یسئلون
میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟
راجن (رضوان)
سوال : آپ پہلے اپنا خاندانی تعارف کرائیے۔
جواب : میں بنارس کے ایک برہمن خاندان میں ۳/جنوری ۹۵۹۱ء میں پیدا ہوا، میرے والد صاحب نے میرا نام راجن رکھا، ابتدائی تعلیم محلہ کے اسکول میں ہوئی اور بعد میں بی کام تک کئی کالجوں میں تعلیم حاصل کی، میرے والد صاحب شری سرجن کمار جی بھی پرانے زمانہ کے گریجویٹ تھے اور نائب تحصیل دار سے ریٹائرڈ ہوئے،وہ بڑے صاف گو آدمی ہیں،اس لئے افسروں سے نہیں بنی اس لئے نوکری میں پریشانیاں اٹھاتے رہے۔میں نے بی کام کے بعد تجارت شروع کی شروع میں گارمنٹس کی بزنس کی، ایک کے بعد ایک کئی کام بدلے، پھر ایک دوست کے ساتھ گوا چلاگیا، وہاں پر کپڑے کی تجارت الحمد للہ سٹ ہوگئی۔ میری شادی الہ آباد کے اچھے گھرانے میں ہوئی۔ میرے خسر مغل سرائے میں جج ہیں، میری بیوی پوسٹ گریجویٹ ہے، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں،بڑے بیٹے کو بھی ایک دکان کرادی ہے اور ہمارا خاندان اب گوا میں سیٹ ہوگیا ہے۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے۔
جواب : مولانا احمد صاحب میرا قبول اسلام اپنے بہت گندے بندے پر رحیم وکریم اور ہادی خدا کی رحمت کی نشانی ہے،میرے اللہ کے قربان جاؤں کہ کیسے برے کے لئے ہدایت بھیج دی، میں حیرت میں ہوں بس اللہ تو اللہ ہی ہے، اس کی شان کو کون سمجھ سکتا ہے
سوال : آپ کا واقعہ ابی نے بھی گھر میں بتایا تھااس لئے مجھے اور بھی دلچسپی ہوگئی ہے کہ آپ کی زبانی سنوں؟
جواب : احمد! جنوری ۰۰۰۲ء میں مجھے تجارت میں کئی جگہ سے لاکھوں روپئے کا نقصان ہوگیا ایک دو میرے کسٹمر دوکان بند کرکے فرار ہوگئے اور کئی طرح کے حادثات ہوگئے،میں بہت پریشان ہوا میرے دوستوں نے مشورہ دیا کہ مجھے ٹریڈنگ کرنی چاہئے۔ ایک خاکہ بنا کر دہلی اور لدھیانہ، مال کا سروے کرنے کے لئے سفر کا ارادہ کیا ہم لوگ سناتن دھرم سے تعلق رکھتے تھے گھر میں شیو جی اور ہنو مان کی مورتیاں رکھی تھیں، یوں تو پہلے بھی ان کی پوجا کرتے ہوئے دل میں آتا تھا کہ یہ مورتیاں جو مردہ ہیں یہ پوجا کے لائق نہیں،مگر تجارت کے نقصان در نقصان نے مجھے اور بھی ان مورتیوں سے دور کردیا۔ اس سفرپرجانے سے پہلے میرے دل میں آیا کہ ان بھگوانوں کی وجہ سے ہی ہمارے گھر میں نحوست آرہی ہے جتنی ہم ان کی پوجا کرتے ہیں نقصان زیادہ ہوتا ہے میں نے وہ دونوں مورتیاں اور گنیش کے فوٹو ندی میں ڈال کر ان کی پوجا بندکرکے خدا کو یاد کیا اور دعا کی: ہے سرو یاپی، سرو شکتی مان مالک! بس میں اب سے آپ کو پوجوں گا اور آپ میرے اس سفر میں ایسا نفع مجھے پہنچادیں جوسنسار کاسب سے بڑانفع ہواور اب مجھے سدا کے لئے نقصان سے بچادیں۔رات کا ریزرویشن تھا احمد بھائی میں بیان نہیں کرسکتا، ایسا کرنے سے مجھے ایسا لگا کہ میں نے کانٹوں کا تاج اتار دیا۔میں نے ٹرین سے سفر کیا، دہلی پہنچا۔ دہلی میں مجھے بہت اچھا رسپونس ملا،ٹریڈنگ کی کئی لا ئنیں سامنے آئیں، مجھے ڈیلکس ایکسپریس سے لدھیانہ جانا تھا،دہلی سے ٹرین میں سوار ہوا میں نے محسوس کیا کہ جس سیٹ پر میرا ریزرویشن تھا اس میں خوشبو آرہی ہے۔ خوشبو مجھے ایسی اچھی لگ رہی تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتا میرے دل ودماغ میں وہ خوشبو بس سی گئی۔ اندر سے میرا دل کہتا تھا کہ یہ خوشبو کسی خوشی کی خوشبو ہے خیال تھا کہ کوئی بڑے لوگ اس سیٹ پر سوار ہوئے ہوں گے ان کی خوشبو گاڑی میں بس گئی ہے۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ اصل میں یہ ہدایت کی خوشبو ہے۔ پانی پت گاڑی پہونچی تو مجھے سستی وتکان سی محسوس ہوئی،میں نے ساتھ کی سواریوں سے اجازت لے کر درمیان کی سیٹ کھولی، سیٹ کی پاکٹ میں موبائل رکھنا چاہا تو دیکھا اس میں ایک کتاب رکھی ہے،کتاب نکالی، کتاب کا نام تھا ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ یہ کتاب ہندی میں تھی اور ممبئی میں چھپی تھی،مجھے کتاب کا نام بڑا اچھا لگا۔ لیٹے لیٹے کتاب کھولی دو شبدپڑھے کتاب چھوڑنے کو دل نہ چاہا اور سونا بھول کر پوری کتاب پڑھ گیا۔میری نیند اڑ گئی،سستی وتکان جیسے تھا ہی نہیں، میری زندگی جاگتی سی محسوس ہوئی،میں سیٹ بند کرکے نیچے اتر آیا کتاب ایک بار اور پڑھی، دوبار میں دل نہ بھرا تو تیسری بار پڑھی اصل میں لا الہ تو میرے اللہ نے میرے گھر پرتجارت کے اندر نقصان ہونے سے پڑھوادیا تھا، محمد رسول اللہ کی رہنمائی میں الااللہ اس ہدایت کی خوشبو نے پڑھادیا، گویا میں اندر سے مسلمان ہوگیا تھا۔
گاڑی راجپورہ سے آگے نکل گئی تھی اب مجھے اس کتاب کے لکھنے والے مولانا کلیم صدیقی سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا، میں نے کتاب میں ان کا پتہ دیکھنا چاہا مگر ان کا نام اور صرف پھلت لکھا تھا اور ممبئی سے ایک چھپوانے والے کا نام۔ میں لدھیانہ سے واپس ہوا اور تجارتی لحاظ سے سفر بہت کامیاب رہا، لدھیانہ میں بھی میں نے ایک مسجد کو دیکھ کر اس میں جانا چاہا مگر معلوم ہوا کہ یہ ۷۴ء سے پہلے یہ مسجد تھی اب یہ کسی پنجابی کا گھر ہے، مجھے بے چینی تھی کہ میں اندر سے مسلمان ہوگیا ہوں۔ باہر سے کس طرح سے مسلمان بنوں، گوا پہنچ کر میں سیدھے ایک مسجد گیا وہاں کے مولاناصاحب سے میری ملاقات ہوئی مولانا صاحب نے مجھے دوسرے مفتی صاحب کے پاس بھیجا وہ میرٹھ کے رہنے والے تھے انہوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا وہ مولانا کلیم صاحب کواچھی طرح جانتے تھے، انہوں نے مجھے انکا پتہ لکھوایا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ فون نمبر لیکر مجھے دے دیں گے،انہوں نے فون نمبر حاصل کیا مگر وہ نمبر سیکڑوں بار کی کوشش کے باوجود نہیں لگ پایا میں جب وقت ملتا ان کے پاس دین سیکھنے جاتا،میں نے قاعدہ پڑھا اور پھر چھ مہینے میں قرآن مجید بھی پڑھ لیا اور تھوڑی تھوڑی اردو بھی پڑھی اور دو تین بار دس دن کی جماعت میں بھی گیا۔
سوال : ممبئی بھی آپ آئے تھے، آپ کو ابی کی ممبئی آمد کی خبر کیسے پہونچی؟
جواب : مجھے مفتی عادل صاحب میرٹھی نے بتایا کہ ممبئی میں دعوت کا کیمپ لگ رہا ہے اور مولانا محمد کلیم صاحب وہاں آرہے ہیں،میں نے فوراً وہاں کا پروگرام بنایا،مرکز المعارف کا پتہ معلوم کرنے میں مجھے پورا دن لگ گیا اور رات میں وہاں پہنچا، وہاں پر کیمپ کا اختتامی اجلاس ہورہا تھا۔پروگرام کے بعد مولانا صاحب سے ملاقات ہوئی میں بیان نہیں کرسکتا کہ مولانا صاحب سے مل کر میں کتنا خوش ہوا میں نے مولاناصاحب سے ایک بار ایمان کی تجدید کرانے کی درخواست کی۔مولانا صاحب نے کہا ہم سبھی کو بار بار ایمان کی تجدید کرتے رہنا چاہئے۔کلمہ پڑھوایا اور بتایا کہ ممبئی کا سفر ہوا تھا ایک دوست نے آپ کی امانت مجھے دی تھی جو انہوں نے چھپوائی تھی وہ انہوں نے شیر وانی کی جیب میں رکھ لی تھی اور رات کو ٹرین میں سونے لگے، شیروانی لٹکائی تو اس میں سے نکال کر سیٹ کی جیب میں رکھ دی تھی، صبح کو ساتھیوں کے بیٹھنے کی وجہ سے سیٹ کھول دی اور وہ سیٹ کے نیچے دب گئی، مولانا صاحب نے بتایا کہ میں جب اسٹیشن سے اترا تو مجھے یاد بھی آیا مگر اچانک میرے دل میں آیا کہ کیا خبرکوئی مسافر پڑھ لے اور اس کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے اس لئے وہیں چھوڑ دی۔ میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ مفتی صاحب نے میرا نام رکھ دیا ہے مگر میری خواہش ہے کہ آپ میرا نام رکھیں،انہوں نے میرا نام معلوم کیا میں نے راجن بتایا تو مولانا صاحب نے کہا رضوان احمد آپ کا نام رکھتے ہیں،رضوان کے معنی ہیں اللہ کی رضا اور رضوان جنت کے داروغہ کا نام بھی ہے، مجھے رضوان نام بہت اچھا لگا، اس کے معنی کی وجہ بھی اور اس لئے کہ مولانا صاحب نے رکھا ہے۔
سوال : آپ کے گھر والوں کا کیا ہوا؟آپ نے گھر پر بتا دیا؟
جواب : سب سے پہلے میں نے اپنی بیوی سے سارا حال بتایا ایک بار اس کو آپ کی امانت پڑھ کر سنائی وہ بولی کہ میں پڑھی لکھی ہوں میں خود پڑھ لوں گی، مگر میں نے کہا ایک بار میری زبان سے سن لو مجھے تم سے محبت ہے اس محبت کا حق ادا کرنے کے لئے یہ بتانا چاہتا ہوں، پھر میں نے ان کو پڑھنے کے لئے دی اس کے بعد”مرنے کے بعد کیا ہوگا؟“ اور”اسلام کیا ہے؟“ان کو پڑھوائی ایک رات کومیں نے ان سے اپنی مجبوری بتائی کہ اسلام میرے روئیں روئیں میں بس گیا ہے اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اسلام سے پھر جاؤں،اس لئے میں کھل کر مسلمان بننا چاہتا ہوں،اب صرف اس حال میں تم میرے ساتھ رہ سکتی ہو جب تم مسلمان ہوجاؤ اور اگر تم مسلمان نہیں ہوتی ہو تو میرے لئے اسلام کے قانون سے تم اجنبی عورت ہو جس کے ساتھ رہنا تو درکنار تم سے بات کرنا بھی میرے لئے پاپ(گناہ)ہے اب کل تمہارے لئے سوچنے کا آخری دن ہے، اگر تم مسلمان نہیں ہوپاتی ہو اور اتنی سچائی سمجھ جانے کے بعد اسے قبول نہیں کرتی ہو،تو میں یہ تو نہیں کروں گا کہ تمہیں گھر سے نکال دوں میں اتنا ضرور کروں گا کہ تمہارے گھر کوچھوڑ دوں گا۔ پھر چاہے کہیں رہوں،وہ یہ سن کر رونے لگی اور بولی رشتے داروں اور سماج سے کیسے لڑیں گے ایسے دھارمک (مذہبی) پریوار ہم دونوں کے ہیں،میں نے کہا کہ کل آخرت میں اللہ سے لڑائی مول لینا زیادہ خطرناک ہے یا پریوار سے؟ اگر اللہ کے لئے ہم اس کو مانیں گے تو پریوار کو بھی ہمارے ساتھ کردے گا۔رات کے ایک بجے تک میں انہیں سمجھاتا رہا ایک بج کر بیس منٹ پر وہ تیار ہوگئیں اور انہوں نے کلمہ پڑھا،اگلے روز مفتی صاحب کے یہاں جاکر ہم نے دوبارہ نکاح کروایا۔بیوی کے مسلمان ہوجانے کے بعد بچوں پر کام آسان ہوا،میرا بیٹا تو مسلمانوں سے ہی دوستی رکھتا ہے، وہ بہت آسانی سے مسلمان ہوگیا،بڑی بیٹی نے چند دن لگائے،میرے اللہ کا کرم ہے، اب میرا خاندان تو پورا مسلمان ہے،میں نے اپنے بیٹے کو جماعت میں ایک چلہ بھی لگوادیا ہے۔
ممبئی میں ملاقات پر مولانا صاحب نے پھلت آنے کو کہا تھا،مجھے پھلت دیکھنے کا بہت شوق تھا،جس انسان کی خوشبو نے میرے دل ودماغ کو ہدایت سے معطر کردیا اس کا گھر میرے لئے دنیا میں جنت کی طرح تھا۔اللہ کے لئے محبت میں سفر کی برکت میرے اللہ نے سفر میں دکھادی،میں نے”آپ کی امانت“ گوا میں ایک ہزارچھپوائی ہے،میرے یہ دو ساتھی جو میرے ساتھ آئے ہیں ان میں سے یہ ایک میرا دوست ہے جو بنارس کا رہنے والا ہے اور میرے گوا میں آنے کیوجہ سے وہ بھی گوا میں رہنے لگا ہے اور انہوں نے وہیں پر بیکری کھول لی ہے،یہ گوئل خاندان سے لا لہ ہیں،ان سے میں تقریباً آٹھ مہینے سے بات کررہا تھااور ان کو اسلام کی دعوت دے رہا تھا، کسی طرح میں نے ان کو پھلت کا سفر کرنے کے لئے تیار کرلیا، ہم دونوں گوا ایکسپریس سے سفر کر رہے تھے،ہمارے ساتھ میں یہ تیسرے صاحب جو اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں ساتھ میں سفر کررہے تھے،تعارف ہوا تو یوپی کے تھے،اپنی طرف کی بات چیت ہونے لگی۔ یہ گورنمنٹ انٹرکالج میں لکچرار ہیں، میں نے ان کو آپ کی امانت کتاب پڑھنے کیلئے دی،یہ بہت متأ ثر ہوئے رات بھر باتیں ہوتی رہیں
،متھرا آکر یہ کلمہ پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے،میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا تو میرے دوست انل کمار بھی تیار ہوگئے اور متھرا میں ہی انہوں نے کلمہ پڑھا،گاڑی بیس منٹ متھرا میں رکی تھی، گاڑی چلی تو میں نے ان دونوں سے کہا کہ اللہ کا کیسا کرم ہے کہ آپ دونوں متھرا میں شرک وکفر کو چھوڑ رہے ہیں، یہاں کی چیز یہاں ہی چھوڑ دینا اچھا ہے۔
سوال : کیاآپ نے اور بھی دعوت کاکچھ کام گھر والوں پر اورجاننے والوں پر کرنے کی سوچی ہے؟
جواب : ممبئی میں مولانا صاحب سے ملاقات سے پہلے تو گھر کے تینوں بچوں اور دوست انل کمار کے علاوہ کسی پر کام نہیں کیا مگر ممبئی میں مولانا صاحب نے بہت فکر دلائی، اب ملاقات ہوئی راستہ بھر کی سفر کی روداد مولانا صاحب نے سنی بہت خوش ہوئے، کئی بار کھڑے ہوکر گلے لگایا،خوشی سے رونے لگے،ہاں یہ بھی کہا کہ آپ نے اپنے دوستوں سے متھرا میں یہ صحیح نہیں کہا کہ شرک وکفر متھرا کی چیز ہے،متھرا بھی اللہ کی زمین ہی میں ہے،یہاں پر بسنے والے سب اللہ کے بندے،ہمارے رسول ﷺ کے امتی اور ہمارے باپ حضرت آدم کی اولاد،وہ ہمارے خونی رشتہ کے بھائی ہیں۔ان کے من میں بھی ایمان وتوحید ہے،شرک یہاں کی چیز نہیں،یہاں کے لوگوں کی بیماری ہے۔اب آپ مسلمان ہوگئے تو آپ داعی ہیں اور داعی کی حیثیت طبیب اور ڈاکٹر کی ہے وہ کسی جگہ بیماری چھوڑتا نہیں بلکہ ہر بیمار کی فکر کرتا ہے۔
سوال : آپ کے گھر والوں کو آپ کے اسلام کا علم ہوگیا؟
جواب : ہم نے خسر صاحب کو گوا بلایا تھا اور ہم دونوں نے صاف ان کو بتا دیا اور ان کو دعوت بھی دی۔
سوال : وہ غصہ تو نہیں ہوئے۔
جواب : وہ بہت ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں انہوں نے کہا آج نیا دور ہے دھرم اپنا ذاتی معاملہ ہے اس کے لئے ہمیں زیادہ سخت نہیں ہونا چاہئے،البتہ یہ ضرور ہے کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے اور جو فیصلہ کرو بس اس پر جمو، کبھی ادھر کبھی ادھر یا آدھا ادھر آدھا ادھر یہ ٹھیک نہیں، مجھے امید ہے کہ وہ ضرور اسلام لے آئیں گے، انشاء اللہ،مولانا صاحب نے ہم سے کہا کہ تہجد میں ان کیلئے اور سب خاندان والوں کے لئے دعا کرنی ہے،انشاء اللہ ہم دعا کریں گے۔ میرے اللہ میرے خاندان والوں کو ضرور ہدایت دیں گے۔
سوال : ان دونوں کے نام بھی رکھ دئیے یا نہیں۔
جواب : انل کمار کا نام تو مولانا صاحب نے محمد عادل رکھا ہے اور رمیش چندر جی کا رئیس احمد، ان کو دہلی میں اترنا تھا مگر ان کی خواہش ہوئی کہ ہم بھی پھلت چلیں گے تینوں نے مرتے دم تک اللہ کے لئے ساتھ ساتھ دعوت کا کام کرنے کا مولانا صاحب کے سامنے عہد کیا ہے،اللہ تعالی اس پر ہمیں قائم رکھے۔
سوال : کوئی پیغام ارمغان کے قارئین کیلئے آپ دیں گے؟
جواب : اس وقت پوری دنیا بقول ہمارے کلیم مولانا صدیقی صاحب کے، اسلام کی پیاس میں اس طرح لائن میں لگی ہے، جیسے گاؤں اور قصبوں میں لوگ راشن کی دکان پر مٹی کے تیل کے لئے لگے رہتے ہیں، کہ یہ لیٹر دو لیٹر تیل ان کی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں روشنی کردے گا،اسی طرح دل ودماغ کی اندھیری کوٹھریوں کو مسلمان داعیوں کے رحم وترس کی ضرورت ہے،ہمیں انسانیت پر ترس کھا کر ان کی اندرکی اندھیا ری کو ایمان واسلام کی شمع جلا کر روشن کرنے کو اپنا مقصد سمجھنا چاہئے۔
مستفاد از ماہنامہ ارمغان،فروری ۸۰۰۲ء
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گْہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہْما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گْھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رْسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پرورد شب،
اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری،
کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم
شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نْما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں،
باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں،
خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم، اس دْکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شامِ ویراں، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دْھن میں نکلے تھے، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملِا، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
مظفر وارثی