گاڑی آنے میں تھوڑا وقت باقی تھا۔مسافر نے کہا کہ میرے ساتھ گنے ہیں انہیں بھی تلوا لو۔ اور ریلوے کے قانون کے تحت جو کرایہ بنتا ہے وہ ادا کردو۔ریلوے کا عملہ مسافر کے مقام و مرتبے سے بخوبی آگاہ تھا۔ انہوں نے کہا حضرت اس کی ضرورت نہیں۔ ہم گارڈ کو کہہ دیتے ہیں۔ کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا۔ مسافر نے کہا لیکن مجھے تو اگلے سٹیشن سے گاڑی بدلنی ہے ۔ عملے نے کہا کہ اس گاڑ ی کا گارڈ اگلی گاڑی کے گارڈ سے کہہ دے گا۔اور اس طرح آپ اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ مسافر نے کہا لیکن مجھے تو اس سے بھی آگے جانا ہے ۔ عملے نے کہا لیکن یہ تو آخری سٹیشن ہے اس سے آگے تو گاڑی نہیں جاتی ۔ مسافر نے کہا لیکن مجھے تو جانا ہے اور وہاں کون سا گارڈ بچائے گا ۔ عملے نے کہا کہ آخر آپ کو کہاں جانا ہے ؟ مسافر نے کہا کہ مجھے تو آخرت کے سٹیشن پر پہنچنا ہے جہاں کوئی گارڈ کام نہ آئے گا۔ عملہ خاموش ہو گیا اور مسافر کے گنے تلوا دیے۔
آخرت کی فکر میں زند گی گزارنے والا یہ مسافر ۵۔ربیع الاول ۱۲۸۰ ھ کو اس دنیا میں آیا اور۱۹ جولائی ۱۹۴۳ کو ۸۲ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن اپنے پیچھے اس بات کی پوری تاریخ چھوڑ گیا کہ جو لوگ آخرت کے ہو کر جیناچاہیں ان کی زند گی کس احتیاط اور بصیرت سے بسر ہواکرتی ہے ۔علم ہو یا عمل ’ فہم ہو یا فراست ’ عقل ہو یا حکمت ہر بات اور ہر شعبے میں اس مسافر کی جو چیز سب سے نمایا ں نظر آتی ہے وہ آخرت کا ہو کر رہنا ہے۔آخرت کے لیے زندگی بسر کرنے کی اس فکر نے اس کے اندراحتیاط اور توازن کا پہلو انتہائی غالب کر دیا تھااور عمر بھر اسی کی تلقین اس کی تقریر اور تحریر کا موضوع بنی رہی ۔
نفس انسانی بالعموم احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر اور عدم توازن کا شکار ہو کر ہی انسان کی آخرت کی راہیں کھوٹی کرتا ہے اس لیے نفس انسانی کی بیماریوں کا علاج اور اس کی تربیت بھی اس کی زندگی کا مشن بنی اور اس میں یہ مسافرصرف اپنے وقت کانہیں بلکہ آنے والے وقتوں کا بھی امام نظر آتا ہے ۔ اللہ کریم نے اس معاملے میں اس مسافر کو اتنی بصیرت عطا فر مائی تھی کہ کچی مسجد اور ٹوٹی چٹائیوں پر بیٹھ کر’ اور دنیا جنہیں جدید علوم کہتی ہے ان سے نا بلد رہ کر بھی’ وہ نفس انسانی کی اتنی الجھنوں کو دور کرتا اور اتنے مسائل کو حل کرتا ہے کہ آج جدید نفسیات بھی اس کے افکار سے رہنمائی حاصل کرتی نظر آتی ہے ۔ اس کی زندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تقوے اور علم کا کیا جوڑ ہوتاہے ۔ اور تقوے کی برکت سے اللہ کس طرح علم نصیب فرماتے ہیں۔علم کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود خود کو عالم کہلانا بھی گوارا نہ تھا ۔ ایک مقد مے میں بطور گواہ پیش ہونے پر جب جج نے پوچھا، کیا آپ عالم ہیں؟ تو سوچا اگر عالم کہوں تو جھوٹ ہوگا کیونکہ میں تو حقیقت میں عالم ہوں نہیں۔ اگر انکار کروں تو گواہی پر حرف آئے گا کیونکہ مقدمے میں مسلمان عالم کی گواہی مطلوب تھی۔ تو کہا مسلمان مجھے ایسا ہی سمجھتے ہیں۔اور واقعہ یہ ہے کہ مسلمان تو اس وقت بھی سمجھتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود اگرتقوی وحکمت ’ فہم و فراست اور علم وعمل ’ کوبھی اپنی کوئی مثال پیش کرنی ہو تو وہ اسی مسافر کا نام لیں گے جس کا نام اشرف علی تھانوی تھا۔