پپا جلد ی آ جانا
چھٹی کا دن تھا اس لیے میا ں بیوی مزے مزے سے ناشتہ کر رہے تھے ۔ خاوند نے بیوی سے کہا، کیا تم جانتی ہو کہ آج میرے بھانجے کو اُس کے مرحوم والد یا د آ رہے ہیں۔بیوی نے کہا آپ کو کیسے معلوم ہو ا؟ خاوند نے کہا کہ فیس بک سے۔ یہ دیکھو اُس نے اپنے والد کی کتنی پیاری تصویر اپنی وال پہ لگا ئی ہے اور اس سے بھی پیار ا شعر لکھا ہے۔ چلو تم شعر سنو ، شعر ہے ۔۔۔ لبھد ا پھر ہن ، گلیاں گلیاں ۔۔۔میرے نال دا ، اکو میں سی۔
بیوی نے شعر سنا تو کہا کہ کیا آپ کوبھی اپنے مرحوم والد یاد آیا کرتے ہیں۔ یہ سوال اس کے لیے انتہائی غیر متوقع تھا ۔بیوی کو تو اس نے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ اس طرح کے مشکل سوال نہیں کیا کرتے لیکن وہ خود گہری خاموشی میں ڈوب گیا اورپھر جب کچھ دیر بعد وہ اس بحر خامشی سے باہر آیا تو اس نے کہا ہائے پگلی کاش تم یہ پوچھتی کہ کب کب وہ مجھے یا د نہیں آیاکرتے۔پھر اُ س نے کہا لوتوپھر سنو،جب بھی میں کسی بچے کو اپنے والد سے اٹھکیلیاں کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے ،وہ یاد آ تے ہیں کہ کاش میں بھی اپنے والد سے ایسا کر سکتا جب بھی کسی و الد کو اپنے بچے سے پیار کرتے اور اس کے ناز اٹھاتے دیکھتا ہوں تو مجھے، وہ یاد آتے ہیں کہ کاش میرے والد بھی مجھ سے ایسے ہی پیا ر کیاکرتے ۔ جب بھی کسی والد کو اپنے بچوں کے لیے رنگ برنگے کھلونے خریدتے دیکھتا ہوں تو مجھے، وہ یاد آتے ہیں اور دل کہتا ہے کہ کاش میرے والد بھی مجھے ایسے ہی کھلونے لے کر دیا کرتے ۔جب بھی کسی پارک یا تفریح گاہ میں کسی والد کو بچوں کے ساتھ سیر کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے ،وہ یاد آتے ہیں کہ کاش میں نے بھی کبھی اپنے والد کے ساتھ یو ں سیر کی ہوتی۔ جب بھی کسی گھرمیں باپ کے آنے پر بچوں کی خوشی بھر ی کلکاریاں سننے کو ملتی ہیں اور وہ باپ کی ٹانگوں سے لپٹنے کے لیے دوڑتے ہیں تو مجھے، وہ یاد آتے ہیں کہ کاش میری زندگی میں بھی کوئی ایسا لمحہ آیا ہوتا۔
اور ہاں سنو، کتنی ہی عیدیں ایسی گزریں ، میں اپنے ہم عمر بچوں کو دیکھا کرتا کہ وہ کس طرح ہنستے کھیلتے اپنے اپنے والد کے ساتھ عید گا ہ کی جانب گامزن ہیں اورجب میں اکیلا ہی جا رہا ہوتا تو مجھے ، وہ یاد آتے تھے۔ عید سے قبل جب سب بچوں کے لیے ان کے والد عید کے ملبوسات لایا کرتے تو مجھے، وہ یا د آتے کہ کاش کبھی میرے والد بھی میرے لیے ایسے ہی لباس لا یا کرتے۔
اور ہاں تم جانتی ہو کہ مجھے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سینے پہ لٹانا کتنا اچھا لگتا ہے لیکن کیوں؟اس لیے کہ جب وہ میرے سینے پہ لیٹتے ہیں تو تصورہی تصور میں ،، میں نہیں رہتا بلکہ اپنا والد بن جاتا ہوں اور میرے سینے پہ لیٹنے والا بچہ ، میں خود بن جاتا ہوں۔پھر اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ پرائمری سے لے کر ہائی سکول تک جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا تو میرے نانا جان ہی میرے ساتھ جایا کرتے تھے اور بچے یہ سمجھتے تھے کہ شاید میرے والد اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور جب وہ مجھ سے پوچھا کرتے تو میں انہیں ہاں یا نہ، کوئی بھی جواب نہیں دیتا تھا اور بچے خود ہی خاموش ہو جایا کرتے تھے اور میرے ٹیچرز کو توگویا اس بات کا یقین تھا، اسی لیے وہ شایدمجھ پہ زیادہ شفقت فرمایا کرتے تھے اور ہاں بعد میں کالج اور یونیورسٹی میں ہر فارم پر باپ کے خانے میں، میں خود ہی دستخط کیا کرتا تھا اور کئی بار تو دستخط کرنے کے بعد میں رویا بھی کرتا تھا۔
اور ہاں یا د آیا کہ میں اپنے بچپن میں کبھی کسی سے روٹھا نہیں کرتا تھا ،مجھے معلوم تھا کہ میرا باپ کون سا مجھے منانے آئے گا ۔میں کبھی یہ ضد نہیں کرتا تھا کہ مجھے یہ نہیں کھانا او روہ نہیں کھانا، میں کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں کرتا تھا ، حتی کہ کوئی مجھے کچھ دے بھی دے تو میں نہیں لیا کرتا تھا۔ میں کسی بچے سے لڑا نہیں کرتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ میر ا باپ کب میرا ساتھ دینے آئے گا!، اگر کوئی بچہ مجھے مارتا تھا تو میں کسی سے یہ نہیں کہتا تھا کہ میں جاکر اپنے ابو کو بتاؤں گا۔ میں بچپن سے ہی بہت سنجیدہ تھا، نہیں شاید بچپن مجھ پہ آیا ہی نہ تھا۔ گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ لاہور میں ، میرے کیمسٹر ی کے استاد کہا کرتے تھے کہ تمہارے چہرے پر موت کی زردی چھائی رہتی ہے ۔شاید وہ صحیح کہتے تھے کیونکہ میں ہر وقت سہما سہما جو رہا کرتا تھابالکل ایسے ہی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ افلا س نے بچوں کو بھی سنجیدگی بخشی ۔۔سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے ۔
پھر اس نے کہا کہ سنو تم مجھے کہا کرتی ہو نا کہ بچوں کی ہر بات نہ مان جایا کریں ۔ اصولاً تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن میں اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہو ں ۔ مجھے ہر بات میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ جس طرح میری زندگی میں باپ کی عدم توجہ اورعدم محبت کی وجہ سے بہت سے خلارہ گئے ہیں، کہیں میری کسی‘‘ نہ’’ سے ان کی زندگی میں کوئی خلا نہ رہ جائے ۔ حلال وسائل کے اند ر میں ان کو جو بھی مہیا کر سکتا ہوں وہ مجھے ضرورکرناچاہیے۔ میں جب اپنے بچوں کو ‘نہ’ کرنے لگتا ہو ں تو میرے والد کی صورت میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور میری ‘نہ’ ہاں میں بدل جاتی ہے ۔
اور سنو تم یہ بھی پوچھا کرتی ہونا کہ مجھے ‘‘سات سمندر پار سے ، گڑیوں کے بازار سے ، اچھی سی اک گڑیا لانا، گڑیا چاہے نہ لانا ، پپا جلد ی آ جانا’’ والا انڈین نغمہ کیوں اتنا پسند ہے۔تو لو، اس کے بارے میں بھی جان لو۔ یہ نغمہ میں نے پہلی بار آج سے شاید چالیس بیالیس سال قبل ریڈیو سیلون کی عالمی سروس سے رات کے ایک بجے سنا تھا۔ تب سے لے کر اب تک میں جب بھی اس کوسنتا ہوں تومجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کا ایک ایک بول میرے دل کے تاروں کو چھیڑ رہا ہے ۔میں تصور کر لیتاہوں کہ میرے ابا بھی پردیس میں ہیں اور وہ میرے اس طرح کہنے سے شاید جلد ہی لوٹ آئیں گے اور آتے ہوئے بہت سے کھلونے بھی لائیں گے۔ہاں شاید وہ لوٹ ہی آتے اگر وہ پردیس میں ہوتے لیکن وہ تو دیس ہی میں تھے ۔دور جانے والوں کوتو شایدپاس بلایا جا سکتا ہے اور مر جانے والوں پہ بھی صبر کیا جا سکتا ہے لیکن پاس ہوتے ہوئے بھی کوئی اگر دور ہو جائے تو اس پہ صبر کرنا شاید اتنا آسان نہیں۔پھر اس نے ایک لمبی آہ بھری اور کہاکہ میرا دل کرتا ہے کہ میں ہر ُاس بچے کو جسے پیار کرنے والا باپ میسر ہے ، یہ تلقین کروں کہ باپ کی قدر کرو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ۔ بیوی نے کہا ہاں دیر تو ہو گئی ہے لیکن ناشتہ کرنے میں۔شوہر نے کہااچھا، تو آؤ پھر ناشتہ کرتے ہیں۔