس موقعے پر کورونا کے خلاف کام کو لازمی خدمات قرار دے کر اس ادارے کو کام جاری رکھنے کی اجازت دیتا۔ ہو سکتا ہے یہ ادارہ کوئی علاج دریافت کرنے میں ناکام رہتا لیکن سائنسی تحقیق کی دنیا میں ناکام تجربہ بھی اس لیے کامیاب قرار دیا جاتا ہے کہ بعد میں اسے دہرایا نہیں جاتا بلکہ کوئی نیا طریقہ آزمایا جاتا ہے۔ اس بنیادی نکتے کو سمجھنے والا کوئی شخص بھی حکومت کے کسی ایوان میں بیٹھا نظر نہیں آتا۔دنیا میں یونیورسٹیاں تحقیق کے اہم ترین مراکز میں شمار ہوتی ہیں۔ اب پاکستان کی یونیورسٹیوں کا حال بھی سن لیجیے۔ 2010ء میں جب پاکستان میں بہت بڑا سیلاب آیا تو لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے عرض کیا کہ اپنے طلبہ کو کتابوں کی دنیا سے نکال کر باہر بھیجیں تاکہ وہ زمین پر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر صورتحال کا اندازہ لگائیں۔ انہوں نے بڑے فخر سے کہا: ہمارے طلبہ امداد لے کر پہنچے ہوئے ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ میری مراد تحقیق تھی کہ طلبہ اپنے اپنے متعلقہ شعبے کے متعلق معلومات اکٹھی کریں’ کوئی نفسیات کا طالب علم ہے تو وہ سیلاب متاثرین کی نفسیاتی تبدیلیوں کا مطالعہ کرے’ کوئی زراعت سے متعلق ہے تو سیلابی پانی سے زراعت پر پڑنے والے اثرات کا معائنہ کرے۔میری وضاحت پر وائس چانسلر صاحب کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ابھرے تو میں خاموش ہوگیا۔ ملاقات کے خاتمے پر یونیورسٹی کے ہی ایک استاد نے میرے پاس آکر کہا ‘‘حبیب صاحب آپ ریسرچ کی بات کررہے ہیں’ وائس چانسلر چاہتے ہیں کہ آپ سیلاب میں ان کی خدمات میڈیا پر اجاگر کریں تاکہ انہیں ان کو عہدے پر توسیع مل سکے’’۔
میں یہ بات سن کر حیران رہ گیا کہ شیخ الجامعہ ہوکر کوئی اتنا چھوٹا بھی سوچ سکتا ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ ہماری یونیورسٹیاں تحقیق کے مراکز نہیں بلکہ اساتذہ کی سیاست کے اکھاڑے ہیں۔ ان میں اب وہ ماحول ہی نہیں رہا جہاں لیبارٹری میں مغز ماری کرنے والوں کی کوئی قدر ہو۔ بس ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اپنے عہدے اور مراعات میں اضافے کی کوششیں ہی ہماری یونیورسٹیوں کو دنیا سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس لیے کسی یونیورسٹی سے یہ توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے کہ کورونا کے خلاف کوئی ڈھنگ کا کام ان میں ہو پائے گا۔خیر چھوڑیے ان باتوں کو’ اچھی خبر یہ ہے کہ امریکہ میں ایک شخص کو کورونا کے خلاف
تیار کردہ ویکسین تجرباتی طور پر لگا دی گئی ہے۔ چار افراد کو فرانس میں تیار کردہ ویکسین لگا کر دیکھا جارہا ہے کہ اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور آسٹریلیامیں ڈاکٹر وں کو کورونا وائرس کا جو پہلا مریض ملا’ اس کا معائنہ کرکے ہی وہ کورونا کے خلاف انسانی مدافعتی نظام کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ کالم لکھنے کے دوران کئی بار قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر دیے گئے فون نمبرپر کال کی تو ایک ہی جواب ملا ‘‘آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں’’۔
بشکریہ : بشکریہ روزنامہ دنیا