اگر ایک جگہ کچھ لڑکیاں بیٹھی ہوں اور کسی کا بھائی وہاں سے گزرے تو کوئی ایک لڑکی اچانک بول اٹھتی ہے‘‘شازیہ! تمہارا بھائی کتنا ہینڈ سم ہے یہ تو ایک دم ہیرو ہے’’۔ لیکن اگر ایک جگہ کچھ لڑکے بیٹھے ہوں اور کسی کی بہن وہاں سے گزرے تو کیا کوئی لڑکا ایسا جملہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟نہیں کر سکتا ناں!اس لیے کہ سوسائٹی نے طے کردیا ہے کہ ایسے جملے صرف لڑکیاں کہہ سکتی ہیں لڑکے نہیں۔میں بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی مذہب سے کہیں زیادہ طاقتور سوسائٹی ہوچکی ہے۔
دوسری شادی کرنا کوئی جرم نہیں’لیکن بیوی جتنی مرضی مذہبی ہووہ ہر گز ہرگز اِس چیز کو تسلیم نہیں کرتی اور سوتن کے نام پر خونخوار ہوجاتی ہے۔اسی طرح مذہب میں شادی کے لیے بالغ مرد و عورت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں،90 سال کا بابا20 سال کی لڑکی سے شادی کرسکتاہے اور 80 سال کی مائی کسی 25 سالہ جوان لڑکے سے شادی کر سکتی ہے’لیکن دیکھ لیجئے’ایسا جب بھی ہوتاہے سوسائٹی میں طنز کے تیر چلنا شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ مذہب میں ‘‘بے جوڑشادی’’ کا کوئی تصور نہیں۔اگر عورت اور مرد بالغ ہیں تو پھر دونوں کی عمروں میں 100 سال کا فرق ہی کیوں نہ ہووہ شادی کر سکتے ہیں۔ہماری سوسائٹی میں تو لوگ جوان اولاد کے ہوتے ہوئے مزید اولاد پیدا کرنے سے بھی شرماتے ہیں کیونکہ سوسائٹی اسے اچھا نہیں سمجھتی۔مستحق کا زکوۃ لینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا صاحبِ حیثیت کا زکواۃ ادا کرنا’لیکن دیکھ لیجئے’زکوۃ لینا گالی بن گیا ہے۔مجبور سے مجبور شریف آدمی بھی ادھارلینا گوارا کر لیتاہے زکواۃ نہیں لیتا۔
حالانکہ ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی جو شخص زکواۃ نہیں لیتاوہ بھی ایک طرح سے گنہگار ہی ٹھہرتاہے کیونکہ اگر وہ زکوۃ نہیں لے گاتو کوئی دوسرا غیر مستحق یہ رقم لے اڑے گا۔اصل میں سوسائٹی اپنے آپ میں بڑی ظالم چیز ہے ۔یہ معاشرتی معاملات میں اپنے ضابطے خود طے کرلیتی ہے۔یہ مذہب کو مانتی تو ہے لیکن صرف عبادات کی حد تک عملی معاملات میں یہ صرف اپنے اصولوں کو ترجیح دیتی ہے۔
پسند کی شادی مذہب میں کوئی جرم نہیں لیکن ہماری سوسائٹی میں یہ اب بھی کسی حد تک ناپسندیدہ چیز ہی سمجھی جاتی ہے۔مذہب کہتا ہے کہ بچے بالغ ہوجائیں تو جلد سے جلد ان کی شادی کردو’لیکن سوسائٹی کہتی ہے کہ صرف بالغ نہیں’ بلکہ جب اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں تب کرو چاہے جب تک 35 سال تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت کم ایسے لڑکے لڑکیاں ہیں جو 18 سال کی عمر کو پہنچتے ہی شادی شدہ ہوجاتے ہیں۔مذہب کہتا ہے کہ اولاد کو حرام کے لقمے سے بچاؤ۔ سوسائٹی کہتی ہے کہ نہیں’ اولاد کے لیے جوکچھ ہوسکتا ہے کر گزرو۔ مذہب ذات برادری کو محض پہچان کا ذریعہ قرار دیتا ہے’
لیکن سوسائٹی اِسے باعثِ فخر قرار دیتی ہے۔کبھی غور کیجئے گا،سوسائٹی کے اصول کوئی نہیں بناتا،یہ اپنا آئین خود تحریر کرتی ہے اور لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔سوسائٹی نے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی ڈال دی ہے کہ مذہب کے بغیر رہا جاسکتا ہے لیکن سوسائٹی کے بغیر نہیں۔لیکن لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ سوسائٹی کے بنا رہا جاسکتا ہے مذہب کے بغیر نہیں لیکن فی زمانہ ہم مذہب کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں اور سوسائٹی سے رشتہ توڑنے کو تیار نہیں۔
مذہب میں اپنی طرف سے پیدا کی گئی مرضی اور سوسائٹی کے اسی دوغلے معیار نے ہمارے قول و فعل میں عجیب سا تضاد بھر دیا ہے۔دین و دنیا کو اپنی چالاکی سے رام کرتے کرتے ہم عجیب سی مخلوق بن گئے ہیں۔٭٭٭