قسمت

مصنف : مارک ٹوین

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : دسمبر 2019

ترجمہ : قیصر نذیرخاور

نوٹ؛ یہ کوئی خیالی خاکہ نہیں ہے۔ مجھے یہ ایک پادری نے مہیا کیا جو چالیس سال پہلے ‘وول وچ’ میں ایک معلم تھا۔ اس نے اس کے سچا ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔۔ ایم۔ ٹی 
ایسا اس ضیافت میں ہوا تھا جو ہماری نسل کے اُن دو تین نامور اور ممتاز انگریز فوجیوں میں سے ایک کے اعزاز میں دی گئی تھی۔ وہ وجوہات جو اس تحریر میں آگے آئیں گی، کی وجہ سے میں اس کا اصلی نام اپنے تک ہی محدود رکھوں گا اور اسے لیفٹیننٹ جنرل لارڈ ‘آرتھر سکورسبائی’، وی سی، کے سی بی، وغیرہ وغیرہ ہی پکاروں گا۔ ایک معروف نام خود میں کتنی دلکشی رکھتا ہے! وہ بندہ جیتا جاگتا وہاں بیٹھا تھا، جس کا نام میں نے ہزاروں بار تب سے سنا تھا جب تیس سال پہلے یہ اچانک کریمین جنگ کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر اُبھرا تھا اور تب سے وہیں موجود تھا تاکہ اس کا جشن ہمیشہ منایا جا سکے۔ میرے لیے اس دیوتا کو دیکھنا ہی ضیافتی کھانے پینے سے لطف اندوز ہونے کے مترادف تھا۔ میری نگاہیں اس کا تفصیل سے جائزہ لے رہی تھیں، اس کی خاموشی کو محسوس کر رہی تھیں، اس کے محتاط رویے کو جانچ رہی تھیں اور اس کے اشرافی روپ کی کشش سے مرعوب ہو رہی تھیں؛ وہ ایک سادہ ایمانداری میں ملفوف تھا، وہ اپنی عظمت کے چاشنی بھرے احساس سے بے بہرہ تھا۔ وہ اس بات سے بھی غافل تھا کہ سینکڑوں لوگ اسے محبت اورخلوص بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے جن کے سینوں سے اس کے لیے عقیدت پھوٹ پھوٹ کر اس کی طرف بہے جا رہی تھی۔
میرے بائیں طرف وہ پادری موجود تھا جسے میں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ پادری تو وہ اب تھا لیکن اس نے اپنی آدھی زندگی یا تو کیمپوں اور کھلے میدانوں میں گزاری تھی یا پھر ‘وول وچ’ کے فوجی سکول میں بطور معلم پڑھایا تھا۔ میں جس سمے کی بات کر رہا ہوں، اسی سمے اس کی آنکھوں میں ایک ڈھکی چھپی چمک ابھری اور وہ میری طرف جھکا اور اس ضیافت کے ہیرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ رازداری سے بولا؛
‘‘آپس کی بات ہے۔۔ وہ نرا گاؤدی ہی نہیں پرلے درجے کا احمق بھی ہے۔’’
اس کا یہ کہنا میرے لیے بہت ہی حیران کُن تھا۔ اس نے اگر یہ بات نپولین یا سقراط یا سلیمان کے بارے میں کہی ہوتی تو میں شاید کم حیران ہوتا۔ میں دو باتیں بہت اچھی طرح جانتا تھا؛ ایک تو یہ کہ پادری صادق تھا اور دوسرے یہ کہ لوگوں کے بارے میں اس کی جانکاری اور بصیرت بہت اچھی تھی۔ میں، چنانچہ، یہ جان گیا کہ اس بات میں شک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پادری کے کہے پر سوال اٹھایا جا سکتا تھا اور یہ کہ دُنیا اس ہیرو کے بارے میں جو جانتی تھی وہ درست نہ تھا؛ وہ ایک احمق تھا۔ میں، چنانچہ، کسی مناسب موقع پر یہ جاننا چاہتا تھا کہ پادری نے رازداری سے صرف مجھ پر ہی کیوں یہ ر از آشکار کیا تھا۔کچھ دن گزرے تو مجھے موقع مل گیا اور پادری نے مجھے جو بتایا وہ یہ ہے؛
'' لگ بھگ چالیس سال پہلے کی بات ہے، میں‘وول وچ’ کی فوجی اکیڈیمی میں معلم تھا۔ میں رنگروٹوں کے ان سیکشنوں میں سے ایک میں موجود تھا جس میں نوجوان ‘سکورسبائی’ اپنے ابتدائی امتحانات دے رہا تھا۔ جلد ہی مجھے اس پر ترس آ گیا؛ اس کے سیکشن کے باقی سب نوجوان عمدگی اور روشن دماغی سے جوابات دے رہے تھے لیکن اس نے۔ نجانے کیوں، سچ کہا جائے تو اسے کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ وہ دیکھنے میں اچھا بھلا تھا، میٹھا لہجہ رکھتا تھا، محبتی اور بھولا بھالا تھا؛ اسے یوں بُت بنا جیسے زمین میں گڑا ہو، دیکھنا اور اس کے جوابات جو لا علمی اور گاؤدی پن کے شاہکار تھے، سننا خاصا تکلیف دہ تھا۔ میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی کے جذبات ابھرے۔ میں نے خود سے کہا کہ یہ جب دوبارہ امتحان کے لئے آئے گا تو اسے، یقینا، نکال دیا جائے گا۔ میں نے چنانچہ اسے ترس کھاتے ہوئے اور ہمدردی کے تحت کچھ نہ کہا اور ایک طرف لے گیا۔ اسے سیزر کی تاریخ کے بارے میں بہت کم علم تھا۔ ایسا ہی حال دیگر کے بارے میں تھا۔ میں نے اس پر ایک جہازی غلام کی طرح محنت کی اور اسے سیزر کے بارے میں وہ مخصوص سوال اور ان کے جوابات رَٹائے جو عام طور پر پوچھے جاتے تھے۔ اور آپ یقین کریں کہ امتحان والے دن اس نے ہر طرف رنگ بکھیر دئیے! اور جو کچھ میں نے اس کے دماغ میں ڈالا تھا اس نے وہی انتہائی رَٹو انداز میں نکال باہر کیا اور شاباش بھی حاصل کی، جبکہ دوسروں، جنہیں اس سے ہزار گنا زیادہ علم تھا، کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ ایک عجیب سا خوش قسمتی کا حادثہ رونما ہوا تھا۔ ایسا حادثہ شاید کسی صدی میں دوبارہ نہ ہو۔ اس سے ایسے سوال پوچھے ہی نہ گئے جو ان سے باہر ہوں جو اسے رٹائے گئے تھے۔یہ بد بختی تھی۔ خیر، سارے کورس کے دوران میں اس کے ساتھ رہا؛ یہ ایک ایسا جذبہ تھا جیسا وہ ماں محسوس کرتی ہے جس کا بچہ معذور ہو۔ اور وہ ہر بار خود کو بچا لیتا تھا۔ اسے معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ہاں البتہ ایک مضمون ایسا تھا جس نے اس کا بھانڈا پھوڑ دینا تھا اور بالآخر اسے مات دے دینی تھی، یہ علم ریاضی تھا۔ میں نے یہاں بھی کوشش کی کہ اس کی موت نہ ہو؛ میں نے ایسے سوالوں کے حوالے سے اس کی مشق کرائی، اسے رٹایا۔ اسے رٹایا اور مشق کرائی جوعام طور پر ممتحن پوچھ سکتے تھے۔ اور پھر میں نے اسے اس کی قسمت کے حوالے کر دیا۔ تو جناب اب آپ نتیجے کا اندازہ لگائیں؛ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے اول انعام حاصل کیا اوراس کی اچھے کلمات کے ساتھ شاندار پذیرائی ہوئی۔
نیند؟ اگلا پورا ہفتہ میں سو نہ پایا۔ میرا ضمیر دن رات مجھے ملامت کرتا رہا۔ میں نے جو کچھ بھی کیا تھا خالصتاً ترس کھا کر خیراتی بنیادوں پر کیا تھا تاکہ اس بیچارے نوجوان کو گرنے سے بچا سکوں۔ مجھے تو اس بات کا گمان بھی نہ تھا کہ ایسے مضحکہ خیز نتائج سامنے آئیں گے۔ میں خود کو ایسا دُکھی اور مجرم سمجھنے لگا جیسے میں فرینکنسٹائن کا خالق ہوں۔ وہ لکڑ دماغ تھا جسے میں نے چمکیلی ترقیوں کی راہ پر ڈال دیا تھا جہاں اسے اہم ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا تھا؛ مجھے، البتہ یہ اندازہ تھا کہ جیسے ہی وہ اور اس کی ذمہ داریاں اکٹھی ہوئیں تو پہلے ٹکراؤ میں ہی سب کچھ فنا ہو جائے گا۔
جنگ کریمیا ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔ یقیناً ایک جنگ ہونی چاہیے تھی’، میں نے خود سے کہا تھا؛‘ہم اس گدھے کو حالت امن میں مرنے نہیں دے سکتے، اس کا بھانڈا پھوٹنا ہی چاہیے۔’ میں زلزلے کا منتظر تھا۔ اور یہ آیا بھی۔ لیکن اس نے مجھے گھما کر رکھ دیا۔ پیدل فوج کی ایک رجمنٹ میں اس کی کپتانی کا حکم جاری ہو گیا! اچھے اچھے اس عہدے تک پہنچتے پہنچتے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اپنے بال سفید کر بیٹھتے ہیں۔ اور یہ بھلا پہلے کس نے سوچا تھا کہ وہ ایک ناتواں کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری ڈال دیں گے؟ اگر انہوں نے اسے ایک ‘کورنٹ’ بنایا ہوتا تو بھی میں اسے مشکل سے ہضم کر پاتا لیکن ایک کپتان۔۔ ذرا سوچیں! مجھے لگا تھا جیسے میرے بال سفید ہو نے لگے ہیں۔
ذرا سوچیں کہ میں نے کیا کیا۔ میں جسے سہل پسندی سے محبت تھی اور میں جو کبھی سرگرم عمل نہیں ہونا چاہتا تھا، نے خود سے کہا؛ ‘میں اس سب کے لیے ذمہ دار ہوں اور اپنے وطن کو جواب دہ ہوں۔ مجھے اس کے ساتھ جانا چاہیے تاکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس سے ملک کو محفوظ رکھ سکوں۔’ میں نے، چنانچہ، پیس کر رکھ دینے والی معیشت کے تلے برسوں پس اندازکی اپنی قلیل رقم لی اور اس کی رجمنٹ میں ‘کورنٹ’ کی نوکری اختیار کر لی۔ اور۔ اور پھر ہم میدان جنگ میں چلے گئے۔
اور وہاں۔ اوہو ڈئیر، سب بہت ہی بھیانک تھا۔ فاش غلطیاں؟ کیوں، اس نے اور کچھ کیا ہی نہیں بس غلطی پر غلطی کرتا چلا گیا۔ لیکن کوئی بھی ایسا نہ تھا کہ اس بندے کا راز جان سکتا۔ ہر بندہ اسے اور طرح سے دیکھتا رہا اور ہر بار اس کی کارکردگی کا غلط اندازہ لگاتا رہا۔ چنانچہ وہ اس کی احمقانہ غلطیوں کو ذہانت سے جوڑنے لگے۔ اوروہ ایمانداری سے اس بات پر یقین رکھتے تھے! اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی ایک صحیح دماغ والے بندے کو رونے پر مجبور کر سکتی تھیں؛ اور انہوں نے مجھے اکیلے میں رُلایا بھی۔ اور مجھے غصہ بھی آتا اور میں بُڑبُڑاتا بھی رہتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ میں ہر وقت خدشے میں گھِرا رہتا کہ وہ کوئی نئی غلطی نہ کر بیٹھے لیکن اس کی ہر نئی بے وقوفی اس کی ساکھ کی چمک میں اضافہ کر دیتی! میں خود سے یہ کہتا رہتا کہ یہ ترقی تو بہت کرے گا اور جب آخر میں لوگوں کو حقیقت کا پتہ چلے گا تو کچھ ایسا ہو گا جیسے سورج آسمان سے زمین پر آ گرا ہو۔
وہ اپنے بڑے افسروں کی لاشوں کو پھلانگتا، درجہ بہ درجہ اوپراٹھتا گیا، یہاں تک کہ جنگِ کا وہ گرم لمحہ آن پہنچا جب ہمارا کرنل مارا گیا اور میرا کلیجہ منہ کو آ گیا کیونکہ یہ عہدہ اب سکورسبائی کو ہی ملنے والا تھا! تب میں نے خود سے کہا تھا کہ ہم اگلے دس منٹوں میں یقیناً عالم برزخ میں جانے والے تھے۔
جنگ بہت ہی بھیانک انداز میں زوروں پر تھی؛ اتحادی ہر جگہ سے میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ ہماری رجمنٹ ایک اہم جگہ پر مورچے ڈالے ہوئے تھی اور ذرا سی غلطی تباہی کا باعث بن سکتی تھی۔ اس آڑے وقت میں اس ازلی بے وقوف نے کیا کیا، اس نے رجمنٹ کو جگہ چھوڑنے کا حکم دیا اور پاس والی پہاڑی پر مورچے ڈالنے کو کہا، جہاں دشمن تھا ہی نہیں! ‘‘لو ہو گیا کام تمام!’’ میں نے خود کلامی کی، ‘‘آخر انت آن پہنچا۔’’ ہم جیسے ہی اس پہاڑی پر پہنچے اور ہم نے اپنی پاگلانہ پیش قدمی روکی تو ہم نے کیا دیکھا؟ وہاں روسیوں کی ایک بڑی فوج جسے انہوں نے بعد میں استعمال کے لئے محفوظ رکھا ہوا تھا، وہاں موجود تھی! تب کیا ہوا پھر؟ کیا ہماراقلع قمع ہوا؟ ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ سو میں سے ننانوے واقعات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن نہیں وہ روسی اس بحث میں پڑ گئے کہ صرف ایک رجمنٹ یوں دندنداتی ہوئی وہاں نہیں پہنچ سکتی تھی جبکہ جنگ زوروں پر تھی۔ یہ یقیناً پوری برطانوی فوج تھی جسے روسیوں کی عیاری کا پتہ چل گیا تھا اور اس نے انہیں وہیں پابند کر دیا تھا۔ وہ چنانچہ انٹ شنٹ انداز میں الٹے قدموں پلٹے اور بھگڈر میں نیچے میدان میں بھاگنے لگے جبکہ ہم ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ یوں روسیوں نے میدان جنگ میں اپنا مضبوط مرکزخود ہی گنوا دیا؛ ہم نے ایسی بد نظمی اور ابتری پہلے کبھی نہ دیکھی تھی؛ یوں اتحادیوں کی شکست ایک واضح اور شاندار فتح میں بدل گئی! مارشل کین رابرٹ نے یہ سب چکرا دینے والی حیرانی اور توصیف سے دیکھا اور اسی وقت سکورسبائی کو بلوا بھیجا۔ اسے گلے لگایا اور میدان جنگ میں ہی ساری افواج کے سامنے تمغے سے نوازا۔
اور اس وقت سکورسبائی کی احمقانہ حرکت کیا تھی؟ اس نے بس۔۔ بائیں ہاتھ کی بجائے دائیں کو برتا تھا۔۔ اس کے پاس ایک حکم آیا تھا کہ پیچھے ہٹو اور دائیں طرف کی فوج کی مدد کرو؛ جبکہ اس نے پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے حرکت کی اور بائیں طرف پہاڑی پر چلا گیا۔ اور اس دن اس نے ایک زبردست عسکری عاقل کا خطاب پایا تھا اور ساری دنیا اس کی عظمت کی قائل ہو گئی تھی اور جب تک تاریخ کی کتابیں موجود رہیں گی، اس کی یہ عظمت کبھی ماند نہیں پڑے گی۔
وہ ایک اچھا، پیارا، محبتی اور تصنع سے پاک کھرا شخص ہے جتنا کہ کوئی بندہ ہو سکتا ہے، لیکن اسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ جب بارش ہو رہی ہو تو بندے کو چھت تلے آ جانا چاہیے۔ میں نے جو کچھ کہا ہے سب سچ
 ہے۔ وہ اس کائنات کا سب سے بڑا گدھا ہے اور اب سے آدھا گھنٹہ پہلے تک یہ بات سوائے میرے اور اس کے، کسی کو پتہ نہیں تھی۔ ایک بڑی اور حیران کر دینے والی خوش قسمتی ہر دن ہر سال اس کے ساتھ رہی ہے۔ وہ ہماری نسل کی تمام جنگوں میں سب سے تابناک فوجی رہا ہے جس نے اپنی ساری فوجی زندگی میں احمقانہ غلطیوں کے سوا اور کچھ نہیں کیا، اورہمیشہ وہی کیا جس نے اسے ‘نائٹ’، ‘بیرونیٹ’ یا لارڈ یا اسی طرح کا کچھ نہ بنوایا ہو۔ اس کی چھاتی پر غور کریں، اس کی چھاتی ملکی و غیر ملکی تمغوں سے لدی ہوئی ہے۔ تو جناب، ان میں سے ہر ایک تمغہ کسی نہ کسی احمقانہ غلطی کا کھلا اظہار ہے؛ اور سب کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس دُنیا میں بندے کو خوش قسمت پیدا ہونا چاہیے۔ میں پھر کہتا ہوں، جیسا کہ میں نے ضیافت میں بھی کہا تھا کہ سکورسبائی نرا گاؤدی ہی نہیں پرلے درجے کا احمق بھی ہے۔’’