جہاز سے اُتر کر،مختلف مراحل تفتیش سے گزر کر ہم سامان وصول کرنے کے لیے سامان ہال میں آ گئے۔سامان کی وصولی کے انتظار کے لمحات میں ،پھر شکیل صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ہم نے اکٹھے اپنا اپناسامان جمع کیا۔ایک پاکستانی این جی او کے رضا کار ہال میں زائرین کرام کی مدد کر رہے تھے۔اُ ن کی رہنمائی میں،ہم ائیر پورٹ سے باہر آئے۔یہ ایئر پورٹ کیا تھا ، بس، خیموں کا ایک طویل و عریض سلسلہ تھا۔حیران کن منظر تھا ،اندر بھی اور باہر بھی۔یہ عظیم الشان عمارت کچھ اِس طرح سے ڈیزائن کی گئی ہے کہ باہر سے یا اُوپر سے اِس کا نظارہ کریں تو سینکڑوں کی تعداد میں خیمے ایستادہ نظر آئیں گے اور اندر سے دیکھیں تو ایک عظیم ا لشان، جدید ترین اور تمامتر سہولیات و آسائشات سے مزین ایک دیدہ زیب عمارت نظر آتی ہے۔ہم حیرت میں گم تھے اورا ٓہستہ آہستہ ،لائن میں ، ایک رضاکار کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ،سامان ہال اور مین ایئر پورٹ بلڈنگ سے باہر آ گئے۔رضا کاروں میں سے ایک صاحب نے اشارہ کیا کہ،‘‘ اپنا اپنا سامان اس ٹرک میں رکھ لیں ،آپ کے ہوٹل میں پہنچا دیا جائے گا ۔صرف ہاتھ میں رکھنے والے چھوٹے بیگ اپنے پاس رکھ لیں۔’’حکم کی تعمیل کر دی گئی۔
اندر تو ٹھنڈی مشینوں نے ماحول شاندار بنایا ہوا تھا لیکن باہر جولائی کا گرم موسم ہمارا استقبال کر رہا تھا۔دوپہر کے ساڑھے تین بجے کا وقت تھا۔ بے پناہ گرمی تھی ۔تھوڑی ہی دیر میں ہم سب پسینے میں شرابور ہو چکے تھے۔یہ تو شکر ہے کہ سنگ و خشت کے اُونچے اُونچے خیمے تنے تھے کہ جن کا سایہ ہمارے لیے سائبان غنیمت تھا۔اس سائبان کے نیچے ہم چل رہے تھے۔ہمار ی اگلی منزل مکہ شریف تھی اورمکہ لے جانے والی بسیں بھی ہمارے سامنے موجود تھیں لیکن ،نہ جانے کیوں،ہمیں انتظار گاہ میں بچھی، سیمنٹ کی بینچوں پربیٹھنے کو کہا گیا۔اللہ بھلا کرے ، کچھ لوگوں کا ،کہ نہ جانے کون تھے ،کہاں سے آئے تھے،ہمیں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور کچھ اشیائے خوردنی کے پیکٹ دے گئے۔اِن چیزوں کی ہمیں اِس وقت اشد ضرورت تھی۔بھوک اور پیاس سے برا حال تھاکیونکہ باقاعدہ کھانا تو ،ہم نے رات کو ہی لاہور میں کھایا تھا ۔صبح سے اب تک،بس ایسے ہی خالی معدہ چل رہے تھے۔جہاز والوں نے جو کچھ دیا تھا،اُس میں بھی یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ سفر میں اِن بے چاروں کے معدہ کو زیادہ کام نہ ہی کرنا پڑے تو بہتر ہے۔لہٰذا اِس لمحے جو کچھ ملا وہ نعمت غیر مترقبہ تھی ۔
نہ جانے کیا معاملہ تھا ،ظاہر ہے کوئی انتظامی ضروریا ت ہی ہوں گی،کہ ہم کافی دیرتک اس گرم ماحول میں بٹھائے رکھے گئے۔ اس دوران میں ہم سب نے حوائج ضروریہ سے فراغت حاصل کی ،وضو بنایا اور ایک نماز گاہ ( باقاعدہ مسجد نہ تھی )میں نماز ظہر و عصر ملا کر ادا کر لی۔ہم سب احرام میں تھے۔شکیل بھائی اور میں ساتھ ساتھ تھے۔ ہمارے درمیان خاصی انڈر سٹیندنگ تشکیل پا چکی تھی۔ایک دو اور ساتھیوں سے بھی تعارف کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔ہم سب اللہ کے مہمان تھے۔
تھوڑی دیر میں ،ہم ایک بڑی بس میں بٹھا دیئے گئے۔شکر ہے کہ ایئر کنڈیشنڈ بس تھی اورگرم ماحول سے نجات ملی تھی۔اب بہترین ماحو ل بن چکا تھاسو ہم نے سکھ کا سانس لیااور اطمینان سے بیٹھ گئے۔ہم مکہ شریف جانے والی بس پر سوار ہو چکے تھے۔اب منزل قریب تھی۔بظاہر سکون اور اطمینان تھا،اب تک کا سب کچھ ،پروگرام کے مطابق رونما ہوا تھا۔لیکن میرے دِل ودماغ میں ایک عجیب طرح کی کشمکش، طلب اورتڑپ تھی ،کچھ احساس اجنبیت تھا،قدرے بے چینی اورزیادہ تر انتظار ہی انتظارکی کیفیت تھی۔ اپنے گناہوں پرندامت و شرمندگی بھی تھی ۔اگرچہ باہر کے ماحول کو اور آنے جانے والے لوگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھالیکن نہ جانے کیوں دِل بوجھل بوجھل تھا۔اگرچہ وقفے وقفے سے ،زبان سے تلبیہ ادا کررہا تھا اور،شعوری طور پر ادا کررہا تھا لیکن لذت نہیں مل رہی تھی ،ایسے لگتا ہے جیسے محض مشق شفتین ہورہی ہے،اور یہ کہ میں محض lipserviceمیں مشغول ہوں۔خاصی دیر ہم بس میں ہی بیٹھے رہے۔کیا مسئلہ تھا ،کسی کو کوئی خبر نہیں تھی۔ہم بس ایئر پورٹ کی رونق کو ،اللہ پاک کے مہمانوں کو اور اُن کے میزبانوں کو بس کے شیشوں سے دیکھے جا رہا تھے۔قریباً پون گھنٹہ کی انتظار کے بعد،ہماری یہ بس،اذن روانگی پاتی ہے اور سوئے حرم چل پڑتی ہے۔اچھی اور آرام دہ بس تھی۔ایئر کنڈیشن خوب کام کر رہا تھا ۔ باہرسورج کی چمک دمک اور آب و تاب سے اندازہ ہو رہا تھا کہ باہر خوب گرمی ہوگی لیکن بس کے اندر کا موسم نہایت عمدہ تھا۔
بس کے سب مسافرگم سم تھے حتیٰ کہ تلبیہ بھی نہیں پڑھ رہے تھے حالانکہ تلبیہ تو زائرین ِحرم کا نعرہ مستانہ ہے۔لیکن بے ذوق راہی ہوں تو مستی و جذب کہاں سے آسکتا ہے ۔ یہ عاجز کبھی کبھی یہ نعرہ مستانہ بلند کرتا لیکن یہ ائیرکنڈیشنڈ بس میں کوئی ہیجان ،کوئی گرمی پیدا نہ کر سکا۔شاید سب میں طویل سفر کی تھکاوٹ تھی یا سب حیرتوں کے سمندر میں ڈوبے تھے۔ہم مکہ کو رواں دواں تھے لیکن ہمارے چہروں سے کوئی خوشی نہیں ٹپک رہی تھی۔میں اپنے ان ساتھیوں کو کیسے سمجھاؤں کہ تم لوگ پنڈی لاہورکے مسافر نہیں ہو بلکہ مکہ کے مسافر ہو۔بس چلی جارہی تھی ،وہ ہم سے بے خبر ،ہم اُس سے بے خبر۔پہلے تو،کافی دیر تک جدہ شہر کے نظارے ہی ہمارے ساتھ ساتھ چلتے رہے ایک مکمل طور پر ایک جدید میٹروپولٹن شہر کا نظارہ تھا۔آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں،فلک بوس پلازے،وسیع و عریض اورکشادہ سڑکیں اور اُن پر دوڑتی بھاگتی نئی نویلی گاڑیاں،اوورہیڈبرج،ٹریفک سگنلز والے چوک،موٹرویز،چمکتے دمکتے سائن بورڈز اور اُن پر عربی زبان میں لکھے اشتہارات،بعض غیر ملکی برانڈزکے اُوٹلیٹسoutlets ،وغیرہ وغیرہ ،غرض ایک مکمل طور پر جدیدشہر ہماری نظروں کے سامنے دوڑ رہا تھا۔
جدہ مکہ پاک کا دروازہ ہے۔زمانہ قدیم سے زائر ین مکہ کے لیے،سب سے پہلے باہیں پھیلانے والا قصبہ ہے۔ہماری بس تیزی سے اس شہر دِل پذیر میں سے گزرتی جا رہی تھی۔کچھ دیر بعد گاڑی شہر سے باہر نکلی تومنظر بدلا۔اب ایک بے آب و گیاہ وادی کا نظارہ تھا۔خشک پہاڑ،ریت کے ٹیلے ،کھردری زمین اور کہیں کہیں سبزہ اور خال خال درخت، اور وہ بھی کھجور کے درخت، کہ جن کا نہ کوئی سایا تھا اور نہ کوئی ہمسایہ!۔
نہ کوئی چشمہ ،نہ کوئی ندی دریا،نہ کوئی بستی اور نہ کوئی ڈیرہ ،نہ کوئی بندہ نہ کوئی بشر۔
البتہ بہترین کشادہ روڈ اور اس پر دوڑتی بھاگتی رنگ برنگی گاڑیاں ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔دور دور تک ریت اور پتھرکے‘‘ کھیت ہی کھیت ’’نظر آتے تھے۔
اب ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہو چکے تھے۔یہ مکے کی گلیاں تھیں ،میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی گلیاں ۔
گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔مکہ شریف کی کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی،اوور ہیڈ برجز پر چڑھتی اُترتی، چوک چوراہوں کو کراس کرتی،پہاڑوں کے اندر بنی خوبصورت سرنگوں میں سے گزرتی ،کچھ ہی دیرکے بعد ،یہ شہزادی ہمیں حرم شریف کے قریب لے آئی ۔چونکہ خاکسار کا ، پہلے بھی کئی بار آنا ہو چکا تھا ،اس لیے راستوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت تھی۔ہم شاہراہ ابراہیم خلیل پر آ چکے تھے کہ ایک جگہ پر بس رک گئی ،دیکھا تو اُس کے آگے پیدل چلنے والے انسانوں کا جم ِ غفیر تھا۔ہم حرم کے قریب ،جنوبی سمت میں واقع کبوتر چوک پر پہنچ چکے تھے۔بس کے چاروں طرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے جس کے باعث ٹریفک بلاک تھی۔اندازہ ہوگیا اور درست اندازہ ہوگیا ،کہ یہ سب زائرین حرم ہیں اور ابھی مسجد الحرام میں نمازِمغرب ادا کر کے واپس پلٹ رہے ہیں۔ میں نے شکیل صاحب کی توجہ مبذول کرتے ہوئے عرض کی:‘‘ شکیل بھائی !دیکھ لیجئے ،ابھی تو بیس پچیس دِن پڑے ہیں حج میں سے اورلوگوں کا رش ملا حظہ فرمایئے۔’’شکیل بھائی بھی حیرت زدہ ہو کر بس کے باہر آئے انسانوں کے اس سیلاب کو تک رہے تھے۔کہنے لگے ،‘‘وہ تو ٹھیک ہے ،پر اِنسانوں کے اس سمندرکا سکون اور اطمینان دیکھیے ،کوئی ہڑبونگ نہیں ،کوئی دھکم پیل نہیں اور کوئی شور شرابہ نہیں ،بڑے آرام سے سب چل رہے ہیں۔واہ ،سبحان اللہ !’’ہجوم کے ساتھ ساتھ ،ہماری بس بھی کھسکتی رہی اور قریب ہی ایک گلی میں گھس کر،ایک ہوٹل کے سامنے رک گئی ۔ ہمارے گائیڈ نے کہا کہ ،‘‘لیجئے جناب ، آپ کا ہوٹل آ گیا ہے،نیچے تشریف لے آئیے۔’’اُترتے وقت ہم سب کے بازوؤں میں پیلے رنگ کا ایک پٹا ،یہ کہہ کرپہنایا گیا کہ یہ آپ کے معلم کی طرف سے مہیا کیا گیا آپ کا شناخت نامہ ہے جسے ہروقت آپ نے اپنی کلائی پر باندھے رکھنا ہے۔اِس کے ساتھ ہی ہم سب سے پاسپورٹ بھی لے کر اُن لوگوں نے اپنے پاس رکھ لیے۔ہم نے اپنے ہینڈ بیگ پکڑے اور ہوٹل کے اندر داخل ہوگئے۔ ہوٹل کا نام دارالخلیل الرشد تھا۔پہلی نظر میں تو یہ ہوٹل کوئی زیادہ عمدہ اور جاذب نظر نہ لگا۔بہر حال ہم سب لابی میں اکٹھے ہو گئے ہمارے ساتھ آئے کمپنی کے مینیجر جناب حسن بھائی کمروں کی الاٹمنٹ کر رہے تھے اِس وقت تک ہم تین ساتھی آپس میں افہام و تفہیم understandingکر چکے تھے کہ ہم تینوں ایک ہی کمرہ الاٹ کروائیں گے اور الحمدللہ ،یہ بڑی آسانی سے ہو گیا ۔ حسن بھائی نے ہمیں چابیاں پکڑوائیں اور کہا کہ کمرے میں اپنا اپنا سامان رکھ کر ،ہوٹل کے ڈائینگ ہال میں آ جائیں اور رات کاکھانا بھی کھا لیں۔کمروں کی الاٹمنٹ کے عمل کے دوران میں ،ہوٹل لابی میں ہی ہمیں البیک کاایک ایک پیک بھی (نہ جانے کس کی طرف سے تھا)عنایت کیا گیا۔یہ ایک نہایت اعلیٰ میزبانی تھی ۔ بہرحال ہم تینوں لفٹ کے ذریعے ،نویں منزل پرواقع اپنے کمرے میں پہنچے اورکمرے میں اپنا اپنا سامان سیٹ کیا۔ہمارے تیسرے روم میٹ لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد اکرم صاحب تھے ۔
کچھ دیر ایک دوسرے سے تعارف میں گزارا،پھرباہم مشورہ کیا کہ آیا اب آرام کیا جائے یااسی وقت حرم پاک جا کرعمرہ کی ادائیگی کی جائے ۔اکرم صاحب نے کہا کہ میں تو ابھی کچھ دیر آرام کروں گا جب کہ ،شکیل صاحب اور خاکسار نے فوری طور پر عمرہ ادا کرنے کی ٹھانی۔سفر کی طوالت اورتمام ترتھکاوٹ کے باوجودہم دونوں دوست ہشاش بشاش ، طواف و سعی کی مشقت لینے کے لیے یکدم تیا ر اور پُر جوش تھے۔ہم نے ہوٹل میں ہی وضو بنایا او ر تلبیہ پڑھتے ہوئے حرم میں حاضری کے لیے ہوٹل سے باہرنکل آئے۔ہمارا ہوٹل شاہراہ ابراہیم خلیل کی ایک کشادہ گلی میں واقع تھا۔راستوں سے مجھے قدرے شناسائی تھی اس لیے ہم نے حرم پاک کی طرف رخ کر کے چلنا شروع کر دیا۔رات ہو چکی تھی۔ ابھی ابھی نماز عشا ء ختم ہوئی تھی۔رات کے اس لمحے بھی گرمی ٹھیک ٹھاک تھی۔ہوا بالکل نہیں تھی۔شاہرہ ابراہیم خلیل اور اُس سے متصل کبوتر چوک انسانوں سے بھرا پڑا تھا۔
خاصے زیادہ لوگ ،نماز عشاء ادا کرکے ،حرم سے واپس لوٹتے نظر آئے اور کافی سے زیادہ لوگ حرم کی طرف جاتے ہوئے بھی دِکھائی دیئے جس سے اندازہ ہوا کہ ہماری توقعات کے بر عکس ابھی سے ہی زائرین حرم کا رش بڑھ چکا ہے۔بازارمیں سے چلتے چلتے ہم کبوتر چوک میں آئے اور پھر آگے بڑھتے بڑھتے مسجد الحرام کے بیرونی صحن میں اور پھرباب شاہ فہد سے داخل ہوکرمسجد کے ہال میں آ گئے۔شکیل بھائی میرے ساتھ ساتھ تھے۔مسجدمیں داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا کہ زائرین ِ حرم یہاں بھی اُمڈے پڑے ہیں۔مجھ سے کہیں زیادہ شکیل بھائی ، انسانوں کے اس سمندر کے سکون اور نظم پر قربان ہورہے تھے۔یہ ہماری زندگیوں کا انوکھا تجربہ بننے جا رہا تھا۔ سب سے پہلے تو ہم نے نمازمغرب اورعشاء جمع کر کے ادا کی۔پھر دیر تک ہم دونوں طواف اور سعی کے سنتوں بھرے طریقہ پر باہم مذاکرہ کرتے رہے اور پھر ہم طواف کے سیل رواں کی طرف بڑھے۔
ابھی کعبہ شریف سے ہم دور تھے۔کعبہ کی پہلی نظر اور اُس وقت میں دعائیں مانگنے کی اہمیت کی یاددہانی کی اور پھر ہم کعبہ کی طرف چل پڑے۔کعبہ پر جب پہلی نظر پڑتی ہے تو میں کیا کر رہا تھا اور شکیل بھائی کی کیا حالت تھی ،اس کا بیان ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ہم حیرت کے سمندرمیں گم ہیں۔کعبہ شریف کے رعب وجلال کے گھیرے میں آچکے ہیں۔
ہم صحن کعبہ میں آ چکے ہیں جسے مطاف کہا جاتاہے۔ کعبہ شریف پر نظریں ٹکائے ،لب پردعائیں و التجائیں سجائے ہم آگے بڑ ھتے ہیں۔اور آ گے بڑھتے ہیں،دیکھتے ہیں کہ جاری ہے طواف کا سیل رواں۔گردش میں ہے ہر پیر و جواں۔ہم بھی طواف کے اس بادل میں جانے کی نیت کرتے ہیں۔
کعبہ کاطواف حجر اسود سے شروع کیا جاتا ہے،اس پتھر والے کونے تک آتے آتے بھی ہمارا آدھا چکر ہو گیا۔حجر اسود کا بوسہ لے کر طواف کا آغاز کرنا سنت ہے لیکن جتنا رش ہے اس کے پیش نظریہ تو نا ممکنات میں سے تھا کہ ہم اس کے بوسے کا سوچ بھی سکیں،لہٰذا دور سے ہی اس کا استلام کرکے ،اللہ اکبر ،اللہ اکبر کہتے ہوئے، ہم طواف کے سیل رواں میں شامل ہو گئے۔
طواف کی کیفیات کا بیان تو نا ممکنات میں سے ہے۔جو کچھ آپ کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ محض طواف کے ہارڈوئیر کا بیان ہوتا ہے اس کا سافٹ ویئر بیان نہیں ہو سکتا۔یہ عبادت ہے بلکہ عبادت کی معراج ہے ۔ ایک ایسی عبادت جو صرف مکہ مکرمہ میں ہی ہو سکتی ہے ۔ یہاں پریہ جو دیوانہ وار گھوم رہے ہیں وہ اندر ہی اندر اپنے رب سے کیا راز و نیاز کر رہے ہیں ،اس کی کس کو خبر؟
یہ بندے اور اس کے رب کا معاملہ ہے کوئی دوسرا کیسے جانے اور کیسے بیان کرے۔
ایک طرف محتاج محض ہے اور دوسری طرف مختار کل۔ایک طرف مخلوق ہے اور دوسری طرف خالق۔ایک طرف سرگوشیاں ہیں ،رازو نیاز ہیں،عجز و انکساری ہے۔دوسری طرف دِل داری ہی دِل داری ہے۔کولہو کی بیل کی طرح،ہر بندہ ایک ان دیکھی رسی کے ساتھ بندھ گیا ہے اور کعبے کے گرد گھوم رہا ہے۔ایک ان دیکھی قوت ہے کہ جس کے باعث ہر ذرہ اپنے نیوکلس کے گرد گھوم رہا ہے۔سب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں لیکن کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ کون کیا مانگ رہا ہے ،کوئی نہیں جانتا۔
طواف کیا ہے ،والہانہ پھیرے ہیں،دیوانہ پن ہے ،محبت کے چکر ہیں،دائرے کے ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک محض گھومنا طواف نہیں اگر اُس میں والہانہ پن نہ ہو۔
عبادت تبھی عبادت ہے جب اس میں اللہ کے ساتھ محبت و عقیدت ہو،پیار ہو،پروانہ پن ہو،دیوانہ پن ہو۔سجدہ ،دراصل وہی سجدہ ہوتا ہے جس میں پیشانی کے ساتھ ساتھ دِل بھی اللہ کے حضور جھکا ہو وگرنہ تو یہ محض رسم ہے اورصرف ریا کاری۔
کالادھن سفید ہوتا ہے:
میں نے تو اپنے رب کے سامنے اپنے گناہوں کی پوٹلی کھو لنے کی جسارت کر رکھی ہے۔اس میں رنگ رنگ کے گناہ ہیں ، میرے سارے کارِعصیاں جمع ہیں۔آج ان سب گناہوں کی معافی لینی ہے ۔یہ بد بودارگٹھڑی ،کسی اورکے سامنے کھولنے کا کیا سوال ،لیکن یہاں ،اپنے کریم آقا کے سامنے یہ بدبودار پوٹلی کھولنا شایدگستاخی ہو،شاید بد تہذیبی ہو،لیکن نہیں نہیں،یہ تو دربار معافی ہے۔یہ رب رحمان و رحیم کا گھر ہے ،یہ ستار العیوب کا اور ہاں ہاں غفار الذنوب کا گھر ہے،یہیں سے تو معافی ملنی ہے۔گناہوں کی پوٹلی یہاں نہیں کھولیں گے تو اور کہاں کھولیں گے۔یہ جو گناہوں کا کالا دھن جمع کر رکھا ہے،اِدھر ہی تو سفید ہوتا ہے اور میں بھی اپنا کالا دھن سفید کروانے ہی آیا ہوں اور یہ سب بھی جو میرے ساتھ چل رہے ہیں،اسی مقصد کے لیے تو آئے ہیں ۔
میرے مالک میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔میرے رب،میں اپنے تمام گناہوں کی بخشش اور معافی چاہتا ہوں، چاہے اَن جانے میں کیے ہوں یا جان بوجھ کر،چھپ کر کیے ہوں یا اعلانیہ سر زد ہو ئے ہوں۔
میرے مالک! ان کی معافی کے لیے میں تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں،وہ سارے گناہ جو میرے علم میں ہیں اور وہ سارے بھی، جن سے میں لا علم ہوں،اے میرے مالک!توغیبوں کو جاننے والا ، عیبوں کو چھپانے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔اے میرے بلندیوں اور عظمتوں والے رب!تیرے علاوہ نہ کسی کے پاس کوئی قوت ہے اور نہ اقتدار و حکومت۔
حضور حق میں درخواستیں پیش:
ہم کعبے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ہم سب چل رہے ہیں لیکن کس منزل کی طرف ؟ کولہو کے بیل کی بھی کوئی منزل ہوتی ہے بھلا۔دن بھر چلنے کے بعد،شام کو جب آنکھوں سیـــــ کھوپے ہٹائے جاتے ہیں تو وہ وہیں کا وہیں ہوتا ہے۔کیا ہمارا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔الامان والحفیظ! نہیں، نہیں ،ہمیں یہ انجام نہیں چاہیے،ہم تو گناہ بخشوانے آئے ہیں ہم توداغ داغ مٹوانے آئے ہیں۔من کی بالیدگی چاہتے ہیں۔ اب تک کے کیے گئے افعال سیۂ کی معافی چاہتے ہیں اور آئندہ کے لیے محفوظ راستہsafe exitچاہتے ہیں۔یہ پھیرے اسی لیے ہیں۔
ہم سب در مولا سے معافی کے طلب گار واُمیدوارہیں۔
عمرے کے لیے آتے ہوئے،ہر عزیز اور ہر دوست نے یہ درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔بعض عزیزوں نے تو اپنی خاص خاص حاجات کا ذکر بھی کر دیا تھا۔واصف علی واصف لکھتے ہیں کہ کوئی ہم سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہے،یہ بھی ہمارے نفس میں بڑا تفاخر و تکبر پیدا کرتا ہے خیال رکھنا،اس سے گردن اکڑ جاتی ہے۔ یہ اکڑی گردن لیے میں یہاں آ گیا۔ یہاں آ کر ،پڑی جو اپنے گناہوں پہ نظر، تو، ساری اکڑفوں نکل گئی۔سر عجز و ندامت سے جھک گیا۔ ہم آئے تھے بڑے سفارشی بن کردوسروں کے،یہاں تو اپنی ہی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں بھائی ! دوسروں کی سفارشیں کیسے کریں۔ اپنے گناہوں نے بے خود کر رکھا ہے ،پہلے اپنے آپ کو تو چھڑوا لیں بھائی۔سب دوست احباب یا د آ رہے ہیں لیکن ہم دم بخود ہیں۔زبان گنگ ہے اور اعصاب شل ہیں،
لیکن سراپارحمت وشفقت رب اور ستار و غفار آقاکی عنایا ت اور اپنے بندوں کے لیے بخشش و مغفرت کے جو وعدے اس نے کر رکھے ہیں،ان کے صدقے اور سہارے ،ہم آگے بڑھتے ہیں،جرأت کرتے ہیں،اورہم، اپنے دوست و احباب کی،اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی سب درخواستیں بھی، اُ س کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔دوستو!ہم نے آپ لوگوں کی درخواستیں دربار ِعالی میں پیش کر دی ہیں ، اب وہ جانیں اور آپ جانیں۔ لو جی ! ہمارے سات چکر مکمل ہو گئے،اب ہمیں اس گرداب سے نکلنا ہے۔
مقام ابراہیم اور زم زم:
نماز کے بعد،میرے ساتھی نے استفسار کیا کہ‘‘اب کیا کرنا ہے؟’’اس دورکنی قافلہ زائرین کا میں خود ساختہ امیر تھا اور میرا یہ ہمسفر مسلسل میرے ساتھ سایہ کی طرح چپکا ہوا تھا۔اور ہم بڑے مزے سے مناسک عمرہ ادا کر رہے تھے۔میں نے عرض کی کہ‘‘ اب ہم نے عمرے کا ایک اور اہم رکن‘‘ سعی ’’ادا کرنا ہے۔لیکن اس سے قبل ہم نے ابھی دو رکعات نفل بھی ادا کرنے ہیں۔ میرے ساتھی نے کچھ یاد کرتے ہو ئے پوچھا کہ،ڈاکٹر صاحب!‘‘وہ مقام ابراہیم کہاں ہے جہاں ہم نے یہ دورکعت پڑھنی تھیں۔اور ہاں ،طواف کے بعد زم زم کے کنویں پر جا کر پانی پینا بھی تو سنت ہے تو وہ کنواں کہاں ہے۔’’میں نے ہنستے ہو ئے ،جواباًکہا،‘‘بھائی جی !بہت خوب یاد کیا، آپ نے اپنا سبق،میں اُدھر ہی آ رہا تھا۔وہ سامنے دیکھو،شیشے اور سنہری فریم کا جو ایک کھوکھا سا نظر آ رہا ہے،اسے مقام ابراہیم کہتے ہیں۔اس کے اندررکھے گئے
ایک پتھرپر سیدنا ابراھیم علیہ السلام کے پاؤں مبارک کے نقوش ثبت و محفوظ ہیں۔ روایت یہ ہے کہ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدناابراھیم علیہ السلام نے کعبہ مبارک کی تعمیر فرمائی تھی۔طواف والے نوافل اس مقام کے آس پاس یا سامنے ادا کرنے چاہینں۔اگر موقع نہ مل سکے تو پوری مسجد حرام میں کہیں بھی یہ دو رکعتیں ادا کی جا سکتی ہیں،سارا حرم ہی مقام ابراہیم ہے۔ اب رہا زمزم کے کنویں پر جانے والی سنت کا معاملہ ،تو اس کا اب موقع نہیں رہا۔کیونکہ کنواں یہیں مقام ابراہیم سے تھوڑا پیچھے تھا،مطاف میں توسیع کی ضرورت کے باعث کنویں میں ٹیوب ویل کے پائپ لگا کر اُسے حرم سے دور لے گئے ہیں اور اُس جگہ کو مسقف (چھت ڈال کر)کر کے مطاف میں شامل کر دیا گیا۔ سن دو ہزار میں جب یہ خاکسار پہلی بار یہاں عمرہ کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا تو یہیں ،مطاف سے سیڑھیاں اُتر کر ،نیچے زم زم کے کنویں تک پہنچا تھا اور لذت شرب حاصل کی تھی ۔ اب زمزم کا مقدس و مطہر پانی ،توحرم میں ،چاروں طرف رکھے گئے سینکڑوں کولرز میں موجود ہے لیکن کنواں موجود نہیں ہے۔آیئے،وہ سامنے رکھے کولرز سے اس مقدس پانی کو پی کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں اورپھر مسعیٰ کی جانب چلتے ہیں۔ ’’ مسعٰی سے مراد ہے ،سعی کرنے کی جگہ۔(جاری ہے )