کر ونظر
دینی مدارس کے فضلا کی ایک اہم کمزوری
مفتی محمد زاہد
ایک عمومی خیال یہ ہے کہ علما اور اہلِ فتوی کے فکری رویّوں میں اگر خامیاں ہیں تو اس کی واحد وجہ حالاتِ زمانہ اور اس کے تقاضوں سے ناواقف ہونا ہے، لہذا مسئلے کا سیدھا سادا حل یہ ہے کہ مولویوں کو انگلش اور کمپیوٹر سکھا دو، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ درست ہے ایک عالم کے لیے اپنے زمانے سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے لیکن نہ تو زمانے سے ناواقفیت اکیلی مسائل یا کمزوریوں کی وجہ ہے نہ ہی محض کمپیوٹر اور انگریزی کے کورسز کرادینے سے بندہ زمانے کے تقاضوں سے واقف ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے مسئلے کے بہت سے متنوع پہلو ہیں۔ میری نظر میں مدارس کے فضلا میں پائی جانے والی ایک بہت بڑی کمی خود ان کا اپنی تراث سے ناواقف ہونا ہے۔ عصری جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ میں تو عموما کتبِ ثرات کو سمجھنے کی سرے سے صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی، مدارس میں کتاب فہمی کی صلاحیت تو ایک حد تک پیدا ہوجاتی ہے لیکن ایک تو اس صلاحیت میں بھی متعدد نقائص رہ جاتے ہیں، دوسرے چند درسی یا افتا میں استعمال ہونے والی کتابوں کے علاوہ بحیثیت مجموعی اپنی تراث سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اس لیے اس کی طرف مراجعت کا کوئی جذبہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپ سروے کریں تو سالہا سال سے افتاء کی خدمات انجام دینے والوں میں آپ کو کئی ایسے مل جائیں گے جنہوں نے امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی یا دوسری، تیسری چوتھی صدی ہجری کے مصنفین کی کتابوں کو شاید کبھی ہی ہاتھ لگایا ہوگا۔ میں نے ایک دفعہ دورہ حدیث کے طلبہ سے پوچھا کہ آپ میں سے کون ہیں جنہوں نے اسماء الرجال کی کسی کتاب کو محض ہاتھ لگاکر دیکھا ہو، شاید ہی ایک آدھ کھڑا ہوا ہو۔ اگر یہ پوچھ لیتا کہ بتائیے کہ ”سر کف سر بلند“ کون ہیں تو شاید کلاس کا ایک ایک طالب علم پوری پوری تقریر اس پر کرنے کے لیے تیار ہوتا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ سائنس پڑھانے سے رویوں میں توسع پیدا ہوجاتا ہے، جبکہ عملًا شاید معاملہ برعکس ہو، اس لیے کہ سائنس تو بتاتی ہی یہ ہے کہ کسی سوال کا صحیح جواب دوٹوک ریاضیاتی انداز میں ایک اور حتمی ہوتا ہے۔ جبکہ دینی علوم کی اساس ہی اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک ہی معاملے پر غور کرنے والے ہوسکتا ہے اسے مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہوں اور ان کے نتائجِ فکر بھی مختلف ہوں۔
کسی دینی مسئلے کی درست تفہیم بھی تبھی ممکن ہے جبکہ نہ صرف متعلقہ نصوص وآثار سامنے ہوں بلکہ غور کرنے والے کے سامنے ہو کہ چودہ سو سال میں یہ مسئلہ کن کن مراحل سے گزرا اور کون کون سے استدلالات اور انداز ہائے استدلال اس سے منسلک رہے اسے معلوم ہوتاہے کہ سلف کے درمیان بحث ومباحثے اور استدلال کا انداز کیا ہوتا تھا، یعنی ہمارے قدیم علما کی ریسرچ میتھاڈولوجی کیا ہوتی تھی نہ صرف یہ کہ چند متون کے ذریعے ان سے واقف ہو بلکہ ان کی بحثوں میں اسے بار بار دیکھ کر، برت کر ذوق آشنا بھی ہوچکا ہو۔ میری عرصے سے یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ اپنے طلبہ اور فضلا کو جب تک تراث کی تفصیلی، گہری اور براہِ راست واقفیت عطا نہیں کی جائے گی اور اس کے لیے منظم طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا بہت سے مسئلے جوں کے توں رہیں گے، بالخصوص ایک خاص قسم کی سطحیت سے وہ بالا تر نہیں ہوسکیں گے۔ اگر اپنے فضلا کو جدید فتنوں کے مقابلے کے قابل بنانا ہے تب بھی ان کے اندر تراث سے عملی لگاؤ پیدا کرنا ہوگا، اس سے علم میں ایک خاص قسم کی وسعت بھی پیدا ہوتی ہے اور تعمق بھی۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ جو جدید قسم کے مدرسا ریفارمز والے لوگ ہیں انہیں اس طرح کوئی بات سمجھانا ہی مشکل ہوگا، ان کی سوئی تو اس پر اٹکی ہوتی ہے کہ مولویوں کو کمپیوٹر سکھادو، انگریزی سکھادو، کاروبار کرنا سکھا دو، چھوٹی موٹی ملازمتوں کے خواب دکھا دو، باہمی برداشت اور رواداری پر انہیں لیکچر دے دو (میں بھی ان چیزوں کا مخالف نہیں ہوں، لیکن مسئلے کا اصل حل یہ نہیں ہے) دوسری طرف جو قدیم کے نمائندے کہلاتے ہیں انہیں تراث کے ساتھ اتنا زیادہ جوڑ اس لیے وارا نہیں کھاتا کہ ان میں سے بہت سوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان جیسے چند زندہ افراد ہی کو سلفِ صالحین کا متبادل سمجھ کر ان کا دامن تھام لیا جائے، یا وہ واقعی دیانت داری سے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اپنے فضلا کو ”فتنوں“ سے بچانے کا واحد راستہ یہی ہے۔
شروع ہی سے میرے ذہن میں اس ضرورت کا احساس رہا ہے، اور جہاں موقع ملا تھوڑا بہت کچھ قدم اٹھانے کی بھی کوشش کی، لیکن وہ الگ موضوع ہے، اس تحریر کا مقصد محض اس ضرورت کی طرف توجہ دلانا ہے، مجھے امید ہے کہ زیادہ عرصے تک یہ صدا رائیگاں نہیں جائے گی۔
٭٭٭