پاک افغان مخاصمت کی تاریخ

مصنف : نواز كمال

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : نومبر 2025

پاكستانيات

پاک افغان مخاصمت کی تاریخ

نواز كمال

پاک افغان حالیہ کشیدگی پہ مزید گفتگو سے قبل کچھ غلط فہمیوں کی درست فہمی ، چند الجھنوں کی سلجھن اور دو ایک سوالات کے جوابات تلاشنے بہت ضروری ہیں. ورنہ کچھ بھی لکھیے، تحریر کے تالاب میں ان غلط فہمیوں، الجھنوں اور سوالات کے کنکر پھینکے جاتے رہیں گے.

عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے بیچ لیلیٰ مجنوں کا سا تعلق تھا. پھر 1979 کا سال آیا اور عشق کی الف لیلہ عداوت کی ہزار داستان میں بدل گئی. مگر حقیقت کے آئینے میں لرزتا عکس مختلف کہانی سنا رہا ہے. چلیے! یہ کہانی سنتے ہیں.

تنازع کی چنگاری، ڈیورنڈ لائن

انیسویں صدی کے آغاز میں جب روس نے وسط ایشیا میں پاؤں پھیلانے شروع کیے تو ہندوستان پہ قابض برطانیہ چوکنا ہوگیا. اسے محسوس ہوا کہ عظیم ہندوستان کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے افغانستان کو انگوٹھے تلے رکھنا ناگزیر ہے. اس وقت کابل کے تخت پہ دوست محمد خان متمکن تھے. شاہِ کابل کا جھکاؤ بوجوہ روس کی جانب تھا. چنانچہ برطانیہ نے 1839 میں کابل پہ چڑھائی کر دی. دوست محمد خان کو معزول کیا اور زمامِ اقتدار شاہ شجاع درانی کے ہاتھ میں دے دی. جب یہ فوج واپس لوٹ رہی تھی تو اسے افغانوں نے معزول بادشاہ دوست محمد کے بیٹے کے زیرِ قیادت دشوار گزار پہاڑی درے میں گھیر لیا. اس جھڑپ میں تقریباً ساڑھے سولہ ہزار فرنگیوں پہ مشتمل تمام لشکر مارا گیا. صرف ایک شخص زندہ ہندوستان پہنچ سکا. یوں بازی پلٹی اور روس نواز دوست محمد خان دوبارہ بادشاہ بن گیا.

چونکہ مہم ناکامی سے دوچار ہوئی تھی، اس لئے 1878 میں دوبارہ لشکر کشی کی گئی. ایک بار پھر برطانوی افواج کابل تک پہنچیں. امیر شیر علی خان راجدھانی چھوڑ کر فرار ہوگئے. ان کے بعد حکمرانی کا ہما یعقوب خان کے سر پہ بیٹھا. برطانیہ نے یعقوب خان کے ساتھ گندمک نامی معاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں افغانستان کی خارجہ پالیسی پہ برطانیہ کو مکمل اختیار مل گیا. اب کابل فرنگیوں کی مرضی کے بغیر روس سمیت کسی سے بھی تعلقات استوار نہیں کرسکتا تھا.

معاہدہء گندمک کی رو سے خارجہ پالیسی پر تو برطانیہ کو استحقاق حاصل ہوگیا، مگر ہندوستان اور افغانستان کے مابین سرحد کے تعین کا مرحلہ باقی تھا. چنانچہ 1893 میں ایک معاہدہ ہوا، جس کی رو سے ایک سرحدی خط کھینچا گیا. معاہدے پہ امیر عبدالرحمن اور مورٹیمر ڈیورنڈ نے دستخط کیے اور سرحدی خط کو ڈیورنڈ لائن نام دیا گیا. معاہدے میں طے تھا کہ اس کی میعاد بادشاہ کی زندگی تک ہوگی. چنانچہ امیر عبدالرحمن کے بعد ان کے بیٹے امیر حبیب اللہ کے ساتھ 1905 میں دوبارہ معاہدہ کیا گیا.

امیر حبیب اللہ خان کے بعد ان کے بیٹے امان اللہ خان مسندِ اقتدار پہ بیٹھے. اقتدار ہاتھ آتے ہی انہوں نے برطانیہ سے خودمختاری طلب کی، مگر انکار کر دیا گیا. لہٰذا بات بڑھتے بڑھتے تیسری برطانیہ افغان جنگ تک جا پہنچی اور بالآخر 1919 میں جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھا . یہ جنگ کچھ ہی عرصہ جاری رہی اور آخرِ کار راولپنڈی معاہدے پہ اختتام پذیر ہو گئی. معاہدے کی رو سے افغانستان کو خودمختاری مل گئی. اس معاہدے کی شق نمبر پانچ بےحد اہم ہے. اس میں لکھا گیا کہ افغان حکومت ہندوستان اور افغانستان کی وہی سرحد تسلم کرتی ہے ،جو امیر حبیب اللہ خان نے تسلیم کی تھی. یوں پہلی بار ڈیورنڈ لائن معاہدے کی مدت بادشاہ کی زندگی تک برقرار رہنے کی پابندی سے آزاد ہوئی اور یہ سرحدی لکیر مستقل بین الاقوامی سرحد کی صورت اختیار کر گئی.

یہ تفصیل اس لیے ضروری ہے ،تاکہ معلوم ہو کہ ڈیورنڈ لائن کیوں وجود میں آئی، کن واقعات کا تسلسل تھی اور پھر فریقین کی جانب سے کس طرح اسے بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیا.

1893 سے 1947 تک کسی بھی افغان حکمران نے ڈیورنڈ لائن کو متنازع سرحد نہیں کہا اور نہ ہی کسی معاہدے یا دستاویز میں اس کی میعاد سو سال قرار دی گئی.

تقسیمِ ہند اور پختونستان کا نعرہ

جونہی تقسیمِ ہند کا فیصلہ ہوا ، افغانستان ہتھے سے اکھڑ گیا. ظاہر شاہ حکومت کہنے لگی کہ چونکہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ہندوستان کے ساتھ ہوا تھا، پاکستان کے ساتھ نہیں، اس لئے اب ہم اس سرحدی لکیر کو تسلیم نہیں کرتے. لہٰذا شمال مغربی سرحدی صوبے کو الگ حیثیت دے کر اسے پختونستان کا نام دیا جائے. سرحدی گاندھی جناب خان عبدالغفار خان نے بھی کابل کی تال سے تال ملائی اور مطالبہ کیا کہ ریفرنڈم میں جس طرح بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا آپشن دیا گیا ہے، اسی طرح ایک تیسرا آپشن بھی ہونا چاہیے، یعنی نہ پاکستان، نہ بھارت. ظاہر ہے کہ اگر یہ مطالبہ تسلیم کیا جاتا تو پھر کثیر اللسانی ہندوستان کے چپے چپے کے لیے ایسے آپشنز بنانے پڑتے، جس کے نتیجے میں تقسیم کا عمل کھیل بن کر رہ جاتا. لہذا اس مطالبے کو رد کر دیا گیا. پاکستان بننے کے بعد خان عبدالغفار خان تو اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئے، مگر کابل کے بل نہ نکل سکے. یوں پاکستان کی خشتِ تاسیس رکھے جانے کے ساتھ ہی افغانستان کمر کس کر اس نوزائدہ مسلم ریاست کے حصے بخرے کرنے کے لیے میدانِ عداوت میں اتر آیا. چنانچہ ستمبر 1947 میں جب اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کا مرحلہ آیا تو بھری پُری دنیا میں واحد افغانستان تھا جس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی.

افغانستان نے پاکستان کے خلاف پختونستان ( بالفاظِ دیگر پاکستان کے توڑنے ) کے نعرے کی بنیاد پر 14 اگست 1947 کو جو جنگ چھیڑی تھی ،وہ دراز ہوتے ہوتے 1979 تک جا پہنچی. یہ دور پاکستان کے لیے نہایت کھٹن، مشکل اور ابتلا کا دور تھا. چیدہ چیدہ واقعات کے تذکرے سے کٹھنائیوں کا اندازہ ہوگا.

ستمبر 1947 میں پختونستان کا جھنڈا افغان قومی پرچم کے ساتھ لہرایا گیا.

جولائی 1949 میں افغان حکومت نے کابل میں لویہ جرگہ بلایا ،جس نے پختونستان تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا. اسی جرگے میں 31 اگست کو پختونستان ڈے قرار دیا گیا، جو ہر سال افغان حکومت کے زیرِ اہتمام منایا جانے لگا.

اکتوبر 1950 میں افغان فوج نے بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے دوبندی پر قبضہ کر لیا، تاکہ چمن کوئٹہ ریلوے لائن کو کاٹا جاسکے. ایک ہفتے کی شدید جنگ کے بعد پاک فوج مذکورہ علاقہ واپس لینے میں کامیاب ہوئی.

16 اکتوبر 1951 کی شام پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا. قاتل سعید اکبر ببرک نامی ایک افغان تھا. اس واقعے کے بعد پاک افغان تعلقات میں مزید تلخی در آئی.

30 مارچ 1955 میں کابل، قندھار اور جلال آباد میں پاکستان کے سفارتی مشنوں پہ حملے ہوئے اور پاکستانی سفارت خانے کی عمارت پر پختونستان کا جھنڈا لہرایا گیا.

ستمبر 1960 میں افغان فوج نے باجوڑ پر حملہ کیا، جسے مقامی قبائل کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا.ستر کی دہائی میں ناراض بلوچوں خصوصاً مری قبیلے کے نوجوانوں کو افغانستان میں ٹھکانے دیے جانے کے ساتھ ساتھ انہیں اسلحہ اور عسکری تربیت بھی فراہم کی گئی.

1974 میں لاہور میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں عالمِ اسلام کی تمام قیادت شریک ہوئی مگر افغان صدر داؤد خان شریک نہ ہوئے. اجلاس میں افغان مندوب نے وہی پرانا پختونستان والا راگ آلاپنے کی کوشش کی، مگر کسی نے بھی توجہ نہ دی.

پاکستان کی نفرت یوں تو افغان حکومت کی تمام سر بر آوردہ اور اہم شخصیات کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی ،مگر وزیر اعظم سردار داؤد خان سب سے زیادہ نمایاں تھے. 1963 میں بادشاہ ظاہر شاہ نے ان سے استعفا لیا تو حالات نسبتاً پرسکون ہوتے چلے گئے. اب کی بار افغان آپس میں سیاسی چپقلشوں کا شکار ہوگئے تھے. چنانچہ پاکستان اگلے نو سال بڑی حد تک ان کی " نوازشوں " سے مامون رہا. یہ پاکستان کی خوش قسمتی بھی تھی. کیونکہ اسی عرصے میں اس نے سن پینسٹھ اور سن اکہتر کی جنگیں بھی لڑی تھیں. اگر افغان حکومت اس دوران داخلی انتشار کا شکار نہ ہوتی تو نہ معلوم سن اکہتر کی ہولناکیاں مزید کیا گل کھلاتیں. اسی دوران 1965 میں نور محمد ترہ کئی اور بیبرک کارمل نے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی ،جس نے خلق پارٹی کے نام سے شہرت پائی. اس جماعت کا مقصد ملک میں سوشلسٹ انقلاب تھا. اب رفتہ رفتہ افغان نوجوان سوویت یونین کی طرف سے چلنے والی نظریاتی ہواؤں سے متاثر ہونے لگے تھے . اس صورت حال نے اسلام پسند معاشرے کو اضطراب میں مبتلا کر دیا. 1972 میں کابل یونیورسٹی کے چند اسلام پسند نوجوان سر جوڑ کر بیٹھے. یہ نوجوان برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار ، احمد شاہ مسعود، عبد الرب رسول سیاف اور مولوی یونس خالص تھے. انہوں نے " اسلامی تحریک افغانستان " کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی. چونکہ برہان الدین ربانی کابل یونیورسٹی کے معلم ہونے کی وجہ سے سب سے ممتاز و نمایاں تھے ، اس لئے دستارِ قیادت ان کے پہ رکھی گئی.

بادشاہت کا خاتمہ

سن تھا 73 کا اور مہینہ تھا جولائی کا جب بادشاہ ظاہر شاہ اٹلی میں موجود تھے. سو موقع غنیمت جان کر ان کے چچا زاد سردار داؤد خان نے بغاوت برپا کی. بغاوت کامیاب رہی اور اس کے ساتھ ہی بادشاہت کا سورج کابل کے افق پہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا. اقتدار پہ قبضے کے بعد داؤد خان افغانستان کے پہلے صدر قرار پائے. داؤد خان اپنی سرشت میں سیکولر نظریات کا حامل حکمران تھا. اس نے ملک کے سیاسی نظام میں اصلاحات کیں اور طرزِ معاشرت کو مادر پدر آزادی دینے کی ٹھانی. وقت کے ساتھ ساتھ صدر روس کے قریب ہونے لگے تو اسلام پسند معاشرے کو لگا کہ شاید اب افغانستان کو کمیونزم کی طرف لے جایا جارہا ہے.

داؤد خان نے حکومت کی باگ ڈور ہاتھ میں لیتے ہی اسلام پسندوں کے خلاف اقدامات شروع کر دیے. اسلامی تحریک افغانستان کی صفِ اول کی قیادت میں سے کچھ کو گرفتار کر لیا اور کچھ کو زیرِ نگرانی رکھا جانے لگا. رفتہ رفتہ دار و گیر کے سلسلے دراز ہونے لگے اور بالآخر 1974 میں تحریک پہ پابندی عائد کر دی گئی. حکمت یار اور ربانی بچتے بچاتے پشاور پہنچے اور حکومتِ پاکستان کے روبرو مدد و تعاون کی عرضی رکھ دی.

بھٹو کی دانشمندی

پاکستان جو اپنی تخلیق کی اولین گھڑی ہی سے افغانستان کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کر رہا تھا، پلٹ کر وار کرنے کا موقع ہاتھ آتے ہی خوشی سے جھوم اٹھا. زیرک و دانشمند ذوالفقار علی بھٹو کی نظریں بہت دور تک دیکھ رہی تھیں. لہٰذا انہوں نے انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نصیر اللہ بابر کو افغان نوجوانوں کی عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں مطلوبہ تعاون فراہم کرنے کا حکم دیا. چنانچہ نصیراللہ بابر نے حکمت یار، احمد شاہ مسعود، پروفیسر ربانی، سیاف اور مولوی یونس خالص سمیت دیگر افغان نوجوانوں کو تربیت فراہم کرنا شروع کی اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں عسکری کارروائیوں کی شروعات ہوئی. لغمان، ننگرہار، کنڑ ، نورستان ، پکتیکا ،بدخشان اور تخار سلگ اٹھے. بغاوت کی سب سے نمایاں کوشش احمد شاہ مسعود کی قیادت میں درہء پنجشیر میں کی گئی. اس کاوش نے احمد شاہ مسعود کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے.

اگرچہ یہ بہت عمدہ بغاوتی کوششیں تھیں ، مگر داؤد خان سوویت یونین کے تعاون سے ان بغاوتوں کو کچلنے میں کامیاب رہے. اس کے بعد بغاوت کی قیادت سمیت لگ بھگ پانچ ہزار افراد نے پاکستان کا رخ کیا ،جنہیں پشاور سمیت کے پی کے کے مختلف شہروں میں بسایا گیا. پاکستان کی جانب سے دیا جانے والا یہ ترکی بہ ترکی جواب کابل کو کچھ خاص نقصان تو نہ پہنچا سکا، مگر اس تجربے نے بعد میں سوویت یونین کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے دوران بےپناہ فائدہ دیا. پاکستان کے اولین شاگردوں ، ربانی، سیاف، حکمت یار ،احمد شاہ مسعود اور دیگر نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں بےپناہ کامیابیاں اور شہرت سمیٹی.

ان تفصیلات سے اندازہ ہوا ہوگا کہ

الف..... مخاصمت کی ابتداء افغانستان کی جانب سے کی گئی تھی. مغربی سرحد کے اس پار سے کی جانے والی یہ یلغار 32 سال تک جاری رہی.

ب....... ڈیورنڈ لائن پہ 1947 سے قبل کسی قسم کا تنازع نہ تھا. فریقین اسے بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتے تھے.

ج...... اسلحہ کے کلچر کی ابتدا ضیاء الحق نے نہیں، بلکہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور یہ اقدام بھی بامرِ مجبوری اٹھایا گیا تھا.

د..... افغانستان کو اسلامی ریاست میں ڈھلنے کا مشورہ پاکستان کا نہیں تھا، بلکہ یہ وہاں کی یونیورسٹی کے پروفیسر اور طلباء کا خالصتاََ ذاتی فیصلہ تھا.

ھ...... پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کا فیصلہ افغانستان کے ہاتھوں مسلسل زچ کیے جانے ، تین دہائیوں تک یک طرفہ حریفانہ روش اختیار رکھے جانے اور ملک کو توڑنے کے لیے کی جانے والی پے بہ پے مکروہ کوششوں کے نتیجے میں مجبور ہو کر کیا تھا.

و..... کہانی کی ابتدا 1979 سے نہیں بلکہ 14 اگست 1947 سے ہوتی ہے.

ز....... پاکستان نیا نویلا ملک تھا ،اس لئے اسے توقع تھی کہ افغانستان بڑا بھائی کا سا کردار ادا کرے گا، مگر جب وہ بڑا بھائی نہ بن سکا تو پھر پاکستان نے شفیق باپ کا سا کردار ادا کرتے ہوئے پچاس لاکھ سے زائد پڑوسیوں کو نہ صرف پالا، بلکہ ان کی جنگوں میں بھی کلیدی کردار ادا کیا.

ح...... بھائیوں کی جفا کاری بھی کوئی یاد رکھنے والی شے ہے؟ چنانچہ اس تلخ تاریخ کو تعلیمی نصاب کا حصہ نہ بنا کر اپنے بچوں کے ذہنوں کو نفرتوں کا خار زار بننے سے بچایا گیا.

ہاں! دشمن کی ستم کاریاں یاد رکھی جاتی ہیں ، سو تمام دشمنوں کا جور و جفا نصاب کا حصہ بنا کر گویا اپنی نسلوں کے حافظے کی الواح پر انمٹ روشنائی سے نقش کر دیا گیا ہے.