سوال : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
جواب: و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال : جاوید صاحب آپ بنگلور سے کب تشریف لائے تھے؟
جواب: میں پچھلے ہفتہ آیا تھا،اصل میں، میں وسیم بھائی سے بہت زمانے سے کہہ رہا تھا کہ حضرت سے ملاقات کرا دو،مگر ان کو چھٹی نہیں مل رہی تھی۔اتفاق سے کمپنی کی طرف سے دہلی ایک کام کے لئے سفر کا پروگرام بنایا،میں نے خدیجہ سے کہا کہ چلو دونوں چلتے ہیں حضرت سے ملاقات ہو جائے گی،وہ بہت خوش ہوئی، اللہ کا شکر ہے حضرت سے ملاقات ہو گئی۔
سوال :آپ کا وطن بنگلور ہی ہے؟
جواب: نہیں ہم لوگ اصلاً مہاراشٹر میں پونا کے قریب کے رہنے والے ہیں، میری اہلیہ خدیجہ ناگپور کے قریب ایک شہر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اب ان کے والد بنگلور میں رہنے لگے ہیں وہ بی جے پی کے اسسٹینٹ سکریٹری ہیں اور وہ بڑے ایکٹو لیڈر ہیں۔ انہوں نے ناگپور کو صرف کرناٹک میں پارٹی کا کام کرنے کے لئے چھوڑا ہے، اور ان کے کرناٹک آنے سے پارٹی کو بڑا فائدہ ہوا،اور اگر میں کہوں کہ کرناٹک میں موجودہ فرقہ وارانہ ماحول بنانے میں خدیجہ کے والد کا اصل رول ہے، تو بیجا نہ ہو گا۔
سوال : آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟
جواب: میرے والد صاحب ایک اسکول کے پرنسپل ہیں۔ پونا میں میں نے اپنی تعلیم مکمل کی،وہیں سے گریجویشن، پھر بی ٹیک اور ایم ٹیک کیابنگلور میں وِپرو ایک سافٹ ویر مشہور کمپنی ہے،اسی میں مجھے ملازمت مل گئی ہے،اسی میں کام کرتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے بہت فراوانی کا روزگار اللہ نے مجھے دے رکھا ہے۔
سوال : آپ کی اہلیہ بھی ملازمت کرتی ہیں؟
جواب: کرتی تھیں، الحمد للہ مسلمان ہونے کے بعد میں نے ان سے ملازمت چھڑوا دی ہے۔
سوال : ان کی تعلیم کہاں تک ہے؟
جواب: وہ بھی ایم ٹیک ہیں، بلکہ وہ بی ٹیک اور ایم ٹیک میں گولڈ میڈلسٹ ہیں، وہ ایک بہت مشہور امریکی کمپنی میں کام کر رہی تھیں، ان کو دو سال پہلے،جب ملازمت چھوڑی ہے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپئے تنخواہ ملتی تھی۔
سوال : اتنی بڑی تنخواہ چھوڑنے پر راضی ہو گئیں؟
جواب: جس بڑی چیز کے لئے ملازمت چھوڑی ہے،یہ تنخواہ اس کے پاسنگ میں بھی نہیں ۔ انہوں نے یہ ملازمت اپنے رب کا حکم ماننے کے لئے چھوڑی ہے، اب آپ بتایئے کہ اللہ کے حکم کے آگے یہ ایک سوا لاکھ روپئے مہینہ کی تنخواہ کیا حیثیت رکھتی ہے؟ اور سچی بات یہ ہے (روتے ہوئے) ہم گندے تو ایک پیسہ چھوڑنے والے نہیں تھے،میرے کریم رب کو ہم پر ترس آیا کہ انہوں نے ہمیں ایمان عطا فرمایا اور پھر اس ایمان کے لئے اس تنخواہ کو چھوڑ نے کی توفیق بھی دی۔
سوال : ما شاء اللہ بہت مبارک ہو جاوید صاحب، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس ایمان کا کچھ حصہ عطا فرمائے؟
جواب: آپ کیسی بات کر رہے ہیں، ہم آپ کے سامنے کس لائق ہیں، مولانا احمد آپ کے پاس تو ایمان کا خزانہ ہے،آپ تو ایمان کے سلسلہ میں پُشتینی رئیس ہیں اور ہم تو ابھی سڑک چھاپ رٹیلر ہیں۔
سوال : اصل میں آپ کا ایمان خود کا کمایا ہوا ہے، اور ہم لوگوں کو ورثہ میں مل گیا ہے؟
جواب: ہمارا بھی خود کا کمایا ہوا کہاں ہے، صرف اور صرف ہمارے اللہ کی کرم فرمائی ہے کہ ہم نکموں کو بھیک میں دے دیا ہے،البتہ ہمیں ابھی ابھی ملا ہے۔نئی نئی نعمت ملتی ہے تو ذرا قدر تو ہوتی ہے، شوق سا تو رہتا ہے، نئی نئی گاڑی مل جائے، نیا گھر مل جائے تو ذرا شوق سا تو رہتا ہے، بس ہمارا حال یہ ہی ہے۔
سوال : آپ کو اسلام سے کیسے دلچسپی ہوئی؟
جواب: یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
سوال : ذرا تفصیل اس کی معلوم کرنا چاہتا ہوں؟
جواب: ۲۰۰۴ء میں بنگلور آیا تو شانتی نگر کے پاس ایک ہوسٹل میں رہنے لگا ہمارے قریب میں میری اہلیہ خدیجہ کا گھر تھا۔ اتفاق سے دونوں کا آفس ایک ہی علاقہ میں تھا، ہم لوگ تقریباً روز ایک بس سے جاتے تھے،چند دنوں میں ہم لوگوں میں تعلقات ہوئے،میں نے اپنے گھر جا کر خدیجہ سے (جس کا نام اس وقت انجلی تھا) شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، ہمارے گھر والے بنگلور آئے اور انہوں نے اس لڑکی کو بہت پسند کیا اور منگنی کا سوال ڈال دیا،میں بھی چونکہ صورت، شکل، خاندان اور روزگار کے لحاظ سے ٹھیک ٹھاک تھا تو انجلی کے گھر والے خوشی سے تیار ہو گئے،منگنی ہوئی اور پھر ۱۲ جنوری ۲۰۰۵ء کو ہماری شادی ہو گئی۔ شادی میں انجلی کے والد نے ایک اچھا سا فلیٹ اپنے گھر کے قریب جہیز میں دیا،شادی انہوں نے آر ایس ایس کا سنچالک ہونے کی وجہ سے بہت سادگی سے کی۔
سوال : اچھا،آر ایس ایس کے سنچالک سادگی سے شادی کرتے ہیں؟
جواب: جی آپ کو معلوم نہیں، ان کے یہاں جہیز وغیرہ دینے کی بھی پابندی ہے، یہ فلیٹ بھی انہوں نے بہت چھپ کر دیا ہے، لوگوں کو معلوم نہیں۔
سوال : ہاں تو آگے بتایئے؟
جواب: میں ہاسٹل چھوڑ کر اپنی اہلیہ کے ساتھ ان کے فلیٹ میں رہنے لگا، میرے ساتھ میری کمپنی میں جموں کشمیر کے ایک صاحب وسیم نام کے ملازمت کرتے ہیں، صورت سے خوبصورت مسلمان پوری داڑھی کے ساتھ ملازمت کرتے ہیں آفس میں پابندی سے ظہر عصر کی نماز ادا کرتے ہیں ۔ہم لوگ ان کو دیکھ کر شروع شروع میں کشمیری آتنک وادی سمجھتے تھے،مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے پورے دفتر میں ان کی پہچان ایک بہت شریف اور محترم انسان کی طرح ہو گئی۔ شاید ہمارے پورے دفتر میں لوگ ان سے زیادہ کسی کا احترام کرتے ہوں۔ ان کے افسر بھی ان کو حضور و جناب سے بات کرتے ہیں اور یہ صرف ان کی دین داری کی وجہ سے ہے ۔ان کی ایک بہن جو ان کے ساتھ بنگلور میں رہتی ہیں، فیزیوتھراپیسٹ ہیں، ایک نرسنگ ہوم میں کام کرتی ہیں، وہ بھی برقع اور نقاب کے ساتھ وہاں جاتی ہیں اور ایک مسلم نرسنگ ہوم میں صرف عورتوں کو ورزش کراتی ہیں۔ یہ دونوں بھائی بہن آپ کے والد صاحب سے دہلی میں بیعت ہوئے تھے اور ارمغان پابندی سے پڑھتے رہے ہیں دونوں دعوت کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔وسیم صاحب موقع پاتے ہی شروع ہو جاتے ہیں، دفتر کے بہت سے لوگوں کو انہوں نے کتابیں اور قرآن مجید سلام سینٹر سے لا کر دیئے ہیں میرے دفتر میں مجھ سے پہلے دو لوگ ان کی کوشش سے مسلمان ہو چکے تھے ایک اتوار کو انہوں نے مجھے اپنے گھر لنچ پر آنے کی دعوت دی اور گھر بلا کر بہت درد کے ساتھ اسلام قبول کرنے کو کہا۔ میں نے کہا کہ میں اسلام کو پسند کرتا ہوں اور اسلام کی طرف سے میرا ذہن بالکل صاف ہو گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے، ہندو مذہب خود الجھی ہوئی بھول بھلیاں ہے جس میں عقل کے لئے کچھ بھی نہیں، مگر میرا خاندان خصوصاً میری سسرال جس کے ساتھ میں رہ رہا ہوں، وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا سر کردہ خاندان ہے،میرے لئے مسلمان ہونا کس طرح ممکن ہے؟ وہ رونے لگے اور بولے اشیش بھائی! اگر خدا نہ کرے ایمان کے بغیر موت آ گئی تو صرف آپ کے ساس سسر نہیں، ساری دنیا کے نیتا مل کربھی آپ کو دوزخ سے بچانا چاہیں گے تو بچا نہیں سکتے،اس لئے آپ اللہ کے لئے سچے دل سے کلمہ پڑھو اور مسلمان ہو جاؤ، آپ کسی کو مت بتانا،میں نے کہا: مجھے نماز پڑھنی پڑے گی،اسلام کو فالو کرنا پڑے گا، ورنہ مسلمان ہونے کا کیا فائدہ ہو گا؟وسیم صاحب نے کہا کہ چھپ کر جیسا موقع ملے ، آپ نماز وغیرہ پڑھ لیا کرنا، اگر آپ زندگی بھر ایک نماز بھی نہ پڑھ سکے،لیکن سچے دل سے کلمہ پڑھ کر اندر سے ایمان لے آئے تو ہمیشہ کی دوزخ سے تو بچ جائیں گے ۔وہ بہت درد سے مجھے سمجھاتے رہے، ان کی درد مندی نے مجھے مجبور کیا اور میں نے کلمہ پڑھ لیا۔وسیم نے کہا: دنیا کے لئے نہیں تو آخرت کے لئے آپ اپنا اسلامی نام رکھ لو، میں نے کہا آپ ہی رکھ دو وسیم نے جوگیندر اشیش پاٹل کے لحاظ سے جاوید احمد پاٹل رکھ دیا۔ فرصت اور لنچ میں وہ مجھے نماز وغیرہ سکھانے لگے،الحمد للہ رفتہ رفتہ اسلام میری پہلی پسند بن گیا اور اللہ کا شکر ہے میں بہت جلد پنچ وقتہ نمازی بن گیا۔
سوال : گھر میں آپ نے اطلاع کر دی؟
جواب: نہیں نہیں بالکل نہیں! چھپ چھپ کر نماز پڑھتا، کپڑے بدلنے کے لئے بیڈروم کا دروازہ بند کرتا اور چپکے سے نماز پڑھ لیتا۔گھر سے باہر دو ستوں کے ساتھ جانے کا بہانہ بنا کر دور مسجد چلا جاتا اور رمضان آیا تو مجھے روزہ رکھنا تھا، پیشاب کے بہانے اٹھتا کچن جاتا اور کچھ دودھ وغیرہ سحری میں پی لیتا، آفس سے لیٹ لوٹتا راستے میں افطار کر لیتا۔وسیم مجھے انجلی پر کام کرنے کو کہتے مگر میں ہمت نہیں کر پاتا تھا کہ اس نے اپنے گھر بتا دیا تو وہ لوگ مجھے زندہ نہ چھوڑیں گے۔‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’حضرت کی کتاب گھر لے کر گیا اور بیڈ پر ڈال دی،میں نہا کر آیا تو دیکھا انجلی پڑھ رہی ہے،مجھے دیکھ کر بولی یہ تو کسی مسلمان مولوی کی لکھی ہوئی کتاب ہے، اسے آپ کیوں پڑھ رہے ہیں؟میں نے ٹلایا کہ ایک دوست نے زبردستی دیدی تھی، تم نے دیکھا کیسی جادو بھری کتاب ہے؟ انجلی نے کہا نہیں نہیں، مجھے بھی یہ کتاب ہمارے آفس میں ایک لڑکی نے دی ہے، وہ پہلے کرسچین (عیسائی) تھی،اب مسلمان ہو گئی ہے، میں نے تو واپس کر دی مولانا احمد صاحب کس قدر مجاہدے کے ساتھ میں نے روز ے رکھے بیان کرنا مشکل ہے، اب عید آئی کسی طرح عید کی نماز تو فریز رٹاؤن جا کر ادا کر آیا، مگر گھر آ کر کمرہ بند کر کے بہت رویامیرے اللہ میری عید کب آئے گی، سب مسلمان تو عید منا رہے ہیں اور میں تو کہہ بھی نہیں سکتا کہ آج عید ہے۔ دوپہر کے بعد میں نے کمرہ کھولا اور انجلی کو تلاش کیا تو وہ دوسرے کمرہ میں دروازہ بند کئے ہوئے تھی میں نے نوک کیا،کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھولا، دیکھا تو آنکھیں سوج رہی ہیں، میں نے کہا تم کیوں رو رہی تھی؟ بولی کوئی بات نہیں، آج نہ جانے دل پر کچھ بوجھ سا ہے بس اندر سے رونا آ رہا ہے،دل کو ہلکا کرنے کے لئے دل میں آیا کہ کمرہ بند کر کے رو لوں۔ آپ پریشان نہ ہوں کوئی بات نہیں ہے، میں نے کہا چلو ڈاکٹر کو دکھا دوں، وہ بولی میں اندر کمرے میں اپنے ڈاکٹر کو دکھانے گئی تھی ۔میں نے کہا تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ اندر کمرے میں ڈاکٹر کہاں سے آیا؟اس نے کہا ہاں ہاں، میرا ڈاکٹر اس کمرہ میں تھا،میرا دل میرا ڈاکٹر ہے میں اپنے ڈاکٹر کے سامنے اپنی بیماری رونے گئی تھی،میں پریشان ہو گیا،بہت سوچتا رہا اور پھر ہم دونوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لئے پارک میں جانے کا پروگرام بنایا۔
ایک سال اور اسی طرح گزر گیا۔رمضان آیا،میں اتوار کو کسی بہانے گھر سے باہر چلا جاتا،انجلی مجھ سے معلوم کرتی کہ دوپہر کو کھانا گھر پر ہی کھائیں گے نا؟ میں کہتا کہ تم میرے لئے مت بنانا،میں تو دوست کے ساتھ کھاؤں گا،روزہ افطار کر کے گھر آتا معلوم کرتا دوپہر کیا کھانا بنایا تھا، تو وہ کہتی بس اکیلے کے لئے میں کیا بناتی بس چائے وغیرہ پی لی تھی ۔میں سوچتا یہ بے چاری میری وجہ سے کھانے سے رہ گئی، عید آئی تو ہم دونوں کا ایک ہی حال کہ میں الگ کمرہ میں کمرہ بند کر کے اپنے رب سے اپنی عید نہ ہونے کی فریاد کرتا، وہ بھی پہلے سال کی طرح دوسرے کمرے میں سے روتی ہوئی آنکھوں سے نکلی ۔اب مجھے اس کی طرف سے فکر ہونے لگی،اس کو کوئی دماغی بیماری تو نہیں ہو گئی ہے، وہ کبھی بھی کمرہ بند کر لیتی، عید کے دو مہینے بعد ایک روز وہ اتوار کو دوپہر کے تین بجے کمرے میں گئی اور اندر سے کمرہ بند کر لیا، اب مجھے بے چینی ہو گئی اتفاق سے کھڑکی، ہلکی سی کھلی رہ گئی تھی، میں نے دریچے پر سے دیکھا تو وہ کمرے میں نماز پڑھ رہی تھی۔نماز کے بعد وہ بڑی منت کے ساتھ دیر تک دعا مانگتی رہی،اس کے بعد اس نے قرآن مجید اپنے پرس سے نکال کر اس کو چوما، آنکھوں سے لگایا اور تلاوت کی،میری خوشی بس دیکھنے لائق تھی، ہمت کر کے میں نے اپنے حال کو چھپایا تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ کمرے سے نکلی تو میں نے اپنے حال پر قابو پا کر اس سے پوچھا کہ انجلی تم اپنا حال مجھ سے چھپا رہی ہو،سچ بتاؤ کیا پریشانی ہے؟مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تم نے کسی سے دل لگا لیا ہے،اس نے کہا کہ دل تو آپ کو دے دیا تھا، اب میرے پاس ہے کہاں کہ دل لگاؤں؟ اور وہ بے حال ہو کر پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے بہت زور دیا کہ تم مجھ سے چھپاؤ گی تو کس سے دل کا حال بتاؤ گی؟ میں نے کہا کہ اگر آج تم نے مجھے اپنی پریشانی نہ بتائی تو جا کر کہیں خودکشی کر لوں گا۔ انجلی نے کہا مجھے جو پریشانی ہے اگر میں نے تمہیں بتا دی تو تم مجھے اپنے گھر سے نکال دو گے۔میں نے کہا:یہ گھر تو تمہارا ہے میں کہاں تم کو گھر سے نکالوں گا؟وہ بولی مجھے ایک ایسی بیماری لگ گئی ہے جو لا علاج ہے اور اگر وہ بیماری میں آپ کو بتا دوں گی تو آپ ایک منٹ میں مجھے چھوڑ دو گے،مجھے ایسی بیماری لگی ہے جسے آج کے زمانے میں بہت گندہ سمجھا جاتا ہے۔ میں نے کہا مجھے بتاؤ تو، میں نے تمہارے ساتھ جینے مر نے کے لئے تم سے شادی کی ہے اس نے کہا کتنے لوگ ہیں جو جینے اور مرنے کو کہتے ہیں، مگر کہنا اور ہے،کرنا اور ہے، آپ بھی صرف کہہ رہے ہیں، اگر میں نے وہ بیماری
جو مجھے لگ گئی ہے آپ کو بتا دی،تو آپ اس بیماری کو اس قدر گندہ سمجھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ دیں گے،میں نے کہا انجلی کیسی باتیں کرتی ہو؟میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ کیا اتنے دن میں کبھی تمہیں مجھ سے بے وفائی کا شک بھی ہوا ہے،تمہیں اندازہ نہیں کہ میں تمہیں کس قدر چاہتا ہوں۔ انجلی نے کہا ابھی تک تو واقعی تم مجھے چاہتے ہو،مگر اس بیماری کا پتہ لگتے ہی آپ کا سارا پیار ختم ہو جائے گا،میں نے کہا:نہیں انجلی ایسا نہ کہو تم مجھے اپنی پریشانی بتاؤ،میں جس طرح چاہو تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہر بیماری اور شرط پر جینے مرنے کا ساتھی ہوں۔ انجلی نے کہا یہ بالکل سچ ہے تو لکھ دو،میں نے کہا خون سے لکھ دوں، اس نے کہا نہیں پین سے لکھ دو، وہ مجھ سے لپٹ گئی اور بولی،میرے لاڈلے ، میرے پیارے،میں نے ساری دنیا کو حسن وجمال اور پیار دینے والے اکیلے مالک سے دوستی کر لی ہے، اور دل کو بھاڑ خانہ بنانے کے بجائے اسی ایک اکیلے مالک سے دل لگا لیا ہے، اور میں نے باپ دادا سے چلا آیا دھرم بلکہ ادھرم چھوڑ کر گندگی اور آتنک واد سے بدنام مذہب اسلام قبول کر لیا ہے۔اور اب میں انجلی نہیں بلکہ خدیجہ بن گئی ہوں، آپ نے لکھ تو دیا ہے،مگر اب آپ کو اختیار ہے،اسلام کے ساتھ قبول کرتے ہیں تو اچھا ہے،ورنہ آپ جیسے ایک ہزار اور رشتہ دار مجھے چھوڑ دیں، تو مجھے اسلام ایمان کے لئے خوشی سے منظور ہے۔ اور اب یہ بھی سن لیجئے اور فیصلہ آج ہی کر لیجئے، اب میں مسلمان ہوں، کسی کا فر اور غیر مسلم شوہر کے ساتھ میرا رہنا حرام ہے۔ اب اگر آپ کو میرے ساتھ جینا مرنا ہے، تو صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ مسلمان ہو جائیں، ورنہ آج کے بعد، آپ چھوڑیں یا نہ چھوڑیں میں آپ کو چھوڑ دوں گی۔
میں اس سے بے اختیار چمٹ گیا،میری خدیجہ!اگر تم خدیجہ ہو گئی ہو تو میں بھی کب سے جاوید احمد بن چکا ہے وہ خوشی سے چیخ پڑی،کب سے؟ تو میں نے کہا:۳ جنوری ۲۰۰۴ء سے،وہ بولی:کیسے؟میں نے پوری تفصیل بتائی، تو اس نے بتایا کہ ۱ جنوری ۲۰۰۴ء کو خدیجہ مسلمان ہو ئی تھی،اس کے دفتر کی ایک عیسائی لڑکی جو مسلمان ہو کر عائشہ بن گئی تھی،اس نے اسے کلمہ پڑھوایا تھا۔اصل میں وسیم کی بہن فرحین نے اپنی ایک دوست پرینکا کو، جو گلبرگہ کی رہنے والی تھی(ڈاکٹر ریحانہ ان کا نیا نام تھا) دعوت دے کر ان کو کلمہ پڑھوایا تھا،ریحانہ بڑی درد مند داعیہ ہیں، ڈاکٹر ریحانہ کی دعوت پر بائیس لوگ گلبرگہ اور بنگلور میں مسلمان ہوئے ہیں، جن میں عائشہ بھی تھی۔
سوال : ماشاء اللہ واقعی بڑا افسانوی واقعہ ہے۔ آپ لوگوں کو کتنا مزہ آیا ہو گا؟
جواب: خدیجہ بھی دو سال تک رمضان میں روزے رکھتی رہی اور
چھپ چھپ کر نماز پڑھتی رہی، عید کے روز دونوں چھپ چھپ کر روتے رہے،وہ دن میں روزے میں مجھے کھانے کو نہیں پوچھتی تھی کہ مجھے ساتھ کھانا نہ پڑے ۔میں بھی اسی طرح ٹلاتا رہا، میں ڈرتا تھا کہ اس کو پتہ چل گیا تو اپنے گھر والوں سے کہہ دے گی تو میرا جینا مشکل ہو جائے گا، اور وہ اس لئے نہیں بتاتی تھی کہ میں اسے چھوڑ دوں گا۔دو سال تک ہم دونوں مسلمان رہے،ایک گھر میں رہتے رہے،ایک دوسرے سے چھپاتے رہے، اس کے بعد جب عید آئی تو بس عید تھی،دو سال عید پر رونے کو یا د کر کے ہم نادانوں کی طرح ہنستے رہے۔ الحمد للہ ثم الحمدللہ میرے اللہ بھی ہم پر ہنستے ہوں گے،ہم پر کیسا پیار اور رحم آتا ہو گا ہمارے اللہ کو۔
سوال : اب آپ کے گھر والوں کو علم ہو گیا کہ نہیں؟
جواب: میرے گھر والوں کو معلوم ہو گیا ہے، میرا چھوٹا بھائی اور میری والدہ الحمد للہ مسلمان ہو گئی ہیں، والد صاحب پڑھ رہے ہیں۔انشاء اللہ وہ اسلام میں آ جائیں گے، ابھی خدیجہ نے اپنی چھوٹی بہن کو بتایا ہے ، وہ ہمارے گھر آ کر اسلام پڑھ رہی ہے۔ ان کے گھر والوں کے لئے دعا کیجئے۔
سوال : ماشاء اللہ خوب ہے آپ کی کہانی، ارمغان پڑھنے والوں کے لئے کوئی پیغام دیجئے؟
جواب:بس ہمارے خاندان والوں کے لئے دعا کی درخواست ہے اور آپ دعا کریں کہ ہم نے اپنے حضرت سے زندگی کو دعوت کے لئے وقف کرنے کا جو عہد کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ کام لے لے۔
سوال : شکریہ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جواب: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
بشکریہ : ماخوذ از ماہنامہ ارمغان فروری ۲۰۱۱ء