ہسپتال کی ملازمت اور اسلام

مصنف : محمد احمد

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : دسمبر 2019

میری جائے پیدائش ضلع سانگھڑ (پاکستان) ہے جہاں میں نے آنکھ کھولی۔شعور کی منزلیں طے ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ہم ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں مندر جانا،ہولی اور دیوالی منانا،یہ سارے کام بچپن ہی سے اپنا لئے،ہم پانچ بھائی تھے اور میں اپنے بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ گھر پر سب سے زیادہ مذہبی میں ہی تھا، ہمارے یہاں گاؤں میں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی آباد تھے، میں ایک متشدد ہندو تھا اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ میں گوشت نہیں کھاتا تھا اور ہر اس چیز سے نفرت میری گھٹی میں شامل ہو گئی جو مسلمانوں کو مرغوب تھی۔ میں باقاعدہ اپنے ہندو دوست اکٹھے کرتا اور ہفتہ میں ہم دو بار خوب اہتمام سے مندر جایا کرتے۔ اسی دوران میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سانگھڑ سے میٹرک کر لیا۔ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کئے تو حیدر آباد کے ایک کالج میں داخلہ مل گیا،یوں کامیابی کا سفر جاری رہا۔آخر میں نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کر لی۔ پڑھائی کے مزید پانچ سال مکمل کر کے میں جام شور و میں ہاؤس جاب کرنے لگا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میں نے گاؤں میں کلینک کھولنے کا فیصلہ کر لیا،بھائیوں نے جگہ بھی خریدی لیکن اس دوران ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔میرا ایک دوست ایک دن میرے پاس آیا اور کہا کہ کراچی میں امراض قلب کے ہسپتال میں ملازمتیں موجود ہیں، تم بھی ساتھ چل کر قسمت آزماؤ،لیکن کراچی کے نام سے مجھے خوف آتا تھا،سن رکھا تھا کہ وہاں ہندوؤں کو مار دیتے ہیں۔ میرے خوف کا یہ عالم تھا کہ جب بھی دوستوں نے کراچی گھومنے کا منصوبہ بنایا میں نے صاف انکار کر دیا، مجھ پر اس قدر ہیبت غالب تھی کہ میں کراچی کبھی نہیں گیا، خیر اس بار دوستوں کا اصرار اتنا بڑھا کہ میں انکار نہ کر سکا اور کراچی پہونچ گیا۔کراچی آنا دراصل میری آنکھوں سے کفر کی پٹی اتار نے کی پہلی کڑی تھی۔یہاں دوستوں نے میرا فارم بھی بھر کر جمع کر ا دیا۔ میں نے احتجاج کیا کہ میں گاؤں میں کلینک کھولنا چاہتا ہوں، لیکن انہوں نے میری ایک نہ مانی۔ اللہ کی قدرت مجھے اندھیروں سے روشنی کی جانب لے جا رہی تھی۔ میں اس سے بچنے کی کوشش کرتا رہا مگر کہتے ہیں نا کہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ درخواست جمع کروانے والوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ ایک مہینے کے بعد ہم سب کا انٹرویو پروفیسر اسد اللہ کنڈی نے لیاڈاکٹر اسد اللہ دین دار آدمی تھے،پینتیس امیدوار چنے گئے،جن میں میں بھی شامل تھا پروفیسر صاحب نے میری تعلیمی کار کردگی کو سراہا اور کہا کہ اسپتال میں چلے آئیے۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں میں کلینک کھولنا چاہتا ہوں، لہٰذا آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کہاں رہوں گا یہ تو دوستوں نے فارم زبردستی جمع کرا دیا ورنہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔پروفیسر صاحب نے کہا آپ ہماری پیشکش ذہن میں رکھئے گا،آپ کے پاس وقت ہے، میں بالکل نہیں جانتا کہ مہلت دینے میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت تھی؟بہر حال میں واپس جا کر ہاؤس جاب کرنے لگا۔کچھ عرصے بعد پروفیسر اسد اللہ کنڈی کا فون آیا،انہوں نے پوچھا کہ آپ آ رہے ہیں یا نہیں؟میں نے جواب دیا ‘‘سر فی الحال میرے لئے ممکن نہیں ہے’’ اس طرح بات ٹل گئی،انہوں نے پھر فون کیا لیکن میں راضی نہ ہوا،جب میری ہاؤس جاب کا گیارہواں مہینہ چل رہا تھا تو میں کراچی گیا اور پروفیسر صاحب سے تفصیلی نشست ہوئی انہوں نے فیصلہ کن انداز میں پوچھا آپ کو آنا ہے یا نہیں؟اگر نہیں آ سکتے تو ہم یہ جگہ کسی اور کو دے دیں گے،میں انکار کر کے ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ اللہ کی شان دیکھئے، وہیں میرے گاؤں کا ایک دوست مل گیا،اس نے مجھے دیکھ کر بڑی حیرت سے پوچھا :یہاں کیا کر رہے ہو؟میں نے بتایا کہ یہاں ملازمت مل رہی ہے،لیکن رہائش کا مسئلہ ہے، دوست بولا رہائش میں دوں گا،تم میرے ساتھ ہی رہو،اب میں نے پیش کش ٹھکرانا مناسب نہیں سمجھا اور ہسپتال میں ملازمت کر لی۔ بھائیوں کو یہ کہہ کر قائل کیا کہ میرے ماہر امراض قلب بننے سے گاؤں والوں کو سہولت ہو جائے گی، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ دوسروں کے دلوں پر تجربات کرنے والے کے دل پر بھی ایک اللہ کی توحید اثر کرنے والی ہے اب میری زندگی میں انقلاب آنا شروع ہوا۔ ہسپتال میں کام کرنا دراصل مجھے اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا بہانہ تھا۔ ایمر جنسی وارڈ میں چوبیس گھنٹے کے دوران دو تین اموات ہونا معمول تھا۔ ایک دن جب پہلی مرتبہ میری ڈیوٹی ایمر جنسی وارڈ میں لگی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مریض کی طبیعت اچانک بگڑ گئی،ہم اس کا علاج کرنے لگے، مریض کے عزیز و اقارب بہ آواز بلند قرآن مجید کی تلاوت اور درود کا ورد کر رہے تھے، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، لیکن یہ بات میرے دل و دماغ میں نقش ہو گئی۔ دوسرے دن پھر ایمر جنسی وارڈ میں میری ڈیوٹی لگی،اب جیسے ہی کسی مریض کی طبیعت خراب ہوتی،میں علاج کرنے کے ساتھ ساتھ عزیز و اقارب سے کہتا بلند آواز میں قرآن پڑھو۔یوں آہستہ آہستہ اسلامی باتیں میرے دماغ میں اس طرح آتی گئیں کہ مجھے خود معلوم نہیں ہوا کہ میں کس راستے پر چل رہا ہوں، میں اَن جانے میں فطرت کے قریب ہو رہا تھا۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ صرف اپنے علم اور لکھنے پڑھنے سے مسلمان ہو جائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، جب تک کافر پر اللہ کی خاص رحمت نازل نہ ہو،یہ نعمتِ عظمی اسے نہیں مل سکتی مسلمان ہو جانا ہر ایک کی قسمت میں کہاں؟بہر حال مریض کے عزیز و اقارب مجھ سے مل کر بہت حیران ہوتے جب انہیں پتہ چلتا کہ میں ہندو ہوں۔ ہسپتال میں میرے کمرے کے باہر ڈاکٹر گوتم داس کی تختی لگی تھی،جب وہ اپنے مریض کی خیریت دریافت کرتے تو میں کہتا انشاء اللہ، اللہ بہت جلد شفا عطا فرمائیں گے،تم قرآن پڑھو اور مریض کے لئے دعا کرو،اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کر دے گا۔ مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اب میں دوران گفتگو اللہ کا نام بار بار لیتا ہوں، ایک دن میری ملاقات گلستان جو ہر کے ایک خاندان سے ہوئی جن کی ایک ادھیڑ عمر خاتون بیمار تھیں۔ میں نے فرائض نبھائے اور خوب اچھی طرح ان کی دیکھ بھال کی، مریض کے ساتھ شفقت دیکھ کر انہوں نے کچھ عرصہ بعد مجھے گھر آنے کی دعوت دی اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا،جب اس گھر میں آنا جانا شروع ہوا تو دیکھا کہ جیسے ہی نماز کا وقت ہوا گھر کی مالک سارے کام چھوڑ چھاڑ نماز پڑھنے لگتی ہیں یہ بات مجھے عجیب لگی،اس گھر میں چند بچیاں تھیں، جنہیں ایک عالمہ پڑھانے آتی تھی، ایک دن میں نے یوں ہی قرآن کی طرف اشارہ کر کے پوچھ لیا،یہ کیا ہے؟ وہ ادھیڑ عمر خاتون بولیں:یہ قرآن مجید ہے،میں نے پکڑ نے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو قرآن پیچھے کرتے ہوئے کہنے لگیں، جب تک وضو نہ ہو اسے ہاتھ نہیں لگا تے ۔میں حیران ہو کر بولا:کیا یہ اتنی اہم چیز ہے؟اسے پڑھتے کس طرح ہیں؟جواب ملا: اسے دیکھ کر پڑھا جاتا ہے اور لوگ اسے حفظ بھی کر لیتے ہیں، کیا یہ پوری کتاب حفظ ہو جاتی ہے؟یہ کہہ کر میں حیرت کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب گیا۔پڑھنا تو نہیں جانتا تھا،مگر قرآنی الفاظ ایسے تھے کہ انہیں ٹکر ٹکر دیکھنے لگا،بہر حال اس روز قرآن دیکھ کر میرے اندر ہل چل پیدا ہو گئی مسلمان دوستوں نے ایک دن میری دعوت کی، جس میں بڑا گوشت بھی شامل تھا انہوں نے کہا ‘‘بڑا گوشت تو آپ نہیں کھاتے؟’’مگر میں نے انہیں دو ٹوک کہہ دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔
میرے دوستوں کے پر خلوص رویہ نے در اصل میری ساری شدت پسندی زائل کر دی تھی۔ چند دنوں بعد میرے دوستوں نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس سے میں لا علم تھا،جب میں وہاں پہونچا تو انہوں نے بتایا تم مسلمان ہو گئے ہو، بڑا گوشت کھاتے ہو اور اسلام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہویہ کہہ کر انہوں نے مجھے ایک قرآن پاک تحفہ میں دے دیا،میں نے یہ شان دار تحفہ قبول کر لیا۔دوستوں کی بات صحیح تھی میں اندر سے مسلمان ہو چکا تھا، لیکن ابھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس امر کا اعلان کر دیتا۔یہ تھا بھی بڑا مشکل کام،مجھے اندازہ تھا کہ اپنا مذہب چھوڑ کر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی کشش مجھے کھینچتی لے جا رہی تھی ، پہلے میں باقاعدگی سے مندر جایا کرتا تھا، لیکن اب میں گاؤں جاتا تو مندر جانا ترک کر دیا۔ والدین یا رشتہ داروں نے یہ بات محسوس کر لی، ماں کبھی پوچھتی تو میں موضوع بدل دیتا یا بات ٹال جاتا۔در اصل مجھے ان بتوں سے نفرت ہو گئی تھی، کچھ عرصہ بعد تو یہ کیفیت ہو گئی کہ گاؤں میں ایک دن ٹھہرنا بھی محال ہو گیا۔ جی چاہتا صبح ہو تے ہی بھاگ جاؤں، اب گھر والوں کے شک کو آہستہ آہستہ تقویت ملتی گئی در اصل میں نے ہولی اور دیوالی بھی منانی چھوڑ دی تھی مزید دو برس کے اندر میں اسلام کی جانب چلا گیا صبح کے وقت پیس چینل پر ڈاکٹر ذاکر نائک کا مدلل پروگرام دیکھتا،ڈاکٹر ذاکر اسلام کے حوالے سے ہندوؤں کے شکوک و شبہات دور کرتے تھے،انہوں نے میری زندگی کے بھی کئی مسائل حل کئے اور مجھے اسلام کے مزید قریب کر دیا، ہندو مت اور اسلام پر ان کی دلائل سے بھر پور گفتگو مجھے اپنی جانب کھینچتی چلی گئی۔اس طرح اسلام پسندی میرے رگ و پے میں سرائت کر گئی گاؤں والوں کو جب اس بات کا پتہ چلا تو ایک دن انہوں نے مجھے بہانے سے گاؤں بلوا لیا،وہاں مجھے بطور سزا کے ایک کوٹھڑی کے اندر بند کر دیا گیا،پھر ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ میں دو بارہ ہندو ہو جاؤں اس دوران و تشدد کے حر بے بھی آزمائے گئے،وہ دن میرے لئے سخت آزمائش کے تھے،میں وہاں سے کیسے نکلایہ علاحدہ داستان ہے۔ مختصراً میں کسی نہ کسی طریقہ سے بھاگ کر کراچی پہونچ گیا اب میرے لئے میدان کھلا تھا، میں اسلام میں پورا داخل ہونا چاہتا تھا۔ چند لوگوں نے کہا کہ بیوی بچوں کی طرف لوٹ جاؤ، مگر اسلام چھوڑ نا میرے لئے موت کے برابر بن گیا تھا۔ ایک دن کراچی کے معروف دینی ادارے میں ایک مفتی صاحب کے ہاتھوں میں نے اسلام قبول کیا۔
وہ میری زندگی کے ناقابل فراموش لمحات تھے،الفاظ انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں مفتی صاحب نے پوچھا:آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ آپ اپنا ہاتھ کھولئے، انہوں نے ہاتھ کھولا، میں نے کہا اگر اس میں روئی رکھ دی جائے تو کتنا وزن ہو گا؟جواب ملا نہ ہونے کے برابر۔مفتی صاحب! ایسی ہی کیفیت میری ہے، میں خود کو روئی سے بھی ہلکا محسوس کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت تھی، مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرے جسم سے تمام بوجھ ہٹ گئے ہوں۔اب مجھے نئے سرے سے زندگی ملی ہو،دوسرے دن میں نے گاؤں فون کر کے گھر والوں کو خوشخبری سنائی ۔ان کا رد عمل بڑا سخت تھا،مگر اسلام جیسا سچا دین پا کر مجھے اب کسی کی پرواہ نہ تھی میں نے بھائیوں اور بیوی بچوں اور ماں کو چھوڑ کر خود کو اسلام کے آغوش میں دے دیا تھا۔ اس کے بعد جب قرآن سمجھ کر پڑھنے لگا تو زندگی گزار نے کے راز منکشف ہونا شروع ہوئے،آج میں ماضی پر نظر ڈالوں تو حیرانی ہوتی ہے، ہم بھی کتنے بیوقوف تھے کہ ہم مٹی سے بنے بتوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ دس منٹ
 ایک کے سامنے،اور بیس منٹ دوسرے کے سامنے اور ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرتے۔ تعصب کی عینک پہننے کے باعث ہماری عقل بھی سلب ہو گئی تھی، مگر اللہ نے مجھے دکھا دیا کہ جو ہدایت پانے کا فیصلہ کر لے وہ اسے مایوس نہیں کرتا۔
یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم سے مجھے محمد ﷺ کی پیاری امت میں شامل فرما دیا۔اب میں اللہ کے رسول ﷺ کے حالات زندگی پڑھتا ہوں تو ایمان کی حلاوت میں مزید اضافہ ہوتا ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ زندگی گزارنے کے تمام طریقے قرآن اور حدیث میں چھوڑ گئے ہیں، ان پر عمل کرنے میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
آج میں مسلمان نسل کو کفار کے نقش قدم پر اور کیبل،انٹرنیٹ کے منفی استعمال کا دلدادہ دیکھتا ہوں، تو بڑا دکھ ہوتا ہے،مسلمانوں سے میری یہی درخواست ہے کہ خدا را اسلام کو وراثت میں ملی شے سمجھ کر اس کی ناقدری نہ کرو، اپنے اعمال و اخلاق اسلام کے سانچے میں ڈھال لو، یہ اسلام اگر قرآن و حدیث کے ذریعے محفوظ نہ ہوتا تو آج تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ٹھیک ٹھیک طریقہ سے اسلام کے اصولوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین (ماخوذ از ماہنامہ ارمغان پھلت جنوری ۱۱۰۲ء)
٭٭٭