مرد ہوس کا پجاری

مصنف : بانو قدسیہ

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جنوری 2020

*اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ہے۔ اور اسی ہوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مردہوس کا پجاری ھے۔''
*لیکن جب حوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ہے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے تو یہ واقعی ہوس کا پجاری بن جاتا ہے**اور کیوں ناہو؟*
*کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ہی ہوتا ہے۔*
*جب عورت گھر سے باہر ہوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ہے تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو ''تنگ نظر'' اور ''پتھر کے زمانہ کا'' جیسے القابات سے نواز دیتی ہے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں کتوں بلوں کے منہ سینے چاہیے *۔
*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لے کر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ہوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو ان کو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت زار دیکھیں جن کی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ہے۔
''سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*
*ھم نے سرِبازار حسن کو نیلام ہوتے دیکھا ہے''*
*مرد*
*میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ہے اور ان کے بعد ہمارا کیا ہو گا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کون سی روز پہنی ہے جو خراب ہوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤں گی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ہے آج ہی خرید لو۔*
*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے اسے رونے نہیں دے گا۔*
٭٭٭