حجاج بن یوسف کے سیاہ کارناموں کا خلاصہ دیکھتے ہیں:
۱۔حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسی جلیل القدرشخصیت کا قتل
۲۔جنگوں کے علاوہ حالتِ امن میں بھی ہزاروں انسانوں کا قتل
۳۔مدینہ میں بڑے بڑے صحابہ کے ہاتھوں پر سیسے کی مہریں لگانا
۴۔بڑے بڑے اکابرو ابرار مثلاً سیدنا سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کا بہیمانہ قتل
اس کا اصول تھا کہ حکومتیں قہر اور ظالمانہ سزاؤں سے چلا کرتی ہیں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر صلحا اسے اللہ کا عذاب قرار دیا کرتے۔
موت سے پہلے کیسے عبرت کا نشان بنا۔
بیس سال کی ظالمانہ حکومت کے بعد محض 54 سال کی عمر میں سخت بیمار ہوگیا۔ایسی سردی لگا کرتی کہ بہت سی انگیٹھیاں بھی جسم کے پاس رکھنے سے سردی ختم نہ ہوا کرتی۔معدے میں ڈوری نگلوائی گئی، اُس زمانے کی اینڈوسکوپی Endoscopy کہہ لیجیے، جب ڈوری واپس کھینچی گئی اور کیڑوں سے بھری پڑی تھی۔خون کی ندیاں بہا دینے والے شخص، مخلوق حاکم کی خوشنودی کے لیے خالق کی سخت نافرمانی کرنے والا شخص، ساری امتِ مسلمہ کے نزدیک اللہ پاک کے عذاب کا شکار ہوچکا تھا، اُس کی چیرہ دستیوں کا وبال اُس کے سر پر آموجود ہوا تھا۔اس حالت میں حجاج کا ردِ عمل کیا تھا؟وہ اسے خود بھی عذاب کہا کرتا اور روح جلد قبض ہونے کی دعا کیا کرتا، اپنے گناہوں کو آسمان اور زمین کے برابر بھاری قرار دیا کرتا۔ اللہ سے معافی اور رعایت کی طلب کیا کرتا۔جب ہر طرف سے مایوس ہوچلا، ابومنذر نے جب اس کے مظالم گنوائے تو مبہوت ہوگیا۔دیر تک سناٹے میں رہا، ٹھنڈی سانس لی، آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر کہا: الٰہی! مجھے بخش دے، کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ تُو مجھے نہیں بخشے گا۔
موت کے بعد حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تک یہ قول پہنچا تو متعجب ہوئے، دوبارہ تصدیق کی تو فرمایا: شاید! یعنی اب شاید بخشش ہوجائے۔
تین نکات حجاج بن یوسف کے سوانحی خاکے میں سامنے آئے:
ایک، بیس سال بدترین مظالم
دو، انتہائی سخت بیماری کی صورت میں عذاب کا شکار جسے خود بھی عذاب قرار دیا کرتا۔
تین، اپنے گناہوں کو تسلیم کرنا اور اللہ سے بخشش، رعایت اور معافی طلب کرتے رہنا حتٰی کہ موت آگئی۔
اب یہ تین نکات ذہن میں رکھیے:
آجکل جب ماضی قریب کے ایسے مطلق العنان حکمران کے مظالم کی بات کی جاتی ہے اور رب تعالٰی کی طرف سے اُس قوت کے سلب ہوجانے کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس پر وہ فخر کیا کرتا تھا، مکے لہرایا کرتا تھا اور اس لا علاج بیماری Amyloidosis کو (جس میں جسم میں اپنے خلاف بغاوت شروع ہوجایا کرتی ہے، جسم کے تمام اندرونی اور بیرونی اعضاء کی شکل مسخ ہونا شروع ہوجایا کرتی ہے) وبال اور عذاب قرار دیا جاتا ہے تو بہت سے حامیوں کے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں کہ اسی سالہ بوڑھا ایسے ہی ہوا کرتا ہے، وبال یا عذاب نہ قرار دیا جائے، اتنی low mentality کی باتیں نہ کی جائیں۔ہر اسی سالہ بوڑھے کی کیا یہ ہسٹری ہوا کرتی ہے؟
حجاج بن یوسف سے پہلے دو نکات کی مماثلت دیکھی لیکن تیسری مماثلت عنقا ہے بلکہ اپنے سیاہ کارناموں کو سنہری کارنامے قرار دیا جاتا ہے۔
اب ایسے حامی درحقیقت مخلص ہوئے یا بدترین مخالف جو ایسی تھپکیاں دے کر معافی تلافی کا دروازہ مستقل بند کرنا چاہتے ہیں۔
حجاج بن یوسف تو تیسرے نکتے کی بدولت وقت کے صالح کو ''شاید'' کہنے پر مجبور کرگیا لیکن یہ شدید بیمار اور کمزور 80 سالہ بوڑھا جو درحقیقت 76 سالہ بوڑھا ہے، ایسا کرنے پر مائل نظر نہیں آتا اور نہ ہی اُس کے بظاہر حامی ایسا چاہتے ہیں۔
بیماری اگر گناہوں کی وجہ سے آئے تو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ توبہ کرلی جائے۔لیکن پوری زندگی کروفر اور تکبر کے ساتھ گزارنے والا یہ نکتہ سمجھ نہیں پاتا یا سمجھنا نہیں چاہتا اور اس کے اردگرد والے بھی یہی چاہتے ہیں۔