میں نے اسلام کیسے قبول کیا

مصنف : کملا داس

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اکتوبر 2019

فریدہ رحمت اللہ :ثریا صاحبہ !آپ ہندو مذہب میں پیدا ہوئیں ،پلی بڑھیں عمر کے اس مرحلے پروہ کو نسی بات تھی ،جس سے متاثر ہو کر آپ نے اسلام قبول کیا۔
ڈاکٹر کملا ثریا :فریدہ !میں ہندو مذہب کے کسی بھی رسم و رواج سے کبھی بھی نہ ہی متاثر ہوئی اور نہ ہی پابند رہی ۔تیس سال سے زیادہ مجھے اسلام کو سیکھنے دیکھنے اور پڑھنے کا موقع حاصل ہوا، مجھے ہمیشہ اسلام سے بے حد دلچسپی رہی۔اسلامی تہذیب نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
 سوال :آپ نے کہا ،متاثر کیا ،کس طرح سے ؟
 جواب :آج سے تیس سال قبل دو لڑکے میری زندگی میں آئے ۔دونوں مسلمان تھے میں نے ان دونوں لڑکوں کو اپنا لے پالک بیٹا بنایا۔میں نے انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا ۔دونوں کچھ نا بینا بھی تھے۔ان کا چال چلن ،برتاؤ ،طور طریقے سے میں بے حد متاثر ہوئی ۔یہ دونوں لڑکے جنہیں میں بیٹے مانتی ہوں میری زندگی کی کا یا پلٹنے میں ذمہ دار ہیں۔یقینا میں اسلام کی تعلیمات سے بے حد متاثر ضرور ہوں ۔
 سوال :آپ نے لے پالک بیٹوں کا ذکرکیا ۔ان کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟آج کل وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
 جواب :ایک بیٹے کا نام عنایت ہے ۔یہ پڑھ لکھ کر بیرسٹر بن گیا اب کلکتہ میں ہے ۔ دوسرا لڑکا ارشاد ہے۔پروفیسر آف انگلش ہے گورنمنٹ کالج دارجلنگ میں سروس کر تاہے ۔
سوال :ہندو مذہب میں عورت کو

(Symbol of godess) کہا گیا ہے، مخالفِ اسلام کہتے ہیں ہندو مذہب میں عورت کی بے حد قدر ہوتی ہے ۔ایسے مقام کو چھوڑنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟
 جواب :مجھے خدا نہیں بننا تھا ،مجھے صرف ایک اچھا انسان بننا تھا ،میں نہیں چاہتی تھی کہ میں بت بنوں اور میری پوجا ہو۔مجھے صرف ایک اللہ کی بندی بن کر زندگی گزارنا ہے ۔
 سوال : پروپیگنڈہ ہے کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں ،عورت آزاد نہیں ،یہ مرد کا جہاں ہے ۔آپ ان غلط خیالات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟
 جواب :پتہ نہیں !لیکن اسلام میں رہ کر میں آزاد ہوں ،میں اپنی مرضی کی مالک ہوں اگر آپ تیرا کی کے لباس میں (Swim Suit) میں پبلک مقامات پر نہانا گھومناپھرنا اور بیوٹی کانٹسٹ کے نام پر عورت کو بر ہنہ کرنا ،اس کے جسم کی نمائش کرنا،عورت کے بدن کی ناپ تول اور جانچنا ،اگر یہ آزادی ہے تو میں ایسی آزادی پر لعنت بھیجتی ہوں ۔اسلام میں عورت کا مقام بہت بلند اور محفوظ ہے ۔
 سوال :آپ ہمیشہ پردہ میں رہتی ہیں آپ کو اس میں کیا خوبی نظر آئی ؟
 جواب :میں پردہ کو عورت کے لئے تحفظ مانتی ہوں ۔برقع میں عورت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی ۔میں تیس سال قبل ہی برقع استعمال کرتی تھی ۔جو عورت حجاب میں رہتی ہے اسے سماج معاشرہ عزت اور قدر کی نظر سے دیکھتاہے لیکن برقع کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
 سوال :کیا پردہ عورت کا مقام اونچا کرتا ہے ؟
 جواب :یقینا ۔میں جب بھی سفر کرتی ہوں مکمل طور سے پردہ کرتی ہوں خود کو پردے میں مکمل محفوظ سمجھتی ہوں ۔پردہ سے عورت کا وقار اورعظمت بڑھ جاتی ہے۔
 سوال :(Polygamy) خاندانوں اور سماج کے لیے رحمت ہے یا زحمت ،اکثر اس کے غلط تصویر پیش کی جاتی ہے ۔آپ کیا کہیں گی۔
 جواب : شریعت میں اجازت ہے تو بالکل صحیح ہے ۔میں کہوں گی ایک مرد اگر ایک سے زائد عورت کی دیکھ بھال کر سکتا ہے ،اس کی حفاظت کر سکتا ہے ،اس عورت کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے،اسے معاشرہ میں عزت کا مقام دلا سکتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے شادی کا مطلب صرف ایک دوسرے کو حاصل کرنا نہیں ۔ کسی بے سہارا کو اگر سہارا مل رہا ہے تو میں اسے برایا غلط نہیں مانتی کوئی وجہ نہیں Polygamy کو Condimnکیا جائے۔دوسرے مذاہب میں بیوہ عورت کو منحوس سمجھا جاتا ہے اسے غیر ضروری چیز سمجھ کر دھتکار دیا جاتا ہے ۔اگر بیوہ عورت کے ساتھ نکاح کر کے اسے اچھی زندگی دی جاتی ہے تو Condimnکرنے والی کوئی وجہ نہیں۔
 سوال :کیا ہندومسلم ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟
 جواب :بالکل بھی نہیں ۔ان دونوں سے اچھا دوست کوئی اور ہو ہی نہیں سکتایہ آگ بہت پہلے انگریز لگا کے گئے ہیں یہ غلط فہمی ہے ۔انگریزوں ہی نے یہ افواہ اڑائی اور شور مچادیا۔
 سوال :آپ نے قبول اسلام کی اطلاع دی تو آپ کے والدین بچوں اور رشتہ داروں کا رویہ کیا رہا؟
 جواب :میرے والد نہیں رہے ۔والدہ عمر کی اس دہلیز پر ہیں ،جہاں انہیں کوئی کسی بات کا احساس نہیں ہوتا۔میرے بچے بہت سمجھدار ہیں ،ہاں میرے رشتے داروں کو ضرور شاک لگا تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ میں نے اسلام قبول کیا بلکہ میں جو پردہ کرتی ہوں یہ بات انہیں تھوڑا الگ لگتی ہے ۔پردہ والی بات کچھ کھٹکتی ہے ورنہ میرے گھر میں کسی کو اعتراض نہیں ۔
 سوال :آپ ہمیشہ پردہ میں رہتی ہیں؟
 جواب :میں سمجھتی ہوں جب اسلام قبول کیا ہے تو مکمل طور سے پابند رہوں، فرمانبردار اور اطاعت گزار رہوں I should be totally surrendered Not Halfly میں مانتی ہوں اللہ ایک ہے،ساری دنیا کا نظام اسی کے ہاتھ میں ہے،وہی وحدہ لاشریک ہے۔ 
 سوال :قبول اسلام کے بعد آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟
 جواب :خود کو ایک دم ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہوں پہلے جیسے میں ایک ‘‘نابینا ’’تھی ۔روشنی سے محروم تھی۔شاید میری باطن کی آنکھیں بند تھیں۔اب لگتا ہے ایک اندھے کو روشنی مل گئی اور میرے ذہن کے دریچے جو بند تھے کھل گئے ہیں ۔میں اب بالکل مطمئن ہوں اور بے حد خوش ہوں ۔میری خوشیاں اب Positiveہیں میں ایک دم سے مضبوط ہو گئی ہوں۔
 سوال :اسلام میں طلاق اور خلع کی جو سہولتیں ہیں یا آسانیاں ہیں ،اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
 جواب :یہ تمام آپس کے ذاتی مسائل ہیں ،جب میاں بیوی میں آپس میں ان بن ، تکرار،لڑائی جھگڑے مسلسل ہونے لگتے ہیں میاں بیوی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔دونوں کو ایک ساتھ زندگی گزارنا دشوار لگتا ہے۔ایسے میں طلاق یا خلع کے ذریعہ بات کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔میں کہنا چاہوں گی کہ اکثر خواتین بھی مرد کو اس کی طاقت سے زیادہ فرمائشوں کا بوجھ ڈال کر غیر ضروری چیزوں کی چاہ میں نفرت کے دروازے کھولنے لگتی ہیں۔
بہت سے حضرات میرے پاس ایسی شکایت لے کر آتے ہیں۔بیوی کو اپنے شوہر کی آمدنی دیکھ کر فرمائش کرنی چاہئے اور دونوں کو آپس میں مل جل کر پیار محبت سے خوش حال زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے 
 سوال :آپ نے مغربی ممالک کا سفر بھی کیا ہے ان ممالک میں اسلام کا موازنہ دوسرے مذاہب سے یا انکے ساتھ آپ کو کیسا لگا؟
 جواب :جرمنی میں مومنٹ بہت مضبوط ہے ۔ویسے بھی ساری دنیا میں اسلام کی تعلیمات اورتبلیغ کا کافی اثر پڑا ہے، لوگ اسلام کو جاننے کے خواہشمند اور بے چین رہتے ہیں ۔ جب میں نے ابھی مذہب نہیں بدلا تھا، میرے بہت سے خدا تھے (استغفر اللہ)جب میرا بچہ بیمار ہو جاتا تو ڈاکٹر کی دوا کے بعد دعا کی بھی ضرورت پڑتی ہے، مجھے نہیں معلوم تھا کس خدا کے پاس مانگوں ۔کیوں کہ ہر ایک کے لئے الگ الگ بھگوان ہوتا ہے، میں پریشان ہو جاتی تھی اسلام میں ساری دنیا کا مالک اللہ ہے ۔جو صرف ایک ہے جو سب کی سنتا ہے وحدہ لاشریک ہے ۔بس اسی سے مانگو۔
 سوال :آپ ایک مشہور بین الاقوامی شاعرہ اور مصنفہ بھی ہیں؟کہا جا سکتا ہے کہ آپ کو نوبل ایوارڈ ملتے ملتے رہ گیا، کیا وجہ تھی؟ ۱۹۸۴؁ء میں آپ کے ساتھ ٹارگیٹ بورسی، ‘‘ذوریسلیزنگ’’اور نندین گارڈ سیز بھی تھے؟
 جواب :میری بد نصیبی ۔دوسری بات یہ کہ اس وقت ایک اور اچھا شاعر ابھی آپ نے نام لیا شامل تھا۔انہیں کینسر تھا۔یہی وجہ تھی کہ نوبل ایوارڈ اس وقت انہیں دیا گیا، ایوارڈ لینے کے چند ماہ بعد وہ چل بسے، اکثر ایک سے زیادہ بار Nominateہونا ضروری ہوتا ہے۔ سوال :اسلام ہی واحد مذہب ہے ۔اس کا یقین آپ کو کیسے ہوا؟
 جواب :میں برسوں تمام مذاہب کا مطالعہ کرتی رہی ۔مجھے لگا دوسرے مذاہب کی بنیاد کھوکھلی ہے ۔اسلام کی بنیاد بے حد مضبوط اور مستحکم ہے اس میں امن ہے ،سچائی ہے سکون ہے۔
فریدہ: آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا۔اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جامع نظام زندگی ہے کمزوروں کا محافظ اور مظلوموں کا ہمدرد ہے۔
 سوال :ایک اور آخری سوال آپ کا پیغام ہندو اور مسلم بہنوں کے لئے؟
 جواب : بس ایک دوسرے سے پیار کرو،پیار محبت میں سکون ہے،ترقی ہے، راحت ہے،امن ہے میں کہوں گی جہاں پیار نہیں ،وہ جگہ دوزخ ہے ۔جس جگہ دلوں میں ایک دوسرے کے لئے پیار ہے وہ جگہ جنت ہے ۔جہاں امن ہے سکون ہے۔
 سوال :آخری بات لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے قبول اسلام کے پیچھے کسی مرد ‘‘آدمی ’’کا ہاتھ ہے، اگر ہے تو ہم جاننا چاہیں گے کہ وہ کون ہیں ؟
 جواب :بالکل صحیح سنا ہے آپ نے ۔یقینا اس کے پیچھے آدمی کا ہاتھ ہے اور وہ ہیں محمد ﷺ یہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں آپ ہی کی وجہ سے میں ایمان لے آئی اور اسلام قبول کیا اس ایک آدمی کی تعلیمات نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی ۔
 سوال :آپ نے کہا آپ تیس سال سے اسلام سے ،اسلامی تہذیب سے متاثر تھیں، ظاہر کرنے میں اتنے برس کیوں لگے ،کسی کا ڈر یا کوئی وجہ؟
 جواب :میں سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتی ۔اللہ کی بندی ہوں ،شاید صحیح وقت کا انتظارتھا۔
 سوال :آپ صوم وصلوٰۃ کی پابند ہیں ؟
 جواب :بالکل صوم و صلوٰۃ کی پابند ہوں اور رات میں تین بجے اٹھتی ہوں ،تہجد کے ساتھ پنجگانہ بھی پابندی سے ادا کرتی ہوں ہمارے گھر میں صبح سویرے امام صاحب پڑھانے آتے ہیں ،جن سے میں اسلام کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں قرآن پاک پڑھتی ہوں ابھی خاص آواز سے پڑھنا سیکھ رہی ہوں ۔
 سوال :‘‘کیرالا’’مسلمان ’’اور ‘‘سیاست’’کچھ Comments؟
 جواب :کیرالہ کی ترقی میں 85%فی صد یہاں کے مسلمانوں کا ہاتھ اور ساتھ رہا ہے یہاں کی ترقی کے لئے مسلمان پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔یہاں پر مسلم لیگ ہمیشہ جیت کر آتی ہے لیکن یہ لوگ کبھی بھی مسلم طبقے کے مسائل کو لے کر سنجیدہ نہیں ہوتے نہ ہی کچھ کرتے ہیں ۔میں چاہتی ہوں کہ کیرالا میں مسلمان سنجیدگی سے مسلمان وزیر اعلیٰ کی مانگ کریں ۔بلکہ Demandکریں اب وقت آ گیا ہے یہ انصاف کا تقاضہ ہے ۔ یہاں کا وزیر اعلیٰ مسلمان ہونا چاہئے۔یہ ان کا حق ہے۔یہاں کی معیشت مسلمانوں کی وجہ سے سدھری ہے اور سنوری بھی ہے مسلمانوں کو آگے بڑھ کر اپنے حقوق کی مانگ کرنا اور منوانا ضروری ہے ۔
 سوال :مستقبل کے بارے میں کوئی خواہش؟
 جواب :کیرالا کی سیاست میں تبدیلی لائی جائے، میں چاہتی ہوں، بزرگ خواتین کے لیئے ایک گھر بناؤں ،اس گھر میں عبادت کا انتظام ہو۔ایک مسجد بناؤں اور عربی مدرسہ بھی۔ ان بزرگوں کی خدمت کروں ۔انہیں وہ تمام پیار دوں جو ان کے اپنوں نے کبھی بھی نہ دیا، جب باہر نکلتی ہوں تو دیکھتی ہوں کتنی بے سہارا عورتیں سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر بے یار و مدد گار رہتی ہیں، ان کے کام آؤں۔ انہیں اپنے گھروں میں جگہ دوں، میں سمجھتی ہوں مسلم خواتین سماجی کام بہترین طریقے سے کر سکتی ہیں، جو سہولیات بھی دوسری جگہ نہیں ہیں، جو بھی زندگی رہ گئی ہے اسے قوم و ملک کی بھلائی میں صرف کروں یہی آرزو ہے ۔ 

 

بشکریہ :  مستفاداز ماہ نامہ‘ ارمغان’اپریل ۲۰۰۳