صبح سات سے لے کر دوپہر دو بجے تک مرغیوں کی طرح دڑبے میں بند، بچے جو صبح سے لے کر شام تک خمیازہ بھگتتے ہیں، اس معاشرے میں پیدا ہونے کا۔
بستہ اس قدر بھاری جیسا کے اس میں اینٹیں بھری ہوئی ہوں۔ علم کے نام پر روایتی ہوم ورک اور ٹیچر کی طرف سے یہ شکوہ کہ والدین کچھ نہیں کرتے، والدین کہتے ہیں سکول کچھ نہیں کرتا۔ صرف ایک سکول انتظامیہ ہے جو اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ بہت کچھ کرتی ہے۔ روز ایک ہی قسم کا کام بورڈ پر لکھنا، بلامقصد پرنٹ آوٹ اور ایسے پراجیکٹ دینا جن کو بچے نہیں کر سکتے۔ ٹیچر سے اس قدر کام لینا کہ وہ پڑھانے کی بجائے صرف مزدوری کرے۔ بچہ سکول جا کر ایک دڑبے میں بند ہوکر گھر واپس آجائے۔ اگر دڑبا نہیں چاہیے، تو پھر ہر مہینہ نوٹوں کی ایک بوری وصول کرنے والا سکول ڈھونڈ لیں۔ وہاں جا کر بھی بچہ فائیو سٹار دڑبے میں بند ہوگا۔
ہر بات کی ذمہ داری سکول اور سکول کے لیے ہر بات کی ذمہ داری والدین۔ بچہ کون ہے کہاں گیا، کیا فرق پڑتا ہے۔ گندی غلیظ کینٹین، لرننگ پرابلم کا شکار بچے، ڈنڈے کے زور سے لائن بنانے والا سسٹم، اے سی والے کمرے میں بیٹھی میڈم، تھانیدار نما کوآرڈینیٹر، شرارت کو جرم، ریسرچ کو وقت کا زیاں سمجھنا، یہ ہے ہم سب کا سکول۔ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں یہ کہنا کہ بچہ بہت شرارتی ہے، آپ ٹائم دیں، زیادہ محنت کی ضرورت ہے، یہ جملے رٹ چکے ہیں۔ میرا تعلق تدریس سے ہے اور بہت پرانا ہے۔ میری ہمدردی صرف بچوں کے ساتھ ہے کیونکہ باقی سب جھوٹ ہے۔
اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ بچے سے مزدوری کروا کے آپ نے کوئی عظیم کام کیا ہے تو پھر اس خیال کو ترک کر دیں۔ کیونکہ دماغ کے استعمال سے زندگی گزرتی ہے، رٹے سے نہیں۔ پیسہ خرچ کرکے اگر بچے کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اس سے آپ صرف لالچ سکھاتے ہیں۔ اگر صرف بچے کا دوست بننے کی کوشش کریں گے تو بد تمیزی کے لیے بھی تیار رہیں۔ اگر سکول سے بھلائی کی امید ہے تو پھر آپ کافی بے وقوف ہیں کیونکہ سکول ایک دکان ہے ڈگری کا سودا خریدیں اور چلتے بنیں۔ ٹیچر کے اندر اتنی ہمت ہی سکول نہیں چھوڑتا کہ وہ کولہو کا بیل بننے کے علاوہ کچھ سوچے یا کرے۔ اگر آپ کو بے لوث ٹیچر مل جائے تو اس کو ہیرا سمجھیں جو کوئلے کی کان میں سے مل گیا۔
ہوم ورک ضرور کروائیں مگر صرف ہوم ورک مت کروائیں۔ بچے کو دینے والی سب سے قیمتی چیز آپ کا وقت ہے۔ بچے لیکچر سے کبھی نہیں سیکھتے بلکہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ اگر آپ آج ان کے ٹیچر کی عزت نہیں کریں گے تو وہ آپ سے چار ہاتھ آگے ہوں گے۔ اگر میاں بیوی کی بحث بچوں کے سامنے ہوگی تو اس اختلاف کا سب سے زیادہ فائدہ بچے اٹھاتے ہیں۔ بچوں کا سب سے بڑا رول ماڈل والدین خود ہیں، کیونکہ وہ ہر اس بات کو جائز سمجھتے ہیں جو والدین کا عمل ہو۔ بچوں سے باتیں کرنا سیکھیے، ان سے اگر آپ بات نہیں کریں گے تو وہ کسی اور کی باتوں میں آجائیں گے ہوم ورک کے علاوہ بھی بہت کچھ ضروری ہے۔ سکول میں فرسٹ آنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ضروری ہے۔
بچوں سے بات کریں روزمرہ کی زندگی پر، ان کا خود پر اعتماد ضروری ہے، کیوں ان کو ڈرنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو رشتوں سے مت ڈرائیں۔ رشتوں کی عزت کرنا سکھائیں، لیکن اس عزت کے لیے ان کی عزت داؤ پر نہ لگے۔ اپنے بچے کو بتائیں کہ معاشرے میں موجود کمزور افرد کی عزت کیوں ضروری ہے۔ خواجہ سرا کو دیکھ کر ہنسنا اور تالیاں بجانا ان کی شدید دل آزاری کا سبب کیوں ہے۔ سوال کرنے کی ہمت دیں، ان کے سوال کا جواب نہ آتا ہو تو کھلے دل سے بتا دیں کہ آپ تحقیق کریں گے۔ کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کیجئے، کھیل ان کو وہ سکھاتا ہے جو کلاس کا دڑبا نہیں سکھاتا۔ ٹیوشن سے زیادہ ضروری ہے سیکھنا۔ آپ کا ساتھ بیٹھ کر پڑھانا سب سے ضروری ہے۔ گھر کے ملازمین کو بچوں کی تربیت کی ذمہ داری مت دیں۔ ان کے دوستوں کے ساتھ ملیں ، ماں باپ کے بعد بچوں کے دوست ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچے کا بھلا سوچیں اس کو صرف خوش کرنے کی کوشش اس کا بھلا نہیں ہے۔
انکار کرنا اور اس پر قائم رہنا اگر اس کا بھلا آپ کی نہ میں ہے تو اس نہ سے مت ڈریں۔
اپنے بچے کی بات پر اور اس کی شکایت پر یقین کریں، دنیا کے ہر انسان سے زیادہ قیمتی یہ بچہ ہے جو کہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہوم ورک کے پیمانے پر اپنے بچے کو مت تولیں۔ اس کے ذہن میں ایک دنیا آباد ہے وہاں جا کر دیکھیں۔ دوستوں سے لڑائی پر پرابلم سولونگ سکھائیں، بچوں کو سوشل ورک کا بتائیں، ایسے اداروں میں ایک آدھ دفعہ ضرور لے کر جائیں۔ ہر انسان مختلف ہے اور ہم سب کی عزت کرتے ہیں سکھائیں۔ سکول سے آپ کا بچہ کتابوں کا بوجھ لاد کر آتا ہے۔ ان کتابوں کا مقصد شعور دینا تھا، گریڈ دینا نہیں۔ آپ شعور دینے پر غور کریں، ذہن کو گریڈ دیں۔ روز کی روٹین تو جانور بھی گزار لیتے ہیں۔ جس ملک میں تعلیم کاروبار ہو اور استاد دیہاڑی دار مزدور، وہاں اپنے بچے کے شعور، آگہی اور وقت کو اپنا جہاد سمجھیں۔ کیونکہ آپ اپنی مدد خود ہی کریں گے۔ صرف ہوم ورک، رٹے، ٹیوشن اور کلاس کے دڑبے کے حوالے اس معصوم کو مت کریں۔
سکول کی دکان میں ریٹ لگتا ہے اور آپ کا بچہ ریٹنگ کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ وہ ادارہ جو بچے کے تحفظ، حقوق اور تخلیقی صلاحیت کو بھی روٹین کے عمل سے آگے نہ دیکھ سکے اور نہ سمجھنا چاہے۔ وہاں سے امید وابستہ مت کریں۔ کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست کی طرح وہاں بھی قبضہ ہے زور آوروں کا۔
٭٭٭