لکھتے ہُوئے پہلے کبھی ایسا احساس نہیں ہوتا تھا کہ جیسے یہ سب الفاظ بے معنی ہوں، بے مقصد ہوں، جو بھی لِکھ رہا ہُوں سب لایعنی اور فُضول ہو؛ لیکن اب ایسا احساس ہوتا ہے، ہر بار ہوتا ہے اور یہ احساس یقین کریں بُہت دِل دُکھاتا ہے لِکھنا چھوڑنے کا بھی سوچا کئی بار، پھر یہ سوچتا ہُوں کہ اپنا کام جاری رکھنا چاہئیے جیسے ‘‘مُجھے ہے حُکمِ اذاں’’۔ اِس تمہید کا مقصد کیا ہے؟ اِس کا ایک مقصد ہے اور وُہ مقصد یہ ہے کہ ایک بار پھر یہ واضح کِیا جائے کہ میں اور میرے جیسے ہزاروں لوگ جو لِکھتے ہیں وُہ کِسی کے ایجنڈے کے غُلام نہیں ہیں اور نہ ہمیں اپنے لِکھے کا کوئی صِلہ چاہئے ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی محدود سوچ، سمجھ یا مُشاہدے کے مُطابق معاشرے میں بہتری بھلائی اور تعمیری سوچ کا ہراول دستہ ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کوئی بھی تحریر جب آپ پڑھیں، چاہے میں نے لِکھی ہو یا کوئی اور لِکھ رہا ہو تو اُس کو میرٹ پر دیکھا جائے، پڑھا جائے نہ کہ پہلے سے بنائے گئے تعصبات اور سوچ کی وجہ سے کِسی بھی تحریر کو اپنے تئیں’’رگڑا’’ لگانے کی کوشش کی جائے۔ اِس کو نرم سے نرم الفاظ میں تعصب کہا جاتا ہے۔
تعصب ہے کیا بَلا؟
تعصب یہ ہے کہ جب آپ عامر خاکوانی کی تحریر دیکھیں تو سب سے پہلا خیال آپ کے دِل میں یہ آئے کہ ‘‘ارے چھوڑو یار! عامر نے دائیں بازو کے حق میں ہی لِکھا ہو گا، ارے یہ تو تحریکِ اِنصاف کی حمایت کرتے ہیں۔’’ کہیں کِسی تحریر پر ہُوئی بحث یا تلخی کو مدِنظر رکھتے ہُوئے تحریر سے اِنصاف نہیں کِیا جائے گا بلکہ ذاتیات کو مدِنظر رکھا جائے گا۔ تعصب یہ بھی ہے کہ حاشر کا لِکھا پڑھنے سے پہلے بندہ یہ سوچ لے کہ ارے یار! اِس بندے کا لکھا لازمی مذہب یا مُلک مُخالف ہو گا۔ تعصب یہ بھی ہے کہ جہاں کِسی نے پاکستان میں ہونے والی کِسی بُرائی یا جُرم کا قضیہ چھیڑا تو فوری دیگر ممالک کے جَرائم یا مسائل کے اعداد و شُمار گُوگل جی سے لے کر پیسٹ کر دیے جائیں کہ اجی آپ ریپ کی بات کرتے ہیں تو مغربی ممالک میں اِتنے ریپ ہوتے ہیں، فلاں مُلک کا ریپ میں نمبر اِتنا ہے کہیں شِدت پسندی کی بات کی جائے تو فوری طور پر اِنڈیا کی شِدت پسندی کا موازنہ شُروع کر دِیا جائے۔
برسیلِ تذکرہ؛ یہ اعداد و شُمار بھی آپ کو وُہ ‘‘کافر’’ مُلک ہی مُہیا کرتے ہیں جہاں ہونے والے زیادہ تر ریپ کرائم کو رجسٹر کِیا جاتا ہے جبکہ اپنے ہاں یہ شرح شرمناک حد تک کم ہے۔ ویسے کوئی بھی جُرم یا بُرائی اگر پُوری دُنیا بھی کرنے لگے تو اُس سے اُس کا جواز نہیں بن جاتا، بالفرض مغربی ممالک میں ہر بندہ بھی ریپ کرنے لگے تو بھی اپنے ہاں ہونے والا ایک بھی ریپ اِس سے جسٹیفائی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ایسی باتوں پر دفاعی مورچہ سنبھالنے سے گُریز کِیا کریں اور ویسے بھی موازنہ اچھی اور مثبت باتوں یا کاموں کا اچھا لگتا ہے نہ کہ منفی چیزوں کا۔ اُمید ہے یہ پوائنٹ واضح ہو جائے گا؟
ایک چھوٹی سی مِثال دیتا ہُوں، میں جب بھی زیبرا کراسنگ پر گاڑی روک کِسی پیدل چلنے والے کو راستہ دیتا ہُوں (یہ پیدل چلنے والے کا حق ہے ) تو میرے ذہن میں ہمیشہ راولپنڈی میڈیکل کالج کے سامنے ایک بُزرگ کو زیبرا کراسنگ پر جگہ دینے کا واقعہ یاد آتا ہے۔ جب پیچھے سے آنے والے ایک تجربہ کار ڈرائیور نے گاڑی ٹھونک دی اور اُترتے ہی لڑنے لگا کہ سڑک کے بیچ میں آپ نے بغیر کِسی وجہ کے گاڑی روکی ہے اور جب سمجھانے کی کوشش کی کہ بابا یہ زیبرا کراسنگ ہے یہاں آپ کو رُکنے کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے تو یہ بات اُن کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ مطلب یہ ہے کہ جب مُہذب ممالک کی کِسی اچھی بات کی مِثال دی جاتی ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن ممالک میں سب اچھا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ وہاں اچھائی کی شرح زیادہ ہے۔ ایسی امثال کا مقصد تحریک بھی ہوتا ہے لیکن اپنے صالحین لَٹھ کر پُہنچ جائیں گے کہ نہیں جی نہیں ایسی باتیں لِکھنے سے معاشرے کا منفی پہلو اُجاگر ہوتا ہے۔ بھئی منفی پہلو تو تب ہو جب مذکورہ بُرائی یا مسئلہ سِرے سے موجود ہی نہ ہو!
تعصب کی مِثال ہر سطح پر دی جا سکتی ہے جیسے عِمران خان، نواز شریف، زرداری یا آرمی کی ہر بات کو غلط کہنا یا ہر فعل کو دُرست کہنا، ہر بات کا دفاع یا ہر بات کی مُخالفت۔ یہ دُرست رویہ نہیں ہے۔ آپ کی سوچ یا فِکر دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی؛ اگر آپ کیس ٹُو کیس بات نہیں کر سکتے تو آپ کبھی دُرست نہیں ہو سکتے۔ نہ دائیں بازو ہر وقت ٹھیک ہے نہ بائیں بازو، اِسی طرح ہر وقت دونوں غلط بھی نہیں ہو سکتے۔ حالیہ دِنوں میں آپ نے دیکھا کہ ایک مُحترمہ اور ایک ڈرامہ نگار کا معاملہ بھی کُچھ ایسا ہی تھا کہ یار لوگ بضد تھے کہ مُحترمہ چُونکہ ماضی میں کئی دیگر لوگوں سے بدتمیزی کرتی رہی ہیں تو اُن سے کی گئی بدتمیزی اور گالم گلوچ دُرست ہے، کُچھ مائینڈ سیٹ یہ بھی تھا کہ ڈرامہ نگار مردانہ معاشرے یا سوچ کا نُمائندہ محسوس سمجھا جا رہا تھا۔
بہر حال تعصبات ہم سب میں ہوتے ہیں، میرے اندر کئی تعصبات ہیں، آپ کے اندر بھی ہوں گے لیکن ہمیں کہیں نہ کہیں، کِسی نہ کِسی طرح اپنے تعصبات سے اُوپر اُٹھ کر بات کرنی ہوتی ہے ورنہ ہماری کِسی بھی کہی گئی بات کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ جہاں تک رہا سوال پہلے سے بنائے گئے ذہن کا تو بھئی عرض یہ ہے کہ کُچھ بھی پڑھنے سے پہلے ہی ذہن بنا لینا صحت مندانہ رویہ ہرگز نہیں ہے۔ جیمز ڈیور کے مُطابق،‘‘اذہان کِسی پیراشُوٹ کی طرح ہوتے ہیں اور وُہ تب ہی کام کرتے ہیں جب وُہ کُھلے ہوں۔’’
جناب اپنا دِل اور دماغ کُھلا رکھیں، تعصبات کو ایک طرف کرتے ہُوئے سوچنا شُروع کریں، ذاتیات کو ایک طرف کرتے ہُوئے کِسی کی بھی لکھی گئی بات کو میرٹ پر دیکھنے اور سمجھنے کی عادت اپنائیں، نہ بغیر سمجھے واہ واہ اچھی بات ہے اور نہ ہی کِسی ذاتی ناپسندیدگی کی بِنا پر مُخالفت مُناسب ہے۔ آپ اپنی سوچ کو وسعت دیں، باقی اللہ بہتری کرے گا۔٭٭٭