سچی کہانی
آہ کا اثر
عامر سلیم
ایک دکھی دل سے نکلی آہ او ر بد دعا کی داستان
میں صوبیدار ریٹائرڈ محبت خان کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ والدین نے میری پیدائش کے موقع پر بہت ہی خوشی منائی اور میرا نام لہراسب خان رکھا۔ نام کے برعکس ابا مرحوم بڑی سخت طبیعت کے مالک تھے۔ غصہ بہت کرتے اور اپنی بات منوانے کے عادی تھے۔ گاؤں میں ہماری زمین علاقے کے تمام زمینداروں سے زیادہ تھی۔ابا جان کو مجھ سے بہت محبت تھی۔ وہ مجھے بچپن میں ہی کیپٹن کہا کرتے تھے۔ انھوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ وہ مجھے اچھی اور اعلیٰ تعلیم دلا کر فوج میں کمیشن دلوائیں گے۔ گاؤں کے لوگ ابا جان کے رْعب اور دبدبے کی وجہ سے ہماری عزت اور احترام کرتے۔ کمیّ تو ان سے بہت ڈرتے تھے۔ایک دن گاؤں کے مْصلّی مقبول کے گھر بیٹے نے جنم لیا۔ اس نے بھی اپنے بیٹے کا نام لہراسب رکھ دیا۔ جب ابا جان کو معلوم ہوا تو انھوں نے اسے حویلی میں بلایااور چھترول کر ڈالی، اپنے بیٹے کا نام لہراسب کیوں رکھا؟ سبھی گاؤں والوں نے یہ تماشا دیکھا۔ مقبول نے ابا جان کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی اور بیٹے کا نام بدل کر ساجد رکھ دیا۔اس کے بعد گاؤں میں کسی نے اپنے بیٹے کا نام لہراسب نہ رکھا۔ اس وقت میں گاؤں کے اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ میں نے بھی مقبول مْصلّی کی پٹائی اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اس کی وجہ بھی جان گیا۔ تب سے میں اپنے نام پر فخر کرنے لگا۔ میں اپنا پورا نام چوہدری لہراسب خان لکھا کرتا تھا۔ ایسا کر کے مجھے فخر اور طمانیت کا احساس ہوتا۔گاؤں کے اسکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد ابا جان نے مجھے نزدیکی قصبہ سوہاوہ کے ہائی اسکول میں داخل کرا دیا۔ میٹرک کا امتحان میں نے امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ گورڈن کالج راولپنڈی سے میں نے ایف۔ ایس۔سی فرسٹ ڈویژن میں پاس کی اور ابا جان کی کوششوں اور اپنی محنت کے بل بوتے پر آرمی میں کمیشن حاصل کر لیا اور بی۔ایم۔اے کاکول ایبٹ آباد چلا گیا۔ اباجان بہت خوش تھے کہ میں نے ان کے خوابوں کی تکمیل کر دی۔ پورے علاقے میں دھوم مچ گئی کہ صوبیدار کا بیٹا فوجی افسر بن رہا ہے۔ میں جب پہلی بار گھر گیا، تو پورا گاؤں مبارک دینے ہماری حویلی میں آگیا۔ ابا جان نے منوں کے حساب سے مٹھائی بانٹی تھی۔ میں بھی خوش تھا اور اپنے آپ پر فخر کر رہا تھا۔کاکول اکیڈیمی سے پاسنگ آؤٹ کے بعد میری تقرری کراچی ہو گئی۔ پھر مختلف شہروں میں گھومتے گھومتے میں میجر بن گیا۔ پنوں عاقل میں ایک یونٹ میرے حوالے کی گئی تو میری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا۔یونٹ کے لوگوں سے جب میرا تعارف کرایا گیا تو ایک سپاہی سے مل کر میں نہ صرف چونکا بلکہ میرے اندر حسد اور نفرت نے جنم لیا۔ اتفاق سے اس کا نام بھی لہراسب خان تھا۔ یہ میری برداشت سے باہر تھا کہ میری ہی یونٹ میں کوئی میرا ہم نام ہو۔ پہلے دن ہی سے مجھے خواہ مخواہ اس سپاہی سے بیر ہو گیا۔نام تبدیل کرانا تو میرے بس میں نہ تھا، مگر اسے ہر معاملے میں نظر انداز کرنے لگا۔ میں اس کے کام میں کیڑے نکالتا اور اسے ڈانٹ بھی دیتا مگر وہ کوئی گلہ شکوہ نہ کرتا اور میری ڈانٹ ڈپٹ سہ لیتا۔ کسی کو بھی وجہ معلوم نہ تھی کہ میں لہراسب سپاہی کے ساتھ سختی سے کیوں پیش آتا ہوں۔اس کی شکل و صورت بھی دلکش تھی اور وہ ایک بھرپور جوان تھا۔ یونٹ میں مقبول تھا کہ اس کا اخلاق اچھا تھا، مگر مجھے اس کی شکل اور کوئی بات اچھی نہ لگتی۔ ان دنوں ہماری یونٹ کوئٹہ میں تھی کہ لہراسب کی شادی طے ہو گئی۔اس نے ایک ماہ کی چھٹی کی درخواست لکھی جو میں نے نامنظور کر دی اور اسے صرف 6 دن کی رخصت دی۔ وہ میانوالی کے نواح میں ایک گاؤں کا رہنے والاتھا۔ کوئٹہ سے وہاں جانے میں ایک دن تو لگ ہی جاتا تھا۔لہراسب نے یونٹ کے صوبیدار سے سفارش کرائی کہ میں اس کی چھٹی بڑھا دوں مگر میں نے انکار کر دیا، وہ گاؤں چلا گیا۔ اس کی شادی ہو گئی۔یونٹ سے دو ساتھی اس کی شادی میں شرکت کرنے گئے۔ 6 دن بعد وہ واپس ڈیوٹی پر آگیا۔ اس نے شادی کی خوشی میں یونٹ کے ساتھیوں کو پارٹی دی مگر میں نے کوئی بہانہ بنا دیا اور اس کی خوشی میں شریک نہ ہوا۔ میری غیر حاضری کو یونٹ کے سبھی لوگوں نے محسوس کیا مگر میں بے حس بنا رہا حتیٰ کہ میں نے اسے شادی کی مبارکباد بھی نہ دی۔اباجان میری شادی جہلم شہر میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ میجر کی بیٹی سے کرنا چاہتے تھے۔ پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتے رہے، مگر جب میں میجر بن گیا تو انھوں نے ہاں کردی۔ یوں میری شادی ابا جان کی مرضی کے مطابق ہو گئی۔ میں نے اپنی شادی پر سوائے افسروں کے کسی کو نہ بلایا اور پورے ایک ماہ کی چھٹی بھی گزاری۔یونٹ والوں کو میری شادی کا علم ہوا تو سب نے مجھے مبارک دی۔ ان میں لہراسب بھی شامل تھا۔ یونٹ والوں کے اصرار پر میں نے آرمی میس میں پارٹی کا انتظام کیا۔ جس میں لہراسب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دوڑ دوڑ کر سارے کام کیے مگر اس کی پھرتیاں میرا دل موم نہ کر سکیں۔میرے اندر حسد کی آگ بڑھتی ہی گئی، کبھی کبھی جی چاہتا کہ اس کو بلاؤں اور کہوں کہ تم اپنا نام بدل لو… میں برداشت نہیں کر سکتا کہ میری یونٹ میں کوئی میرا ہم نام بھی ہو مگر پھر یہ سوچ کر ہمت نہ پڑتی کہ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا؟یوں ہی ایک سال گزر گیا۔ مجھے سرکاری رہائش مل گئی اور میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آیا۔ سپاہی لہراسب خان کو گاؤں سے والد کا خط آیا کہ اس کی بیوی اْمید سے ہے اس لیے وہ چھٹی لے کر گاؤں آئے۔ شاید زچگی نزدیک تھی، سپاہی لہراسب نے چھٹی مانگی تو میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بچہ تو تمھاری بیوی نے جنم دینا ہے تم نے نہیں۔وہ مایوس اور شرمندہ سا ہو کر گیا تو میرے دل کو سکون سا آگیا۔ تین دن بعد اسے تار ملا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ خوشی میں اس نے یونٹ والوں کو مٹھائی کھلائی۔ ڈبا میرے لیے لے کر میرے پاس بھی آیا اور یہ خوشخبری سنائی کہ اوپر والے نے اسے بیٹا دیا ہے۔ میں نے اسے مبارک باد تک نہ دی اور صرف یہی کہا ”اچھا ہوا ہے۔“ اس نے مٹھائی کا ڈبا میری میز پر رکھتے ہوئے کہا ”میں گھر جا کر بیٹے کو دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے چھٹی چاہیے۔“میں نے مٹھائی کاڈبا اْسے واپس کر دیا اور کہا ”مجھے مٹھائی کھانے کا کوئی شوق نہیں، اسے واپس لے جاؤ اور فی الحال تمھیں چھٹی نہیں مل سکتی کیونکہ سرحد کے حالات خراب ہیں۔سپاہی لہر اسب نے مایوس ہو کر مٹھائی کا ڈبا اْٹھایا اور افسردہ سا ہو کر باہر نکل گیا۔ نجانے کیوں لہراسب کو دْکھی کر کے مجھے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ آج اسے چھٹی نہ دے کر میں بہت ہی مسرور تھا۔ یوں ہی دو ہفتے گزر گئے۔ اس روز جمعہ تھا، جوان نماز چھاؤنی میں واقع مسجد میں ہی پڑھتے تھے۔ جمعہ کی نماز کے دوران ہی کسی دوسرے سپاہی نے لہراسب کو ایک تار دیا۔ تار میں درج تھا کہ اس کا نوزائیدہ بیٹا وفات پا گیا ہے۔لہراسب نے ٹیلی گرام پڑھا تو دھاڑیں مار کر رونے لگا، اس نے آسمان کی طرف نگاہیں اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا ”میجر لہراسب … خدا کرے، تو بھی زندگی بھر اولاد کی خوشی نہ دیکھے۔“یہ بات مجھے ایک جوان کی زبانی معلوم ہوئی۔
یہ کہہ کر وہ یونٹ سے غائب ہو گیا، ظاہر ہے اس نے گاؤں ہی جانا تھا لیکن مجھے غصہ آیا کہ وہ مجھ سے چھٹی لے کر کیوں نہیں گیا؟ سوچا واپس آئے گا تو اس کے خلاف کارروائی کروں گا مگر لہراسب لوٹ کر نہ آیا۔ میں نے دفتری کارروائی کی۔ جب کوئی جواب نہ آیا تو بالآخر اسے بھگوڑا قرار دے کر ملازمت سے فارغ کر دیا۔
چند ہی ماہ بعد میں لہراسب کو بھول گیا۔ ان دنوں میری بیوی اْمید سے تھی۔ گاؤں سے امی اور ایک نوکرانی آگئی تھیں۔ ملازمہ میری بیوی کی خدمت کرتی اور اسے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتی۔ میں اسے ہر پندرہ دن بعد ملٹری ہسپتال لے جاتا اور اس کا چیک اپ کرواتا۔ہم سب بہت خوش تھے، ہماری خوشیاں اس وقت دوچند ہو گئیں جب میں ایک خوبصورت بیٹے کا باپ بن گیا… ہم نے ڈھیروں خوشیاں منائیں، مٹھائیاں بانٹیں اور دعوتیں کی گئیں۔ جواد میرا بیٹا دوماہ کا تھا کہ اسے بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کو دِکھایا، دوا لی مگر کوئی افاقہ نہ ہوا تو اسے ہسپتال داخل کرنا پڑا مگر بخار اْترنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ ڈاکٹروں کی بھی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ بخار کیوں نہیں اتر رہا؟تین دن بعد جواد زندگی سے ناتا توڑ گیا۔ اس روز میں بہت رویا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا… ایک سال بعد پھر میں ایک بیٹی کا باپ بنا، وہ بھی جواد ہی کی طرح دو ماہ بعد بخار میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کر گئی۔ ڈاکٹروں کی سمجھ میں بیماری نہ آتی تھی کہ دو ماہ بعد بچے کو بخار ہوتا اور وہ زندگی سے ناتا توڑ جاتا۔ میں ہر طرف سے مایوس ہو کر پیروں
فقیروں کے پاس گیا مگر کسی کی دعا نے اثر نہ کیا۔ میری بیوی پانچ بار ماں بنی… لیکن ہمارے بچے زندہ نہ رہے۔پانچویں بچے کی موت کے بعد ایک رات میں نے خواب میں سپاہی لہراسب کو دیکھا تو مجھے یاد آیا۔ میں نے اپنے جوان کی خوشیاں چھینی تھیں تو اس نے مجھے بددعا دی تھی کہ میں بھی اولاد کی خوشیاں نہ دیکھوں۔یہ یقینا لہراسب کی بددعا کا ہی اثر ہے کہ میں آج تک اولاد کی خوشیاں نہ دیکھ سکا۔ پچھتاوے کی آگ نے مجھے گھیر لیا، اگلے روز میں بیوی کو ساتھ لیے سپاہی لہراسب کے گاؤں روانہ ہو گیا تاکہ اس سے معافی مانگ سکوں۔گاؤں پہنچ کر علم ہوا کہ لہراسب خان جب پہنچا تو اس کے بیٹے کو دفنا دیا گیا تھا وہ بیٹے کی قبر سے لپٹ کر اتنا رویا کہ اس کی روح بھی پرواز کر گئی۔ اس کی گور بھی بیٹے کی قبر کے ساتھ ہی بنی ہوئی تھی۔ میں نے اس کی قبر پر جاکر اس سے معافی مانگی مگرشاید سپاہی لہراسب نے مجھے معاف نہیں کیا کیونکہ ہم اولاد کی خوشیاں نہیں دیکھ سکے۔ اب تو ہم میاں بیوی بوڑھے ہو چکے ہیں۔ میں اب ہر لمحہ توبہ اور استغفار کرتا رہتا ہوں، اللہ شاید معاف کر دے۔
نہ کر سختیاں زیر دستوں کے ساتھ
کہ تیرے بھی ہے ہاتھ پر کوئی ہاتھ
٭٭٭
لگا۔ وہ ہر روز جب معذور خاوند کو ریڑھی پر بٹھا کر باہر نکلتی ہے تو ایک نیا عزم اس کے ہمرکاب ہوتا ہے۔ اسے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اسے یقین ہے کہ ایک روز اس کے خاوند کا علاج بھی ہو جائے گا۔ ”اب مجھے راستہ مل گیا ہے۔“ اس کا اعتماد اور حوصلہ قابلِ تعریف تھا۔
زندگی کی حقیقت سے کشید کی ہوئی یہ کہانی۔ ایسی کہانیاں ہر گلی محلے میں بکھری پڑی ہیں۔ افسوس! ہم کہانیاں پڑھتے ہی نہیں۔ ہم جانتے ہی نہیں کہ کوئی کتنا مجبور ہے۔شاید وہ وقت بہت دور نہیں جب ہم سے پوچھا جائے گا کہ ہماراہمسایہ کس حال میں تھا۔ خوشحال بستیوں کے ساتھ جو کچی بستی تھی وہاں زندگی کیسے بسر ہو رہی تھی۔