ہمارا تعلق ایسی امت سے ہے جس سے مباحثے کرا لو، عملی کام ان سے کبھی نہیں ہوتے۔ کورونا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، سارے سر جوڑ کر کائنات کی بقاء اور فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس امت نے بس بحث و مباحثے کیئے ہیں اور اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:اس وائرس کا ذکر تو قران مجید میں موجود ہے۔اور کئی نے تو ایسے بھی کہا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وائرس کی پیشینگوئی کی تھی۔ انکشاف سے انکشاف ہوتے گئے، نتیجے پر نتیجہ اخذ کرتے گئے اور سارے کے سارے اس نکتے پر پہنچے کہ یہ جو وائرس ہوتے ہیں یہ اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہوا کرتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالی ان وائرسز کو اُن لوگوں پر مسلط کرتے ہیں جن سے راضی نہیں ہوتے۔ اپنے اس نتیجے کا استدلال انہوں نے سورۃ المدثر کی آیت کے اس حصے (اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا) سے لیا ہے۔ ہر کوئی بس یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ دیکھا تم نے، سنا تم نے، اب دیکھ لیا ناں۔
بخدا اس امت میں اگر ذرہ برابر بھی اخلاق ہوتا تو یہ کبھی بھی لوگوں کی مصیبتوں ، لوگوں کی بیماریوں، ان کی اموات یا ان کی پریشانیوں پر ایسے نہ بولتے۔ لوگوں سے بھلی بات کہنا-(وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا) کیا یہ اللہ رب العزت کا فرمان نہیں ہے؟
ان کی دلیلیں سنو: کیونکہ چینی ایسے کرتے ہیں، کیونکہ یہ چینی یہ کچھ کھاتے ہیں، کیونکہ یہ چینی اس قسم کے ہوتے ہیں تو اسی لیے اللہ پاک نے ان پر یہ وائرس بھیجا ہے- کسی کی ابتلاء اور مصیبت پر بولنے سے پہلے کم از کم ان کو اپنی تاریخ ہی دیکھ لینی چاہیے تاکہ انہیں احساس ہو کہ کیسے دوسرے کو احترام دیا جائے اور کیسے انہیں قبول کیا جائے- کسی پر ظلم بھلے وہ بات کرنے کا ہی کیوں نہ ہو نہ ڈھایا جائے اور انہیں اپنی بے ڈھنگی اور واہیات باتوں سے اذیت و تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ جان لیجیے کہ دن میں روزہ رکھنے اور رات کو قیام میں گزارنے والا شخص بھی اگر اپنے ہمسایوں کو اپنی زبان سے اذیت دیتا ہے تو اس کا ٹھکانہ دوزخ میں ہے۔
اچھا میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کورونا ایک وائرس ہے تو کیا طاعون وائرس نہیں ہے؟ میں اپنی یہ بات ان سب کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو اس وائرس پر بیٹھے اپنی رائے دے رہے ہیں۔طاعون کے وائرس سے کئی صحابی اور صحابیات رضوان اللہ علیھم اجمعین متاثر ہو کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اگر وائرس اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہوتا ہے جسے اللہ اپنے دشمنوں پر مسلط فرماتا ہے تو کبار الصحابہ طاعون جیسے موذی وائرس کا شکار کیوں ہوئے؟ چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں طاعون کا وائرس پھیل گیا۔ اور اس زمانے کے لوگ بھی اس وائرس کی ہلاکت خیزی سے واقف تھے۔سیدنا ابو عبیدہ عامر ابن الجراح رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو ہی دیکھ لیجیے جن کے پاس دو دو تمغے تھے۔ ایک تمغہ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے عطا کردہ اور دوسرا تمغہ آقا علیہ السلام کی طرف سے ملا ہوا۔ اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف سے عطا کردہ تمغہ ان کا عشرہ مبشرہ میں شامل ہونا ہے جبکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ تمغہ ''امین الامت'' کا خطاب پانا ہے۔ اب یہ بھی جان لیجیئے کہ عشرہ مبشرین بالجنۃ اور امین الامۃ سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ طاعون کے وائرس سے فوت ہوئے۔ اگر وائرس اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے تو ایسا کیوں ہوا؟ معذرت کے ساتھ: یہ باتیں کرنے والے کوئی گلی محلے کے لونڈے نہیں، بڑی بڑی علمی ڈگریاں لیے ہوئے ڈاکٹر انجینئر اور عالم فاضل بھی ہیں۔
ایک اور مثال لیجیے: اسی زمانے میں طاعون کے وائرس کا ایک اور شکار ہونے والی صحابیہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کی زوجہ محترمہ بھی ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جلیل القدر صحابیات میں سے ایک تھیں۔ بذات خود سیدنا ابو موسیٰ اشعری بزبان اشرف خلق اللہ آقا علیہ السلام: کہ ابو موسیٰ کو سیدنا داؤد علیہ السلام کی مزامیر (بانسری نما باجا) میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے۔ اور سرکار نے ان کو یہ لقب ان کے انتہائی خوش الحان قاری قرآن ہونے کی وجہ سے دیا تھا۔ ابو موسیٰ اشعری کی بیوی ہونا بھی اس صحابیہ جلیلہ کو وائرس کا شکار ہونے سے نہ بچا سکا۔
اس موضوع پر ہم زیادہ نہیں بولتے کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں اور انہیں کیا کہنا چاہیے، بس اتنا ہی کہ اگر کورونا وائرس ہے تو کیا طاعون وائرس نہیں ہے۔ اگر قران کورونا کے بارے میں کچھ بتاتا ہے تو پھر طاعون کے بارے میں کیوں نہیں بتاتا۔
ہم بات کرتے ہیں سورۃ فاطر کی آیت نمبر 43 کے اس حصے پر؛ تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔
برسبیل مثال: وائرس انسانوں اور حیوانات دونوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ وائرس کا حملہ اگر کسی متقی شخص پر ہوگیا تو وہ بھی مر جائیگا اور کسی کافر پر حملہ ہو گیا تو وہ بھی مر جائیگا۔ یہ اللہ کا اپنی مخلوق کے لیے بنایا ہوا قانون ہے۔جیسے طاعون کے وائرس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور اس حملے کے نتیجے میں5 کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے۔
اللہ کی سنت اور بنے ہوئے قاعدے کے بارے میں دوسری مثال زمین کے قطبین ہیں جن پر ہمشہ سردی اور برف جمی رہتی ہے۔ اس جگہ پر اگر کوئی شیطان صفت جا کر رہے تو بھی برف رہے گی اور اگر کوئی نبی اللہ جا کر رہے تو بھی برف ہی رہے گی۔ اسی کو سنۃ اللہ کہتے ہیں۔خط استوا پر روزانہ اور سال کے تین سو پینسٹھ دن بغیر کسی صلاۃ الاستقا ء کے بارش برستی ہے، یہ سنۃ اللہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالٰی نے ایک عملی مثال یہ بھی دی ہے کہ تقدس اور احترا م کا تعلق سنۃ اللہ سے نہیں ہوا کرتا، جیسے اس کرہ ارض پر مقدس ترین پہاڑ جبل عرفات ہے جس پر ہر سال لاکھوں حجاج جا کر کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کے حضور میں اپنی التجائیں پیش کرتے ہیں۔ مگر یہ پہاڑ خوبصورتی کے لحاظ سے کسی ادنی سے پہاڑ کا بھی ہمسر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی لہلہاتا سرسبز جنگل آباد ہے۔ یہ مثال ہمیشہ یاد رکھا کیجیے کہ تقدس اور احترام والی کوئی بھی چیز سنۃ اللہ کو تبدیل نہیں کر لیا کرتی۔
دنیا کی مقدس ترین وادی مکہ کی وادی ہے جس پر بیت اللہ موجود ہے۔ دینی مقام اتنا بلند اور عالی ہے مگر وادی ایسی کہ نہ اس پر کوئی زراعت ہے اور نہ اس وادی کے پہاڑوں پر کوئی زراعت ہے۔ تقدس اور احترام سنۃ اللہ کو تبدیل نہیں کیا کرتے۔
ایک اور مثال لیجیئے: شمالی یورپ میں کبھی زلزلے نہیں آتے کیونکہ وہ زمین کی اس بیلٹ پر نہیں ہے جس کے نیچے زلزلے آنے کا سلسلہ بنتا ہو۔ زلزلے والی زمینی پٹی بیشتر اسلامی اور حتی کہ عرب ملکوں کے نیچے سے گزرتی ہے۔ کیا اس تقسیم کا کسی کے کافر ہونے یا کسی کے متقی ہونے سے کوئی تعلق ہے؟ یہ اللہ کی سنت ہے جو تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ زلزلہ زلزلہ ہی ہوتا ہے جدھر آئیگا نقصان پہنچائے گا چاہے یہ ترکی میں آئے، لبنان میں آئے پاکستان میں آئے یا پھر چین و جاپان میں آئے۔
ہمارے ہاں جو بیمار منطق گھڑی جاتی ہے وہ ہمارے دماغوں میں پائے جانے والے اور ہمارے افکار میں پلنے والے وائرس کے حملوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وائرس ہمارے دماغوں میں ہوتے ہیں۔ کورونا پر بولنے والے کسی دانشور کا گھر دیکھ لیجیے چین کی بنی ہوئی بیسیوں مصنوعات سے بھرا ہوا ہوگا۔ چین دنیا کی آسائش اور خوشحالی میں اپنا حصہ ملا رہا ہے اور اپنا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ یہ دانشور دنیا کو کچھ بھی نہیں دے رہے۔ مان لیا کہ اللہ تبارک و تعالٰی چین والوں سے ناراض ہیں اور آپ پر راضی اور خوش ہیں۔ چین دنیا کو سستے وسائل دے رہا ہے، لوگوں کی زندگی کے لیے سستی راحتیں پیش کر رہا ہے۔ جو کچھ چین سے خریدا جا سکتا ہے وہ کسی اور ملک سے لیا جائیگا تو کئی گنا مہنگا ملے گا۔ چین نے کسی کی اراضی پر قبضہ نہیں کیا، چین نے کسی کو قید نہیں کیا، کسی کی ماں بیٹی کو بے آبرو نہیں کیا، کسی کا گھر مسمار نہیں کیا، کسی کا قدس نہیں چھینا، کسی کا قبلہ نہیں پامال کیا۔لیکن ہمارے پاس کسی کی ترقی کو خاک میں ملانے اور کسی کی اچھائی کو مٹانے کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ ہم حال سے فرار ہو کر اپنے ماضی میں سر چھپاتے ہیں۔ ہمارے فلاں نے یوں فرمایا، فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں نے یوں کیا، ہم دو سو سال پہلے یوں ہوا کرتے تھے۔ ہم نے فلاں جگہ یوں معرکہ لڑا اور ہم نے فلاں فلاں فتوحات کیں۔ ہم اس طرح حال کی خجالت کو اپنی جگتوں سے چھپاتے ہیں۔
ایک عربی شاعر کہتا ہے کہ اے لوگو، ہم بھی کیا عجیب امت ہیں کہ ہمارے اسرار بس وہی جانتا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری جہالتیں بھی بس وہی جانتا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا۔
ایک مثال اور سنیئے: اگر کلونجی ساری بیماریوں کا علاج ہے تو آج تک کسی نے اسے بنیاد بنا کر نوبل ا نعام لینے کی کیوں نہیں ٹھانی؟ چین نے اپنے قومی وسائل میں اربوں ڈالر کورونا وائرس کے علاج کی تلاش کیلیے مختص کیئے ہیں۔ آج تو اس خواب غفلت سے جاگ جاؤ، اٹھاؤ کلونجی اور چین کو دے کر کہو کہ وہ اربوں ڈالر تمہیں دیدے جو اس نے اس کورونا کے علاج کے لیے رکھے ہیں۔ چلو کچھ تمہارا بھی اس متمدن دنیا کی ترقی میں حصہ مل جائے، نوبل انعام کا مطالبہ بھی کرو اور اربوں ڈالر بھی لے لو۔ کچھ تو گھر بیٹھے دانشوری بگھارنے سے آگے کا بھی کام کرو۔ بات وہی ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں۔ شاید عربی کی ایک ضرب المثل اسی دن کیلیے ہی بنی تھی کہ پانی کے اندر ڈبکی لگانے والا خود بخود ہی سچا جھوٹا ثابت ہو جایا کرتا ہے۔
*******
ڈاکٹر علی منصور کیالی بظاہر تو شامی انجینئر ہیں مگر عالمی ایوارڈ یافتہ عالم اور مولف ہیں جن کا قرآن اور اعجاز العلمی پر کیا ہوا کام تاریخ بن رہا ہے۔ آپ کی گفتگو سننا ایک خوش کن عمل ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس آپ کے ایک لیکچر کا خلاصہ ہے۔
٭٭٭