۲۷ رمضان المبارک ۱۲۵۵ھ کو جہاز حدیدہ سے روانہ ہوا۔ تین دن بعد تیسویں رمضان کی شب میں ایک گھڑی رات گزری ہو گی کہ یکایک جہاز سمندر میں چھپی ہوئی ایک چٹان سے ٹکرا گیا۔ ٹکر کا لگنا تھا کہ اس میں شگاف ہو گیا۔ اس وقت موت ہمیں اپنے سامنے کھڑی نظر آ رہی تھی۔ رات بیم و رجا کے عالم میں گزری۔ جب سورج کی روشنی خوب پھیل گئی تو دور سمندر کے درمیان ایک دھبہ نظر آیا جو کوئی جزیرہ معلوم ہوتا تھا، فوراً جہاز سے ایک چھوٹی کشتی اتار کر سمندر میں ڈال دی گئی۔ ہم اس پر بیٹھ گئے اور اس کا رخ جزیرے کی طرف موڑ دیا۔ہماری کشتی کا حال ایک پتے جیسا تھا، آندھی اڑائے اڑائے پھرے، موجوں کے تھپیڑے کبھی اسے ادھر پھینک دیتے اور کبھی ادھر دھکیل دیتے، کبھی کشتی پانی پر چلتی اور کبھی پانی کشتی پر سے گزرتا تھا۔ اہل کشتی سرتاپا پانی سے بھیگ گئے لیکن اس کیفیت سے کیا خوف ہوتا؟ میں تو ڈوب رہا ہوں مجھے تری کا کیا ڈر۔ بعد از خرابی بسیار کسی نہ کسی طرح اس جزیرے تک پہنچ گئے۔ یہ جزیرہ اس قدر چھوٹا تھا کہ چشم حاسد بھی اس سے کہیں زیادہ فراخ ہوتی ہے اور دل لئیم اس سے زیادہ کشادہ ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہاں کسی درخت کا وجود تک نہ تھا کہ اس کے سائے میں بیٹھ سکیں یا اس کا پھل کھا سکیں۔ پانی اور کھانے کی کسی چیز کا بھی نام و نشان تک نہ تھا۔ جزیرے کا نہ کوئی ساحل تھا اور نہ وہاں تک پہنچنے کا کوئی راستہ۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کسی نہ کسی ڈھب سے اس جزیرے میں اتر جائیں اور ''اجل مقدر'' تک وہیں قیام کریں۔تباہ ہونے والے جہاز سے اترتے وقت جو سامان پانی سے محفوظ اور اوپر تھا اس کو سمندر میں ڈال دیا گیا تھا کیونکہ اس کو لے جانے کی بظاہر یہی ایک صورت تھی۔ جو سامان ہماری قسمت میں تھا وہ خالق بحر و بر کے حکم سے ہم کو مل گیا اور جس کو ضائع ہونا تھا وہ ضائع ہو گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ بیشتر سامان ہمیں مل گیا مگر اس وقت نہ سامان ضائع ہونے کا غم تھا اور نہ مل جانے کی خوشی۔ میٹھے پانی کے بڑے بڑے پیپے بھی سمندر میں ڈال دیئے گئے۔ ان میں سے صرف آٹھ پیپے ہاتھ آئے۔ اسی طرح سامان خوارک میں جتنا حصہ نکالا جا سکا نکال لیا۔ اس میں زیادہ تر چاول اور باجرہ تھا جس کو اہل جہاز نے تجارت کے لئے لادا تھا۔ جزیرے پر اترنے کے بعد جب ہمارے ہوش و حواس بحال ہوئے تو آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ پانی کے صرف آٹھ پیپے ہیں اور آدمی دو سو سے زیادہ۔ کھانے پینے کی اور کوئی چیز جزیرے میں موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ پانی کے آٹھ پیپے چند روز میں ختم ہو جائیں گے اور جب تک کسی دوسرے مقام کا پتہ نہ چلے یہاں سے چلنا ممکن نہیں۔ سب نے بیک زبان کہا اس چھوٹی کشتی میں ہم میں سے چند آدمی جان ہتھیلی پر رکھ کر بیٹھ جائیں اور پھر دیکھیں کہ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسی معمولی کشتی کا بحر ذخار سے سلامت گزر جانا محال نظر آتا ہے مگر مجبوری ہے۔ اگر سمندر میں اس کے غرق ہونے کا ڈر ہے تو جزیرے میں پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جانے کا خوف ہے۔ آخر چار دن کے بعد ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا'' کے مصداق نو آدمی اس چھوٹی سے کشتی میں بیٹھ کر ساحل کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے امیر مولانا فضل علی تھے۔ ان میں ایک مولوی برہان الدین بھی تھے۔ یہ پنجاب کے رہنے والے ہیں۔ ان سے یمن میں ملاقات ہوئی تھی۔ نہایت نیک سرشت اور صحیح الفکر آدمی ہیں۔ دو حج اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ اس بار ارض پاک میں مستقل سکونت کے ارادے سے ہجرت کر کے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد ہم جزیرے میں بیٹھ کر رحمت الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ ہر صبح کو بیدار ہو کر سمندر پر نگاہیں گاڑ دیتے اور ہر شب سونے سے پہلے اس کشتی کا ذکر ضرور کرتے۔اس کشتی کو روانہ ہوئے بارہ دن گزر گئے کہ شام کے وقت سطح سمندر پر دو چھوٹی کشتیاں نمودار ہوئیں۔ یہ ہمارے لئے عید کے چاند کی مانند تھیں ہم نے خیال کیا کہ ہمارے ساتھی ساحل کا پتہ معلوم کر کے واپس آ گئے لیکن جب ملاح اتر کر ہمارے پاس آئے تو یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ سب اجنبی ہیں۔ ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ تم نے جو آدمی بھیجے تھے وہ سات دن کے بعد قنفذہ (ساحل سمندر پر ایک گاؤں) پہنچ گئے تھے اور وہاں کے حاکم کو اپنی داستان مصیبت سنائی تھی۔ اس حاکم کے حکم سے سات چھوٹی کشتیاں تمہاری مدد کے لئے روانہ ہوئیں۔ وہ کئی دن تک سمندر میں یہ جزیرہ تلاش کرتی رہیں۔ لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا، بالآخر پانچ کشتیاں ان کے ملاح واپس فنفذہ لے گئے۔ مولانا فضل علی اور ان کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو واپس ہونے سے بہت روکا لیکن وہ نہ مانے۔ ہم دو کشتیاں لے کر بحر عجم کی طرف روانہ ہوئے اور جزیرے کی تلاش میں دن رات ایک کر دیئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور تمہارے پاس پہنچ گئے۔ا ب اس جزیرے سے چلنے کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ اتنے زیادہ آدمیوں کا ان کشتیوں میں سمانا دشوار ہے۔ مجبوراً ایک کشتی تین روز بعد اور دوسری چھ روز بعد جس قدر آدمی بٹھائے جا سکے بٹھا کر روانہ کر دی اور خود اللہ پر توکل کر کے اسی ویرانے میں ٹھہرا رہا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر حد بیان سے باہر ہے۔ بنا بریں جہاز ٹوٹنے کے پچیسویں دن یکایک دو اور کشتیاں آتی دکھائی دیں۔ جب کنارے پر پہنچیں تو ملاحوں میں سے کوئی صورت آشنا نہ پایا۔ علیک سلیک کے بعد ان سے پوچھا یہاں کیسے پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ وہ پانچ کشتیاں جو واپس چلی گئی تھیں قنفذہ پہنچیں اور اپنی سعی ناکام کا حال سنایا تو حاکم قنفذہ ان پر سخت غضبناک ہوا اور ان کو حکم دیا کہ واپس جا کر دوبارہ جزیرہ تلاش کریں۔ حاکم نے ان کے ساتھ ایک اور کشتی بھیجی۔ چند روز تو سب کشتیاں ساتھ ساتھ چلیں پھر موجوں کے تلاطم اور ہوا کے طوفان سے الگ الگ ہو گئیں۔ ہم اتفاق سے تمہارے پاس پہنچ گئے۔ دوسری کشتیاں کدھر گئیں اور اب کہاں ہیں ہمیں اس کی کچھ خبر نہیں۔٭٭٭