۲۰۱۷ کے حج اور ۲۰۱۹ کے عمرے کے دوران میں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ حرمین شریفین کے مجاوروں اور منتظمین کے ہاں ایک بہت بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے اگرچہ اس تبدیلی کا اعلان اور اعتراف تو نہیں کیا گیا لیکن عملاً یہ حرمین شریفین کی حددد میں ہر جگہ نافذالعمل ہے اور وہ تبدیلی ہے تصویر اور فوٹوگرافی کی اجازت۔ ۱۹۹۴ میں پہلی بار حرمین شریفین جانے کی سعادت نصیب ہوئی تھی اور اس کے بعدکم وبیش ۲۰۱۰ تک یہ حالت رہی کہ وہاں کیمرہ لے جانے اور تصویر بنانے کی سخت ممانعت تھی۔ حرم میں داخلے کے وقت سیکورٹی اہل کار اس بات کا خاص اہتمام کرتے کہ کسی کے پاس کیمرہ نہ ہوبلکہ بعض اوقات تواگر کسی زائر کے پاس کیمرہ پایا جاتا تو اتنی سی بات پہ اس کی سخت بے عزتی کی جاتی۔اور یہ صورت حال بیت اللہ اور مسجد نبوی تک ہی محدود نہ تھی بلکہ منی ، مزدلفہ ، عرفات ، مسجد قبا ، مسجد قبلتین اور دیگر زیارات کے پاس بھی ‘‘اللہ کے سپاہی ’’ ایسی ہی ہدایات دیتے پائے جاتے ۔لیکن حالیہ دو اسفار کے دوران میں خوشگوار حیرت ہوئی کہ اب تو عین حالت طواف میں اور روضہ رسول ﷺ پہ صلاۃ و سلام کے وقت بھی ہر تیسرا شخص موبائل سے تصویر اور ویڈیو بناتا پایا گیا لیکن ڈیوٹی پہ مامور اصحاب تقویٰ خاموش پائے گئے ۔ حتی کہ روضہ رسول ﷺ میں قدمین شریفین کی جانب جو اصحاب ڈیوٹی پر مامور ہیں انہیں غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اتنے نازک اور مقدس مقام پر بیٹھے ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے سمارٹ فون کے ساتھ مسلسل مصروف عمل ہیں۔ریاض الجنۃ میں بھی یہی صورت حال پائی گئی۔اس صورت حال میں اس سوال کا پیداہونا قدرتی عمل تھا کہ آیا جن احادیث کی بنا پر مطوع حضرات فوٹو گرافی سے منع کیا کرتے تھے کیا وہ حد درجہ ضعیف ثابت ہو گئی ہیں اور یا کوئی دوسری احادیث مل گئی ہیں جن سے تصویر کی اجازت ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں کے مولویوں کی طرح یہاں کے مولوی حضرات کو بھی آئیں بائیں شائیں کرتے پایا گیا۔مسجد نبوی کے ارد گرد آپ کو اکثرسرخ رومال والے ‘‘ اللہ کے سپاہی ’’ سادہ لوح پاکستانیوں کو سخت قسم کا لیکچر دیتے ہوئے مل جائیں گے ،ان کی خدمت میں بھی عرض کیا گیا کہ حضرت اب تو ہر طرف خود سرکای سر پرستی میں دیو قامت سکرینیں لگ گئی ہیں جن سے ہر وقت مسجد نبوی اور بیت اللہ کے مناظر ٹیلی کاسٹ ہوتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے ذریعے لاکھوں جانداروں کی تصاویر بھی دنیا بھر میں دکھائی جا رہی ہیں یہ سب ، اب کس حدیث کی بنا پر جائز ہو گیا ہے تو وہ بھی اس سوال کو نظرانداز کرکے کسی اور بھولے بھالے انسان کے پیچھے پڑتے دکھائی دیے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں کے علما اپنے سابقہ موقف سے رجوع کا اعلان شایع کرتے اور ان تمام حضرا ت سے معافی طلب کرتے کہ برسہا برس جن کی بے عزتی محض اس لیے کی جاتی رہی کہ ان کے پاس کیمرہ موجود ہے یا انہوں نے تصویر اتارنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتاتے کہ ان سے احادیث کا مدعا و مفہوم سمجھنے میں غلطی ہو ئی ا ور اب نئی سانئسی اور تہذیبی تبدیلی نے انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ از سر نو اپنے دلائل کا جائزہ لیں چنانچہ اس تمام پس منظر میں وہ اپنا نیا موقف بیان کر رہے ہیں لیکن اس کے برعکس خاموشی سے سب کچھ تبدیل کر دیا گیا اور میرے جیسے لوگ حیران و پریشان سرگرداں رہے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ۔
اصل میں تہذیبی اور سانئسی تبدیلی جب ایسے نظریات میں رخنہ ڈالتی ہے جن کو اہل علم دینی سمجھ کر پیش کرتے رہے تھے توان یعنی اہل علم کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ از سر نو ان نظریات کا جائزہ لیں اور اپنی غلطی کو چھپانے اور اس تبدیلی سے آنکھیں چرانے کے بجائے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کا اعلان کریں اور ساتھ ہی اپنی غلطی کو بھی واضح کریں اگر وہ ایسا کریں گے تو دین کے پیروکاروں کا دین سے تعلق عقل و دانش کی بنا پر قائم رہے گانہ کہ آبائی یا نسلی ہونے کی بنا پر ۔دین سے رسمی یا نسلی تعلق رکھنے والے ہر ایسے موقع پر اپنا وزن الحاد کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں جبکہ عقلی تعلق رکھنے والے ہر ایسے موقع پر بھی بغیر کسی جھجک کے دین کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اور دین کے ساتھ علی وجہ البصیرت کھڑے رہنا ہی یقینا محمود و مطلوب ہے نہ کہ آنکھیں بند کر کے کھڑ ے ہونا۔