مساجد میں کرسیوں کا استعمال
آج سے پچیس تیس برس قبل، کسی مسجد میں شاید ہی کوئی نمازی کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہومگر آج کل تقریباً ہر مسجد میں ایسا ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ گھٹنوں کی تکلیف کا عام ہونا یا پھر کسی ایسی مرض میں مبتلا ہونا ہے جہاں نمازی کے لیے کھڑے ہونا ممکن نہ ہو۔ چند برس قبل تک بھی مساجد میں خال خال ہی افراد کرسی پر بیٹھے نظر آ تے تھے لیکن اب تو یہ منظرہر مسجد میں نظر آتا ہے۔بلکہ بعض بڑی مساجد میں تو بیسیوں افراد کرسیوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔اور مساجد کی انتظامیہ بھی کرسیوں کا اہتمام کرنے لگی ہے۔ اگرچہ شرعی طور پر معذور و مجبور حضرات کے لیے ایسا کرنے کی گنجایش موجود ہے۔مگر ہمارے خیال میں ایسے حضرات کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کرسی کے بجائے نیچے بیٹھیں الا یہ کہ نیچے بیٹھنابا لکل ہی نا ممکن ہو۔اس طرح وہ اُس اسلامی روایت کے قریب تر رہیں گے جو اسلام نے عبادت کے لیے مقرر کی ہے۔
دینی روایات میں تغیر اسی غیر محسوس طریقے سے شروع ہوتا ہے اور پھر سیکڑوں سال کا ہیر پھیر اس کو بالکل ہی نئی شکل دے دیتا ہے۔یہودیت اور عیسائیت میں بھی نماز کی یہ ہی شکل تھی جو مسلمانوں کی ہے مگر اب ہزاروں سال کے بعد چرچ میں تو صرف کرسیاں ہی رہ گئی ہیں اور یہو د کی نماز میں بھی سجدہ ختم ہو کر رہ گیا ہے اور ان کے ہاں بھی اس کی جگہ ایک ایسی کرسی نے لے لی ہے جس میں سجدے کے لیے کرسی کے ساتھ ہی ایک ڈیسک نما تختہ لگایا گیا ہوتا ہے۔ ہماری مساجد میں بھی اس قسم کی کرسی شروع ہو گئی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ علما کی بروقت توجہ سے یہ شکل تو ختم ہوگئی لیکن سادہ کرسی اب بھی قائم ہے۔ ہماری رائے میں اس سادہ کرسی سے بھی اجتناب کی تلقین کر نی چاہیے اور مجبور حضرات کو یہ ترغیب دینی چاہیے کہ وہ نیچے بیٹھ کر نماز پڑھیں اس طرح وہ اس تواضع اور تذلل کے بھی قریب رہیں گے جو نماز کی روح ہے اور صفوں میں بھی خلل واقع نہ ہو گا۔البتہ جہاں واقعتا طبی مجبوری ہو وہاں اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں۔لیکن جہاں تھوڑی سی بھی گنجایش ہو وہاں نیچے بیٹھنا ہی اولی اور بہتر ہے۔
اگر کرسیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو خطرہ ہے کہ صدیوں کا ہیر پھیر کہیں مساجد کو بھی کرسیوں ہی سے نہ بھر دے اور ہمارے اخلاف بھی بس تاریخ کی کتابوں میں پڑھا کریں کہ مسلمانوں کی نماز میں رکوع اور سجدہ ہوا کرتا تھا اور مسلمان بھی اللہ کے حضور زمین پر دو زانو ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔اگرچہ اس وقت اس خطرے کا اظہار دور کی کوڑی لانے والی بات ہے مگر خطر ہ چاہے دور ہو یا نزدیک بہر حال خطر ہ ہے۔اس سے بچنا ہی عقلمندی ہے۔ اور یہ عقل مندی بھی چاہے ہو یا نہ ہو، اصل بات یہ ہے کہ ہمیں مجبوری کی حالت میں بھی ہر ممکن حد تک نماز کو اُ س کی اصل ہیئت کے قریب تر رہ کرہی ادا کرنا چاہیے تا کہ ہما رے اند ر عجز، ضعف، اور بند ہ ہونے کا احساس باقی رہے۔اور یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ رب کابندہ بننے کی کوشش ہی میں ساری کامیابی ہے۔