لسانيات
ہم اپنے تاریخی نام کیوں بدلیں؟
حافظ صفوان
قرآن میں برے لقب سے پکارنے سے روکا گیا ہے۔ تاہم برے معنی والے نام کو بدلنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ یہ بات لوگوں کے فہمِ عامہ سے بعید ہے کہ برے معنی والا نام رکھا جائے۔ عرب میں شعر و ادب کا رواج تھا۔ وہ سماج اِتنا مہذب ہوچکا تھا کہ برے بھلے کی تمیز عام تھی۔ نبی کریم علیہ السلام کا ہر ارشاد وحی سے مربوط ہے اِس بنا پر کوئی صحیح حدیث قرآن میں ناموجود بات پر نہیں ہوتی۔ آثار میں ایک موضوع و ضعیف روایت ملتی ہے کہ فلاں نام کو نبی کریم علیہ السلام نے تبدیل فرمایا۔ واضح رہنا چاہیے کہ نام کی تبدیلی آثار میں صرف نبی کریم سے منسوب ہے۔ آپ کے بعد خلفائے کرام یا صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی تبدیلیِ نام والا عمل منقول نہیں ہے۔ خلاصۃً یہ کہ کسی نام کا تبدیل کرنا کسی کا شرعی حق نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اسلام قبول کرنے پر بھی نام کی تبدیلی ایک بناوٹی عمل ہے جس کا کوئی اجر نہیں ہے۔ نام تبدیل کرنا سنت بھی نہیں ہے کیونکہ اسلام قبول کرنے والے سبھی لوگوں کا نام تبدیل نہیں کیا گیا۔ سوا لاکھ میں سے اگر دو یا تین کا نام تبدیل کرنے کی روایت ملتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے لاگو ہونے کا درجہ نہیں رکھتی۔
جنابِ مختار مسعود نے لفظوں کے اپنے معنی کھو دینے کی مثالیں دیتے ہوئے "مہتر" کا ذکر کیا ہے۔ یہ لفظ قیامِ پاکستان سے پہلے حاکمِ چترال کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پنجاب، لکھنؤ اور بنگال وغیرہ میں یہ لفظ نازل درجے کا ایک کام کرنے والے کے لیے مستعمل تھا (اور ہے)۔ اِس کا مونث مہترانی ہے تاہم یہ لفظ چترال کی لغت میں موجود نہیں ہے۔ اِس کا اشتقاق بھی، غالبًا قیاسًا، ماہ یعنی چاند لکھا گیا ہے۔ فارسی لفظ "بابا" بوڑھے یا والد کے لیے آتا ہے۔ لیکن اِس کا معنی "بچہ" بھی ہے جسے ہابسن جابسن نے بھی ریکارڈ کیا ہے۔ اِس معنی میں یہ لفظ بہاول پور کی ریاستی زبان میں بھی عام ہے۔ "کاکا" شمالی علاقہ جات میں بعض جگہوں پر بزرگ کا معنی دیتا ہے۔ "زیارت کاکا صاحب" ایک مشہور مقام ہے۔ پنجابی میں اِس لفظ کا معنی بالکل متضاد ہے۔
"زیارت کاکا صاحب" کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگلی بات ذرا توجہ سے سنیے۔ اگر ہم، مراد کچھ پڑھے لکھے قسم کے لوگ، "زیارت کاکا صاحب" کی معنیاتی غلطی کو درست کرکے اِسے "زیارت بابا صاحب" بولنے لکھنے کی تحریک چلائیں تو جانتے ہیں کہ عوام کا ردِعمل کیا ہوگا؟ چونکہ ہم اِس کا ردِعمل جانتے ہیں اِس لیے آج تک یہ نام بدلنے کی سوچ بھی کسی دماغ میں نہیں آئی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی جگہ کا کوئی نام وہاں کے لوگوں نے رکھ لیا ہے اور وہ لفظ کسی دوسری زبان میں اچھے معنی نہیں دیتا، تو کسی کو کیا حق ہے کہ اُس جگہ کے نام کو اپنی اخلاقیات کے مطابق درست کرائے؟ اگر کوئی زبان آسمان سے اتری ہے یا اُس میں کسی لفظ کے صرف برے معنی ہیں تو کیا باقی دنیا اُن لوگوں کی تسلی کے لیے اپنی زبان بدل لے؟ سماجی لسانیات کا اصول ہے کہ کوئی بھی فطری زبان قانون کی پابند نہیں ہوتی بلکہ قوانین زبان کے روزمرہ کے مطابق ہوتے ہیں۔ مثلًا اردو والوں کے ہاں سورج چاند ستارہ وغیرہ اَجرامِ فلکی مذکر جب کہ زمین مونث ہے۔ اردو کے تمام معیاری متون میں اِس روزمرے کی پابندی ہے۔ چنانچہ سماجی لسانیات کی رو سے اردو میں یہ قانون بننے سے پہلے ہی باطل ہے کہ تمام اَجرامِ فلکی مذکر (یا مونث) ہوں گے۔
اب سماجی لسانیات کے اِس اصول کے کچھ اطلاقات دیکھیے۔ اگر کسی کنجری نے کوئی مسجد بنوا دی ہے اور وہ اُسی کے نام سے مشہور ہے تو آپ کو کیا حق ہے کہ اُس کی بنوائی مسجد پر اپنی پسند کا کوئی نام لکھوا دیں؟ اگر کسی کنجری نے پل بنوا دیا تھا، یا کسی نے اُس کے نام کی یادگار کے لیے اپنے صرفے سے بنوا دیا تھا، تو کسی کا کیا اجارہ ہے کہ پل کا نام بدلے؟
مہارانی موراں سرکار ہماری تاریخ کا ایک نام ہے اور اپنی تاریخ کے ساتھ تذکروں میں محفوظ ہے۔ آپ کو اِس نام سے بدبو آتی ہے تو کیا ہم اپنی تاریخ بدل لیں؟ آپ اپنی زبان میں یہ لفظ کسی اور معنی میں استعمال کرکے اپنی زبان کو کیوں وسعت نہیں دے لیتے؟ یا ہمیں ہی اپنی شناخت کی قربانی دینا ہوگی؟ کسی علاقے کا نام "منجی توڑ" مشہور ہے اور کسی جگہ کا نام "چھوکری والا" یا "للی والا" ہے۔ چھوکری کا ایک ہی معنی آپ نے پکڑ لیا اور اِس علاقے کا نام بدلنے کے درپے ہوگئے۔ اگر خدا نے لکھنے پڑھنے کی توفیق سے عاری نہیں کیا ہے تو چھوکری کے معنی فرہنگِ آصفیہ یا جامع اللغات میں دیکھ لیجیے۔ اِن لغات میں اِس لفظ کے وہ معنی بھی مل جائیں گے جو آپ کی اخلاقیات بسہولت ہضم کرسکتی ہے۔ "للی والا" کے لیے پنجابی کی لغت دیکھیے۔ للی کے نہایت خوبصورت معنی لکھے ہیں۔ اگر کسی شرارتی نے تنگ کرنے کے لیے لام پر زبر کی جگہ پیش لگا دیا ہے تو آپ اُسے درست کرا دیں۔ کس نے منع کیا ہے؟
"ڈونگہ بونگہ" پہ اعتراض سن کے مجھے شدید اختلاج ہوا۔ کوئی بتائے کہ اِس خوبصورت بے ساختہ نام میں کیا خرابی ہے؟ "چڈے وال" کس لیے غلط ہے؟ چڈا خوشامد کو کہتے ہیں۔ اگر کسی وقت میں اِس جگہ کے لوگ کسی وجہ سے خوشامدی مشہور ہوگئے تھے اور علاقے کا نام یہی پڑگیا تھا تو اِس نام سے پکارے جانے میں آج کیوں ناک نیچی ہوتی ہے؟ "چودھروال" اگر عوامی زبان میں رواں ہوکر چودھووال یا چودووال بن گیا ہے تو کیا ہم اِس کو بدل دیں؟ اگر اِس بنیاد پہ نام بدلنا درست ہے تو کیوں نہ قرآن میں سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا نام نکال دیا جائے یا اُسے انگریزی ہجوں میں John لکھا جایا کرے؟ حیرت ہے کہ "زیارت کاکا صاحب" کا نام بدلنے کا سوچنے سے بھی گھگھی بندھ جاتی ہے اور آپ کے اپنے لوگوں میں سے اپنے علاقوں کے نام بدلنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ آواز اٹھنا برا نہیں ہے، برا یہ ہے کہ آپ کو اپنی شناخت اور تاریخی پہچان کھو دینے کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔
یہاں تک تو علاقوں اور عمارتوں کے ناموں کا ذکر تھا، اب ذرا ایک نظر انسانی ناموں پہ ڈال لیں۔ مسلم تاریخ سے دیکھیں تو ایک صحابی کا نام عبدالکعبہ تھا جو شرکیہ ہونے کی وجہ سے تبدیل کرایا گيا، اور سلمان فارسی کا بھی جن کا پیدائشی نام مآبہ لکھا ہے۔ اِن دو کے علاوہ غالبًا ایمان لانے کے بعد نام تبدیل کرنے کی کوئی مثال نہیں ہے۔ ایرانی، ترک، افغان، افریقی، انڈونیشین، بلوچ، سندھی، بنگلہ، سب اپنی زبان کے الفاظ ہی ناموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انڈونیشیا کے موجودہ صدر مسلمان ہیں جن کا نام مقامی زبان میں پرابھوو سبیانتو (Prabowo Subianto) ہے۔ پرابھوو سنسکرت کا لفظ ہے جو انڈونیشین میں بھی مستعمل ہے اور بھارت خاص کر جنوبی بھارت میں زیادہ معروف ہے۔ پرابھوو کا مطلب عزت ہے۔ انڈونیشیا کی ہی سابق خاتون صدر کا نام میگاوتی سوئیکارنو پتری تھا۔ میگا سنسکرت لفظ میگھا سے ماخوذ ہے جس کا مطلب بادل، بارش ہے۔ ہمارے ہاں بادل کا نام شاذ ہی کسی مسلم کا ملے گا جب کہ فارسی میں بادل کے لیے مستعمل لفظ سحاب مل جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سکھوں میں بھی فارسی سے ماخوذ نام رکھے جاتے ہیں جیسے نونہال سنگھ۔ برِصغیر کے مسلمان خاص کر پنجاب اور یوپی سی پی والے معلوم نہیں کیوں مقامی الفاظ سے بدکتے اور چھوت چھات کا رویہ رکھتے ہیں۔ آفتاب جو کہ فارسی لفظ ہے، بطور نام برِصغیر کے مسلمانوں میں مل جائے گا لیکن مقامی زبان کا لفظ سورج نہیں ملے گا۔ پاک وہیلز کے مالک سنیل منج ہیں۔ سنیل کا نام ماضی میں مل جاتا تھا، اب کوئی نہیں رکھتا۔ اِسی طرح موہن یا منموہن یا موہنی کے معنی اچھے ہیں پر کوئی مسلمان یہ نام نہیں رکھتا۔ بلوچ اپنے مقامی زبان کے نام شہک، بیبرک، براہمداغ، بالاچ، جئیند رکھتے ہیں۔ اِسی طرح پختون اداکار ببرک شاہ، وغیرہ۔ ببرک پشتو کا لفظ ہے۔ سندھیوں میں سسی، ماروی، مومل وغیرہ ملتے ہیں حالانکہ مومل رانو کی داستان ایک راجستھانی راجہ کی داستان ہے، لیکن پنجاب میں کوئی اپنی بیٹی کا نام ہیر نہیں رکھتا۔ بنگال میں دیکھیں تو بنگلہ دیش کے ایک کرکٹر کا نام شیخ تشار عمران تھا۔ بنگلہ دیش کی مسلم وزیرِ خارجہ کا نام دیپو مونی تھا۔ دیپو کا مطلب موتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی کا نام موتی بھی نہیں رکھا جاتا، صدف البتہ رکھ لیتے ہیں۔ بلبل نام شاید ہی کسی لڑکی کا ملے، شاہین ہر دوسرے زنانہ نام کے ساتھ لگا ملتا ہے۔ آج کل غیرمانوس ترک نام الپکتگین، سبکتگین، الپ ارسلان، ارطغرل بھی رکھے جا رہے ہیں۔ ظلم بلکہ جہالت کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں چنگیز نام مل جاتا ہے جو کہ ایک غیر مسلم وحشی قاتل تھا۔ سندھیوں میں اللہ ڈینو ملتا تھا۔ معلوم نہیں اب رکھتے ہیں کہ نہیں۔ اللہ وسایو، اللہ بچایو، اللہ رکھا، اللہ دتہ، اللہ بچائی، وغیرہ، نام بھی ریاست بہاول پور میں دور دور تک بیس پچیس سال قبل مل جاتے تھے جو اب رواج سے اٹھ گئے ہیں۔ اب تو اللہ دتہ نام کے جو لوگ باقی رہ گئے ہیں وہ بھی شرم سے اے ڈی لکھتے ہیں۔
یاد رہنا چاہیے کہ نام پہچان ہوتا ہے۔ قدیم علاقے کا نام قدیم پہچان ہوتا ہے جس کے ساتھ تاریخ جڑی ہوتی ہے۔ جب لاہور، ملتان اور دہلی کے نام نہیں بدلے جاسکتے تو دھرمپورہ، رام گلی، کرشن نگر، چودھووال، چڈے وال، ڈونگہ بونگہ، سسرال، منجی توڑ، گھاس منڈی، للی والا، موراں پل، کنجری والی مسجد، کنجری والا کھوہ، للو والی موری، کالی موری، شاہ دی کھوئی، پھاتاں دا تنور، چیچو کی ملیاں، ہنو کا چھجہ، بھیکے وال، کوٹھا پنڈ، وغیرہ وغیرہ، نام کیوں بدلے جائیں؟
میرے دادا کے پردادا کا نام بمبو خان تھا۔ اگر آج بمبو کا لفظ مختلف معنی میں استعمال ہو رہا ہے تو میرا شرمندہ ہونا حماقت ہے۔ مہتر کا لفظ بھی آج مہترِ چترال والے معنی میں استعمال نہیں ہو رہا۔