دینے والے

مصنف : ڈاکٹر امجد ثاقب

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2014

اصلاح و دعوت
دینے والے 
امجد ثاقب

 

     اس کا نام مائیکل ڈیوڈ تھا۔ مائیکل مجھے واشنگٹن کے مشہور چرچ نیشنل کیتھڈرل کی سیڑھیوں پہ ملا۔ وہ لوگوں میں چاکلیٹ بانٹ رہا تھا۔ مجھے بھی اس نے کچھ چاکلیٹ دیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں قریب ہی واقع امیریکن یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ اس نے چاکلیٹ کا ایک اور لفافہ نکالا اور مجھے سے ملنے کا وعدہ کرلیا۔ کچھ دنوں بعد وہ واقعی یونیورسٹی چلا آیا اور ہماری دوستی ہونے لگی۔ وہ جب بھی کیتھڈرل آتا مجھے سے ملنے یونیورسٹی پہنچ جاتا۔ اس نے مجھے واشنگٹن شہر کی اندرونی کہانیاں بھی سنائیں۔ جرم‘ قتل و غارت اور نشہ۔ اس کی اپنی کہانی بھی ایسی ہی تھی۔ لیکن اس کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ اس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ ہر شخص کی زندگی میں آتا ہے لیکن لوگ اس کو پہچان نہیں پاتے اور پھر ساری زندگی رائیگاں چلی جاتی ہے۔
مائیکل کہنے لگا یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بدچلن‘ بدمعاش اور آوارہ تھا۔ بے کار‘ بے گھر‘ بے مقصد۔نشے میں دھت رہنااور جرم کرنا یہی میرا معمول تھا۔ وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ میں بھوک کے عالم میں ادھر ادھر دھکے کھاتا شہر کے سب سے بڑے چرچ جا پہنچا کہ شاید کھانے کو کچھ مل جائے۔ میرے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی اور میں اپنے قدموں پہ کھڑا ہونے کے قابل نہ تھا۔ فادر نے اس حالت میں مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً میں نے وہ رات چرچ کی سیڑھیوں پہ گزار دی۔ اس انکار نے مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیا۔ کیا مجھے یہاں بھی پناہ نہیں مل سکتی۔ صبح ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں کوئی جرم نہ کروں گا۔ کوئی گناہ نہ کروں گا۔ میں نے بھیک سے بھی تائب ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھے لگا یہ بھی گناہ ہے۔ بس وہ ایک لمحہ جب فادر نے مجھے بے گانگی سے دیکھا اور میرے اندر تبدیلی کی خواہش پیدا ہوئی۔ میں وہاں سے اٹھا اور ایک کلینک چلا گیا۔ میری مضبوط قوت ارادی کام آئی اور میں نے نشہ کی لعنت سے نجات پالی۔ میں خود ہی اپنا مسیحا تھا۔ نئی زندگی شروع کرنے کیلئے میں نے کئی جگہ نوکری کی درخواست دی۔ ایک روز ایک ہوٹل میں کام مل گیا۔ باقاعدہ تنخواہ، کھانا پینا۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔اسی دوران میں ایک روز ایک بہت عجیب ساواقعہ ہوا۔ ہوٹل میں اس روز کوئی تقریب تھی لیکن مہمان بہت کم آئے۔ بہت سا کھانا بچ گیا۔ میرے منیجر کے لیے مشکل ہوگئی کہ وہ اس کھانے کا کیا کرے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کوئی حل بتاؤ۔ مجھے اپنے نشہ کرنے والے‘ بے گھر دوست یاد آنے لگے۔ میں نے کہا میں یہ کھانا ایک گھنٹے میں ختم کرسکتا ہوں۔ منیجر ہنسنے لگا لیکن جب میں نے اپنا آئیڈیا بتایا تو وہ راضی ہوگیا۔ اس نے مجھے ہوٹل کا ٹرک دیا اور میں نے سارا کھانا اس میں رکھوادیا۔ دو تین سو لوگوں کا کھانا تو ہوگا۔ میں شہرکے مختلف پارکوں میں‘ کونے کھدروں میں ٹرک بھگاتا رہا۔مجھے علم تھا کہ اس کھانے کے مستحق کہاں کہاں رہتے ہیں۔ تین تین چارچار لوگوں کا کھانا ایک ایک شخص کے حوالے کیا۔ میرے پرانے دوست۔ ان کے چہروں پہ کھلی ہوئی مسکراہٹ مجھے عجیب سی خوشی دے رہی تھی۔ میں نے ان کی تصویریں بھی لیں۔ واپس پہنچ کر یہ تصویریں میں نے منیجر کو دکھائیں تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ ایک دردمند انسان تھا۔ اس نے یہ بات انتظامیہ کے دوسرے لوگوں سے کی اور سب نے فیصلہ کیا کہ بچے کھچے کھانے کو کوڑے میں پھینکنے کی بجائے اسی طرح استعمال میں لائیں گے۔ واشنگٹن میں اس طرح کے اور بھی بہت سے ہوٹل تھے۔ انہوں نے سب سے رابطہ کیا۔دس ہوٹلز نے اس کام میں شامل ہونے کی حامی بھر لی۔ یوں بے گھر اور بے سہارا لوگوں کے لیے کھانے کا مستقل بندوبست ہو گیا۔ اس پورے پراجیکٹ کا نام          David's Dinner Party Michael    رکھا گیا۔ گویا یہ کام میرے ہی نام سے منسوب ہوگیا۔ 
جو آدمی کل تک خود بھوکا سوتا تھا اس کے نام سے سیکڑوں لوگ کھانا کھانے لگے۔ یہ سب خداوند کا انعام تھا۔ اب ہر روز رات کو واشنگٹن کے ہوٹلوں سے ٹرک نکلتے ہیں اور ان سیکڑوں لوگوں کو کھانا پہنچ جاتا ہے جو نشہ کے عالم میں کھوئے رہتے تھے۔ کبھی میں بھی انہی جیسا تھا لیکن خداوند نے میری رہنمائی کی اور مجھے راستہ مل گیا۔ اسی چرچ کی سیڑھیوں پر جہاں میں ساری رات ٹھٹھرتا رہا میں نے بے شمار لوگوں کو کھانا پیش کیا ہے۔ اسی پادری کے سامنے جس نے مجھے اپنانے سے انکار کردیا تھا۔فادر نے بے شک پناہ نہ دی لیکن خداوند نے پناہ دے دی۔ خداوند تو یہ کہتا ہے کہ جو گناہ گار ہیں انہیں میرے قریب لاؤ کہ انہیں میری زیادہ ضرورت ہے۔ وہ سرد یخ بستہ رات نہ ہوتی تو شاید میں ابھی تک بدچلن‘ بدمعاش اور آوارہ ہوتا۔ نشے میں دھت رہتا۔  وارداتیں کرتا۔ کسے خبر گناہ کی اندھی گلی میں کب راستہ مل جائے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ
"Every Saint has a past and every sinner has a future."
کب سورج نکل آئے‘ کب بارش ہونے لگے۔ وہ بس ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جس کے بعد یہ سب بدل جاتا ہے۔
 ڈیوڈ‘ مارٹن لوتھر کنگ سے بے حد محبت کرتا تھا۔ کنگ کی شہرہ آفاق تقریر I have a Dream اسے زبانی یاد تھی۔ جب وہ کنگ کے لہجے میں ڈوب کر یہ تقریر سناتا تو یوں لگتا جیسے اصل میں مارٹن لوتھر ہمارے روبرو موجود ہو۔
 نیکی پر کسی کا اجارہ نہیں۔خدا تو سب کا ہے۔ ڈیوڈ جیسے لوگوں کو دیکھ کر مجھے کچھ لوگ اور یاد آتے ہیں۔مارٹن لوتھر کنگ‘ میلکم ایکس‘محمد علی……غربت میں جنم لینے والے یہ لوگ شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ تینوں سیاہ فام‘ تینوں باغی۔ان تینوں کو بھی مذہب نے پناہ دی۔ محمد علی سے کسی نے پوچھا تم تھکنے سے پہلے کتنا دوڑ لیتے ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ میں تو گنتی شروع اس وقت کرتا ہوں جب تھک کے چور ہوجاؤں۔وہی لمحہ میرے امتحان کا لمحہ ہوتا ہے۔ محمد علی سچ کہتا ہے۔ یہی لمحہ معمولی اور غیرمعمولی انسان میں حد فاصل ہے۔ مارٹن لوتھر‘ میلکم ایکس‘ محمد علی اور مائیکل ڈیوڈ۔
ان سب کی کامیابی کا کیا گُر تھا۔ ذہانت‘ محنت‘ عزم ……شاید ……لیکن مجھے ان میں جو قدرِ مشترک دکھائی دیتی ہے  وہ ان کی سچائی ہے……انہوں نے سچ کو ڈھونڈا اور پھر وہ سچ ان کی رگوں میں لہو بن کے دوڑنے لگا۔ سچ کو پانا ہی کافی نہیں سچ کو حرزِ جاں بنانا بھی اہم ہے۔ہم سچ تک پہنچ جاتے ہیں لیکن سچ کو اختیار نہیں کرتے۔ ہم سچ کیلئے موت قبول کرلیتے ہیں لیکن اس کیلئے زندہ نہیں رہتے۔ 
مارٹن لوتھر‘ میلکم ایکس‘ محمد علی اور مائیکل ڈیوڈ!
امریکی معاشرہ عجیب طرح کی انتہا ؤں کا شکار ہے۔ ایک طرف دولت کے انبار ہیں اور دوسری طرف ناقابلِ یقین غربت۔ امکانات کی فراوانی کا یہ عالم کہ بل گیٹس نامی ایک کالج ڈراپ آؤٹ دیکھتے ہی دیکھتے  دنیا کا سب سے امیر شخص بن جاتا ہے اور پھر جب دولت سے جی بھر تا ہے تو وہ اسے لوگوں کو تحفے میں پیش کردیتا ہے۔ یہ شخص دولت کماکے اتنا خوش نہیں ہوا جتنا دولت تقسیم کرکے خوش ہوا۔ اسی طرح کا ایک اورشخص‘ وارن بفٹ بھی ہے جس نے اپنی نوے فیصد دولت نیکی کے کاموں کیلئے وقف کردی۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا جذبہ تھا جس نے اسے تیس بلین ڈالر لوگوں میں بانٹنے پہ آمادہ کیا۔ اسکا جواب تھا:
My gift is nothing...... I can have everything I need with less than one 
percent of my wealth... I am just giving back surplus claims that have no value to me but can do a lot for others...
”اگر ہم سب اسی طرح سوچنے لگیں تو یہ ایک مختلف دنیا کا آغاز ہوگا۔“ کلنٹن‘ وارن بفٹ کو اور کیا کہہ سکتا تھا۔ اسی طرح کا سوال پوچھنے پر کر ِس ہان نامی ایک اور امیر شخص نے اس سے کہا:
Beyond a certain point, which we'd reached, money has no further value. It can't bring happiness, but it can save or transform many lives.
امریکہ میں ایثار کی ایسی کئی کہانیاں نظر آتی ہیں لیکن دینے کی لذت ہر شخص کے مقدر میں نہیں۔ نہ ہی یہ اعزاز کسی ایک قوم کیلئے مخصوص ہے۔ امریکہ خوشحال کیوں ہے؟شاید اس لیے کہ وہاں لوگ دینے سے گریز نہیں کرتے۔راک فیلر‘ اینڈریو کارنیگی‘ بل گیٹس‘ وارن بفٹ……یہ لوگ امریکی تہذیب کا سنگھار ہیں۔ ہر امریکی صدر وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد سوشل انٹرپرینیور بننا چاہتا ہے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کو نوبل پرائز کا حقدار سمجھا گیا۔ بطور امریکی صدر نہیں بلکہ بطور ایک سوشل انٹر پرینیور۔ بل کلنٹن ایک کامیاب صدر تھا‘لیکن غربت کو مٹانے کیلئے اس کی جدوجہد کا اصل آغاز اس کے دورِ صدارت کے بعد ہوتا ہے۔ اس کی مشہور کتاب "Giving" ایثار اور رضاکاریت کا ایک لازوال پیغام ہے۔ اس کتاب میں وہ صرف ”دینے“کی بات کرتاہے۔ دولت‘ وقت‘ صلاحیت‘ آئیڈیاز…… اس کے نزدیک ہم میں سے ہر شخص دینے کی راہ پر چل نکلے تو یہ محرومیاں کم ہوسکتی ہیں۔ کتاب کے پہلے باب کا اختتام مارٹن لوتھر کنگ کے اس خوبصورت پیغام پہ ہوتا ہے "Everyone can be great because everyone can serve"………… گویا انسانی عظمت کا ہر راستہ خدمت کی دلکش وادیوں سے ہو کے گذرتا ہے۔ بل گیٹس اور وارن بفٹ نے اپنی دولت لوگوں میں بانٹ دی۔ اگر وہ نہ بھی بانٹتے تو بھی یہ دولت یہیں رہ جاتی۔ وہ جو قرآن نے کہا کہ جو شخص دنیاوی صلے کا طالب ہے وہ جان لے کہ اللہ کے پاس دنیا کا صلہ بھی ہے اور آخرت کا ثواب بھی(النساء ۴۳۱)۔ وارن بفٹ نے ایک بار بہت مشکل بات انتہائی سادگی سے کہہ دی:
I was born in the right country at the right time, and my work is 
disproportionately rewarded compared to teachers and soliders.
ہم کہاں جنم لیتے ہیں اس پر ہمارا اختیار نہیں لیکن ہم دنیا میں کیا چھوڑ کے جاتے ہیں اس پر ہمارا اختیارضرور ہے۔ امریکہ میں بیس لاکھ سے زیادہ غیرسرکاری ادارے خدمت کے کاموں میں مگن ہیں۔ ہر سال 600بلین ڈالرز کے عطیات دیئے جاتے ہیں۔پاکستان کامنظر بھی کم خوش نما نہیں ……اخوت‘ شوکت خانم‘ ایدھی‘ ایل آربی ٹی‘ الشفاء‘ چھیپہ‘ فاطمید‘سہارا‘ امین مکتب‘ حجاز ہسپتال‘ ٹی سی ایف‘ مغل‘ ریڈو‘ کاوش‘ ٹی سی اے‘ فاؤنٹین ہاؤس……یہ سب نام بھی ایثار کی ایسی ہی کہانی کے عنوان ہیں۔جب تک یہ عنوان زندہ ہیں‘ انسانیت زندہ ہے……دینے کی لذت ہر شخص کے مقدر میں نہیں اور نہ ہی یہ اعزاز کسی ایک قوم سے مخصوص ہے لیکن باقی وہی لوگ اور قومیں رہتی ہیں جو ضرورت سے زائد رزق اللہ کی راہ میں دینے کی خواہش رکھتی ہوں۔