ماں کی بدعا

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2019

    

اصلاح ودعوت
ماں کی بد دعا
محمد سلیم

 

 

ویسے تو میری ساری زندگی ہی لوگوں سے اُن کی زندگی کے قصے اور کہانیاں سنتے گزری ہے مگر جو قصہ مجھے کبھی نہ بھول پائے گا ایک ایسے شخص کا ہے جو میرے پاس بہت ہی دل شکستہ  و دل گرفتہ آیا، کہنے لگا؛ میری گھریلو زندگی برباد ہو گئی ہے، نہ پہلی بیوی سے بن پائی اور نہ اب دوسری بیوی سے نباہ ہو رہا ہے، میرے بچے  میرا احترام نہیں کرتے، گھر میں میری کوئی قدر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے بچوں کو بالکل ایسے ہی کھو چکا ہوں جیسے میرے  سارے کاروباری پروجیکٹس گھاٹوں کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں، لگتا ہے اب اس دُنیا کا ہر دروازہ میرے منہ پر بند ہوتا جا رہا ہے، زندگی کی اب کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہی جو میرے  لئے کھلی رہ گئی ہو۔میں نے اُس سے کئی سوالات کرنا چاہے تاکہ پتہ چلا سکوں کہ اُس کی ان ساری ناکامیوں کے پیچھے کیا اسباب ہیں مگر اس شخص پر اتنی مایوسی طاری تھی کہ وہ میری کسی بات کا سیدھا جواب ہی نہیں دے پاتا تھا۔ پھر اچانک اُس نے میری باتوں کو کاٹتے ہوئے خود ہی کہا؛ میں آپ کا وقت بچانا چاہتا ہوں اور مختصراً بتائے دیتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ میری ان ساری ناکامیوں کا سبب میری ماں کی بد دعائیں ہیں۔ میں ہمیشہ اُس کی ہر بات کو ٹالتا، ٹھکراتا اور نا فرمانی کیا کرتا تھا۔ اُس کا احترام تو کجا اُس پر ہاتھ بھی اُٹھاتا تھا۔ بیوی کو ہمیشہ ماں پر ترجیح دیتا تھا۔ میری ماں کو چپ سی لگ گئی تھی مگر میں جب بھی گھر آتا تو ایسے لگتا جیسے وہ زیر لب کچھ بڑبڑا رہی ہو۔ اب مجھے سمجھ آتی ہے کہ اُس کا بڑبڑانا در اصل مجھے بد دعائیں دینا ہوتا تھا۔ بس جان لیجیے کہ میری ساری مشکلات کو واحد سبب  بس یہی ہے۔میں نے کہا؛ بات تو تیری بالکل ٹھیک ہے کہ وہ  واحد گناہ جس کی سزا  دینے کی جلدی اسی دنیا میں ہی کی جاتی ہے وہ ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، میں تو بس یہی کہتا ہوں کہ فوراً جا کر اپنی ماں سے معافی مانگ لو، بس ایک بار اس کے پاؤں پڑو گے اور اس کے سر پر پیار کرو گے تو اُس نے تیری ساری کوتاہیاں بھول کر تجھے گلے لگا لینا ہے۔ میری یہ بات سُن کر اس شخص کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے،  روتے ہوئے کہنے لگا؛ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ تو مر چکی ہے۔ میری اس سے بڑی بد نصیبی کیا ہو گی کہ میں نے اس کے جنازے میں بھی شرکت کرنا گوارا نہیں کیا تھا۔
موقعے کی مناسبت سے آپ کو اپنے ایک عزیز دوست کا قصہ سناتا چلوں؛ یہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، اس کا ایک بہت ہی چھوٹا سا کاروبار تھا مگر صاف ستھرا گھر، راضی بازی گھر والی اور سکول پڑھتے پیارے بچے۔ میں نے ایک بار اُس سے اُس کی خوشیوں کا رازاور کامیابی کے اسباب پوچھے تو کہنے لگا یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ کہتا ہے میں جب میری ماں حیات تھی اور گھر جاتا تو جاتے ہی اپنی ماں کے سر پر بوسہ دیتا، وہ مجھے دعا دیتی اللہ تیرے سر کو ہمیشہ بُلند رکھے۔ بس یہی سبب ہے کہ میں اس دعا کے طفیل آج برکتوں کے میلے میں گھرا رہتا ہوں۔
میں ایک ایسے کاروباری شخص کو بھی جانتا ہوں جو اس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ اُس نے ایک دن خود مجھے بتایا تھا میری ساری ترقی اور مال و دولت کے پیچھے میری والدین سے محبت و عقیدت، اُن کی رضا اور  دعائیں ہیں۔
یہ ایسے قصے ہیں جنہیں میں کبھی بھی نہیں بھلا پاتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی والدین کی اُن کی اولاد کے ساتھ ناراضی اور اُن کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اور بد دعاؤں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ 
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں؛ مظلوم کی بددعا، مسافر کی دعا، اور والد کی دعا اولاد کے حق میں۔ پس یہ بات تو طے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں واضح موقف موجود ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ہمیشہ خیر کی دعا دیں نہ کہ اُن کی بربادی اور برائی کے درپیش رہیں۔ ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم کچھ  یوں ہے کہ: اپنی ذات پر اوراپنی اولاد پراوراپنے مال پر بد دعا مت کرو،اللہ کی طرف سے ایسی گھڑی نہ آجائے جس میں کسی نوازش کا سوال ہو اور تمھارے حق میں قبول ہو جائے۔
والدین کیلئے اپنے غصے پر قابو رکھنا اور خاص طور پر غصے کے دوران اپنے الفاظ پر قابو رکھنا بہت ضروری چیز ہے۔ ہو سکتا ہے ایسے لمحات میں اُن کے منہ سے نکلے الفاظ اُن کی اولاد کی زندگیوں کو برباد کر دیں۔ کویت میں چند قصے بہت مشہور ہیں اور ہر زبان پر زد عام رہتے ہیں، اں میں سے ایک قصہ یہ بھی ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے پر ناراض ہوئی تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا جا تجھے اللہ کبھی بھی بیٹے نہ دے۔ اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کی یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ بیٹے کی نعمت سے ہمیشہ محروم رہا۔
میں نے ایک بار ایک ماں کو ایسی خوبصورت دعا کرتے ہوئے بھی سنا؛ کہہ رہی تھی: اے اللہ میرے بچوں کو ایسا بنا دے کہ ان میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا حسن جھلکتا ہو، لقمان جیسے دانائی ہو، سیدنا ایوب علیہ السلام جیسا صبر ہو اور آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اخلاق پایا جاتا ہو۔میں نے تفسیر ابن کثیر میں یہ بھی پڑھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے لطف اور تحمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ان کی وہ بد دعائیں، جو انہوں نے  ایسے وقت میں، اپنے آپ پر کی ہوں یا اپنے مال مویشی پر یا اپنی آل اولاد پر، جب کہ وہ پراگندہ ذہن اور غصے کی حالت میں تھے اور اُن کا دلی مقصد ایسی ایذا اور نقصان مقصود نہیں تھا قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تبارک و تعالٰی وہ دعائیں یا بد دعائیں قبول فرماتے ہیں جو ان کی رضا اور سکون کی حالت میں مانگی ہوں۔  یہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر بہت ہی لطف اور احسان ہے۔ یہ باتیں مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تفسیر سے لی گئی ہیں: اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں (سورۃ یونس – 11)
دعا اور بد دعا کے قبول کیئے جانے یا رد کیئے جانے میں نیت اہم کردار ادا کیا کرتی ہے۔ اللہ پاک ہماری اولاد کی بہتری فرمائیں اور ہمیں اس فریضے سے سبکدوش ہونے میں مدد فرما دیں۔ آمین
(مندرجہ بالا مضمون  ڈاکٹر جاسم الکویتی کا مقالہ ہے ایک عربی اخبار میں چھپا تھا۔ فائدے کیلئے میں نے اسے ترجمہ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔)
٭٭٭