دروازہ جو اندر کھلتا ہے

مصنف : محمد حسن الیاس

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2025

اصلاح و دعوت

دروازہ جو اندر کھلتا ہے

حسن الياس

سوچیے، کہ زندگی میں آپ کسی کام میں مسلسل محنت کر رہے ہوں، اور کسی معتبر ذریعے سے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ تو کیا آپ وہ سچ جاننے کا موقع ضائع کریں گے؟اگر وہ خبر امید افزا ہو، تو دل کو قرار آ جائے، محنت میں اعتماد پیدا ہو، اور انسان مزید ثابت قدمی سے اسی راستے پر چلتا رہے۔اور اگر وہ خبر مایوس کن ہو، لیکن وقت ابھی باقی ہو، تو شاید یہی وہ موقع ہو جب انسان اپنی تدبیر، اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرے، اور بہتر نتائج کے لیے راستہ تبدیل کر لے۔

یہ کوئی خیالی بات نہیں۔جو اصول ہم دنیا کے کسی کام میں برتتے ہیں,وہی اصول ہماری پوری زندگی پر بھی صادق آتا ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو ایک مومن کی زندگی پر ہمہ وقت سایہ فگن ہے-ہم سب ایک ایسے امتحان سے گزر رہے ہیں جو نہ وقت کا پابند ہے، نہ حالات کا محتاج۔یہ آزمائش ہر لمحے، ہر قدم، اور ہر رویے میں جاری رہتی ہے۔

اگرچہ اس کا حتمی نتیجہ قیامت کے دن ظاہر ہوگا،لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا ہی میں ایسے عملی پیمانے عطا کر دیے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے انجام کی جھلک دیکھ سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ ہم اس امتحان میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔تو آئیے، کچھ دیر کے لیے رکیں۔دنیا کی ہنگامہ خیزی سے الگ ہو کر، دل کی عدالت میں خود کو پیش کریں۔

کسی فتوے یا ظاہری رائے کے بجائے، اپنے وجدان، اپنے ضمیر، اور اپنے  باطن سے یہ سوالات پوچھیں۔شاید ان میں چھپی سچائی ہمیں وہ جھلک دکھا دے جو کل ہمارے انجام کی مکمل تصویر بننے والی ہے:

1- کیا میں ان لوگوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آتا ہوں جنہیں دل قبول نہیں کرتا؟

کیا میرا سلام اخلاص سے ہوتا ہے، یا بس تعلق نبھانے کی مجبوری بن چکا ہے؟

2-کیا میں اپنے ماتحتوں یا کمزور طبقات کے ساتھ عزت، شفقت اور حلم سے پیش آتا ہوں؟ یا میرے رویے میں نخوت، تحکم اور تلخی جھلکتی ہے؟

3- کیا غصے کی حالت میں میری زبان میرے قابو میں رہتی ہے؟ یا میرے الفاظ صرف تلخ نہیں، دلوں کو چیر دینے والے ہوتے ہیں؟

4- جب کوئی دل دُکھائے، تو کیا میں صبر کرتا ہوں، یا کسی محفل میں اُس کی عزت کو خاک میں ملانے کی راہ ڈھونڈتا ہوں؟

5- کیا میں کسی کی غیر موجودگی کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع بنا لیتا ہوں؟اور پھر اس کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے، افواہ کو الزام، اور الزام کو بہتان بنا دیتا ہوں؟

6- کیا میرا علم، میری زبان، اور میرا اندازِ گفتگو دوسروں پر اپنی برتری جتانے کا ذریعہ ہے؟ یا واقعی ایک خیرخواہانہ پیغام؟

7- کیا کسی مخالف کی لغزش میرے دل کو سکون دیتی ہے،جیسے اندر چھپی انا کو ایک خاموش فتح مل گئی ہو؟اور کیا میں اُس لمحے کو اصلاح کا نہیں، انتقام کا موقع سمجھتا ہوں؟

8- کیا میرا ظاہر وہی ہے جو میرا باطن ہے؟کیا میری تنہائی اور میری محفل، میرے قول اور میرا عمل، ایک ہی سچ بولتے ہیں؟یا میں ہر ماحول کے مطابق چہرہ بدلنے کا ہنر جانتا ہوں؟

9-كیا میں کبھی کسی دنیوی منفعت کے لیے اپنے ضمیر کو خاموش کرا دیتا ہوں حتیٰ کہ اُس لمحے بھی، جب میرے سامنے عدل روند دیا جاتا ہے؟

10- کیا میں بااثر لوگوں کی قربت حاصل کرنے کے شوق میں اپنی عزتِ نفس کا سودا کر بیٹھتا ہوں؟کیا میں اپنی زبان، رائے یا خودداری کو محض ان کی خوشنودی کے لیے گروی رکھ دیتا ہوں؟

11-کیا میرے والدین میرے سلوک میں وہ محبت محسوس کرتے ہیں جو اُن کا حق ہے؟

یا میں محض خدمت کے پردے میں ایک خاموش بیگانگی چھپا رہا ہوں؟

12- کیا دوسروں کی ترقی پر میں دل سے خوش ہوتا ہوں؟ یا میرے دل میں چھپا ہوا حسد چاہتا ہے کہ یہ عزت ان سے چھن جائے؟

13- کیا میں سچ بولنے کی ہمت رکھتا ہوں جب وہ میری عزت کو خطرے میں ڈال دے؟ یا لوگوں کے ڈر سے کسی پرانے جھوٹ کا اقرار نہ کروں-

14- کیا میری نیکی واقعی خدا کے لیے ہوتی ہے؟ یا میں چاہتا ہوں کہ لوگ اسے دیکھیں، سراہیں، اور مجھے نیک کہیں-

15-کیا میری بےوقت تنقید، میری اونچی آواز، یا میرا طنز کسی ایسے دل پر بوجھ ڈال دیتا ہے جو صرف خاموش رہ کر سب کچھ سہہ لیتا ہے؟

16- کیا میری نماز رب سے ملاقات ہے، یا محض سر جھکانے کی مشق؟کیا میرا روزہ نفس کی اصلاح ہے، یا صرف بھوکا رہنے کا معمول؟کیا میری زکوٰۃ کسی ضرورت مند کی امید بنتی ہے، یا بس سالانہ حساب کا ایک مرحلہ؟

17- کیا میں اختلاف کے لمحے میں دلیل سے بات کرتا ہوں،یا مخاطب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اُس کی عزتِ نفس کو روند دیتا ہوں؟

18- کیا میں غلطی پر خود کو پیش کر کے اقرار کرتا ہوں،یا کسی اور کو قصوروار بنا کر خود کو معصوم ظاہر کرتا ہوں؟

19-کیا میں تنہائی میں بھی وہی کچھ کرتا ہوں جو میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے سامنے ہو؟ یا میرا اصل چہرہ صرف اندھیرے میں ظاہر ہوتا ہے؟

20- کیا میں دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے کبھی خود کو اس ترازو میں تولتا ہوں جس پر دوسروں کو پرکھتا ہوں؟

 شاید یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جہاں انسان کو خود سے سوال نہیں، سچ مانگنا چاہیے۔جب سوالات صرف الفاظ نہیں رہتے وہ آئینہ بن جاتے ہیں،اور آئینے کے سامنے آدمی صرف دوسروں کی نہیں، اپنی اصل صورت بھی دیکھ لیتا ہے۔وہ صورت، جو دنیا سے چھپی نہیں، لیکن خود سے چھپائی گئی ہوتی ہے۔ہم اکثر دنیا کے اسٹیج پر اپنی کامیابی، مقام اور تاثر کو ہی اصل کامیابی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ظاہری فتوحات ہماری تسلی بن جاتی ہیں، اور ہم وہ سوالات بھول جاتے ہیں جو ہمارے حقیقی انجام سے جُڑے ہوتے ہیں۔ہم دوسروں کو دکھانے کے لیے اپنی صورت سنوارتے ہیں،لیکن اپنے اندر جھانکنے سے کتراتے ہیں۔اس سے پہلے کہ وقت کا دروازہ بند ہو جائے،ہم سب خود سے وہ سچی بات ضرور کہہ ڈالیں جو برسوں سے دل کے در پر دستک دے رہی ہے،مگر ہم نے ہر بار نظرانداز کر دی۔کیونکہ انجام کی گھڑی خاموش آتی ہے،مگر اُس کی بازگشت کبھی خاموش نہیں ہوتی۔