کیا تم مجھے لوّ لیٹر لکھو گے؟

مصنف : الطاف گوہر

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : جولائی 2024

افسانہ

کیا تم مجھے لوّ لیٹر لکھو گے؟

 محمد الطاف گوہر

چودھویں کا چاند جب پوری آب و تاب سے دمک رہا ہوتا ہے تو چاندنی کے حسن میں کھو جانی والی سمندر کی لہریں اپنا اظہار محبت کرتی ہیں، جبکہ پانی اپنی خاموشی اور سکوت کو توڑ کر بلندیوں پر پیار کی پینگیں ڈالتا ہے ، اس کشمکش کے نتیجہ میں سمندر ایک طوفان سے دوچار ہوتا ہے جسے ہم مدوجزر کے نام سے جانتے ہیں۔ بظاہر تو یہ طوفان جان لیوا لگتا ہے مگر اس کا محرک صرف ایک پیار ہوتا ہے جو سمندر کا پانی چاند کے لازوال حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنا اظہار کرتا ہے ، اسی کے باعث سمندر اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتا ہے مگر یہ تو ممکن نہیں کہ جوار بھاٹا کی تند تیز مگر آسمانوں سے باتیں کرتی لہریں چاند کی بلندی کو چھو لیں البتہ اپنی اس تندی میں اور مدوجزر کی کیفیت میں سمندر کی گہرائی میں پڑے بیش قیمت موتی، گوہر اور لعل اپنے کناروں  كی نظر کر جاتی ہیں، جو کہ انسانیت کیلئے ایک عظیم تحفہ ثابت ہوتے ہیں۔

آج جب چاند پھر جوبن پر ہے مگر اچانک ایک پتھر میر ی سوچوں کی ونڈ سکرین سے ٹکرایا اور ذہن کے ایک مقفل کونے کے پٹ کھولتا ہوا ماضی کے آنگن پہ جا رکا۔ اس چکناچور کردینے والی کیفیت کا طوفان ابھی تھما نہیں تھا کہ وہ لمحات جو اس کونے میں مدفن تھے اچانک اپنی پوری آب وتاب سے درخشاں ہوگئے۔ کیا آپ کے پاس نوکیا کا چارجر ہے ؟ میں نے سر اٹھا کر دیکھا توایک لڑکی پنے ہاتھ میں نوکیا کا موبائل پکڑے کھڑی سوالیہ انداز میں مجھے دیکھ رہی تھے۔ جبکہ اسکے برابر میں دوسری لڑکی ہماری طرف متوجہ کسی مثبت جواب کے انتظار میں تھی مگر میں تو نوکیا استعمال نہیں کرتا ، میرے پاس تو ہمیشہ سے سام سنگ کا موبائل رہا ہے اور اسکا چارجر بھی اس وقت میرے پاس نہیں ، میں نے انکار کرتے ہوئے اپنی توجہ پھر اخبار پڑھنے کی طرف مبذول کردی۔ کلینک کے لان میں کافی لوگ بیٹھے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے جبکہ میرے ساتھ آنے والا مریض بھی اونگھ رہا تھا اور میں اپنا وقت اخبار پڑہنے پر صرف کر رہا تھا ۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ پھر وہی دونوں لڑکیاں میرے پاس آئیں ۔ ان میں سے ایک نے موبائل فون اور اس کا چارجر بھی پکڑا ہواتھا اور بولی ، آپ پلیز اس سیٹ کو کسی پاور پلگ سے لگا دیں تاکہ ہمارا فون قابل استعمال ہو سکے ۔ اب مجھے انکار کرنے کی کوئی وجہ نظر نہ آئی اور اس کو قریب ہی سوئچ بورڈ کے پلگ پر چارجنگ کیلئے لگا دیا ۔ قریب ہی ایک نشست خالی تھی تو ان میں سے ایک محترمہ اس پر براجمان ہوگیں جبکہ دوسری اس نشست کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گیں۔ کیاآپ سٹوڈنٹ ہیں ؟ سیٹ پر بیٹھی ہوئی محترمہ نے سوال کیا ۔ مجھے کچھ اندازہ ہوا کہ یہ خوامخواہ بات چیت کرنے کیلئے بہانے بنا رہی ہیں، بہرحال اب وقت کا مزاج تو یہی کہہ رہا تھا کہ چلو بوریت سے تو خلاصی ہوئی ۔ جی نہیں ! میں سٹوڈنٹ نہیں

ہوں بلکہ بزنس کرتا ہوں ، میں نے جواب دیا ۔ ان میں سے جو نشست کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہوئی تھی نے  بتایا کہ اس کا نام سیمہ ہے اور جو نشست پر براجمان ہے اسے شازیہ کہتے ہیں۔ سیمہ جو بظاہر چھبیس ستائیس برس کی لگ رہی تھی وہ رشتے میں شازیہ کی خالہ لگتی ہے جبکہ شازیہ تقریباً بائیس تئیس برس کی ہونگی اور یہ لوگ ڈیفنس سے آئے ہوئے تھے۔یہاں یہ لوگ بھی اپنی باری کے انتظار  میں بیٹھے تھے ۔ میں سمجھا کہ شازیہ اپنی خالہ کے ساتھ آئی ہونگی مگر پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شازیہ بیمار ہے اس کو دکھانے کیلئے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ معصوم و دلکش چہرہ والی لڑکی کس بیماری میں مبتلا ہے؟ بظاہر دیکھنے میں اس خوبصورت سی لڑکی میں کوئی بیماری نظر نہیں آرہی تھی سوائے اس کے کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں جیسے کوئی کافی رو کر آیا ہو۔شازیہ کی خالہ نے بتایا ہم لوگ دونوں کافی دیرسے سامنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے مگر جب شازیہ کی نظر آپ پر پڑی تو یہ فوراً یہاں چلی آئی اور مجھے بھی اس کے پیچھے آنا پڑا ، یہ بہت دنوں سے خاموش ہے زیادہ بات بھی نہیں کرتی یا پھر بہت لڑتی ہے ۔ مگر یہاں تو بہت تحمل سے مسکراتے ہوئے دھیمی آواز میں گفتگو کر رہی تھی۔ البتہ یہ عین ممکن تھا کہ یہ مسکراہٹ عارضی ہو؟ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے ، اسے کیا ہوا ہے ، تو اس کی خالہ نے بتایا اسے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ، خاموش اور گم سم رہتی ہے یا پھرکسی معمو لی بات پر بہت زیادہ جھگڑا کرتی ہے ۔ اس روز شازیہ سے زیادہ باتیں تو نہ ہوسکیں مگر مجھے اس سے ہمدردی ہوگئی اور تجسس بھی لہذا دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے میں چلا آیا۔ چند روز کے بعد دوبارہ اسی کلینک پر جانے کا اتفاق ہوا، ابھی بیٹھے کچھ ہی وقت گزرا تو دیکھا شازیہ کی خالہ میری طرف آئیں اور بتایا کہ شازیہ کی بیماری کی کوئی سمجھ نہیں آرہی ، اور وہ اس پرائیویٹ کلینک میں ایڈمٹ ہے ۔ آپ کو بہت یاد کرتی ہے ، آپ دیکھیں وہ سیڑھیوں سے جھانک کر دیکھ رہی ہے ۔ کیا آپ ہمارے کمرے میں آسکتے ہیں؟ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ شازیہ بھی اپنے کمرے سے ویٹنگ روم میں آگئی، آج واقعی اسکی طبعیت صحیح نہیں لگ رہی تھی۔ آئیں ہم سامنے لان میں چلیں ؟ وہاں چل کر بیٹھتے ہیں ۔ آتے ہی اس نے پوچھا ۔ مجھ سے کوئی جواب بن نہ پایا اور اس کے ساتھ باہر لان میں ہری ہری گھاس پر پڑی ایک کرسی براجمان ہو گیا جبکہ شازیہ دوسری کرسی پر بیٹھ گئی ۔ شازیہ کی خالہ واپس اپنے کمرے میں یہ کہتے چلی گئی کہ میں چائے لیکر آتی ہوں ۔ آج یہ خوبصورت سا پھول جیسا چہر ہ کملایا ہوا لگ رہا تھا۔ شازیہ کے ریشمی بكھرے ہوئے بال جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ آج طبعیت اداس ہے! میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے ، آپکو کیا بیماری ہے ؟ تو جواب میں بہت گہری نظروں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگی ’ کیا تمہیں کسی نے کبھی لو لیٹر لکھا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں مجھے متعدد بار اس طرح کے لیٹر موصول ہوچکے ہیں ، تو وہ جواب میں بہت حیرانگی کا اظہار کرنے لگی ، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آگئی اور بولی ، کیا تم مجھے لو لیٹر لکھو گے؟ میں حیران و پریشان ہوگیا اور اس شش و پنج میں مبتلا ہوگیا  کہ اسے کیا جواب دوں؟ شازیہ نے دوبارہ اپنا سوال دھرایا تو میں نے اس کی عجیب بات اور حالت کو دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ، ہاں میں تمھیں لو لیٹر لکھوں گا حالانکہ میں نے کبھی بھی کسی کو لو لیٹر نہیں لکھا!! کیا تم واقعی مجھے لو لیٹر لکھو گے ؟ اس نے بڑے جوش اور خوشی کے اندازمیں پوچھا تو میں نے کہا ہاں ضرور ۔ تو اس بات پر وہ خوشی سے چلانے والی کیفیت میں بات کرنے لگی ۔ میں نے پوچھا مگر تم اتنا اصرار کیوں کر رہی ہو تو وہ اچانک سنجیدہ ہوگئی۔ پھر کچھ لمحات کیلئے خاموشی چھا گئی اور اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی مجھے آج تک کسی نے پیار نہیں کیا ، مجھے کسی نے لو لیٹر نہیں لکھا ۔ مگر شازیہ تم میں کوئی کمی والی بات نہیں ، خوبصورت ہو ، جوان ہو ۔ پھر بھی ایسا کیوں سوچتی ہو؟ شازیہ بولی میں نے جس سے پیار کیا اس نے مجھے پوچھا تک نہیں ، میرا چچا کا بیٹا میری چاہت ہے مگر جب وہ ہمارے گھر آئے تو انہوں نے میری چھوٹی بہن کا رشتہ مانگا۔ حالانکہ اس کزن سے میرے رشتے کی بات ہو چکی تھی ۔ میں تو اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ بنا چکی تھی ۔ پھر کیا ہو ا ، کیا تمہارے ماں باپ مان گئے ؟ میں نے پوچھا تو وہ چلا کر بولی ہاں  انہوں نے میری خوابوں کے شیش محل کو چکنا چور کردیا ، میری چھوٹی بہن کا رشتہ اس سے طے کر دیا ۔ میرے جیسی مشرقی لڑکیاں اپنے من میں جسے ایک بار بسا کر خوابوں کے جو محلات تعمیر کرتی ہیں کیا وہ ان میں کسی دوسرے کو گھسنے کی اجازت دے سکتی ہیں؟ ۔ شازیہ قریباً چلا رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ بے چاری کس کرب سے گزر رہی ہوگی؟ چند لمحات کے اس مدوجزر نے نہ جانے کتنے نادر جوہرات کناروں کی نظر کر دئے تھے۔اچانک بولی ، کیا واقعی لو گ پیار کرتے ہیں؟ کیا ہر ایک کو اس کا پیار مل جاتا ہے ؟ ۔والدین کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھی ہوئی یہ لڑکی نہ جانے کتنے سوالات کر رہی تھی اور میں خلا میں گھورتے ہوئے صرف اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔ زبان جیسے گنگ سی ہوگئی ۔ اور ابھی خاموشی کا ماحول برقرار تھا کہ شازیہ کی خالہ آگیں۔ فضا جیسے کسی ماتم میں سوگوار محسوس ہورہی تھی۔ سب لوگ چائے پینے لگے اور اس بے قرار کردینے والی خاموش نشست کا اختتام ہوا۔۔

ایک روزشازیہ کی خالہ کا فون آیا ، ۔۔۔ آواز بھرائی ہوئی تھی ، شازیہ کی موت کی اطلاع تھی۔ منزل کی راہ میں چوکڑیاں بھرتی ہرنی کسی صیاد کے تیر کا شکار ہوگئ۔ ایک معصوم کلی کھلنے سے پہلے مرجھاگئی ۔ چاندنی کے حسن میں کھوئی ہوئی سمندر کی لہریں کناروں سے سر ٹکراکر پاش پاش ہومگر یہ پتھر ازلوں سے بے ثباتی اور بے حسی کا مظہر بنے رہے ۔

اے چاند ڈوب جا کہ طبيعت اداس ہے-