جس دن دستار بندی ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ آج اپنی منزل تک پہنچ گیا، لیکن پتہ نہیں تھا کہ اصل زندگی تو اب شروع ہوئی ہے، آج تک تو ہفتہ وار خرچ مل جایا کرتا تھا اب ہم چونکہ ‘فارغ’ ہوگئے ہیں تو ہر چیز سے فراغت ہوچکی، لہذا حسب رواج ایک عدد مدرسہ میں تدریس شروع کی پہلے ہی سال ، نحو، فقہ،اصول فقہ، میراث تفسیر اور حدیث کے گھنٹے ملے، پوری محنت اور جانفشانی سے مطالعہ کر کے بچوں کو پڑھاتا، دوپہر ایک اسٹیٹ ایجنسی میں شاہ لطیف ٹاؤن میں خواری اور پھر مغرب کے بعد اولی ثانیہ کے طلباء کو صرف اور نحو پڑھانا میرا روزانہ کا معمول تھا۔
ہمارے پرزور مطالبے پر شادی ہوچکی تھی لہٰذا اب ایک عدد بیوی بھی ذمے داریوں میں شامل تھی، جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے زندگی کی گاڑی چل ہی رہی تھی کہ پھر اچانک سے ایک دن جب مدرسہ سے گھر لوٹا تو پتہ چلا کہ اہلیہ اور والدہ محترمہ کے درمیان جنگ عظیم دوئم ہو چکی ہے، ایک میری جنت تو دوسری میرا پیار، جبکہ نئے مہمان کی آمد بھی قریب تھی۔
دونوں کا ایک ہی متفقہ مطالبہ کہ اب انکے ساتھ گزارہ نہیں ہوسکتا، چنانچہ پوٹلی باندھی اور کل متاع چالیس روپے جیب میں لے کر ایک دوست کے کے خالی فلیٹ میں بیگم کو ٹھہرایا۔ مولوی گل فراز کو بلاکر پچاس روپے پکڑے اور سیدھا بنوریہ اپنے کلاس فیلو (قدیم جان) جو آج بھی جامعہ بنوریہ شعبہ غیر ملکی کے استاد ہیں انکے پاس پہونچا، پانچ سو روپیہ ان سے لیا، بیگم کی دوائیں اور کھانا لیکر واپس آیا اور صدق دل سے تہیہ کیا کہ اب صرف دنیا کمانی ہے، اگر اللہ نے توفیق دی تو درس و تدریس کرونگا ورنہ جو پڑھ لیا کافی ہے۔
اسکے بعد کتاب بند کی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جب اِنکم اچھی ہو تو رشتوں میں بھی تناؤ ختم ہوجاتا ہے اور ایسا ہی ہوا واپس سب ہنسی خوشی رہنے لگے لیکن میں اب بہت آگے نکل چکا تھا، اسی روپے دہاڑی پر بھی مزدوری کی اور ایک وقت میں اسی ہزار درہم بھی کمائے۔
اسکے بعد کینسر جیسی بیماری سے بھی لڑا اور الحمدللہ آج پہلے سے زیادہ فٹ ہوں، جہاد کشمیر سے افغانستان تک اور کارگل سے لنجوٹ تک بھی اپنے خرچ پر دفاع امت اور پاکستان کے واسطے گیا۔ بیوی ہی کے نام کی ایک مسجد مولوی گل فراز کے ساتھ مل کر بنیاد رکھی اور کمرشل پلاٹ خرید کر کنسٹرکشن شروع کی۔ اللہ کے فضل سے ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مسجد کے فیز ون کا کام ہوچکا ہے جہاں نہ جمعہ کا اور نہ ہی عیدین کا چندہ ہوتا ہے۔ اسی بیوی کے نام پر آمنہ زون کے نام سے کمپنی بھی کھولی اور والدہ محترمہ کے لئے دو رکعت روزانہ نفل بھی پڑھتا ہوں۔
آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر اس پندرہ سو ماہوار پر بیٹھ کر میں قربانی دیتا رہتا، اور اخلاص کا پیکر بنے امت کا ٹھیکیدار بنتا تو شائد کینسر جیسی بیماری میں ہی قصہ تمام ہوجاتا کیونکہ علاج بھی پیسہ مانگتا ہے۔ توکل، برکت، خلوص قربانی جیسے الفاظ بیان کی حد تک تو اچھے لگتے ہیں مگر اگر آپکا بچہ دودھ کے لئیے بلک بلک کر روئے اور بیوی بچہ پیدا کرنے کے بعد زخم کی کریم بھی آپکی غربت کی وجہ سے نہ لگا سکے تو پھر یہ ساری باتیں محض مذاق اور بھونڈا مذاق لگتی ہیں۔
تدریس فرض نہیں، لیکن ماں باپ بیوی بچوں کے حقوق واجب الادا ہیں۔ ہر سال لاکھوں طلباء فارغ ہورہے ہیں مساجد اور مدارس کی اتنی تعداد نہیں کہ آپکو جگہ ملے۔ اپنی محنت مزدوری کریں اور پھر جب ہاتھ سیٹ ہوجائے بالکل دین کی خدمت بھی کریں۔ آپ صحابہ کرام سے بڑے عالم نہیں ہیں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ محنت مزدوری کر سکتے ہیں تو آپکو کس بات کی شرم؟
میرے دوست سیف اللہ شاہ ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں اور سارا دن محنت کر کے بچوں کے لئے روزی کماتے ہیں۔ مولوی ابرار خطیب ہیں مسجد کے اور بھینسوں کا دودھ
سپلائی کرتے ہیں۔ مولوی اسحاق عالم بھی ہیں اور M.Com بھی کر رکھا ہے لیکن سریا سپلائی کرتے ہیں۔ مولوی سجاد شامی بہترین سیلز پرسن ہیں اور دین کے کام کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتے ہیں اور ہر سال اچیومنٹ ایوارڈ اٹھاتے ہیں۔ مولوی خلیل اندرون سندھ مدرسہ چلانے کے ساتھ ساتھ کھجور سپلائی کرتے ہیں۔ نوید صادق جیسا عامل ڈیزل بیچتا ہے،اور آج پیٹرول کا بے راج بادشاہ ہے۔ سلمان ربانی سے کون نہیں واقف؟ کراچی کے ہر مدرسے کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد میں کہیں نا کہیں اسکا ہاتھ ضرور ہے۔ طلحہ عتیق اور جمال عتیق مفتی عتیق الرحمن شہید کے بچے ہیں۔ کروڑوں روپیہ لوگوں نے مفتی صاحب کے نام پر ادارے کھول کر کمائے تو پھر انہیں کیا ضرورت تھی خوشبو عطر کی دوکان کھولنے کی؟ مولانا اسلم شیخو پوری شہید معذور تھے ٹانگوں سے لیکن شہد بیچا کرتے تھے اور آج انکا شہد اور مسواک مسجد نبوی کے باہر بھی بکتا ہے۔
مسئلہ صرف عزت نفس اور غیرت و ہمت کا ہے،آپ بھی آگے بڑھیے ہمت کیجیے۔ خدا کی قسم مہتمم کے آگے ذلیل ہونے اور لوگوں سے ٹکے ٹکے کے لئے انہیں فالتو میں حضرت حضرت کہنے سے بہتر ہے کہ شام میں فرنچ فرائز یا کباب کا ٹھیلا لگا کر بیچیں، آگے بڑھیں ہمت کریں اللہ کی مدد آپکے ساتھ ہوگی انشاء اللہ