کورونا وائرس کے بارے میں بیس سوالات

مصنف : عرفان اللہ فرہاد

سلسلہ : کرونا

شمارہ : مارچ 2020

    اس برس کے آغاز کے ساتھ ہی چین کے شہر ووہان (Wuhan) سے ایک متعدی بیماری Contagious Disease کی وبا پھیلنے لگی جس کی بنیادی علامات میں سانس کی تکلیف، شدید بخار، کھانسی اور جوڑوں کے درد شامل تھے۔ ابتدا میں اس Outbreak کو چین کے ساتھ محدود تصور کیاگیا اور طرح طرح کی تاویلات پیش کی گیئں کہ چین والے چمگادڑ کھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن بیماری کی وبا پھیلنے Outbreak کے ساتھ ہی یہ بات واضح تھی کہ یہ مرض چین کا این ڈیمیک (endemic) نہیں ہے۔چونکہ Endemic infection سے مراد ایسی بیماری ہوتی جو کسی ملک یا علاقے میں پائی جاتی ہے اور ہر وقت ہر سال اس علاقے میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ لیکن مذکورہ بیماری نہ تو اس سے پہلے چین یا چین سے باہر کہیں پائی گئی تھی لہذا سائنسدان اور طبی ماہرین نے تشخیص و تحقیق کے بعد بیماری کو کرونا وائیرس کی ایک نئی قسم (COVID۔ 19) کا نام مل گیا۔
مشاہدے اور تجربے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے جو تیزی کے ساتھ ایک مریض سے دوسرے کو منتقل ہورہی ہے۔ یوں چین میں کرونا وائرس کی ایپی ڈیمیکس (epidemic) کے الرٹ جاری کیے گئے۔ 
Epidemic بیماری میں مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو تا ہے اور مرض ایک مریض سے دوسرے کو منتقل ہو رہاہو تا ہے۔یوں چین نے انتہائی مستعدی سے کام لیتے ہوئے متاثرہ مریضوں کو باقی آبادی سے الگ تھلگ رکھنے کی خاطر قرنطینہ مراکز Quarantine Centers قائم کیے اور باقی کی دنیا کے ساتھ پورے ووہان شہر کا رابطہ منقطع کردیا اور باقی ملک کے بھی بیرونی دنیا سے روابط محدود ہوگئے اور اب چین نے کافی حد تک بیماری کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا ہے۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس بیماری نے پہلے جنوبی کوریا، پھر ایران اور اٹلی اور بعد میں تقریباً پورے دنیا میں لوگوں کو متاثر کرنا شروع کردیا اور پھر 12 مارچ ؁ 2020 کو عالمی ادارہٗ صحتWHO نے اس بیماری کو اس کے نئے نام (COVID۔ 19) کے ساتھ ایک عالمی وبا (pandemic) قرار دیا۔ عالمی وبا ایسا انفیکشن ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں دنیا بھر میں پھیل رہا ہواور مختلف ممالک میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ایک دوسرے سے متاثر ہوکر بیمار پڑرہی ہو۔
اب جبکہ کوئڈ۔ 19 عالمی وبا بن چکی ہے جو تا دم تحریر دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں دو لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو متاثر کرچکا ہے اور تقریبا سات ہزار 7000 لوگ اس موذی مرض کی وجہ سے لقمہٗ اجل بن چکے ہیں تو دنیا بھر میں ایک خوف کی فضا قائم ہوئی ہے اور ہر کوئی حیران و پریشان ہے کہ آخر یہ کورونا وائرس کیا ہے؟ اس کے بارے میں متعدد سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ ذیل میں عام طور پر پوچھے جانے والے سوالات کے تسلی بخش جواب دیے جا رہے ہیں۔
1۔ کورونا وائرس کیا ہے؟
یہ وائرس ایک وائرل خاندان سے تعلق رکھتا ہے جنہیں کورونا وائرس کہا جاتا ہے۔ ‘‘Corona’’ کا لفظ لاطینی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تاج یا Crown۔ اس وائرس کو کورونا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے سطح پر بادشاہوں کے تاج کی طرح نوکیلے مینارچے ہوتے ہیں اب تک کورونا وائرس کی تقریباً 400 اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ یہ وارس عموماً چمگادڑ ، سور، پینگولین اوردوسرے چھوٹے بڑے ممالیہ جانوروں میں پائے جاتے ہیں اور کسی بیماری کا سبب نہیں بنتے۔
ان وائرس کو Non۔ pathogenic or Benign Virus کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ ان وائرس کی جنیاتی مواد Genetic material میں تبدیلی (Mutation) واقع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی ساخت اور افعال بدل جاتے ہیں۔ پھر یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور بیماری کا سبب بننے والے وائرس Pathogenic virus بن جاتے ہیں۔ پھریہ Pathogenic virus ایک انسان سے دوسرے انسان کو پہنچ جاتے ہیں اور متعدی بیماریوں Contagious Diseases کا سبب بنتے ہیں۔
اب تک کورونا وائرس کے چھ اقسام Pathogenic virus کے طور پر مختلف بیماریوں کے سبب بن چکے ہیں جن میں چار عام نزلہ زکام میں ملوث ہیں جبکہ دو سانس کی مہلک بیماریوں یعنی سارس Severe acute respiratory syndrome SARS اور مرس Middle East respiratory syndrome MERS کے ساتھ جوڑا جا تا ہے۔
حالیہ کورونا وائرس Pathogenic virus کی ساتویں قسم ہے جو Severe Acute Respiratory Syndrome Coronavirus 2، Or Sars۔ Cov۔ 2۔ کہلاتا ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری Covid۔ 19 کہلاتی ہے۔ چونکہ بیماری ؁ 2019 میں ظاہر ہوئی تھی اس لیے یہ Covid۔ 19 کہلائی۔
2۔ کویڈ۔ 19 کے علامات کیا ہیں اور کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ اسے کویڈ۔ 19 ہے یا نہیں ہے؟
یہ وائرس سانس کی نالی کا نچلا حصہ Bronchi متاٗثر کرتا ہے جہاں سے یہ پھیپھڑوں کے اس حصے Alveoli میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آکسیجن کا گزر ہوتا ہے۔ کویڈ۔ 19 کی ابتدائی علامات میں بخار، کھانسی، اور درد ہوتا ہے جو مزید سخت ہوکر سانس کی تکلیف، نمونیا، تھکاوٹ ، کمزوری، سردرد، متلی، قے اور دست جیسی شدت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض لوگوں میں معمولی سی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو چلتی پھرتی نمونیا ‘‘walking pneumonia،’’ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ خود اتنے بیمار نہیں ہوئے کہ ہسپتال میں داخل کرائے جائیں لیکن یہ لوگ دوسروں کو وائرس منتقل کرسکتے ہیں۔بعض لوگوں کو انفیکشنInfection ہوجاتی ہے لیکن ان میں بیماری کے علامات ظاہر نہیں ہوتے اور یوں یہ لوگ بیمار نہیں پڑتے لیکن وائرس کو بآسانی دوسرے لوگوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ ایسے افراد کو خاموش حاملین Silent Carrier کہتے ہیں۔
3۔ کویڈ۔ 19 کتنا خطرناک یا جان لیوا ہے؟
اب تک کی تحقیق کے مطابق کویڈ۔ 19 سارس SARS اور مرس MERS سے کم جبکہ عام نزلہ زکام سے کچھ زیادہ خطرناک ہے۔ کویڈْ۔ 19 سے اموات کی شرح وقت، مقام اور اب و ہوا کے ساتھ مختلف ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ووہان شہر میں ابتدائی شرح اموات 5.8 % تھی جبکہ چین کے دوسرے علاقوں میں یہ شرح محض 0.8 % ریکارڈ کی گئی اور امریکہ میں شرح اموات ایک فیصد سے بھی کم رپورٹ ہوئی ہے۔(البتہ اب تیزی سے بڑھ رہی ہے ) البتہ ایران اور اٹلی میں یہ شرح دو سے چار فیصد کے درمیان ہے جبکہ پاکستان میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق شرح اموات ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
4۔ کویڈ۔ 19 سے سب سے زیادہ کون لوگ متاٗثر ہو سکتے ہیں؟
اب تک کی تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر اور خاص کر ہلاک ہونے والے لوگ وہ ہیں جن کا مدافعتی نظام کسی وجہ سے پہلے سے کمزور ہو یا ان کے پھیپھڑے پہلے ہی سے تندرست نہ ہوں۔ زیادہ تر بزرگ لوگ جن کی عمریں 70 سال سے زیادہ ہوں، جو بہت زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہوں یا کسی ایسے کارخانے یا جگہ میں کام کرتے ہوں جہاں ان کے پھیپھڑے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہو، جو لوگ بہت زیا دہ کمزور ہو یا غذائی قلت کا شکار ہوں ان کے متاثر ہونے اور علامات کی شدید تر ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔
5۔ یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے کو کیسے منتقل ہو سکتا ہے؟
یہ سانس کی نالی میں پایا جانے والا وائرس ہے جو متاثرہ شخص کے سانس لینے کے قطروں کے ساتھ منتقل ہوجاتا ہے۔ جب ایک متاثرہ شخص کھانستا ہے، چھینکتا ہے یا تھوکتاہے یا ناک صاف کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ وائرس قریبی شخص کو متاثر کرسکتا ہے۔ یہ وائرس ہوا کے ذریعے منتقل نہیں ہوسکتا اس لیے متاثرہ شخص سے چھ سے دس فٹ کے فاصلے پر یہ وائرس دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوسکتا۔البتہ جب متاثرہ شخص کسی چیز مثلاً دروازے کاہینڈل، کاؤنٹر، میز یا برتن کو چھو لیتا ہے تو وائرس اس کی سطح پر رہ جا تا ہے۔ جب ایک غیر متاثرہ شخص ان چیزوں کو چھو لیتا ہے تو وائرس اس کو منتقل ہو سکتا ہے۔
6۔ کورونا وائرس کسی چیز کی سطح پر کتنی دیر تک رہ سکتا ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کا کسی سطح یا دھات پر قائم رہنے کا دورانیہ دو گھنٹے سے لے کر نو دن تک ہے لیکن یہ بات ابھی تک تحقیق سے ثابت نہیں ہوسکی۔ بعض رپورٹس کے مطابق 30 درجے سے زائد کے ٹمپریچر پر وائرس فنا ہوجاتا ہے جبکہ سینیٹائزرز کے ساتھ ہاتھ منہ اور برتن وغیرہ دھونے سے وائرس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
7۔ کورونا وائرس کتنی آسانی سے پھیل سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق ایک متاثرہ شخص اوسطاً2.5۔ 4 دوسرے لوگوں کو وائرس منتقل کرسکتا ہے۔ WHO کے مطابق وائرس کا زیادہ تر پھیلاؤ خاندانوں کے درمیان یا دوسرے قریبی روابط میں نظر آتا ہے۔ ویسے پبلک ٹرانسپورٹ، عوامی لیٹرین، ہوٹل اور کلاس رومز بھی وائرس کے نشیمن ثابت ہوسکتے ہیں۔
8۔ کورونا وائرس کی مدت بالیدگی Incubation Period کیا ہے؟
کوئی بھی وائرس یا بیکٹیریا جسم میں داخل ہوتے ہی بیماری پیدا نہیں کرتا بلکہ وائرس پہلے اپنے میزبان Host کے جسم میں داخل ہوجاتا ہے پھر اپنے ہدف یعنی جسم کے اس خاص حصے، Target Tissue جہاں بیماری پیدا ہوجاتی ہے، پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہاں افزائش Local Replication کر لیتا ہے اور پھر ان خلیات کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے جس سے بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ یوں کسی جراثیم کا جسم میں داخل ہونے اور اس کے اثرات ظاہر ہونے کے درمیانی وقفے کو مدت بالیدگی Incubation Period کہتے ہیں۔
لانسیٹ نامی تحقیقی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ کورونا وائرس کے علامات زیادہ تر مریضوں میں 14 دن کے اندر اندرنمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ بعض جگہوں میں 24 دن کا دورانیہ بھی رپورٹ ہوا ہے جبکہ چینی محققین کے مطابق وائرس کا اوسط Incubation Period تقریباٗ 5.2 دن تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی کویڈ 19 کے مریض سے واسطہ پڑتا ہے تو 5.2 دن یا 14 دن کے اندر اندر آپ کو اگر بیماری نہیں لگتی تو اپ محفوظ ہیں۔ البتہ آپ کو 24 دن تک احتیاط کرنی چاہیئے تا کہ اگر آپ خاموش کیرئر ہیں تو وائرس کسی اور کو منتقل نہ ہو جائے۔
9۔ کویڈ۔ 19 کے تشخیصی ٹیسٹ Diagnostic Tests کون سے ہیں؟
جی ہاں! کورونا وائرس کی تشخیص کے لئے مختلف قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں بدن کا درجہ حرارت، کھانسی اور بلڈ پریشر چیک کیا جاتاہے۔ جب کوئی مشتبہ مریض سامنے آجائے تو اس کے خون کا نمونہ لیا جاتا ہے جس میں وائرس کے خلاف بننے والے اینٹی باڈیز چیک کیے جاتے ہیں۔ خون میں کویڈ۔ 19 کی اینٹی باڈیز کی موجودگی کورونا وائرس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ناک اور گلے سے swab لے کر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
10۔ کیا منہ ڈھانپے یا Face Mask کے استعمال کے ساتھ کویڈ۔ 19 سے بچا جاسکتا ہے؟
ماہرین صحت کے مطابق صرف مخصوص ماسک N 95 respirator mask کورونا وائرس کو فلٹر کرسکتا ہے باقی پیپر یا پولی یوریتھین ماسک کورونا جیسے چھوٹے ذرات کو نہیں روک سکتا۔ البتہ یہ متاٗثرہ شخص سے وائرس کی منتقلی کو روک سکتی ہے کیونکہ اس کی تنفسی بخارات کا سائز اتنا بڑا ہوتا ہے جو کسی بھی ماسک سے نہیں گزر سکتے۔یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اکثر سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر ایک بات گردش کررہی ہے کہ کورونا وائرس کا سائز 400۔ 500 مایکرو میٹر یعنی نصف میلی میٹر ہوتا ہے۔ یہ بات سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔ نصف ملی میٹرکی جسامت والی چیز عام آنکھ سے بھی نظر آتی ہے جبکہ وائرس اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے عام خوردبین کے ذریعے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ اب تک کے دریافت شدہ کورونا وائرسز کی سائز 100۔ 150 nm نینو میٹر ہوتا ہے جو فیس بک پر مشہور ہونے والی جسامت سے چار ہزار گنا چھوٹا ہے۔
11۔ اس کے علاوہ ہمیں کس قسم کے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے؟
 صفائی کا خیال کریں، اپنے ہاتھ کسی سینیٹائزر، ڈیٹول یا صابن کے ساتھ دھو لیا کریں، گھر، دفتر یا سکول کے دروازے یا میز کرسی وغیرہ کو بھی صاف کر لیا کریں اور مبینہ مریضوں سے تھوڑا فاصلہ رکھیں۔
12۔ کیا ہمیں ایک ایسے شخص سے بیماری لگ سکتی ہے جس میں بیماری کے علامات ابھی ظاہر نہ ہوئے ہوں؟
جی ہاں یہ ممکن ہے کیونکہ بعض لوگ Silent Carrier ہو سکتے ہیں۔ لانسٹ میڈیکل جرنل کے مطابق ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کورونا ٹیسٹ کے لئے مثبت ہوتے ہیں مطلب ان میں وائرس پایا جاتا ہے لیکن بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
13۔ اگر اپ ایک بار کویڈ۔ 19 کا شکار ہو چکے ہیں تو کیا اپ دوبارہ شکار ہو سکتے ہیں؟
عام طور پر نہیں! کیونکہ اکثر Infectious Diseases میں ایک بار بیمار ہونے کے بعد بدن کے اندر اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر اگر دوبارہ وائرس بدن کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو بیماری کا سبب نہیں بن سکتا۔ تا ہم کویڈ۔ 19 ایک نئی بیماری ہے، اس کے بارے میں ایسی کوئی تحقیق نہیں ہوئی لیکن پھر بھی جواب ممکنہ طور پر نفی میں ہو سکتا ہے۔
14۔ اس بیماری کا کوئی علاج ممکن ہے یا نہیں؟
چونکہ یہ ایک نئی بیماری ہے تو ابھی تک اس کا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا البتہ اسرائیل، امریکہ اور آسٹریلیا میں اس مرض کے خلاف ویکسین کی تیاری کی اطلاعات آرہی ہیں۔
15۔ مریضوں کو عام آبادی سے الگ تھلگ رکھنے Quarantine سے کوئی فائدہ ہو سکتا ہے کہ نہیں؟
جی ہاں! چونکہ یہ ایک متعدی بیماری Contagious Disease ہے اور بہت آسانی سے ایک دوسرے کو منتقل ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ابھی تک بیماری کا کوئی با قاعدہ علاج بھی نہیں ہے تو اس وقت مناسب اقدامات میں صرف بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا ضروری ہے جس کا واحد حل مریضوں کو قرنطینہ مراکز میں رکھنا ہے۔
16۔ کیا گوشہ نشیینی Self۔ Isolation ان حالات میں فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
اگر آپ کورونا کے مریض نہیں ہیں یا آپ کا حال ہی میں کویڈ۔ 19 کے مریض کے ساتھ انتہائی قریبی تعلق یعنی لمس واسطہ نہیں رہا ہو یا آپ نے حال ہی میں متاثرہ علاقے کا سفر نہیں کیا ہو تو اپ کوگوشہ نشینی Self۔ Isolation کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر مذکورہ بالا باتوں میں سے کسی ایک کا بھی جواب ہاں میں ہو تو پھر آپ کو گوشہ نشینی Self۔ Isolation اختیار کر لینی چاہیے۔ اس دوران آپ کو 14 دن تک خاندان کے افراد، دوستوں دفتر یا سکول کے ساتھیوں سے الگ تھلگ رہنا ہوگا۔ آپ کے کھانے پینے کے برتن، واش روم اور بیڈروم سب سے الگ تھلگ ہونے چاہئیے۔
17۔ کویڈ۔ 19 اور عام نزلہ زکام میں کیا فرق ہے؟
کویڈ۔ 19 کے علامات عام نزلہ زکام سے ملتے جلتے ہیں جن میں با آسانی فرق کرنا مشکل ہو تا ہے۔ دونوں میں کھانسی، بخار، تھکاوٹ اور بدن میں درد شامل ہیں۔ البتہ عام فلو میں اکثر ناک بہتی رہتی ہے کھانسی میں بلغم پا یا جا تا ہے اور گلے کی سوزش کی تکلیف ہوتی ہیں۔ کوئڈ۔ 19 میں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور ناک بہنے کی شکائت شاذ و نادر ہوتی ہے۔ البتہ تشخیص سے پتا چل سکتا ہے کہ خون کے اندر کون سے وائرس کے انٹی باڈیز موجود ہیں؟
18۔ ہمیں کتنا فکر مند ہونا چاہیے؟
ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اول تو یہ بیماری پاکستان میں عام نہیں ہے اور ملک کے زیادہ تر حصے محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ بس معمولی سا احتیاط کرنے سے ہم بیماری سے بچ سکتے ہیں۔ غیر ضروری سفر کرنے سے باز رہئے۔ بھیڑ کی جگہوں میں جانے سے گریز کریں اور عوام کے استعمال کی چیزویں سے احتیاط برتیں۔پھر بھی اگر کسی کو انفکشن ہو جاتی ہے تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کویڈ۔ 19 اتنی مہلک بیماری نہیں ہے۔ لانسٹ میڈیکل جرنل میں چائنہ کی ایک سٹڈی شایع ہوئی جس میں کویڈ۔ 19 کے 44,672 مریضوں کا مطالعہ کیا گیا۔ ان میں سے 81 % میں معمولی علامات ظاہر ہوئیں، 13.8 % سخت بیمار ہوئے 4.7 % انتہائی شدید بیمار تھے اور جبکہ مرنے والوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ریکارڈ کرائی گئی۔ اسی طرح کی ایک اور تحقیق کے مطابق مکمل صحت یاب ہونے والے مریضوں کی شرح 70 % سے زیادہ تھی۔ کویڈ۔ 19 سے مرنے والوں میں اکثریت بوڑھوں، ضعیفوں یا بیماروں کی تھی جن کا مدافعتی نظام پہلے ہی سے کمزور تھا۔
لہذا! ایک تو ہمارے متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں اور اگر خدا نخواستہ انفیکشن ہو بھی جائے تو صحت یاب ہونے کے امکانات بھی بہت ہیں۔ ہاں! اگر کسی کو انفکشن ہوتا ہے تو اسے احتیاط سے کام لینا چاہیے تا کہ بیماری اس کے کنبے کے دوسرے افراد بچوں والدین اور باقی عزیز و اقارب تک نہ پھیلے۔
19۔ اس وقت کوئڈ۔ 19 کے حوالے سے عالمی صورتحال کیا ہے؟
کویڈ۔ 19 کو WHO کی طرف سے عالمی وبا قرار دے جانے کے بعد پوری دنیا میں اس وبا سے نمٹنے کی تیاریاں عروج پر ہیں اور ہر ملک کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے اس مرض کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس وقت اٹلی، بیلجئم اور سپین نے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہوا ہے۔ ویٹیکن سیٹی میں کیتھولیک عسائیوں کے عبادات معطل ہیں۔ سعودی حکومت نے عمرے پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ مساجد میں اذان کے علاوہ نماز با جماعت ادا کرنے پر بھی پا بندی لگا دی گئی ہیں۔ خانہ کعبہ میں حجر اسود کے سامنے دیوار کھڑی کردی گئی ہے تا کہ کوئی اس کا بوسہ نہ لے سکے۔ بین الاقوامی پروازیں تعطل کا شکار ہیں اور کاروباری سرگرمیاں ٹھپ پڑ چکی ہیں۔
لیکن چین میں مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ اٹلی اور ایران میں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں تعلیمی اور تفریحی سرگرمیاں معطل ہیں۔
20۔ کورونا وائرس کے پھیلاوٗ اور ممکنہ علاج کے بارے کتنے پروپیگنڈے ہورہے ہیں؟ کتنی غلط خبریں پھیلائی جارہی ہیں؟ اور کتنی جعلی مصنوعات و ادویات کا پر چار کیا جا رہا ہے؟
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں مختلف سازشی نظریات سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں جن کا تذکرہ یہاں کرنا بے جا طوالت کا باعث بن سکتا ہے۔ البتہ یہاں ہم ان چیزوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جن کا تعلق براہ راست آپ کی صحت یا معیشت سے ہیں۔
مختلف کمپنیوں اور افراد کی طرف سے کویڈ۔ 19 کے علاج کے نام پر مختلف جعلی چیزوں کی تشہیر اور خرید و فروخت کی جارہی ہے اور لوگ دھڑا دھڑ عوام کے خوف و ہراس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے بنا رہے ہیں۔ WHO نے اس طرح کی غلط خبروں کی نشاندہی کے لئے ایک الگ یونٹ قائم کیا ہوا ہے جو چوبیس گھنٹے مسلسل ایکٹو رہتا ہے۔آن لائن خریداری کی سب سے بڑی ویب سایٹ ایمازون کے مطابق فروری کے اختتام تک ایسے دس لاکھ مصنوعات کو ان کے سائٹ سے ہٹا لیا گیا ہے جن کے بارے میں کورونا کے علاج کے دعوے کیے جارہے تھے۔
بعض سوشل میڈیا اکاونٹس کے مطابق کورونا وائرس امریکہ اسرائیل اور دوسری مغربی قوتوں کا حیاتیاتی ہتھیار ہے جس کا ویکسین پہلے سے تیار کیا گیا ہے اور اب پوری دنیا میں خوف پھیلا کر اپنے ویکسین کے ذریعے معاشی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تا ہم ان دعووں کے بارے میں اب تک کوئی ثبوت میسر نہیں ہے۔
بعض لوگوں نے کوکین پاوڈر کو کورونا کے خلاف اینٹی وائرل ڈرگ کے طور پر پیش کرنے کی مہم چلائی۔ حالانکہ کوکین پھیپھڑوں پر انتہائی برے اثرات ڈالتی ہے جو مزید سخت بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔
ہندوستان میں گاؤ موتر یعنی گائے کے پیشاب کو کرونا کا علاج قراردیا گیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس دعوے کے پرچارک چند پڑھے لکھے پارلیمینٹیرئنز اور حکومتی وزرا بھی تھے۔
فیس بُک پر بہت سی ایسی پوسٹس شیئر کی گئی ہیں جن میں تجویز دی گئی ہے کہ لہسن کھانا انفیکشن کی روک تھام میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ لہسن کھانے سے لوگوں کو کورونا وائرس سے تحفظ مل سکتا ہے۔معروف یو ٹیوبر جارڈن سیتھر یہ دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ ‘معجزاتی معدنیات’ کورونا وائرس کا ‘مکمل خاتمہ’ کر دیتی ہیں۔ ان معدنیات کو ایم ایم ایس کا نام دیا گیا ہے جن میں کلورین ڈائی آکسائیڈ پائی جاتی ہے جو کہ ایک بلیچنگ ایجنٹ ہے۔ لیکن ان معدنیات کے کورونا وائرس کے خلاف موثر ہونے کے بارے میں کوئی تحقیقی ثبوت نہیں ہے۔ بلکہ امریکہ کے فوڈ اینڈ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق کلورین ڈائی آکسائیڈکے استعمال سے متلی، اسہال، ہیضہ اور جسم میں پانی کی شدید کمی جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔امریکی ٹی وی شو کے میزبان جِم بکر نے اپنے ایک پروگرام میں ‘کولائیڈل سلور’ کے استعمال کی ترغیب دی تھی۔ کولائیڈل سلور دراصل کسی بھی مائع میں موجود سلور دھات کے باریک ذرات کو کہتے ہیں۔
 لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کولائڈ سلور کورونا وائرس کے خلاف فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کے مضر اثرات میں جگر، گردہ، معدہ اور مثانے کے متاثر ہونے کے علاوہ کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔عام طور پر یہ کہا جا تا ہے کہ ہر پندرہ منٹ بعد پانی پینے سے کورونا وائرس پھیپڑوں کی بجائے معدے میں چلا جاتا ہے جہاں معدے کی تیزابیت اور خامروں کی مدد سے وائرس ختم ہوجاتاہے۔ مگراس طرح کا کوئی حیاتیاتی میکینزم موجود نہیں ہے جو اس بات کو سپورٹ کرے کہ آپ فقط پانی پی کر وائرس کو اپنے منہ سے معدے میں منتقل کریں اور اسے ہلاک کر دیں۔
گرم پانی پینے سے وائرس ہلاک ہو جاتا ہے اس بات میں بھی کوئی وزن نہیں ہے۔
٭٭٭