ان کا پیدائشی نام 'جو پال ایچان' ہے، قبول اسلام کے وہ صالح ایچان ہو گئے۔ ان کی کہانی خود ان کی زبانی:
میری فیملی رومن کیتھولک تھی اور بہت مذہبی۔میں بھی بچپن ہی سے مذہبی سرگرمیوں میں بہت جوش و خروش سے حصہ لیتا تھا۔ حتی کہ میں نوجوانوں کے اس خاص گروہ کا ممبر بن گیا جو چرچ کی خدمت کے لیے مقرر تھے۔ ہمارے گروپ کے لیے میری کا ایک مخصوص بت تھا جس کی ہم بہت شوق سے پوجا کرتے تھے۔ لیکن ہمیں بائبل پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ بائبل صرف ہمارے پیشوا پڑھتے اور ہم صرف اسے سنتے۔
کالج کی زندگی میں میرے ایک دوست نے مجھے دعوت دی کہ میں ان کے چرچ کا طریقہ عبادت دیکھوں۔ یہ چرچ پروٹیسٹنٹ تھا۔ ان کے ہاں میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہاں ہر فرد بائبل پڑھ سکتا ہے اور یہ کہ بائبل کی روسے کسی قسم کے بت کی پوجا جائز نہیں ہے۔ اس تجربے نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں غور و خوض کے بعد کیتھولک چرچ چھوڑ کر پروٹیسٹنٹ میں شامل ہو گیا۔ میں اپنی فیملی میں پہلا پروٹیسٹنٹ تھا۔ آہستہ آہستہ میری پوری فیملی اس چرچ سے وابستہ ہو گئی۔ یہاں میں نے بائبل پر پوری دسترس حاصل کی یہاں تک کہ میں ایک پادری کے طور بھی کام کر سکتا تھا۔
میں اسلام کے بارے میں بالکل کورا تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ مسلمان ایک مذہب کا نام ہے۔ مجھے کبھی کسی مسلمان سے ملنے کا بھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ کالج میں چند اساتذہ مسلمان تھے لیکن وہ بھی محض نام کے مسلمان تھے ان کی معاشرت اور ہماری معاشرت میں کوئی فرق نہ تھا۔ مجھے ذہنی طور پر مسلمانوں سے نفرت تھی کیونکہ ہمارے ملکی اخبارات اور ٹی وی ببانگ دہل مسلمانوں کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اس بات کا بار بار اعلان کیا جاتا کہ مسلمان دہشت گرد طبقہ ہے ہمیں یہ نصیحت کی جاتی کہ ایک مسلمان کے سامنے سے نہ گزرو کیونکہ وہ بلا دریغ تمہیں قتل کر دے گا۔ اور یہ کہ مسلمان سے لین دین مت کرو کیونکہ بنیادی طور پر وہ بہت بر ے لوگ ہیں۔
کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی کرنے کے بعد مجھے اور میرے ایک دوست کو سعودی عرب کے ایک بنک میں کمپیوٹر انجینئر کی جاب مل گئی چنانچہ ہم دونوں سعودی عرب آ گئے۔ میں نہ صرف عربی زبان سے کورا تھا بلکہ مجھے اس سے نفرت بھی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ اس زبان کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں۔ ا س لیے اس کا سیکھنا غیر ضروری ہے ویسے بھی بنک میں سب لوگ انگریزی جانتے تھے اس لیے عربی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ میں اور کچھ دوسرے فلپائنی ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ سعودی عرب کی طرز معاشرت میں کئی قسم کی پابندیاں تھیں اس کی وجہ سے بھی ہم متنفر تھے۔ اور اپنے اعتبار سے ایک قسم کی گھٹن میں زندگی بسر کر رہے تھے۔
روشنی کی پہلی کرن
ایک دن میں نے دمام شہر سے ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اس سے پندرہ ریال کرایہ طے کیا۔ لیکن سفر کے اختتام پر ٹیکسی ڈرائیور نے زیادہ کرائے پر اصرار کیا۔ اس بات پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے اسے کہا کہ تم پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے باوجود اس طرح کی حرکت کرتے ہو؟ یہ سنتے ہی ٹیکسی ڈرائیور بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کہا مجھے صرف پندرہ ریال ہی دیں۔ میں نے اسے پندرہ ریال دیے اور وہ شرمندہ شرمندہ خاموشی سے روانہ ہو گیا۔ جب میں نے اس بات پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اس ڈرائیور کا دل بہت نیک تھا اور یہ کہ اس کے دل میں اپنے مذہب کی بہت وقعت تھی۔ اس کے بعد میری رائے تبدیل ہو گئی اور میں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ یہاں کے باشندے بنیادی طور پر اچھے لوگ ہیں۔ لیکن ابھی تک مسلمانوں کے بارے میں میری سوچ نرالی تھی اور میرا خیال تھا کہ یہ لوگ بتاتے نہیں لیکن اصل یہی ہے کہ یہ لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں اسی لیے سورج نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات میں عبادت کرتے ہیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں ہمارے انچارج عبد اللہ العمری صاحب کی زبان سے عیسیٰ علیہ السلام کا نام نکلا میں اس پر حیران ہوا اور میں نے انہیں فوراً ٹوکا کہ عیسیٰ تو ہمارے ہیں آپ کون ہوتے ہیں ان کا نام لینے والے۔ عبداللہ صاحب میری اس بات سے بالکل ناراض نہ ہوئے بلکہ انہوں نے بڑے دھیمے انداز میں مجھے بتایا کہ سب پیغمبر مسلمانوں کے پیغمبر ہیں اور انہوں نے نوح، ابراہیم، موسی علیہم السلام کے نام لیے۔ اس سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں کوئی تعلق ضرور ہے۔
اب میں نے اسلام کے بارے میں چھان بین شروع کر دی کہ دیکھوں کہ یہ تعلق ہے کیا؟ میں مختلف بک سٹوروں پر گیا تاکہ اسلام پر کتب خرید سکوں۔ ایک بک سٹور پر مجھے ایک کتاب نظر آئی Jesus not God son of Marry میں نے یہ کتاب اور ایسی ہی چار اور کتابیں خرید لیں۔ ان کتابوں میں بائبل کے بہت سے اقتباسات تھے میں نے جلدی جلدی بائبل نکالی تاکہ ان کا موازنہ بائبل سے کر سکوں۔ تمام اقتباس بالکل درست تھے اس سے میرا تجسس اور بڑھ گیا۔ دو سال گزر گئے اس دوران میں نے مطالعہ جاری رکھا اور عرب تہذیب کا مطالعہ بھی۔ اتنے عرصہ میں کسی نے بھی مجھے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا اور نہ ہی کسی نے دعوت دی البتہ میرے ہر سوال کا بہت تشفی بخش جواب دیا جاتا۔ میں ایک تبلیغی مرکز بھی جاتا وہاں بھی لوگ مجھ سے خندہ پیشانی سے ملتے لیکن کوئی بھی مجھے اسلام قبول کرنے کے لیے نہ کہتا۔ میں نے احمد دیدات کی ویڈیو بھی دیکھیں چونکہ میں خود بھی بائبل کا عالم تھا اس لیے مجھے صاف محسوس ہو گیا کہ عیسائی پادری احمد دیدات کے مقابلے میں عیسائیت کا دفاع نہ کرسکا۔ میری تحقیق سے تین باتیں مجھ پر واضح ہوئیں کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا نہیں ہیں۔ بائبل اپنی اصل شکل میں نہیں۔ اسلام کا یہ دعوی کہ کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوائے ایک اللہ کے، نہایت سادہ، عقلی اور قابل فہم بات ہے۔ اب میرا ذہن مجھے آواز دے رہا تھا کہ آگے بڑھو اور فیصلہ کرو۔ مجھے اس بات کی فکر نہ رہی کہ میرے دوست رشتہ دار کیا کہیں گے چنانچہ میں ایک دن الخبر کے تبلیغی مرکز میں گیا وہاں میں نے دیکھا کہ مختلف زبانوں میں لیکچر ہو رہے ہیں۔ میں فلپائنی گروپ کے ساتھ بیٹھ گیا اور جوں ہی لیکچر ختم ہوا، ان سے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ سب نے مجھے مزید مطالعہ کرنے اور غور کرنے کا مشورہ دیا لیکن میں نے جواب دیا کہ میں نے اچھی طرح غور کر لیا ہے۔ مجھے اس لمحے اور بھی تعجب ہوا کہ کوئی بھی شخص مجھے اسلام قبول کرنے کا نہیں کہہ رہا بلکہ مطالعہ اور غور و خوض کی تلقین کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہاں میں نے اسلام قبول کیا۔ سب لوگ باری باری مجھے گلے ملے اور بہت ہی خوش ہوئے میں وہاں سے واپس آ رہا تھا تو راستے میں ایک سعودی باشندہ کہنے لگا کہ ارے تمہارا چہرہ تو مسلمانوں جیسا ہے۔اس رات میں خوب سکون کی نیند سویا۔ علی الصبح فجر کی نماز کے لیے مسجد میں گیا لیکن میں نماز کے طریقے سے واقف نہ تھا۔ تھوڑی دیر مسجد کے باہر کھڑا رہا۔ اتنی دیر میں ایک سوڈانی بھائی آیا۔ اس نے میرا مسئلہ بھانپ لیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا اندر کیوں نہیں آتے۔ تو میں نے بتایا کہ کل رات ہی اسلام قبول کیا ہے اس لیے نماز کے طریقے سے بے بہرہ ہوں۔ اس نے مجھے ساتھ لیا۔ استنجا، وضو کا طریقہ سمجھایا اور مجھے کہا کہ جماعت میں شامل ہو جاؤ جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں ان کے ساتھ کرتے جاؤ۔ اور آخر میں دعا کرو اللہ تمہارے لیے راستہ کھول دے گا۔ جب میں نے پہلا سجدہ کیا تو بے حد سکون ملا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی نماز قضا نہیں کی۔ اس کے بعد میں باقاعدگی سے ہر شام تبلیغی مرکز جاتا رہا اور کئی گھنٹے تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس دوران میں میری سالانہ چھٹی کا وقت آگیا لیکن میں نے اسے بھی ملتوی کرالیا تا کہ میری تعلیم کا حرج نہ ہو۔ اس تعلیم کے دوران میں مجھے علم ہوا کہ اللہ نے سود حرام کیا ہے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے جلد از جلد بنک کی نوکری چھوڑ دینی چاہیے میری زندگی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی لیکن میرے کولیگز اور ساتھیوں کو اس کی خبر نہ تھی۔ میں لوگوں سے چھپ کر ادھر ادھر نماز ادا کر لیتا۔ ایک دن میں وضو کر کے سیٹرھیوں سے اتر رہا تھا کہ میرا اپنے انچارج عبداللہ صاحب سے آمنا سامنا ہو گیا ۔ میرا چہرہ اور ہاتھ ابھی گیلے تھے انہوں نے حیرت سے پوچھا کیا ماجرا ہے؟ میں نے کہا وضو کیا ہے انہوں نے کہا کہ کیا تم مسلمان ہو چکے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں بہت خوش ہوئے۔ اس دن وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے اعزاز میں بہت شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس دن میں محسوس کر رہا تھا کہ گویا میں ان کی فیملی کا ہی ممبر ہوں۔ اسی طرح ایک دن میرے فلپائنی دوستوں نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو میرا راز کھل گیا۔ وہ سب ایک کمرے میں جمع ہو گئے اور مجھے گھیر لیا۔ مجھ سے انہوں نے طرح طرح کے سوال کیے اور مجھے غدار کے لقب سے نوازا۔ پھر انہوں نے اسلام کے بارے میں مختلف سوال کیے میں نے ان کے ہر سوال کا مدلل جواب دیا اور بائبل کھول کر با حوالہ گفتگو کی۔ ان سے کوئی بات بن نہ سکی تو انہوں نے مجھے تنہا کر دیا۔ ہم ہر وقت اکٹھے رہتے لیکن تنہا تنہا۔ چنانچہ میں نے ان کا مکان چھوڑ دیا اور ایک دوسرے نو مسلم فلپائنی دوست کے پاس شفٹ ہو گیا۔ اب ہم دو ہو گئے اور ہم دونوں نے مل کر علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم نے ایک مصری استاد سے باقاعدہ قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ بلکہ اصرار کر کے انہیں بھی اپنے گھر میں شفٹ کروا لیا۔ اس طرح ہماری تعلیم کا سلسلہ تیزی سے جاری ہو گیا۔ مجھے بچپن سے گٹار اور پیانو بجانے کا شوق تھا۔ یہ آلات بھی میں معمولی داموں فروخت کر کے نجات حاصل کر لی اسی طرح سگریٹ نوشی بھی یکدم ترک کر دی۔
قبول اسلام کے بعد میں اب پہلی بار سالانہ چھٹیوں پر گھر جا رہا تھا۔ دل میں عجیب طرح کی کشمکش جاری تھی۔ میرے روم میٹ رضوان صاحب نے کہا کہ ان کی اہلیہ اور بچے بھی مسلمان ہو چکے ہیں۔ اب میں منیلا جاؤں تو ان سے ضرور ملوں اور انہیں اسلام کی تعلیمات سکھاؤں۔ چند دنوں کے بعد میں منیلا پہنچا تو میرے والدین میرے استقبال کے لیے ائرپورٹ پر موجود تھے۔ ہمارے ہاں مذہبی تعلیم یہ تھی کہ والدین کے احترام میں ان کا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھنا چاہیے اور ہم ایسا ہی کرتے تھے لیکن اس موقع پر میں نے ایسا نہ کیا بلکہ باری باری ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اس سے وہ بہت حیران ہوئے۔ بہر حال ہم خوشی خوشی گھر پہنچے۔ گھر پہنچ کر میں نے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں میرے لیے سور کا گوشت حرام ہے۔ اس پر میرے والدین چونک پڑے۔ انہوں نے کہا ہم نے تمہارے لیے خاص طور پر سور کی پسلیوں کے گوشت کا اہتمام کیا تھا۔ ہمارے ملک میں سور کی بھنی ہوئی پسلیوں کی ضیافت ایک بڑی ضیافت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے نہ صرف ان کی ضیافت کو ٹھکرا دیا بلکہ واضح کیا کہ میں سور کے اجزا سے بنی ہوئی کسی بھی چیز کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ میرے والدین نے میری درخواست مانتے ہوئے میرے لیے حلال کھانے کا اہتمام کیا۔ منیلا میں قیام کے دوران میں والدین اور رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی لیکن چونکہ میں دعوت کے اسلوب سے نابلد تھا اس لیے میں اصرار کرنے لگا۔ میری خواہش تھی کہ یہ لوگ جلد از جلد ہدایت کے سائے میں آ جائیں۔ میرے رویے سے گھر کا ماحول کشیدہ رہنے لگا۔ بہت بعد میں یہ بات سمجھ آئی کہ میرا اسلوب صحیح نہ تھا۔ چھٹیوں کے بعد میں واپس سعودیہ آگیا۔ اگلے برس میں اور رضوان صاحب اکھٹے چھٹی پر گھر گئے۔ اس بار میری والدہ نے کوشش کی کہ میں دوبارہ عیسائی مذہب اختیار کر لوں انہوں نے ایک پادری کو گھر بلایا۔ اس نے میرے ساتھ کافی دیر مکالمہ کیا۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ والدہ صاحبہ نے ایک اور پادری کو گھر بلایا اور خود بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئیں تا کہ ہماری بات چیت سن کر تجزیہ کر سکیں۔ والدہ ایک ٹیچر تھیں اور والد آرمی سے ریٹائرڈ تھے۔ والد صاحب اگرچہ بظاہر ہم سے الگ تھلگ تھے لیکن وہ بھی ہماری گفتگو کو توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نے پادری صاحب کے ہر سوال کو خود بائبل سے ہی رد کر دیا۔ جب ان کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہی تو وہ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ اگلی بار وہ بڑے پادری صاحب کو لے کر آئیں گے جس کی کبھی نوبت نہ آئی۔ پادری کے جانے کے بعد میرے والد نے والدہ سے کہا کہ تمہارے بیٹا کا علم پادری سے زیادہ ہے۔
رضوان صاحب کی طرف سے ان کی بیٹی کے ساتھ رشتہ کی پیشکش ہو چکی تھی۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ بنک کی نوکری چھوڑ کر شادی کروں گا۔ میں نے سعودی علما سے رائے لی سب نے بہت اچھی تلقین کی کہ نوکری چھوڑنے کی مخلصانہ نیت کرو اور جب تک دوسری نوکری نہ ملے یہ کرتے رہو۔ میں نے بہت جگہ انٹرویو دیے لیکن ان کے
لیے یہ بات حیرت کا باعث ہوتی تھی کہ میں زیادہ تنخواہ چھوڑ کر کم پر کیوں ملازمت کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس طرح مجھے نوکری کی تلاش کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ کام موجود تھے لیکن لوگ مجھے نوکری دیتے نہ تھے کہ تمہاری کوالیفیکیشن زیادہ ہے ہم یہ تنخواہ نہیں دے سکتے۔ بہت مشکل سے ایک کمپنی میں میں نے اس شرط پر ملازمت حاصل کی کہ میں ان سے زیادہ تنخواہ کا مطالبہ نہ کروں گا۔ لیکن اس میں اللہ کا فضل یہ ہوا کہ مجھے دمام کے بجائے مدینہ منورہ میں جاب مل گئی اور میں بنک چھوڑ کر وہاں آگیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنی زندگی میں جو انقلاب لا رہا تھا جاب اس کا آخری مرحلہ تھا۔ اب شادی کی باری تھی۔ اگلے برس میں اور رضوان صاحب پھر اکٹھے وطن گئے اور شادی ہو گئی۔ شادی میں بھی میں نے والدین سے درخواست کی کہ اسلامی طریقے پر ہو گی اس میں بھی انہوں نے مجھ سے تعاون کیا۔ اب میرے والدین مجھ سے کافی تعاون کرنے لگے تھے۔ رمضان کا پورا مہینہ میں منیلا میں مقیم رہا اور میری والدہ میرے لیے سحری اور افطاری کا اہتمام کرتی رہیں۔ چھٹیوں کے بعد میں مدینہ منورہ واپس آگیا اور کچھ عرصے بعد اہلیہ کو بھی بلا لیا۔ اب ہماری دو بیٹیاں ہیں جن کے نام میں نے صفا اور مروہ رکھے ہیں۔ میری حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ تبلیغی مرکز جا کر اعزازی طور پر خدمات انجام دوں اور نئے مسلمانوں سے ملوں اور ان کا ایمان پختہ کروں۔ اسلامی یونیورسٹی کے طلبا کو بھی اعزازی طور پر کمپیوٹر کی تعلیم دیتا ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ میری کوشش قبول فرمائے اور مجھے اور میری فیملی کو آخرت میں کامیاب فرمائے اور میرے والدین کو اسلام کی روشنی عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭
بشکریہ : بحوالہ، میں نے اسلام کیوں قبول کیا، جلد اول ترتیب اعجاز حیدر