اصلاح و دعوت
لباس کی سنت پہ شدت کیوں
سید اسرار احمد بخاری
گزشتہ دنوں ایک دوست اپنے ساتھ بیتے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے خاصے جذباتی ہو رہے تھے مسئلہ یہ تھا کہ بعض بھلے دوستوں کی صحبت کی برکت سے اُن میں نماز اور مسجد کے ماحول سے رغبت پیدا ہوئی۔الحمد للہ وہ اپنے اندر آنے والی اس تبدیلی سے خاصے مطمئن بھی تھے اور اللہ کا شکربھی ادا کرتے کہ انہیں اچھے ماحول کی برکت سے نماز کی توفیق ملنے لگی ہے۔تاہم کچھ عرصے میں مسجد ہی کے ماحول میں کچھ بزرگوں نے جب اُن کی '' اصلاح'' کا بیڑہ اٹھایا تو سرپر پیر رکھ کر بھاگے کہ بھائی اس سے تو ہم بے نمازی ہی بھلے!! اور مسئلہ وہی '' پینٹ شرٹ''
معاملہ یہ ہے کہ بہت سے علماء لباس کی '' سُنّت'' اپنانے پر ضرورت سے زیادہ زور دیتے ہیں، جبکہ اس معاملے میں اعتدال کی روش اپنانا ہی دانشمندی اور وقت کا تقاضا ہے۔سب سے پہلے جو بات ہم جیسے طلباء کو جاننی چاہیے وہ یہ ہے کہ سنت کا تصور ہے کیا؟عام طور پر علماء سنت کو دو اقسام میں بیان کرتے ہیں ایک سنت ھدیٰ اور دوسری سنت زوائد جنہیں سنن عادیہ بھی کہا جاتا ہے۔اصل اختلاف سنن ھدیٰ و زوائد کے تعیین میں ہے۔تعریف یہ ہے کہ جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی حیثیت سے جاری کیا وہ سنن ھدٰی ہے اور جو کام آپ نے عادتاً یا اپنے دور کے رسم و رواج کے طور پر کیا وہ سنن زوائد میں آتا ہے اور وہ دین نہیں ہے۔
اختلاف اصلاً اس کے تعین میں پایا جاتا ہے کہ کون سا کام سنت ھدیٰ ہے اور کون سا سنت زوائد۔
اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو یہ تعین زیادہ مشکل بھی نہیں، راقم کی طالب علمانہ رائے میں اس فرق و تفاوت کی وجہ علماء کرام کے ذہنی رحجانات اور ذوق کا فرق ہے۔
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی عمل کیا اس کو من و عن اپنانے میں اجرو ثواب ہے۔چنانچہ نبی علیہ السلام کا مخصوص لباس پہننا، لوکی پسند کرنا، حجامہ کرانا، بھی اس گروہ کے نزدیک باعث برکت اور اجرو ثواب ہے حالانکہ یہ دین نہیں بلکہ سنن زوائد یا سنن عادیہ میں آتا ہے۔
اس گروہ کے دلائل یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اتباع ہر معاملے میں باعث اجرو ثواب ہے خواہ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا۔
دوسرے گروہ کے خیال میں سنن زوائد کو سنت میں شمار ہی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے دین میں وہ کلچر شامل ہوجاتا ہے جس پر عمل درآمد آج کے دور میں کرنا مشکل بھی ہے اور دین کے احکامات کی فہرست کو غیر ضروری طور پر طویل کردیتا ہے۔جیسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پچھنے یعنی حجامہ کرایا اس گروہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ کسی فضیلت کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ اس زمانے کا یہ معروف علاج تھا جبکہ آج لوگ حجامہ کو سنت بنا کر کاروبار کررہے ہیں۔اس گروہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ اور گھوڑوں پر سفر کرنا، مخصوص لباس پہننا، لوکی کو پسند کرنا کسی فضیلت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے ذوق، عادت اور کلچر کی بنیاد پر تھاجس کی پابندی میں کوئی فضیلت نہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپ کو گوہ کھانا پسند نہ تھا لیکن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ کی موجودگی میں گوہ کو کھایا اور آپ نے کوئی نکیر نہیں کی۔
راقم الحروف کے نزدیک دوسرے گروہ کے دلائل زیادہ مضبوط اور قابلِ عمل ہیں تاہم واضح رہے کہ سنن زوائد یعنی کھانے پینے، سونے جاگنے میں آپ ﷺ کی عادت طیبہ کو اختیار کرنے والا سنت پر عامل کہلائے گا جو بڑی سعادت وخوش نصیبی کی بات ہے۔
یقین واثق ہے اللہ رب العزت کے ہاں وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا اجر پائے گا، تاہم سنن عادیہ کا ترک گناہ کا باعث نہیں ہے۔ کیونکہ یہ چیزین دین نہیں ہیں۔
دونوں گروہوں کے دلائل کے بعد جو بات مدلل لگے اس پر عمل کرلینا چاہیے، اورشدت
پسندی سے گریز کرنا چاہیے۔
٭٭٭