دين و دانش
کیا چہرے کا پردہ کرنا ضروری ہے ؟
غلام نبی کشافی
چہرے کے پردہ کے حوالے سے علماء کے ہاں دو طرح کا موقف پایا جاتا ہے ، ایک یہ کہ چہرہ بھی پردہ میں شامل ہے ، اور وہ چہرہ کو اصل فتنہ قرار دیتے ہیں ، اور دوسرا یہ کہ چہرہ اور ہاتھ پردہ سے مستثنیٰ ہیں - میری تحقیق کے مطابق یہ دوسرا موقف ہی قرآن و حدیث سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ، اور قابل عمل بھی ہے ، چونکہ قرآن میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو یکساں طور پر حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ، جیساکہ اللہ تعالی پہلے مردوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے ۔
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِھمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَھمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَھمۡ ؕ اِنَّ اللّٰه خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ۔ ( النور : 30)
مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ طریقہ ان کے لئے پاکیزگی ہے ، بیشک اللہ اس سب سے باخبر ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔
اسی طرح پھر خواتین کے لئے بھی یہی حکم کچھ اہم باتوں کے اضافہ کے ساتھ دے دیا گیا ہے ، اور اس دوسرے حکم کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے ۔
وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہدهنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَهنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَهنَّ اِلَّا مَا ظَهرَ مِنۡها . الآيه( النور :31)
مومن عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو ظاہر ہوجائے ۔
اس شرعی حکم کا اطلاق مردوں اور عورتوں پر اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب دونوں کا چہرہ کھلا ہو ، لیکن اگر خواتین کا چہرہ بند ہو ، تو پھر اس صورت میں اس حکم کا مردوں کے لئے تحصیل حاصل کے سوا کچھ نہیں ہوگا ، کیونکہ جب عورت کا چہرہ کھلا ہوگا ، تو اسی صورت میں مرد اپنی نظریں نیچی کر دے گا ، لیکن اگر عورت کا چہرہ بند ہوگا تو پھر ایسی حالت میں مرد کا دیکھنا اور نہ دیکھنا دونوں برابر ہوگا ۔
اسی طرح خواتین کو بھی نظریں نیچی رکھنے کا حکم اس لئے دے دیا گیا ہے کہ مردوں کا چہرہ کھلا ہوتا ہے ، کیونکہ اگر مردوں کا چہرہ بھی ڈھکا ہوا ہوگا ، تو پھر اس صورت میں بھی خواتین سے یہ کہنا کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں ، کوئی معنی نہیں رکھتا ، اس لئے اس حکم کا اطلاق اسی صورت میں مرد و خواتین پر ہوسکتا ہے ، جب دونوں کے چہرے کھلے ہوں ، اور پھر وہ ایک دوسرے کے چہروں کو نہ دیکھتے ہوئے اپنی نظریں نیچی رکھ سکیں ۔
اس طرح سے اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین کا چہرہ پردہ میں شامل نہیں ہے ، نیز خواتین کے حکم میں یہ بات بھی شامل ہے ۔
وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَهنَّ اِلَّا مَا ظَهرَ مِنۡها اور عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو ظاہر ہوجائے ۔اس حکم میں " اِلَّا مَا ظَهرَ مِنۡها " سے بہت سے علماء نے احادیث نبوی کی روشنی میں چہرہ اور ہاتھ کو مستثنیٰ قرار دے دیا ہے ، اور لباس میں ان کی رعایت اور رخصت دے دی گئی ہے ۔
علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے اگرچہ ڈاکٹر اسرار نے اس کا رد بھی کیا ہے ، مگر غور کرنے سے ان کا موقف دلائل کے اعتبار سے کمزور نظر آتا ہے ، چنانچہ مولانا وحید الدین خان نے پردہ کے بارے میں وہی موقف اختیار کیا ہے ، جو علامہ ناصر الدین البانی کا ہے اور انہوں نے اپنی کتاب "خاتون اسلام میں " پردہ کا حکم " کے تحت علامہ ناصر الدین البانی کی عربی کتاب کا خلاصہ اپنے أردو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جیساکہ ایک جگہ پر یہ اقتباس پڑھنے کو ملتا ہے ۔
" حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کفین (ہتھیلیاں ) الاما ظهر منها میں داخل ہیں۔ کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی ۔آگے فقہا نے قدمین کو بھی ان ہی اعضا پر قیاس کیا ہے ۔ لیکن واضح رہے کہ ، الا ما ظهر ، سے صرف عورتوں کو بہ ضرورت ان کے کھلا رکھنے کی اجازت ہوئی۔ نامحرم مردوں کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ ان اعضاء کا نظارہ کریں۔ شاید اسی لئے اس اجازت (آیت 31) اس سے پیشتر ہی حق تعالے نے غض بصر کا حکم (آیت 30) مومنین کو سنا دیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف سے کسی عضو کے کھولنے کی اجازت اس کو مستلزم نہیں کہ دوسری طرف سے اس کو دیکھنا بھی جائز ہو "( خاتون اسلام : ص 258/ایڈیشن 2008ء نئی دہلی)
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نزدیک بھی چہرہ پردہ میں شامل نہیں ہے ، جیساکہ وہ اپنی ایک مشہور کتاب میں لکھتے ہیں ۔انما سومح في الوجه و الكفين لأن سترهما فيه حرج على المرأة و خاصة إذا كانت تحتاج إلى الخروج المشروع ، كأرملة تسعي على أولاد ها ، أو فقيرة تعمل في مساعدة زوجها ، فان فرض النقاب عليها و تكليفها في كل ذلك مما يعرفها ، و يشق عليها .( الحلال و الحرام في الاسلام : ص 149)
بلاشبہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے بارے میں یہ رعایت اس لئے دے دی گئی ہے کہ ان کو چھپانا عورت کے لئے باعث حرج ہے ، خاص طور سے ایسی صورت میں جبکہ اسے جائز ضرورت سے باہر نکلنا پڑے ، مثلاً بیوہ عورت کو اپنی اولاد کی ضروریات کے لئے اور غریب عورت کو اپنے شوہر کی معاونت کے لئے باہر نکلنا پڑے ، ایسی صورت میں نقاب ڈالنے اور ہتھیلیاں چھپانے کی پابندی اس کے لئے مشکلات اور دشواریوں کا باعث ہوگی ۔
امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ لکھتے ہیں ۔و بدن الحرية كلها عورة الا وجهها و كفيها.( الهداية : ج 1 ، ص 153/ ایڈیشن 2013ء)
علامہ ابن رشد قرطبی اندلسی عورت کے چہرہ کے پردہ کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
فأكثروا العلماء على أن بدنها كله عورة ما خلا الوجه و الكفين.
(بداية المجتهد و نهاية المقتصد : ج 2 ، ص 157/انڈین ایڈیشن
اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا سارا بدن ستر (یعنی قابل پردہ) ہے، سوائے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے۔
اس مسئلہ پر سب سے زیادہ مدلل بحث مولانا شمس پیر زادہ نے اپنی تفسیر " دعوۃ القرآن " میں کی ہے ، اور واضح دلائل کی روشنی میں لکھا ہے کہ بعض صحابیات چہرہ کا پردہ کرتی بھی تھیں اور بعض نہیں بھی کرتی تھیں ، اور انہوں نے اس سلسلہ میں بخاری و مسلم کی مستند احادیث کے حوالے سے کئی واقعات لکھے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی صحابیات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں چہرہ کا پردہ نہیں کرتی تھیں ۔ اور پھر آگے موجودہ زمانے میں ٹريفک کے ازدحام کی وجہ سے بڑھتے ہوئے حادثات کے تناظر میں وہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں ۔
" موجودہ زمانہ میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کے پیش نظر عورت اپنا چہرہ کھلا رکھنے پر مجبور ہے ، بس ، ریل وغیرہ کا گھنٹوں اور دنوں کا سفر نقاب کی صورت میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے ، اس لئے نقاب اٹھائے بغیر چارہ کار نہیں ، خرید و فروخت اور لین دین کے موقع پر بھی ہتھیلیوں کا کھل جانا ایک معروف بات ہے ، اس لئے پردہ کے احکام میں ایسی شدت پیدا کرنا کہ شریعت کی دی ہوئی رخصتیں ختم ہو جائیں ، نہ صحیح ہے اور نہ مفید "
( دعوۃ القرآن - ج 2 ، ص 1224)
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں آبادی میں بے پناہ اضافہ ہونے اور ٹريفک کے ازدحام کی وجہ سے عورتوں کا ضرورت کے وقت گھر سے نکلنے اور روڈ پر چلنے یا روڈ کراس کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اور پھر چہرہ پر نقاب ہونے کی صورت میں ان کی دقتیں اور بڑھ جاتی ہیں ، اس لئے اگر شریعت اسلامی میں چہرہ کھلا رکھنے کی رعایت موجود ہے ، تو پھر عورتوں کو اس رعایت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ، اور چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ شرعی پردہ کی پابند ہوجائیں ۔ کیونکہ یہ بات صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے ، طوالت سے بچتے ہوئے یہاں صرف تین حدیث نقل کی جاتی ہیں ۔
(1) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَشْعَمَ فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ وَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ۔(صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ : بَابُ وُجُوبِ الحَجِّ وَفَضْلِهِ : رقم الحدیث 1513)
سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں ایک دفعہ فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنےلگے ، اور وہ عورت بھی فضل بن عباس کو دیکھنے لگی۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ! اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے،میرے والد بڑے بوڑھے ہیں، وہ سواری پر ٹھہر نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، ( تم ایسا کرسکتی ہو ) اور یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔
اس حدیث کے مطابق ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا چہرہ کھلا تھا ، اس لئے سیدنا فضل بن عباس کی نظر اچانک اس کے چہرہ پر پڑھ گئی تھی ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا ، تاکہ وہ اس خاتون کا چہرہ نہ دیکھ سکے ۔
(2) عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ(سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ : بَابُ الْمَرْأَةِ تُصَلِّي بِغَيْرِ خِمَارٍ : رقم الحدیث 641/ صحیح)
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ حیض والی ( بالغ عورت) کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا ۔
اس حدیث پر غور کرنے سے کئی باتیں سمجھ میں آتی ہیں ، جیسے اوڑھنی سے صرف سر ، کان ، گردن اور سینہ ڈھانک لیا جاتا ہے ، چہرہ کھلا رہتا ہے ، اسے ڈھاکانکا نہیں جاتا ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری نہیں ہے ۔ ورنہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور فرما دیتے کہ چہرہ کا پردہ ناگزیر ہے ، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ کا پردہ ضروری نہیں ہے ۔
(3) عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ.(ابو داؤد . كتاب اللباس : رقم الحديث
4104 / صحیح الاسناد عند الالباني)
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں ، اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا ، اور فرمایا : اے اسماء ! جب عورت بالغ ہوجائے تو جائز نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے ، اور آپ نے اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا ۔
یہ حدیث چہرہ اور ہتھیلیوں کے کھلا رکھنے کے حوالے سے قطعی اور فیصلہ کن ہے ، اس لئے جو خواتین چہرہ کا پردہ نہیں کرتی ہیں ، ان کو چہرہ کے پردہ پر بھی مجبور کرنا درست نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی عورت اپنا چہرہ بھی ڈھانپنا چاہتی ہے ، تو وہ ایسا کرسکتی ہے ، اور ایسا کرنا قابل ستائش بھی ہے ، تاہم اگر کوئی عورت شریعت اسلامی کی رخصتوں پر بھی عمل کرنا چاہتی ہے ، تو ایسا کرنے کے لئے اس کو اجازت ہے ، اور کسی کو یہ حق نہیں بنتا کہ وہ اسے چہرے کے پردہ پر بھی مجبور کرے ، اور یا اس کو چہرہ کا پردہ نہ کرنے پر مطعون کرے -
جلباب سے مراد
اسلام میں خواتین کے پردے کے بارے میں تفصیلی احکام آئے ہیں ، چنانچہ اس سلسلہ میں زیادہ تر تذکرہ سورہ نور میں آیا ہے ، لیکن پردہ کا کچھ ذکر سورہ احزاب میں بھی آیا ہے ، جو سورہ نور سے ایک سال پہلے نازل ہوئی تھی ، جس میں مسلمان خواتین کے بارے میں ایک یہ آیت نازل ہوئی تھی ۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ۔( الاحزاب : 59)
اے نبی ! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ کر اسکا کچھ حصہ نیچے لٹکا لیا کریں، یہ طریقہ ان کی پہچان کے لئے زیادہ مناسب ہے ، اور وہ ستائی نہ جائیں گی ، اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔
اس آیت میں قابل غور لفظ " جلباب " ہے ، دراصل جِلباب ایک بڑے اور کشادہ سائز کی چادر ہوتی ہے ، جو بہت سی مسلمان خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت اپنے معمول کے لباس کے اوپر ڈالتی ہیں ، تاکہ اس سے وہ اپنی گردن اور اپنے سینے کو چھپا سکیں یا پھر اس چادر کو بھی جلباب کہا جاتا ہے ، جس کا ایک حصہ سر پر ڈالا جاتا ہے ، اور اس کا سامنے کا حصہ بعض اوقات سر کے اوپر سے نیچے کی طرف لٹکتا رہتا ہے ، جو کان اور ناک تک چہرہ سے اوپر کی طرف رہتا ہے ، اگرچہ اس سے دور سے چہرہ ڈھکا ہوا نظر آتا ہے ، لیکن جب سامنے سے دیکھا جائے ، تو چہرہ بالکل صاف دکھائی دیتا ہے ، چنانچہ اس سلسلہ میں ایک غور طلب حدیث اس طرح آئی ہے ۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى ؛ الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ. قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .( صحيح مسلم : كِتَابٌ صَلَاةُ الْعِيدَيْنِ : بَابٌ ذِكْرُ إِبَاحَةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ. رقم الحديث 890)
سیدہ ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں عورتوں کو باہر ( عید گاہ کی طرف ) نکالیں ، دوشیزہ ، اور حائضہ اور پردہ نشین خواتین کو ، لیکن حائضہ نماز سے دور رہیں ، اور وہ خیر و برکت اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک رہیں ، میں نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر ( جلباب) نہیں ہوتی ، آپ نے فرمایا : اس کی ( کوئی مسلمان) بہن اس کو اپنی چادر کا ایک حصہ پہنا دے ۔
مطلب یہ کہ جلباب سے مراد وہی چادر ہے جو سروں سے اوپر گھونگھٹ کی طرح ڈالا جاتا ہے ، جیسے اس حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر کی صورت میں دو خواتین کو اسی ایک چادر کو ایک دوسرے کے سر پر ڈالتے ہوئے عیدگاہ پہنچ جانے کا حکم دیا ، تاکہ پتہ چلے کہ یہ شریف زادیاں ہیں ، لیکن یہاں اس بات کا تعین چہرہ کھلا رکھنے سے ہے اور نہ مکمل ڈھانپنے سے ہے ، بلکہ سروں کے اوپر سے گھونگھٹ کی طرح چادر ڈالنے سے ہے ۔
اسی طرح سورہ احزاب کی اس آیت میں بھی چہرہ اور ہاتھ کا ذکر بالکل بھی نہیں آیا ہے ، اس لئے اس آیت کا چہرہ اور ہتھیلیوں کے پردہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے سورہ نور اور سورہ احزاب کے شان نزول کے تحت لکھا ہے کہ سورہ احزاب 5 ہجری میں اور سورہ نور 6 ہجری میں نازل ہوئی ہیں ۔ لہذا جب پہلے سورہ احزاب کی آیت حجاب نازل ہوئی تھی ، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورہ احزاب میں پردہ کے کچھ ضمنی احکام پہلے نازل ہوئے تھے ، اور سورہ نور ایک سال بعد میں نازل ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ باتوں کا استثناء کرکے واضح کیا گیا ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں پردہ سے مستثنٰی ہیں ۔
مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے سورہ احزاب کی زیر نظر آیت کے لفظ " جلباب " کی تفسیر میں اپنے موقف کی تائید میں کئی اقوال نقل کئے ہیں ، لیکن ان کی ایک عادت ہے ، جب وہ کسی ایک موقف کو پکڑتے ہیں ، تو وہ یک طرفہ طور پر کئی اقوال نقل کرتے ہیں ، لیکن جو آراء و اقوال ان کے موقف سے مختلف ہوتے ہیں ، تو وہ ان سے مکمل طور پر صرف نظر کرتے ہیں ، مثال کے طور پر مولانا مودودی ابن عباس وغیرہ کا ایک یہ قول نقل کرتے ہیں ۔" اللہ تعالی نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لئے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں ۔ (یا " ایک آنکھ کھلی رکھی " ) "( تفہیم القرآن : ج 4 ، ص 129 )
یہ ایک تفسیری قول ہے ، لیکن اس کے برعکس ایک مستند ترین حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس ہی سے صحیح مسلم میں اس طرح مروی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ ؟ قَالَ : " نَعَمْ ". وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
( البخارى : كِتَابُ الْحَجِّ : بَابُ وُجُوبِ الْحَجِّ وَفَضْلِهِ. رقم الحديث 1513 / مسلم : كِتَابٌ الْحَجُّ : بَابٌ : الْحَجُّ عَنِ الْعَاجِزِ لِزَمَانَةٍ، وَهَرَمٍ، وَنَحْوِهِمَا، أَوْ لِلْمَوْتِ. رقم الحديث 1334و لفظه لمسلم )
سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ( ان کے بھائی ) فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے سوار تھے ، تو آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک خاتون آئی ، وہ آپ سے فتویٰ پوچھنے لگی ، فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنے لگا اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے ، وہ عورت عرض کرنے لگی ، اے اللہ کے رسول : بلاشبہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا ہوا حج میرے بوڑھے باپ پر بھی آگیا ہے ، وہ سواری پر مضبوطی سے بیٹھ نہیں سکتے ، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا , ہاں ، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا ہوا ہے ۔
اس حدیث میں قبیلہ خثعم کی جو خاتون پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بوڑھے والد کے حج کے متعلق استفسار کرنے آئی تھیں ، ان کا چہرہ کھلا تھا ، لیکن فضل بن عباس اس وقت آپ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے ، تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں وہ اس عورت کی طرف دیکھنے لگے ، اور وہ عورت بھی ان کو دیکھنے لگی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بھائی فضل بن عباس کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا ۔
اس خاتون نے اپنا مسئلہ دریافت کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب بھی دیا تھا ، مگر آپ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کا چہرہ کھلا کیوں ہے ؟ آپ نے چہرہ کا پردہ کیوں نہیں کیا ؟ اگر چہرہ ستر میں شامل ہوتا ، تو آپ ضرور ان کو تنبیہ کرتے اور چہرہ چھپانے کا حکم دیتے ، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا ، تو ثابت ہوا کہ چہرہ کا پردہ ضروری نہیں ہے ، اور یہ ستر میں شامل بھی نہیں ہے ۔
لیکن مولانا مودودی نے سیدنا عبداللہ بن عباس کی طرف منسوب ایک تفسیری قول کو تو نقل کیا ہے ، مگر ان سے مروی صحیح حدیث کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ حالانکہ علامہ ابن کثیر نے سورہ نور آیت 31 کی تفسیر کرتے ہوئے ایک یہ بات بھی لکھی ہے ۔
ان ابن عباس من تابعه أرادوا تفسير ما ظهر منها بالوجه و الكفين و هذا هو المشهور عند الجمهور .( ج 3 : ص 376) سیدنا ابن عباس اور ان کے ہم خیال علماء ما ظهر منها کی تفسیر چہرے اور ہاتھوں سے کی ، اور جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے ۔
سورہ احزاب ہی کی زیر آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے ایک حوالہ امام فخرالدین رازی کا بھی دیا ہے ، لیکن اس قول میں امام فخرالدین رازی صاف کہتے ہیں کہ " حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے " اور تفہیم القرآن کی پوری عبارت اس طرح ہے ۔
" امام رازی کہتے ہیں " اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ، کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے ، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی ، اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ باپردہ عورت ہیں ، ان سے زنا کی امید نہیں کی جاسکتی "( تفہیم القرآن : 4 ، ص 130)
اس اقتباس کا عربی متن میں نے تفسیر کبیر میں بھی دیکھا ہے ، اور مولانا مودودی کے اس اقتباس کے پہلے حصہ " اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ، کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے " کا عربی متن یہ ہے ۔المراد يعرفن انهن لا يزنين لأن من تستر وجهها مع أنه ليس بعورة . ( التفسير الكبير : ج 25 ،ص 198)(امام فخرالدین رازی کے نزدیک) اس سے مراد عورت کا چہرہ ستر میں شامل نہیں ہے (أنه ليس بعورة )
اسی طرح مولانا مودودی نے علامہ ابوبکر جصاص کا ایک یہ قول بھی نقل کیا ہے ۔
" یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے ، اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں "( تفہیم القرآن : ج 4 ،ص 130)
لیکن علامہ ابوبکر جصاص نے جلباب کے بارے میں چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں شامل ہونے اور نہ ہونے پر بھی کافی کچھ لکھا ہے ، لیکن مولانا مودودی نے اسی ایک قول کو نکال کر اسے اپنے موقف کی تائید میں لکھ دیا ہے ۔( تفصیل کے لئے دیکھئے : احکام القرآن للجصاص : ج 3 ، ص 486)
جبکہ علامہ ابو بکر جصاص نے سورہ نور آیت 31 کے اس فقرہ " الا ما ظهر منها " کے بارے میں کیا لکھا ہے ؟ وہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔
قال أصحابنا المراد الوجه و الكفان لأن الكحل زينة الوجه و الخضاب و الخاتم زينة الكف .( احکام القرآن للجصاص : ج 3 ، ص 408)
ہمارے اصحاب ( علماء احناف) کا قول یہ ہے کہ اس (الا ما ظهر منها ) سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں ، (جو ستر میں شامل نہیں ہیں) کیونکہ سرمہ چہرے کی زینت اور انگوٹھی ہتھیلیوں کی زینت ہیں ۔
علامہ ابو بکر جصاص نے اس قول سے پہلے سیدنا عبداللہ بن عباس کا ایک یہ قول بھی نقل کیا ہے ۔روي عن ابن عباس انها الكف و الوجه .( احكام القران للجصاص : ج 3 ، ص 408)
عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اس ( الا ما ظھر منھا) سے مراد ہتھیلی اور چہرہ ہے ۔
اسی طرح ابن رشد تحریر فرماتے ہیں ۔فأكثر العلماء على أن بدنها كله عورة ما خلا الوجه و الكفين .(بدية المجتهد و نهاية المقتصد: ح 1 ، ص 175)
اکثر علماء کے نزدیک عورت کا سارا بدن ستر ہے ، سوائے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں کے ۔
صاحب ہدایہ امام برہان الدین اپنی کتاب " الھدایہ " جو فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہے ، میں لکھتے ہیں ۔و بدن الحرة كلها عورة الا وجهها و كفيها لقوله عليه الصلاة والسلام " المرأة عورة مستورة " و استثناء العضوين للاابتداء بائدائهما .( الهدايه : ج 1 ، ص 153)
آزاد عورت کا سارا بدن سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر ہے ، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ " عورت چھپانے کی چیز ہے " لیکن دو اعضاء ( چہرے اور ہتھیلیوں) کا استثناء اس لئے ہے کہ ان کا ظاہر ہونا ناگزیر ہے ۔
اسی طرح آیت " الا ما ظهر منها " کے بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی کا یہ تفسیری نوٹ بھی قابل غور ہے ۔
" خلاصہ مطلب یہ ہے کہ عورت کو کسی قسم کی خلقی یا کسی زیبائش کا اظہار بجز محارم کے جن کا ذکر آگے ( زیر نظر آیت میں تفصیل سے) آتا ہے کسی کے سامنے جائز نہیں ، ہاں جس قدر زیبائش کا ظہور ناگزیر ہے اور اس کے ظہور کو بسبب عدم قدرت یا ضرورت کے روک نہیں سکتی ، اس لئے بمجبوری یا بضرورت کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں ( بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو) حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کفین ( ہتھیلیاں) " الا ما ظهر منها " میں داخل ہیں ، کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیاوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں ، اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لئے کار و بار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی ، آگے فقہاء نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے ، اور جب یہ اعضاء مستثنیٰ ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی یا مہندی ، کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا( تفسیر عثمانی : ص 471/ سعودی ایڈیشن)
اسی طرح سید قطب شہید سورہ نور کے اس فقرہ " الا ما ظهر منها " کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔" رہی بات وہ ظاہری زیب و زینت جو چہرے اور ہاتھوں میں ہے ، تو عورت کے لئے اس کا کھولنا جائز ہے ، کیونکہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابی بکر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ " اے اسماء : جب عورت سن بلوغ کو پہنچ جائے تو جائز نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ، سوائے اس حصے کے ، اور آپ نے اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا " ( رواہ ابوداؤد فی سننه) " ( فی ظلال القرآن : ج 10 ، ص 80 / مترجم مسیح الزماں فلاحی ندوی)مولانا ابو محمد عبد الحق الحقانی الدہلوی سورہ نور آیت 31 کے لکھتے ہیں ۔" یہ جو کہا اپنی زینت نہ دکھائیں مگر وہ جو ظاہر ہے ، زینت کہتے ہیں خوبصورتی کو قدرتی یا بناوٹی ، لباس فاخرہ یا زیور یا مہندی کاجل وغیرہ ان میں سے صرف ظاہر زینت کے ظاہر کرنے کی اجازت دی ، ظاہر زینت بناوٹی میں سے تو انگوٹھی کپڑا جس کے ظاہر کرنے کی ضرورت پڑے اور خلقی میں سے ہاتھ منہ جو بضروت ظاہر کرنا پڑے ، بعض علماء کہتے ہیں زینت سے مراد وہ اعضاء ہیں ، جن پر زیور پہنا جاتا ہے " ( تفسیر حقانی : ج 3 ، ص 382)
مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی مذکورہ آیت کے تحت بہت ہی جامع تفسیر ان سطور کے ساتھ تحریر فرمایا ہے ۔
" ( عورتیں) سر سے پاؤں تک تمام بدن اپنا پوشیدہ رکھیں ، مگر جو اس ( موقع زینت) میں سے ( غالباً) کھلا ہی رہتا ہے جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے مراد اس موقع زینت سے وجہ ( چہرہ) کفین ( دو ہاتھ ) اور قدمین ( دو پاؤں) علی الاصح ہے کہ وجہ تو قدرتی طور پر مجمع زینت ہے اور بعض زینتیں قصداً بھی اس میں کی جاتی ہیں مثل سرمہ وغیرہ اور کفین و اصابع انگوٹھی چھلے مہندی کا موقع ہے اور قدمین بھی چھلوں اور مہندی کا موقع ہے ، پس ان مواقع کو بضرورت ظہور مستثنیٰ فرمایا ہے ، اور ما ظھر کی تفسیر وجہ اور کفین کے ساتھ حدیث میں آئی ہے "( بیان القرآن : ج 8 ، ص 15)
تاہم بعض مفسرین نے سورہ نور آیت 31 کے اس فقرہ " الا ما ظهر منها " سے بدن کے اوپر پہنے ہوئے زیب و زینت کے کپڑے مراد لئے ہیں ، جیساکہ علامہ ابو بکر جابر الجزائری لکھتے ہیں ۔يعنی بالضرورة دون اختيار و ذالك كالفين لتناول شيئا و العين الواحدة أو الاثنتين للنظر بهما و الثياب الظاهرة كالخمار و العجار و العباءة .( ايسر التفاسير لكلام العلي الكبير : ص 1000)يعنی ضرورت کے وقت بغیر اختیار کے جو ظاہر ہوجائے ، اور اسی سے دو ہتھیلیاں تاکہ کچھ کھانا کھایا جاسکے ، ایک آنکھ یا دو آنکھیں ، تاکہ ان سے دیکھ سکے ، اور جو ظاہری لباس ہے جیسے اوڑھنی ، سکارف ، اور گون ۔
یہ تفسیری نوٹ تکلفات سے عبارت ہے ۔ اس میں عورت کی زندگی کو ایک محکومانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ، دو ہاتھ سے کھانا کھائے ، مگر ایک آنکھ یا دو آنکھوں سے دیکھ سکتی ہیں ، حالانکہ جب چہرہ بند ہوگا تو پھر اسے کچھ کھانے کے لئے اپنا منہ بھی تو کھولنا پڑے گا ، تو اتنی بندشیں تو اس کے لئے کسی روز مرہ عذاب یا ایک قیدی کی تکلیف سے کم نہیں ہوں گی ، اس لئے یہ تفسیر ناقابل فہم اور قابل رد ہے ، اور قرآنی منشاء کے بھی بالکل خلاف نظر آتی ہے ۔ بلکہ اس آیت کی بہترین تفسیر ایک صحیح الاسناد مرسل روایت میں آئی ہے ، جیساکہ امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں کتاب اللباس کے تحت ان الفاظ میں ایک باب ترتیب دیا ہے ۔بَابٌ فِيمَا تُبْدِي الْمَرْأَةُ مِنْ زِينَتِهَا
باب اس بیان میں کہ عورت اپنی زینت میں سے کس قدر ظاہر کرے ؟
پھر اس کے نیچے انہوں نے ایک صحیح الاسناد روایت مرسلاً اس طرح بیان کی ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ.(ابو داؤد . كتاب اللباس : رقم الحديث4104 / صحیح الاسناد عند الالباني)
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں ، اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا ، اور فرمایا : اے اسماء ! جب عورت بالغ ہوجائے ، تو جائز نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے ، اور آپ نے اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا ۔
اگر اس صحیح الاسناد حدیث نبوی کے بعد بھی ہم متضاد تفسیری اقوال میں پڑ جائیں یا الجھ جائیں ، تو پھر اس آیت کو سمجھنا قیامت تک ممکن نہ ہوگا ۔ نیز قدیم تفاسیر میں چہرے کے پردے میں اتنی سختی کا ذکر نہیں ملتا ہے ، جتنی سختی متاخرین یا موجودہ دور کے بعض مفسرین کے ہاں ملتی ہے ، جیساکہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی تفسیر " تفہیم القرآن " میں چہرہ کے پردہ کے حوالے سے مختلف روایات سے استدلال کرنے میں صریحاً غیر علمی اور جانبدارانہ طریقہ اختیار کیا ہے ، اور اپنی کتاب " خلافت و ملوکیت " کی طرح پردہ کے معاملہ میں بھی ان کا موقف اور استدلال محل نظر ہے۔
تاہم دور جدید کے جن بعض مفسرین نے بھی حجاب میں چہرے کو شامل کیا ہے ، ان کا یہ کہنا ہے کہ چہرہ کا پردہ سب سے زیادہ ضروری ہے ، کیونکہ چہرہ کھلا رہنے سے مردوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے ، جبکہ دوسرے موقف میں چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں کو روز مرہ مشقت کی وجہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ، اور دلائل کے اعتبار سے یہی دوسرا قول زیادہ راجح اور اقرب الی النصوص ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مردوں کے فتنے میں مبتلا ہوجانے کے اندیشہ سے خواتین پر چہرے کے پردہ کو ہرحال میں لازم کر دیا جائے ، تو پھر اس طرح کے مفسرین مردوں سے کیوں نہیں کہتے ہیں کہ ان کو بھی تو غض بصر ( نظریں نیچی رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے) اور ان کو بھی تو اپنی اصلاح کرنی چاہئے ، نہ کہ ان کو اس فتنے سے دور رکھنے کے لئے صرف عورتوں پر پردہ کے معاملہ میں زیادہ سختی برتنے کا فتویٰ صادر کر دیا جائے ، جو کہ انصاف اور راہ اعتدال کے صریحاً منافی ہے ۔