غير اللہ سے استمداد

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : دسمبر 2025

دين و دانش

غير اللہ سے استمداد

فہد حارث

ہمارے بعض بھائی جو استمداد لغیر اللہ اور ولیوں اور انبیاء سے بعد از وفات مدد مانگنے کے قائل ہیں، اکثر اپنے اس غیر صائب عقیدے کے دفاع میں یہ اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ "اگر آپ حضرات اللہ کے سوا کسی کو بھی نفع ونقصان پہنچانے پر مختار و قادر نہیں مانتے تو پھر اپنی بیماریوں کے علاج کے لیے حکیموں اور ڈاکٹروں کے پاس کیوں جاتے ہیں، اگر ان کی دوائیاں اور نسخے آپ کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں تو پھر مشکلات و مصائب میں ولی و بزرگ کے ازالۂ مشکلات کا عقیدہ رکھنے سے شرک کیوں لازم آئے۔"

دیکھئے شریعت میں علاج و معالجہ کی نہ صرف اجازت موجود ہے بلکہ اسکا حکم بھی ہے ، تاہم ہمارا حکماء و ڈاکٹروں کے پاس جانا ان کی زندگی تک محدود ہوتا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اطباء کی قبروں کا رخ کیا، ان کو اپنی حالتِ زار بتائی اور انہوں نے بعد از مرگ ہمارا کامیابی سے علاج کردیا؟ یقیناً نہیں۔ ہم ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس ان کی زندگی میں جاتے ہیں اور وہ اسباب کے تحت ہمارا علاج کرتے ہیں۔ وہ جب تک زندہ ہیں، مریض کا آلات و دواؤں کے ذریعے علاج کرتے ہیں، اپنے کانوں سے اس کی کیفیت سننے کے بعد مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔ جبکہ بعد از مرگ وہ ان تمام صلاحیتوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور نہ پھر کوئی ان کی قبر پر اپنے علاج کے لیے جاتا ہے اور نہ وہ کسی کو نسخہ لکھ کر شفایاب کرتے ہیں۔ کیونکہ جن ظاہری اسباب کی مدد سے وہ اپنی طبابت کے امور سر انجاد دیتے تھے، موت کے بعد وہ کلی طور پر ان سے مفقود ہوجاتے ہیں، اسی لیے کوئی بھی بعد از وفات ان کے پاس علاج و معالجہ کے لیے نہیں جاتا۔ اور جو ایسا کرے تو لوگ اسے پاگل و مجنون ہی کہیں گے۔بعینہٖ یہی حال اولیاء اللہ اور انبیاء کا بھی ہے کہ جب تک وہ زندگی سے بہرہ ور ہیں، لوگوں کے مختلف دینی اور دنیوی مسائل کو اللہ کی طرف سے عطا شدہ علم و دانش کے ذریعے حل کرسکتے ہیں، اسی طرح جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی کسی مصیبت کو لیکر حاضر ہوتا ہے تو وہ اللہ کے حضور اس کے لیے دعا کرسکتے ہیں، رہی قبولیت، تو یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ چاہے تو قبول فرمالے اورچاہے تو رد کردے۔ تاہم بمثلِ حکماء و اطباء مرنے کے بعد یہ اولیاء و انبیاء ظاہری اسباب و ذرائع کے منقطع ہونے کے سبب سے نہ تو کسی کو نفع دینے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں، بلکہ مرنے کے بعد تو یہ اپنی قبر پر آئے شخص کی بات تک سننے سے قاصر ہوتے ہیں جیسا کہ ہدایہ کی جلد ایک صفحہ ۴۸۴ جبکہ شامی کی جلد سوم صفحہ ۱۸۰ میں منقول ہے کہ

و کذالک الکلام و الدخول لان المقصود من الکلام الافھام ینافیہ

یعنی"اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم کھائی کہ میں تم سے کلام نہ کرونگا یا یوں کہ میں تمہاری ملاقات اور زیارت کو نہ آؤنگا ، پھر بعد از موت اس کی لاش سے اس نے کلام کیا یا قبر کی زیارت کی تو قسم نہ ٹوٹے گی کیونکہ کلام سے مقصود سمجھانا ہوتا ہے اور موت اس سے روک دیتی ہے۔"اسی بات کو ہدایہ کی شرح فتح القدیر جلد ۴ صفحہ ۱۰۰ میں یوں کہا گیا ہے :اذا حلف لا یکلمہ اقتصر علی الحیاۃ فلو کلمہ بعد الموت لا یحنث لان المقصود منہ الافھام و الموت ینافیہ لا یسمع ولا یفھم

یعنی "اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ میں فلاں کام نہیں کرونگا تو یہ زندگی کے ساتھ محدود ہے۔ پس اگر بعد موت کلام کیا تو قسم نہ ٹوٹے گی، اس لیے کہ کلام سے مقصود سمجھانا ہوتا ہے اور موت اس سے روک دیتی ہے کیونکہ میت نہ سن سکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے۔"