مقدس سفر کے بدلتے ساتھی
باپ کا خط بیٹی کے نام
پیاری قانت ، السلام علیکم
قانتہ بیٹے، جس طرح تم نے 2019 میں اپنے ابو امی کے ساتھ حرمین شریفین کا سفر کیا ہے اسی طرح میں نے 1994 میں اپنی امی جان کے ساتھ ان مقدس مقامات کا سفر کیا تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ تمہیں دو بزرگوں کی رفاقت میسر تھی جبکہ مجھے صرف ایک کی، لیکن شاید وہ ایک رفاقت ہی دو پہ بھاری تھی۔
قانتہ بیٹے، اس وقت میری امی یعنی تمہاری دادی امی اگرچہ بڑھاپے کی دنیا میں داخل ہو چکی تھیں لیکن وہ اتنی کمزور نہ ہوئی تھیں کہ چل پھر نہ سکیں وہ اپنے سارے کا م خود ہی کیا کرتی تھیں حتی کہ عبداللہ عمر کو ایک کلو میٹر دور مدرسے میں پیدل چھوڑ بھی آتی تھیں اور لے بھی آتی تھیں۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے انہیں اللہ کے گھر کی زیارت کر لینی چاہیے۔مجھے شاید وہ اس لیے کمزور اور بوڑھی لگتی تھیں کہ میں نے ان کی زندگی کا وہ بھر پور دور بھی دیکھا تھا جب کہ وہ کھیتوں سے چارا بھی خود ہی لے کر آتیں، اسے مشین میں ڈال کر خود ہی کاٹیتں، دو دو بھینسوں کی خدمت بھی تن تنہا کرتیں ان کا دودھ بھی دھوتیں اور گھر کے باقی سارے کام بھی خود ہی کرتی تھیں اور تمہیں معلوم ہے کہ جوان بہو کے ہوتے ہوئے وہ اتنی ساری محنت کیوں کرتی تھیں،صرف اس لیے کہ مجھے یہ محنت نہ کرنا پڑے اور میرا وقت صرف اور صرف پڑھائی کے لیے وقف رہے۔
پیارے بچے، یقین کرو آج اگر میں چارلفظ پڑھ لیتا ہوں یا دو لفظ لکھ لیتا ہوں تو یہ تمہاری دادی امی کی جوتیوں کا ہی صدقہ ہے۔
قانتہ بیٹے، تمہاری دادی امی کے ساتھ میرا یہ سفر بہت ہی یادگار سفر تھا اس کے بعد بھی اللہ کریم نے کتنی ہی بار یہ مبارک سفر نصیب فرمایالیکن یہ سارے سفر اس لذت کو نہ پہنچ سکے جو اس وقت نصیب ہوئی تھی۔
اس وقت ہم سعودی ائیر لائن سے لاہور سے جدہ، اور پھر جدہ سے بائی ائیر مدینہ اور مدینہ سے بائی ائیر جدہ اور جدہ سے لاہور واپس آئے تھے۔وہ زمانہ ایجنٹوں اور گروپوں کا زمانہ نہ تھا۔خود ہی ویزہ لیا تھا اور خود ہی ٹریول کیا تھا۔ ایک مہربان نے جدہ ایر پورٹ سے ریسیو کیا اور مکہ چھوڑ دیا۔مکۃالمکرمۃ پہنچے تو ابھی سورج طلوع ہو رہا تھا۔ حرم کا رقبہ اور پھیلاؤ اس قدر نہ تھاجتنا کہ تم نے اب دیکھا ہے۔ با بِ عبدالعزیز سے کچھ آگے ایک چھوٹاسا دروازہ باب عمر تھا اس کے باہر سڑک رواں دواں تھی وہیں فٹ پاتھ پہ ہم نے سامان رکھا، امی جان کو وہاں بٹھایااور سامنے جو محلہ تھا، حرم کے بالکل ساتھ ہی، اس کے ایک مکان میں ایک کمرہ کرائے پہ لیا،پھر عمر ہ کیا۔ امی جان نے بھی سارے مناسک خود ہی پیدل چل کر اداکر لیے تھے۔ اس زمانے میں خواتین فجر، عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں مطاف میں ادا کیا کرتی تھیں۔ مطاف میں تین طرف ان کے لیے علیحدہ صفیں بچھ جایا کرتی تھیں۔ بعض اوقات تو رش اتنا کم ہوتا تھا کہ امی کعبہ کی دیواروں کو تھام کر طواف کر لیا کرتی تھیں حتی کہ انہوں نے حجر اسود کا بوسہ بھی خود ہی لے لیا تھا۔ میں نے بھی اسی زمانے کا بوسہ لیا ہوا ہے اس کے بعد آج تک نصیب نہیں ہوا۔ امی اپنی رہایش سے بھی اپنی کھونٹی کے ساتھ خود ہی حرم آ جایا کرتی تھیں اب توتم نے جو رش اور اژدہام دیکھا ہے اس کے سامنے یہ باتیں خواب سی لگتی ہیں، ہے نا۔ اور ہاں مطاف کے اند ر ہی ملتزم کی سیدھ میں زم زم کا کنواں ہے، آج بھی وہیں ہے، لیکن اس زمانے میں کنوئیں تک جانے کا راستہ کھلا تھا،نیچے سیڑھیا ں جایا کرتی تھیں اور ہم وہاں جا کر پانی پیا کرتے تھے۔ کنواں وہاں سے نظر بھی آتا تھا۔
ہاں تو بچے بات کسی اورطرف نکل گئی، میں بات کررہا تھاتمہاری دادی امی کی۔اگرچہ وہ بہت باہمت خاتو ن تھیں لیکن ایسے لگتا تھا کہ اس سفر کے آخر میں ان کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ ہم جب مدینہ سے واپس آئے تو رات کاوقت تھا اور ہمیں ٹیکسی والے نے صفا مروہ کی طرف اتارا تھا اور ہم نے حرم کراس کر کے دوسری طرف اپنی رہایش گاہ جانا تھا۔لیکن امی، صفااور مروہ کی طرف جوصحن تھا اس میں لیٹ گئی تھیں۔ کہہ رہی تھیں کہ اس وقت ان میں چلنے کی بالکل ہمت نہیں جبکہ میں کہہ رہاتھا کہ تھوڑا سا تواورچلنا ہے لیکن انہیں نہ چلنے پہ اصرا ر تھا اور مجھے چلنے پہ۔ مجھے جو تھوڑا لگ رہا تھا وہ انہیں بہت سالگ رہا تھا۔ہائے کیسا المیہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے حوالے سے ہی سوچا کرتا ہے۔ دوسرے کی جگہ کھڑا ہو کر سوچے تو پھر انداز ہ ہوتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔آج سوچتا ہوں کہ اُس وقت ان کا کہنا کس قدر درست تھا۔ آ ج جب کہ ہم بھی تھوڑا چل کر تھک جاتے ہیں تو امی کتنا یاد آتی ہیں۔۔۔۔لیکن پھریہ ایک اور انسانی المیہ ہے کہ ایسی یادیں تب ہی آتی ہیں جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ انسان جب تک خود کسی عمل سے نہ گزرے یا تجربہ نہ کرے اسے حقیقت کا صحیح معنی میں ادراک نہیں ہوتا۔ دوسروں کے کہنے پہ انسان اگر حقیقت کو پا سکتا توآج انسانی ترقی کا ارتقا کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوتا۔ مجھے یا د ہے کہ جب میری نانی امی مجھے کہا کرتیں کہ ان کے بازو دبا دو تو میں ہنسا کرتا کہ نانی اماں بازو بھی کوئی دُکھنے کی چیز ہیں۔ اللہ میری نانی کے عذر کو قبول فرمائے عجیب شفیق اور باوقار خاتون تھیں اور تمہاری دادی امی بھی بالکل ان ہی کی طرح تھیں، تو میں جب یہ کہتا تو نانی امی مجھ سے کہاکرتیں پتر جب تم پہ بیتے گی تو تب پتہ چلے گا۔ او ر آج جب میں تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ میرے بازو دبا دو تو بعض اوقات میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اوریہ آنسوخالی نہیں ہوتے بلکہ ان آنسوؤں میں میری نانی کی تصویربھی تیر رہی ہوتی ہے۔
حالیہ سفر میں، جب کہ تمہاری امی ویل چیئر پہ تھیں تو میں اُس کا چہرہ بخوبی پڑھ رہا تھا۔ وہ خاتون جو دن میں دس دس طواف کرنے والی ہو۔ جو تن تنہا حجر اسو د کو بوسہ دے کر آجانے والی ہو۔ جوتہجد سے لے کر عشا تک ہر نماز میں دو دو کلومیٹرپیدل چل کر مجھ سے پہلے حرم میں پہنچنے والی ہو، اس کا ویل چیئر پہ بیٹھنا۔۔۔، تم تصور کر سکتی ہو،کہ اس کے دل کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کیسے کیسے منظر گھوم رہے ہوں گے اور اسے کیا کیا یاد نہ آتی ہو گی۔ اور پھر اسے اپنی بے بسی کا کتنا احساس ہوتا ہو گا۔لیکن بیٹا، شاید گردش ِایام اسی کانام ہے۔کون سدا جوان، سدا حسین رہتا ہے۔ حسن، جوانی، ہمت اور طاقت کا جتنا بھی وقت مل جائے اتنا ہی غنیمت ہے۔ یہ بھی نہ ملتا تو ہم کیا کر لیتے۔ اس لیے ہر ہر لمحے رب کاشکر واجب ہے۔
بات ذرا لمبی ہو گئی میں تو بس تمہیں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ جس طرح میں تمہیں اپنی امی کی کہانی سنا رہا ہوں، ہو سکتا ہے کہ کل کو تمہارے بچے تم سے تمہارے امی ابو کی کہانی سنیں تو میرا بیٹا انہیں ہماری کہانی سناتے ہوئے ہماری اچھی اچھی باتیں بتا دیا کرنا اور ہماری بری بری باتوں کو چھپا لیا کرنا، ایسا کرنے سے اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے گا اور ہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ جس طرح تمہارے ساتھ سفر کرتے ہوئے مجھے اپنی امی کے ساتھ کیا ہوا سفر یا د آ گیا اور کتنی ہی بار میری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں، اسی طرح ہو سکتا ہے کہ”کل“کو کسی سفر میں تمہیں بھی وہ سفر یاد آجائے جوتم نے اپنے ابو امی کے ساتھ کیا تھا او ر ہوسکتا ہے کہ ایسے کسی وقت میں تمہاری آنکھوں سے بھی دو آنسو نکل پڑیں تو میرے بچے، میری درخواست یہ ہے کہ ان آنسوؤں کے خشک ہونے سے پہلے ہمارے لیے دعائے مغفرت کردیا کرنا۔
والسلام ، تمہارا والد