کیا آپ اپنی تنہائی، اکیلے پن اور روکھی پھیکی زندگی سے بیزار ہیں اور اس کو سوشل میڈیا کی دوستیوں، واسطوں اور رابطوں کی مدد سے کم کرنا چاہتے ہیں؟؟اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو ذرا ٹھہرئیے! کیا آپ جانتے ہیں کہ اجنبیوں پر بھروسہ کرنا آپکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو سکتی ہے اور کوئی آپ کو جذباتی صدمے کے ساتھ ساتھ مالی اور کبھی کبھی جانی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے؟آئیے ایک سچے واقعے سے کچھ سبق سیکھتے ہیں۔(واقعہ کے کرداروں کے نام اور مقام تبدیل کر دئیے گئے ہیں)
ایک مالدار اور آسودہ حال خاتون جو بیرون ملک رہتی ہیں مگر بنیادی طور پر پاکستانی ہیں، تقریباً نو سال سے وہ بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ اولاد اپنی پروفیشنل اور پرسنل زندگی بہت اچھی طرح گزار رہی ہے اور خاتون وقت گزارنے کے لئیے فیس بک پر لوگوں سے دوستی کرنے کو وقت گزارنے کا ایک اچھا ذریعہ سمجھتی ہیں۔اسی دوران میں وہ ایک ایسے شخص کی فرینڈ ریکوئسٹ قبول کر بیٹھیں جو فیس بک پر بہت مشہور تھا اور اس کے اکاؤنٹ سے اکثر مختلف موضوعات پر ریسرچ اور حیران کن تحقیقات پڑھنے کو ملتی رہتی تھیں۔ فیس بک کا وہ دوست اپنے درست نام اور پروفائل پکچر کے ساتھ اپنا اکاونٹ ہینڈل کرتا تھا اور معلومات عامہ میں اس کی دسترس حیران کن تھی۔ اس نے کبھی اپنی تصاویر شئیر نہیں کیں مگر یہ کوئی اتنی اہم بات بھی نہیں تھی کہ اس پر شک کیا جا سکے۔خاتون کی بات چیت آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی مزید مدارج طے کرتی ہوئی شادی کے مقام پر آ پہنچی۔ کیونکہ وہ عمر کے اس حصے میں تھیں جہاں بچوں کی طلب اور امید نہیں ہوتی اور دوسرے فریق کو بھی بچوں وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لہذا انہوں نے طے کیا کہ وہ ایک دوسرے کو محض جذباتی رفاقت دینے کی غرض سے شادی کر لیتے ہیں۔قصہ مختصر،پاکستان آنے پر ان کی شادی ہو گئی اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد خاتون بیرون ملک چلی گئیں تا کہ شوہر کے کاغذات اور امیگریشن پراسس مکمل کر کے اسے بلا سکیں۔ اس سلسلے میں جب کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ موصوف کی ڈگری جعلی تھی اور وہ صرف انٹر پاس تھے۔ مزید براں وہ بیروزگار بھی تھے اور اس اہلیت پر ان کے لئے بیرون ملک ملازمت کا ملنا نا ممکن تھا۔ خاتون نے اس بارے میں ان سے پوچھ گچھ کی تو مزید کئی باتیں کھل کر سامنے آئیں۔ ان صاحب نے یہ سارا ڈرامہ نیشنیلٹی حاصل کرنے کے لئیے رچایا تھا اور مقصد مالدار خاتون کے اثاثہ جات پر زندگی کو سہل کرنا تھا اور انکی پینشن سے عیش کر کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
خاتون کے مطابق وہ شادی سے قبل ایک سال تک ڈھائی سو ڈالر ماہانہ اس شخص کو دیتی رہی ہیں اس کے علاوہ تقریبا آٹھ ہزار ڈالر خرچ کر کے وہ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس کا ڈسک آپریشن بھی کروا چکی ہیں لیکن اس شخص کا لالچ مزید سے مزید بڑھتا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ شخص نہ صرف لالچی اور جھوٹا بلکہ کئی قسم کی قبیح اخلاقی برائیوں میں بھی مبتلا ہے اور فیس بک پر بہت سی عورتوں کے ساتھ فلرٹ بھی کرنے کا عادی ہے۔ موصوف کو غیر فطری تعلقات اور گروپڈ جنسی سرگرمیوں سے بھی رغبت ہے۔اس ساری حقیقت کے سامنے آنے کے بعد انہوں نے اپنے وکیل کو امیگریشن کے پراسس سے روک دیا اور خلع کے لئیے کیس فائل کر دیا ہے۔
یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ خاتون نہایت سلجھے ہوئے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور خود بھی بہت تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں۔
اس واقعہ سے سبق سیکھیں اور جان لیں کہ فیس بک پر جو بہت علم بکھیر کر اپنی معلومات کے ذریعے متاثر کر کے اپنی علمیت اور جیک آف آل ٹریڈز قسم کی شخصیت کو ظاہر کرے ضروری نہیں کہ وہ وہی جو آپ سمجھ رہے ہیں سکیم آرٹسٹس اپنا کور ہمیشہ بہت پرفیکٹ بناتے ہیں۔ ان کے چنگل میں پھنسنے سے ہوشیار رہیں۔خواہ کوئی مرد ہو یا خاتون ، اس کے ساتھ بے تکلفی اور ذاتی نوعیت کی باتیں ہرگز مت کریں۔ جعلی ناموں اور تصویروں والی آئی ڈیز سے دور رہیں۔ ایسے لوگوں کی ریکوئسٹ قبول مت کریں جنہیں آپ یا آپکے بھروسہ مند دوست نہ جانتے ہوں یا جن کی شناخت سے متعلق آپکو شبہات ہوں۔ غیر ضروری طور پہ انوالو ہونے والے افراد کو اپنی فرینڈ لسٹ سے نکال دیں اور کسی کی دکھ بھری داستانیں سن کر ہمدردی اور خصوصا مالی مدد سے اجتناب کریں۔فیس بک صرف خیالات کے اشتراک کا پلیٹ فارم ہے اسے حقیقی روابط
اور رشتے بنانے کے لئیے استعمال کرنے سے پرہیز برتیں۔٭٭٭