اللہ تعالیٰ نے انسان کو احساسات اور جذبات دے کر پیدا کیا ہے۔یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے رویوں سے ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی خوشی پر خوش ہوتا ہے، وہیں اگر ناپسندیدہ اور اپنی توقعات سے مختلف امور دیکھ لے تو اسکے اندر غصہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ غصہ ایک منفی جذبہ ہے جس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو ہم اکثر دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر بیٹھتے ہیں اس لیے اسلام نے غصہ ضبط کرنے اور جوشِ غضب کے وقت انتقام لینے کی بجاے صبرو سکون سے رہنے کی تلقین کی ہے، تا کہ معاشرہ انتشار کا شکار نہ ہو اور امن کا گہوارہ بن سکے۔
قرآن مجید میں غصہ نہ کرنے اور معاف کر دینے کی فضیلت کا بیان:
1) وَالَّذِینَ یَجْتَنِبُونَ کَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ الشوری آیت نمبر۳۷
ترجمہ: اور وہ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں۔۔
غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد تو عموماًً لوگ معاف کر دیتے ہیں لیکن اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی صفات میں سے اہم صفت یہ بیان کی ہے وہ حالتِ غضب میں معاف کرتے ہیں جو بہت ہمت اور جرأت کا کام ہوتا ہے۔ بلند ہمت اور بلند حوصلہ لوگ ہی اس شان کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں پر بھی شفقت کرتے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ کے شانِ نزول میں علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالک قرطبی متوفی 668ھ نے حسبِ ذیل اقوال نقل کیے ہیں۔۔
1۔یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جب انہیں مکہ میں گالیاں دی گئیں اور انہوں نے اس پر صبر کیا۔
2۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب اپنا سارا مال راہِ خُدا میں خرچ کر دیا تو لوگوں نے اس پر انہیں ملامت کی اور بُرا کہا تو انہوں نے اس پر صبرکیا۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس مال جمع ہو گیا، انہوں نے وہ سب مال نیکی کے رستے میں خرچ کر دیا مسلمانوں نے ان کو ملامت کی اور کفار نے ان کی خطا نکالی جس پر یہ آیات نازل ہوئیں
2) الَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ (سورہ آل عمران آیت نمبر۱۳۴)
ترجمہ: وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے، اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔
برائی کے عوض بھلائی کرنا جودوکرم ہے اور بھلائی کے عوض برائی کرنا خباثت ہے۔ اس آیت میں جودو کرم کا ذکر ہے کہ اللہ کے محبوب و محسنین کا یہ وصف قرآن نے بیان کیا ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ انسان جو کسی پر غضب ناک ہوتا ہے تو دراصل یہ شیطان کے وسوسے کی وجہ سے ہوتا ہے،انسان کو چاہیے کہ جب اسے کسی بات پر غصہ آئے تو وہ اپنے غصہ کو ضبط کرے اور جس پر غصہ آیا ہے اسکو معاف کر دے۔
غصہ ضبط کرنے کی فضیلت میں احادیث
1۔ سلیمان بن صدور رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے سامنے دو آدمی ایک دوسرے سے لڑے۔ ان میں سے ایک غضب ناک ہوا اسکا چہرہ سرخ ہو گیا اور اسکی گردن کی رگیں پھول گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی طرف دیکھ کر فرمایا،مجھے ایک ایسے جملے کا علم ہے کہ اگر وہ یہ جملہ کہہ دے تو اسکا غضب فرو ہو جائیگا۔وہ جملہ یہ ہے اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ ایک جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث سنی تھی وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا تم جانتے ہو کہ ابھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا نہیں۔۔ اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے ایسے جملے کا علم ہے اگر اس نے وہ جملہ کہہ دیا تو اسکا غصہ ختم ہو جائیگا۔وہ جملہ یہ ہے اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ اس شخص نے کہا۔ کیا تم مجھے دیوانہ سمجھتے ہو؟
صحیح البخاری رقم الحدیث 4048، صحیح مسلم رقم الحدیث 261
2۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں غلام کی پٹائی کر رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی۔ اے ابومسعود تمھیں علم ہونا چاہیے کہ تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم تھے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،اگر تم یہ نہ کرتے تو تمھیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمھیں دوزخ کی آگ چھوتی۔(صحیح مسلم ص 905 حدیث 1658دار ابن حزم بیروت)
3۔ حضرت عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، غضب شیطان کے اثر سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضبناک ہو تو وہ وضو کرے۔(سنن ابو داؤد ج 2 ص 304)
4۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،جب تم میں سے کسی شخص کو غصہ آجائے کھڑا ہو تو بیٹھ جائے پھر اسکا غصہ ختم ہو جائے توٹھیک، ورنہ وہ لیٹ جائے۔(سنن ابو داؤ د رقم الحدیث 4782
5۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ہجری روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے غصہ ضبط کر لیا حالانکہ وہ اسکے اظہار پر قادر تھا،اللہ تعالیٰ اسکو امن اور ایمان سے بھر دیگا۔(جامع البیان ج 4 ص 61)
ضبطِ غصہ ماہرینِ نفسیات کی نظر میں
ضبطِ غصہ کو انگریزی میںAnger managementکہتے ہیں۔ہمارے یہاں کچھ جامعات میں اس علم کو بطورِ مضمون پڑھایا جاتاہے خاص کر بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈیپارٹمنٹ میں، لیکن پاکستان میں اس مضمون کو پڑھانے کا انتظام چھوٹے پیمانے پر ہے۔ جبکہ دیگر یورپی ممالک میں اس موضوع پر الگ ڈیپارٹمنٹ ہے، الگ فیکلٹی ہے جہاں اس موضوع پر ایم۔اے، ایم فِل اور پی۔ایچ۔ ڈی ڈگریاں دی جاتی ہیں، اس کے علاوہ وہاں کی بڑی بڑی کمپنیاں اور اداروں کے لوگ اس موضو ع پر کورسز کرواتے ہیں کیونکہ عمومی طور پر روز مرہ کی بحث یا چپقلش کے باعث ادارے کے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے جس کی وجہ سے انکے ادارے کو بڑا نقصان اٹھاناپڑتا ہے۔ضبطِ غصہ سے مراد بنیادی طور پر اس علم کو جاننا ہے کہ کس طرح غصے کی کیفیات پر قابو پایا جائے، اس حوالے سے ماہرینِ نفسیات نے کچھ طریقے بتائے ہیں جن پر عمل کرنے کے بعد غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔نیند کا پورا نہ ہونا بھی غصے کا باعث بنتا ہے، کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نیند لازمی 8 گھنٹے ہونی چاہیے جبکہ ایسا ضروری نہیں ہے بلکہ روٹین کے مطابق سونا ضروری ہے۔ نیند کو اپنے کام کے لحاظ سے جس سطح پر لانا چاہتے ہیں لے آئیں یعنی روزانہ گھنٹوں کا تعین کریں کہ اتناسونا ہے، پھر اس کے مطابق نیند پوری کریں، اگر وقت زیادہ اوپر نیچے کریں گے تو مزاج میں چڑچڑا پن اور غصہ پیداہوگا۔
2۔غصہ آنے کی دوسری بڑی وجہ ورزش کا نہ کرنا ہے۔ انسان جب اپنی جان پر جبر یا سختی کرتا ہے اس سے بھی غصہ مرتا ہے، کیونکہ ورزش سے وجود میں طبعی طور پر استحکام پیدا ہوتا ہے۔
3۔غصہ کی ایک وجہ آدمی کا اپنی سوچ کو مثبت نہ رکھنا بھی ہے۔ منفی سوچ انسان کو شر کی جانب لے جاتی ہے جس سے اس کے اندر غصہ پیدا ہوتا ہے۔ ہر چیز میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت ڈالنے سے بھی غصہ میں کمی آ سکتی ہے۔
4۔غصہ آنے کی ایک وجہ تکبر بھی ہے کہ
ہمارے اندر احساسِ برتری آجاتا ہے، ہم مخالف کو اپنے سے حقیر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ اپنے مزاج میں عاجزی و انکساری رکھنے والے کی طبیعت میں نرمی کا عنصر غالب آجاتا ہے،وہ دوسروں کو اپنے برابر جانتا ہے،تو اپنے اند ر عجز وانکساری پیدا کرنے سے بھی غصہ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
5۔ علمِ نفسیات کی روشنی میں غصے کی ایک وجہ ذہنی دباؤ بھی ہے۔ احساسِ محرومی اور گزشتہ زندگی کے تلخ واقعات نفسیاتی دباؤ پیدا کرتے ہیں اس ذہنی دباؤ کی وجہ سے افراد کا بلڈ پریشر زیادہ یا کم ہوتا رہتا ہے،ایسے افراد کو اپنی زندگی کے واقعات لکھنا چاہییں اور یہ بھی لکھنا چاہیے کہ یہ سب ماضی کا حصہ ہے اور میں مستقبل میں بہت سے ایسے اقدامات کر سکتا ہوں جن سے ان محرومیاں کا ازالہ ممکن ہے۔
6۔ اپنے اندر لا محدود خواہشات کو پیدا کر لینا یاکسی انسان سے بے جا توقعات وابستہ کر لینا جبکہ وہ ان توقعات پر پورا نہ اُترے انسان کے اندر غصے کو ابھارتا کرتا ہے۔ حقیقت پسندی کو اختیار کرنے اور خواہشات کو محدود رکھنے سے بھی غصے میں کمی آتی ہے۔
7۔غصے کی ایک اور بڑی وجہ اپنے وجود سے زیادہ بوجھ اپنے ذمے لے لینا ہے۔آدمی کو ایسی ذمہ داری اپنے سر نہیں لینی چاہیے جو اس کے کندھوں پر مستقلاً تلوار کی مانند لٹک جائے، اپنے کاموں میں اعتدال رکھنے سے بھی غصے میں کمی آتی ہے۔
جب غصہ آئے تو اس وقت کون کون سی اہم تدابیر اختیار کی جائیں جن سے ہمارے اندر غصہ ختم ہو جائے اور ہم کسی بڑے نقصان سے بچ جائیں۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل امور پر فوراً عمل کرنا چاہیے۔
1۔غصے کے وقت کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں۔
2۔غصہ آئے تو فوراً وضو کر لیں۔
3۔غصے کے خاتمے کے لیے حضورﷺ کے تجویز کردہ کلمات ‘‘اعوذبااللہ من الشیطان الرجیم’’فوراً پڑھ لیں۔
4۔ایسے مسائل کے بارے میں سوچنا جو آپ کے لیے جذباتی نہیں ہیں، جیسے حساب کے بارے میں سوچنا، الٹی گنتی گننا۔
5۔شدید غصے میں لمبے اور گہرے سانس لیں۔
6۔غصے والی جگہ چھوڑ دیں،اگر کسی تنگ
مقام پر موجود ہیں تو کشادہ جگہ یا کھلی فضا میں آجائیں۔
7۔ دور کے مناظر کی طرف دیکھنا شروع کر دیں جیسے آسمان کی طرف دیکھنا۔
ان ہدایات پر عمل کرکے غصے کی وقت کی کیفیات کو قابو کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭