صور جب پھونکا گیا تو میں ہڑ بڑا کر اُٹھا۔ سر کے اوپر بہت بڑا شگاف تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو لاکھوں قبروں سے انسان باہر نکل رہے تھے۔ مرد’ عورتیں’ بوڑھے’ بچے، جوان سب نے ایک ہی سمت میں چلنا شروع کر دیا۔ سورج جیسے سوا نیزے پر تھا۔ گرمی اور ایسی گرمی کہ مٹکوں میں پانی نہ جلے’ مٹکوں کو آگ لگ جائے! چلتے رہے۔ چلتے رہے! وقت کا تصور یہاں دنیا والا نہ تھا۔ گھڑیاں تھیں نہ موبائل فون! جانے کتنے مہینے چلتے رہے یا کتنے سال! بظاہر کوئی رہنمائی تھی نہ آواز! مگر سب کو معلوم تھا کہ کس سمت چلنا ہے اور چلتے جانا ہے! پھر سب رک گئے۔ یوں جیسے انتظار کرنے کو کہا گیا۔یہ ایک چٹیل میدان تھا۔ درخت تو دور کی بات ہے’ جھاڑی تک نہ تھی! روئیدگی کا نام نشان نہ تھا۔ کہیں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ پسینے بہہ رہے تھے۔ حدت تھی اور گرمی کی شدت! پیاس اس قدر غلبہ پا رہی تھی کہ حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ لوگ بے ہوش ہو ہوکر گرتے اور قدرت خدا کی’ کچھ دیر کے بعد پھر اٹھ کھڑے ہو جاتے۔ یہاں بھی وقت کا تصور سمجھ سے باہر تھا۔ بے ہوشی نہ جانے کتنے پہر رہتی تھی یا کتنے سال! کبھی کبھی کوئی فرشتہ گزرتا۔ عظیم الشان پروں کے ساتھ! کسی کے ہاتھ میں گرز ہوتا کسی کے ہاتھ میں پانی کی بوتل! کسی کو مارپڑتی’ کسی کے منہ میں پانی ڈالا جاتا! الامان والحفیظ! دور’ بہت دور’ انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے آگے’ کچھ مقامات پر بادل سایہ کئے تھے۔ درخت بھی دکھائی دے رہے تھے۔
سفید نقطے اِدھر سے اُدھر جاتے نظر آ رہے تھے۔ معلوم ہوا یہ پرندے ہیں جو اُن درختوں کی شاخوں پر آ جا رہے ہیں۔ سائے کا یہ سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ درمیان میں دھوپ کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے۔ ایک ایک ٹکڑا سینکڑوں میل تک جا رہا تھا۔ سایہ دار مقامات بھی اتنے ہی طویل تھے۔ پاس سے گزرتے ایک فرشتے سے پوچھا کہ یہ سایہ دار مقامات کیسے ہیں؟اس نے بتایا کہ انبیا’ صدیقین’ شہدا’ اہل بیت’ اصحابِ رسول’ اولیا اورمتقین کے ہیں جن پر خداوند قدوس کی خاص رحمت ہے۔ ان کے لئے سائے کا انتظام کیا گیا ہے۔ فرشتے سے پوچھا کہ نزدیک ترین سایہ دار مقام کس ہستی کا ہے؟اس نے ایک پَرکو ذرا سی جنبش دی’ ایک کمپیوٹر کی سکرین جیسی شے اس کے سامنے آ کر فضا میں معلق ہو گئی۔ اس نے ایک دوبارکلک کیا پھر میری طرف رُخ کر کے کہا جہاں تم کھڑے ہو’ وہاں سے نزدیک ترین سایہ دار مقام نواسہ رسول امام حسینؓ کا ہے اور یہ یہاں سے دنیا کے وقت کے اعتبار سے پچاس سال کا فاصلہ ہے۔ امید کی ایک کرن ذہن میں جگمگائی۔ میں نے فرشتے سے التجا کی کہ میں حسینی ہوں! میں نے سلام اورمنقبتیں لکھی ہیں۔ عزاداروں کے لئے سبیلیں لگائی ہیں۔ میں زندگی بھر یزید کی مذمت کرتا رہا۔ رسولؐ اور آل رسولؐ پر درود بھیجتا رہا۔مجھے امام عالی مقامؓ کی خدمت میں پہنچانے کا بندوبست کرو! آپ ضرور مجھے اُس سائے میں جگہ عنایت فرمائیں گے جو ان کے لئے مخصوص ہے اور کئی ہزار میل لمبا چوڑا ہے! فرشتے نے میرے کوائف معلق سکرین پر چیک کئے۔ پھر مجھے لے کر ایک جانب چلا۔ ہم چلتے گئے وہ آگے آگے میں پیچھے پیچھے! یہ ایک اور میدان تھا جہاں وہ رُکا۔ سائے کا دور ونزدیک نشان نہ تھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے فرشتے کو دیکھا۔ اس نے ایک ادائے بے نیازی سے کہا کہ یہاں وہ سارے لوگ گروہ درگروہ کھڑے ہیں جو حسینی ہونے کے مدعی ہیں۔ ان سب کا معاملہ امام عالی مقامؓ کی خدمت میں بھیجا ہوا ہے۔ ان کے ہاں سے منظوری اور اجازت آنے تک یہاں انتظار کرنا ہو گا! یہ سب جو حسینی ہونے کے دعویدارتھے’ لاکھوں کروڑوں میں تھے۔ ایک گروہ تاجروں کا تھا، ایک سیاست دانوں کا، ایک صحافیوں اور کالم نگاروں کا’ غرض زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے لاتعداد گروہ کھڑے تھے۔ سب کی نظریں قریب ترین سایہ دار مقام کی طرف تھیں یہ اور بات کہ فرشتے کے قول کی رُو سے یہ سالہا سال کی مسافت تھی! وقت کی حد تھی نہ قید! اندازہ تھا نہ علم! یہاں کی تقویم نرالی تھی جس سے دنیا والے آگاہ نہ تھے’ کھڑے رہے’ انتظار کرتے رہے! دھوپ کی شدت سے گرتے رہے۔ گر گر کر اٹھتے رہے! پھر سب نے دیکھا کہ ُاس نزدیک ترین سایہ دار مقام کے اوپر ایک چیئر لفٹ جیسی شے ابھری اور فضا میں تیرتی ہمارے میدان کی طرف بڑھی! یہ کئی سال چلتی رہی۔ سب ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔
سروں پر آ کر رکی اور ایک فرشتہ اُس کے دروازے پرنمودارہوا۔ اس کے سامنے ایک مائک کسی سہارے بغیر تھما ہوا تھا۔ پن ڈراپ خاموشی تھی۔ سب کی نظریں اُس کی طرف تھیں۔ فرشتے نے اعلان کیا کہ چند درجن خوش نصیب افراد کو امام عالی مقام نے اجازت دی ہے۔ باقی کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ حسینی ہیں نہ ہی جناب کا ان سے کوئی تعلق ہے! مجمع سے آہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں۔ کچھ نے چیخیں ماریں اور زمین پر گر پڑے فرشتے نے پروں کو جنبش دی۔ سناٹا عود کر آیا۔ فرشتے نے بیان جاری رکھا۔ امامؓ کا فرمان ہے کہ حسینی ہونے کے یہ دعویدار اصل میں یزیدی ہیں۔ سال میں دس دن یہ سبیلیں لگاتے تھے، معاوضے کے لئے مختلف چینلوں پر سلام پڑھتے تھے یزید کی مذمت کرتے تھے مگر وقت کے یزید کے سامنے سر جھکا کر بیٹھتے تھے۔ فرشی سلام کرتے تھے۔ تاجر ملاوٹ کرتے رہے، حرام کا منافع کھاتے رہے۔ ناجائز تجاوزات سے اپنی آمدنی ناجائز بناتے رہے۔ امام بیعت کر لیتے تو وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ بڑے سے بڑے صوبے کی گورنری ان کے قدموں میں تھی مگر دنیا کو ٹھوکر ماری۔ دنیا کے لئے رات دن ایک کرنے والے یہ سیاہ کار سیاہ رو اور سیاہ بخت تاجر حسینی کیسے ہو سکتے ہیں؟ سیاست دانوں میں سے شاید ہی کوئی تھا جسے امام کے سائے میں پناہ ملی۔
فرمایا یہ عوام سے کئے گئے وعدے بھول جاتے تھے۔ پارٹیاں کپڑوں کی طرح تبدیل کرتے تھے۔ سرکاری مراعات کا ناروا استعمال کرتے تھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قریبی عزیز کی مالی خیانت سے درگزر نہ فرمائی’ ان کے فرزند اہل سیاست کی بددیانتی سے کیسے اغماض فرما سکتے ہیں؟ مگر سب سے زیادہ خوفناک نظریں فرشتے کی اس وقت نظر آئیں جب اس نے صحافیوں کالم نگاروں اور اینکر پرسن کے گروہ کی طرف دیکھا۔ اس نگاہ میں غیض و غضب بھی تھا اور حقارت بھی! پھر اس کی آواز ایک کڑاکے کی طرح ابھری۔ یہ اہل قلم اور یہ اینکرپرسن’ خاندان نبوت کا اسوہ سامنے رکھنے کے بجائے، اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی خاندانوں کے آگے سجدہ ریز رہے۔ کوئی آرزوکرتا رہا کہ مریم وزیر اعظم بنے’ کوئی بلاول کے سامنے دستہ بستہ کھڑا رہا۔ کسی کو
عمران خان کی دوست نوازی نہ دکھائی دی۔ بعض کی آنکھوں میں تو ایسا موتیا اترا ہوا تھا کہ کروڑوں اربوں کی کرپشن’ دبئی سے لندن اور امریکہ تک جائیدادیں نہ دیکھ سکے۔ ایک لفظ کرپشن کے خلاف لکھا نہ بولا۔ چند اشتہاروں کے لئے’ چند دوروں کے لئے’ کسی منصب کے لئے’ اقتدار کے برآمدوں میں قدم رکھنے کے لئے، یہ لوگ اسوہ حسینی کو بھول گئے اور ہر یزید وقت کے قریب پہنچنے کی جدوجہد کرتے رہے’’ دور جاتی چیئر لفٹ کو سب نام نہاد حسینی خالی خالی نظروں سے دیر تک دیکھتے رہے۔٭٭