یہ جمعہ کا دن تھااور وہ نماز جمعہ کے لیے چلچلاتی دھوپ میں سڑک کنارے مسجد کی طرف پیدل ہی جا رہاتھا۔ اسی اثنا میں ایک گاڑی اس کے پاس آ ن رکی ، صاحب ِکار نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور کہا کہ جناب آئیے ،ہمارے ساتھ چلئے۔دھوپ کی حدت سے بچنے کے لیے اس نے یہ پیش کش قبول کر لی اور گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔اس نے دیکھا کہ صاحب ِکار اسی سکول کے وائس پرنسپل ہیں جس میں وہ بطور ٹیچر کام کر رہا تھا اور ان کے ساتھ اگلی سیٹ پر ان کا صاحبزادہ براجمان تھا جو کہ اُس کا شاگرد بھی تھا۔صاحب ِکار سے رسمی علیک سلیک کے بعد مزید بات چیت کی نوبت ہی نہ آئی کہ مسجدکا گیٹ آن پہنچا تھا۔ اس نے خاموشی سے کار کا دروازہ کھولا اور مسجد میں داخل ہو گیا۔بظاہر وہ خاموش تھا لیکن اس کے من میں سوالات کا ایک لاواپک رہا تھا ۔یہ سوالات خطبہ جمعہ کی وجہ سے پس منظر میں چلے گئے تا ہم جوں ہی وہ جمعہ سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو ایک بار پھر اسے انہی سوالات نے آن گھیرا۔اس کا ذہن اس سے پوچھ رہا تھا کہ صاحب ِکا ر کا بیٹا یعنی اس کا شاگر د کیسے اگلی سیٹ پر بیٹھارہا ؟اورکیوں اس نے نیچے اتر کے اس کے لیے دروازہ نہ کھولا ؟ اس سے بھی زیادہ وہ اس بات سے پریشان تھا کہ اس لڑکے کے والد یعنی صاحبِ کار نے اپنے بیٹے کو اس بات پر متنبہ کیوں نہ کیا؟جب کہ صاحب کار بنیادی طو ر پر خود بھی ایک استاد ہی تھے۔اس کا دل کہہ رہا تھا کہ اگر ان صاحب کی جگہ وہ خود ہوتا اور اس کا بیٹا فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ موجودہوتا اور راستے میں بیٹے کا کوئی استا د پیدل جاتاہوا مل جاتا تویقینا وہ اپنے بیٹے سے کہتا کہ فوراً نیچے اترو ، استاد کو سلام کرو، ان کو فرنٹ سیٹ پہ بٹھاؤ اور خود پیچھے بیٹھو۔
اسی طرح کی سوچوں میں گم وہ گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اسے مزید یا دآیا کہ جب گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے لاہور آتے ہوئے بعض ا وقا ت اس کے استا د (جو اس سے عمر میں بھی کم تھے) اس کی گاڑی میں سوا ر ہوجایا کرتے تا کہ راستے میں اپنے گھر اتر سکیں تو کس طرح وہ فوراً اپنی سیٹ چھوڑ کر پچھلی سیٹ پر آ جایا کرتا تھا۔اوراس سے بھی پیچھے اسے یاد آیاکہ سکول اور کالج کے زمانے میں وہ جب کسی استاد کو سر راہ دیکھتا تو کس طرح سائیکل سے اتر کر کھڑا ہو جایا کرتاتھا ، کس طرح وہ استاد کو سلام کرنے میں پہل کیا کرتا ،کس طرح ان کے برابر بیٹھنا یا ان کی سیٹ پر بیٹھنا بے ادبی جانتا ، کس طرح ان کی بات کو ادب سے سنتا اورکس طرح ان کی نصیحت پر عمل کو سعادت جانتا۔پھر وہ سوچنے لگا کہ ان سوچوں سے کیا حاصل ؟ شاید وہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور زمانہ آگے نکل گیاہے۔ اب زمانہ استاد کو سلام کرنے کا نہیں استاد سے سلام کروانے کا ہے ۔اب استا د کے ذمہ ہے کہ وہ شاگرد کاادب کرے۔ اسے ڈانٹنے سے بھی پرہیز کر ے کہ اس سے شاگرد کا دل ٹوٹ سکتا ہے ۔ اسے پڑھانے کے لیے اس کی منت سماجت کرے اور اس کی خوشامد کو عین حق جانے ۔وہ بچہ جو اسے گاڑی میں ملا اس کا کیا قصور کہ وہ ایک ایسی نسل کا نمائند ہ ہے جس کے نزدیک استاد ایک منصب نہیں ایک commodity ہے جس کی خرید و فروخت کی جاسکتی ہے اور اس رویے اور احساس کو پروان چڑھانے میں ایسے بچوں اور شاگردوں سے زیادہ شاید ان کے والدین کا حصہ زیادہ ہے جو اس طرح کے مواقع پر خاموشی سے کار ڈرائیو کرتے رہتے ہیں۔
یوں ہی اپنے آپ سے باتیں کرتے کرتے وہ گھر تک پہنچ چکا تھا۔ ذہن نے کہا چلو اب چھوڑو بھی کیوں ایک چھوٹی سی بات پہ خود کوہلکان کیے جا رہے ہو۔ اگر بچے کا باپ اسے پچھلی سیٹ پر بٹھا بھی دیتا تو اس سے کیا فرق پڑتا۔ دل نے کہا اس عمل سے بظاہرتو کوئی خاص فرق نہ پڑتا لیکن بیٹے کو ایک سبق ہمیشہ کے لیے ازبر ہو جاتا کہ استا دکا ادب ہماری تہذیب کا خوبصورت حصہ ہے اور اس خوبصورتی کو بہر حال قائم رکھنا ہے۔
تہذیبی روایات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے انسان اگر اس طرح کے چھوٹے چھوٹے لمحات کو ضائع کر دے توپھر بعد میں بڑے بڑے لیکچر بھی اس کی کمی پورا نہیں کرسکتے۔اور دل نے کہا یا د رکھو کہ تہذیبی روایات کی پاسداری نہ کرنے سے ہمارا معاشرہ مادی ترقی کی دوڑ میں ایک جنگل تو بن سکتا ہے گلشن ہر گز نہیں۔